قدرتی ماحول اور فطری زندگی کا انتخاب کیجئے

 پُرانے وقتوں کا ایک واقعہ ہے ایک بادشاہ تھا جو کہ ہر وقت بیمار رہتا تھا دائمی جوڑوں کے درد کا مریض بھی تھا بے خوابی کا شکار بھی رہتا تھا اور بھوک بھی نہیں لگتی تھی طرح طرح کے انواع و اقسام کے کھانوں کی موجودگی بھی اسکی اشتہاء اور رغبت کو نہ بڑھا سکتی تھی۔ منادی کر دی گئی کہ ہے کوئی حکیم لقمان دانا جو بادشاہ سلامت کاعلاج کرے اُسے اشرفیوں اور جواہرات میں تول دیاجائے گا ایک حکیم حاضرِ خدمت ہوا بولا جیسا میں کہتا ہوں کریں تو صحت حاصل ہو گی بادشاہ سلامت جو اپنی زندگی سے عاجز تھے فرمایا جو کہو گے کروں گا بس صحت مند ہو جاؤں۔

حکیم نے ایک ایسا کمرہ تیار کروایا جسکے اندر کوئی کُنڈی نہ تھی بس باہر سے بند کرنے کا انتظام تھا اس کمرے کے فرش کے نیچے دہکتے ہوئے کوئلے سُلگائے گئے کمرے کا فرش بے حد گرم ہو گیا حکیم بادشاہ کے لے کر کمرے میں داخل ہوا خود باہر نکل آیا اور باہر سے کمرے کی کُنڈی لگا دی پہلے پہل تو بادشاہ سلامت نے آرام سے ایک پیر اُٹھایا پھر دوسرا اُٹھایا تو پہلا زمین پر رکھا پہلا اُٹھایا تو دوسرا فرش پر فرش گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا تھا اور بادشاہ سلامت کبھی ایک پاؤں اُٹھاتے کبھی دوسرا اب وہ تیز تیز قدم بدلنے لگے یہاں تک کہ باقاعدہ چھلانگیں مارنے لگے کبھی دونوں پاؤں فضا میں بُلند کرتے تو کبھی ایک کے بعد ایک دل ہی دل میں حکیم کو بُر ابھلا کہتے رہے گھنٹہ بھر بعد حکیم نے دروازہ کھولا تو بادشاہ سلامت تھک کر چور ہو چُکے تھے پسینہ مساموں سے اُبل کر پیشانی سے بہتا ہوا نیچے تک آرہا تھا ایک ایک مسام سے پسینہ رواں تھا اور جوڑ جوڑ کھُل چکا تھا۔ حکیم نے بادشاہ کو باہر نکالا اس نے خونخوار نظروں سے حکیم کو گھُورا تو اس نے جواب دیا بادشاہ سلامت یہی آپ کا علاج تھا۔ بحر حال بادشاہ غُسل کرنے چلا گیا غُسل کرکے فارغ ہوا تو زندگی میں پہلی بار کھُل کر بھوک لگی ابھی شاہی باورچی خانے میں مُرغ مسلم قورمہ اور متنجن تیار نہ ہوئے تھے بولا جو بھی تیار ہے لے آؤ ماش کی دال اور رات کی چپاتی موجود تھی جو اسکی خدمت میں پیش کر دی گئی بھوک کھُل کر لگی ہوئی تھی لہٰذا یہ سادہ غذا بھی اُسے بہت اچھی لگی پیٹ بھر کر کھایا چونکہ تھکا ہوا تھا اس لیے نیند بھی مزے سے آئی سو کر اُٹھا تو ہشاش بشاش تھا جوڑوں کا درد بھی جاتا رہا تھا۔

گزشتہ دنوں آغا خان یونیورسٹی کے ماھانہ صحت سمپوزیم کا موضوع تھا ’’عورتوں اور مردوں کے جسم میں ہونے والے مختلف اقسام کے درد‘‘ آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہو اتھا جس میں ہر عمر کے خواتین و حضرات نظر آرہے تھے بیشتر جوڑوں کے درد کا شکار افراد ، بے خوابی ڈپریشن بے سکونی اور موٹاپے کا شکار مریض تھے وزن کی زیادتی اور دورانِ خون کے دباؤ میں اضافے میں مبتلا افراد جسم میں درد کی شکایت کر رہے تھے تمام کے تمام شرکاء سمپوزیم چمکتی دمکتی گاڑیوں سے اُترے لفٹ استعمال کی اور ہال تک پہنچے تھے ان میں سے شاید ہی کسی نے یہاں تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں استعمال کرنے کی ضرورت محسوس کی ہو گی موضوع پر اظہارِ خیال کرنے والے ایک ماہرِ تغذیہ نے حاضرین سے سوال کیا کہ کیا آپ کے گھر کام کرنے والے ملازمین (مرد و خواتین) آپ سے بہتر غذائیت کی خوراک روزانہ استعمال کرتے ہیں؟ جواب آیا نہیں دوسرا سوال تھا کیا وہ آپ سے زیادہ جسمانی مشقت کاکام کرتے ہیں جواب ہاں میں آیا کیا وہ کبھی بھوک کی کمی بے خوابی یا جسمانی درد کی شکایت کرتے ہیں جواب آیا نہیں یا پھر بہت کبھی کبھار ماہرِ تغذیہ نے جواب دیا ہمارے گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں اور ملازم سارے گھر کے استعمال شدہ کپڑے دھوتے ہیں برتن مانجتے ہیں جھاڑو پونچھا لگا کر ڈسٹنگ کرتے ہیں یعنی مستقل اور روزانہ ورزش (Daily Exercise ) ان کے معمولات میں شامل ہے یہ لوگ جو دال دلیا رات کی روٹی میسر ہوتی ہے اچار چٹنی اور پیاز کے ساتھ رغبت سے کھاتے ہیں نہ ہی کبھی موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں نہ ہروقت جسمانی درد کی شکایت کرتے ہیں مرد ملازمین بھی اسی لیے زیادہ چست و چوبند نظر آتے ہیں کہ وہ نہ ہماری طرح (Dine Out ) (باہر کھانا) کرتے ہوئے غیر ضروری اور غیر معیاری تیل اور مصالحہ جات کا استعمال کرتے ہیں نہ ہی ائیر کنڈیشنڈ ہوا بند کمروں میں سوتے ہیں نہ ہی زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں وہ قدرتی مشقتیں کرتے ہیں اور صحت مندرہتے ہیں انہیں کھُل فضاؤں میں گہری نیند سوتے ہیں نہ انہیں قبض کی شکایت ہوتی ہے نہ ہی بے خوابی کی اور نہ ہی مختلف اقسام کے جسمانی درد انہیں ستاتے ہیں۔ در آصل جو لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے خادماؤں اور ملازموں کو آوازیں دیتے ہیں وہ روز مرہ کے کاموں کے ذریعہ کی جانے والی ورزش سے دور رہتے ہیں اور پھر مختلف اقسام کے جسمانی دردوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر ڈاکٹروں کی بھاری بھاری فیس اور معاوضے ادا کرنے کے بعد جسم جوائن کرتے ہیں دوائیں استعمال کرتے ہیں۔ ٹریڈمل خرید کر اپنی خواب گاہوں کے زینت بناتے ہیں ورزشتی سائکلوں کو لاوئنج میں سجاتے ہیں حالانکہ اگر وہ اصلی اور قدرتی ورزش کی طرف آئیں تو دراصل کھُلی ہوا میں ہلکے اور تیز قدموں کے ساتھ چہل قدمی صحت مندی کی طرف پہلا قدم ثابت ہوتا ہے گارڈن میں پودوں کو پانی دیا جائے اپنے کپڑے خود دھوئے جائیں اپنے بستر کی چادریں تبدیل کریں خواتین کو چاہیے کہ ماسیوں پر تکیہ کرنے کے بجائے حتی المکان خود کام کرنے کو ترجیح دی جائے سادہ غذا کے استعمال کے ساتھ جسمانی فعالیت پر یقین رکھا جائے۔

دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ قدرتی ماحول اور فطری طرزِ زندگی سے دور ہوتے جا رہے ہیں ہمارے ناشتے اور کھانوں میں ریشہ دار اجزاء اور اناج کا تناسب کم سے کم ہوتاجا رہا ہے جب کہ فاسٹ فوڈ برگر، پیزا بازاری ڈبہ بند مصالحے فوری تیا ر کھانے (Ready to eat ) اور فریزر میں رکھی اشیاء کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے ہم لوگ ہلکے نمک کے ساتھ شکر سارے پانی میں گھول کر لیموں کا رس شامل کر کے ہلکی کالی مرچ چھڑک کر پُر ذائقہ اور فائدہ مند سکنجبین سے مہمانوں کی تواضع کرنے کے بجائے اور اسکو آؤٹ آف فیشن سمجھتے ہوئے ہفتوں اور مہینوں فریج میں رکھے گئے کولڈ ڈرنکس اور سر بند جوسسز سے مہمانوں کی تواضع کرنے کو باعثِ فخر اور فیشن سمجھتے ہیں حالانکہ گرمی کے موسم میں ٹھنڈے پانی میں روح افزاء اور دل چاہے تو اس میں تازہ لیموں کا رس نچوڑ کر مہمان کو پیش کیا جائے تو اس مشروب کا نعم البدل قریب از میعاد بعض اوقات بعد از معیاد مشروبات ہزگز نہیں ہو سکتے سخت گرمی میں ٹھنڈے پانی اور روح افزاء کے ملاپ سے تیار کردہ مشروب طبیعت کو جسقدر راحت تسکین اور فرحت مہیا کرتا ہے وہ کولا مشروبات سے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی گھر پر نکالا جانے والا تازہ اور نج کا جُوس ڈبہ بند اورنج جوس کے مقابلے میں ہزار ہا گناہ زیادہ صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو تا ہے۔

منجمد پیکٹوں میں موجود پراٹھے کباب رول، نگٹس منجمد کٹی ہوئی سبزیاں آلو کے چپس سموسے چکن تمپورا فرائڈ چکن ونگز ، چکن چنکس ہاٹ سٹینڈر منجمد شامی کبابز نت نئے ناموں والے یہ ذائقہ دار کھانے پیٹ بھرنے کے کام تو آتے ہیں مگر صحت مندر طرزِ خوراک ہزگز نہیں ہیں مائیں یہ منجمد غذائیں آرام طلبی اور کاہلی کی وجہ سے ننھے بچوں کے اسکول کے لنچ میں شامل کرتی ہیں عذر یہ کہ آج کل کے بچوں کو بس یہ لنچ پسند آتے ہیں۔ سر بند ڈبوں میں محفوظ خوبصورت اور دلکش پیکنگ کے ساتھ یہ خوراک جن میں دیر تک محفوظ رکھنے کے لیے کیمیائی اجزاء شامل ہوتے ہیں کے بجائے اگر مائیں صبح تھوڑا جلدی اُٹھ کر انڈا پراٹھے کا رول بنا کر ہرا دھنیا پیاز کر کے بچوں کو لنچ کے طر پر دیں تو یہ ان کی صحت کے لیے بہت بہتر ثابت ہو گا۔

فریج سے نکال کر جوس کا سر بند محفوظ ڈبہ دینے سے کئی گنا بہتر ہے کہ تازہ پانی میں روح افزاء ڈال کر بچوں کو دیں اس سے نہ صرف وہ پیاس کی حدت سے محفوظ رہیں گے بلکہ اُن مصنوعی کیمیائی اجزاء سے بھی محفوظ رہیں گے جو اِن جوس کے ڈبوں میں ان کی تادیر تازگی برقرار رکھنے کے لیے ڈالے جاتے ہیں صحت بھی اور بچت بھی بس ذرا سی محنت درکار ہے اس کام کے لیے۔

جدید اور پُر تعیش طرزِ زندگی میں گھنٹوں ٹی وی کے آگے بیٹھے رہنا بچوں کا ویڈیو گیمز کھیلنا کمپیوٹر کی اسکرین کے آگے تادیر جمع رہنا نیٹ چیٹنگ اسکائپ، موبائل فون اور ائیر کنڈیشن کمرے میں سونا شامل ہے ایسا ہرگز نہیں ہے کہ جدید طرزِ زندگی سے فائدہ اُٹھانا ناجائز یا غلط ہے مگر یہ بات درست ہے کہ ہر چیز کا اعتدال میں رہتے ہوئے متوازن استعمال ہی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے بے اعتدالی اور تن آسانی ہی بیماریوں کی طرف پہلا قدم ہے۔

ائیر کنڈیشن کا استعمال ضرور کریں مگر شدید گرمیوں میں چند گھنٹوں کے لیے ایسا نہ ہو کہ AC کا بٹن دبائیں اور رات بھر بلکہ دن ڈھلے تک چلتا رہے آپ ٹھٹھر رہے ہوں شدید گرمی میں کمبل اوڑھ لیں مگر AC چلتا رہے گا صبح اُٹھے اور یکدم کمرے سے باہر نکل آئے گرم ماحول میں اور پھر ٹھنڈے کمرے میں داخل ہو گئے اکثر درجہ حرارت کی اچانک تبدیلی بہت سی بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں کمرے سے نکلنے سے کم از کم پندرہ سے بیس منٹ پہلے A.C کا بٹن آف کر دیں پہلے کھڑکیاں کھولیں درجہ حرارت معتدل ہونے کے بعد باہر آئیں خصوصاً اس سلسلے میں چھوٹے بچوں کے ساتھ خصوصی احتیاط کرنی چاہیے گاڑی میں A.C چلانے کے معاملے میں بھی احتیاط ضرور کرنی چاہیے کہ منزل پر پہنچنے سے کچھ دیر پہلے A.C آف کردیں دھیرے دھیرے کار کے شیشنے نیچے کریں جب جسم باہر کے درجہ حرارت سے مانوس ہو جائے تب اُتریں یکایک درجہ حرارت کی تبدیلی کوئی اچھی بات نہیں ہوتی۔ قدرتی ہوا میں سونا صحت کے لیے بہتر ہے ائیر کنڈیشن ضرور چلائیں مگر اعتدال کے ساتھ صحت بھی بستر اور بچت بھی حاصل۔

ٹریڈ مل پر ضرور چلیں مگر کھلی فضا میں چہل قدمی کو فوقیت دیں کھلی فضا میں دس منٹ گہرے سانس لینا اور چلنا بند کمرے میں آدھے گھنٹے کے ٹریڈ مل پر چلنے سے زیادہ بہتر نتائج دے گا نسبتاً زیادہ عمر کے خواتین و حضرات بھی ذرا ذرا سے کاموں کے لیے ملازموں کو آواز دینے کے بجائے جتنی ہمت ہو اپنا کام خود کرنے کی عادت اپنائیں کم عمر خواتین و حضرات کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنی مصروفیت میں سے کچھ وقت ضرور نکالیں چہل قدمی کریں پودوں کو پانی دیں کبھی کبھار اپنے کپڑے خود دھو لیا کریں یا اپنی بیڈ شیٹ تبدیل کر لیں یاد یگر گھریلو کاموں میں جسمانی طور پر حصہ لیں یہ کام نہ صرف آپ کو خوشی عطا کریں گے بلکہ صحت مند طرزِ زندگی کی طرف پہلا قدم بھی ثابت ہوں گے۔

جدید طرزِ زندگی نے انسانی سہل پسندی میں اضافہ کیا ہے اور اُسے قدرتی طرزِ زندگی سے بہت دور کر دیا ہے انسانوں کی فطرت سے دوری ہی بیماریوں کا نقطہ آغاز ہوا کرتا ہے جدید ترقی نے قدرتی ماحول پھول پودے زمینی و سمندری مخلوقات اور فطرتی و قدرتی مناظر وں تک کو مُتاثر کیا ہے اور انسانوں کو قدرت سے دور معنوعیت سے قریب کر دیا ہے سانس لینے کے لیے صاف ہوا کی آمد کے راستوں کا گلاھم نے خود گھوننا ہے گہرے دبیز پردوں اور مصنوعی ائیر فریشر کا استعمال کسی طور بھی کھلی فضا اور قدرتی پھلوں کی خوشبو کا نعم البدل ثابت نہیں ہو سکتے سستی ار کسل مندی کے باعث منجمد کھانوں کا استعمال بازاری مصالحوں اور ڈبہ بند دہی اور دودھ مرغن کھانے اور طویل ٹی وی ڈراموں اور نیٹ سرفنگ نے ہمیں سادہ کھانوں سل پر پسے مصالحوں تازہ دودھ اور دہی کا استعمال پڑوسیوں سے گفتگو حالاتِ حاضرہ پر تبادلہ خیال بیماروں کی عیادت چہل قدمی اور کھلی فضا میں وقت گزارنے جیسی قدرتی لذتوں سے محروم کر دیا ہے۔

اگر آپ کسل مندی بے خوابی کھانے میں لذت اور بے رغبتی قبض جوڑوں کے درد اور مٹاپے جیسے عوارض سے نجات چاہتے ہیں تو سادہ اور قدرتی طرزِ زندگی اور قدرتی و فطری ماحول کا انتخاب ہی صحت کی طرف پہلا قدم ہے کیونکہ ’’قدرتی طرزِ زندگی ہی صحت کا ضامن ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 44734 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.