روشن راہوں کامسافرجواندھیر ے میں کہیں کھوگیا

مئی کامہینہ راقم کےلئے ہربرس خوشی وماتم کی سوغات لیکرآتاہے۔ ۸۰۰۲ سے پہلے یہ مہینہ صرف میرے لیے خوشی کادِن لیکرہی آتاتھامگرچھ سال پہلے ایک ایساسانحہ پیش آیاجس کے سبب ماہِ مئی ہربرس غموں کی سوغات لیکربھی آنے لگا۔۰۱ مئی جنم دن کی صورت میں میرے اِردگردخوشیاں ہی خوشیاں بکھیردیتاتھا۔ہرطرف سے مبارکبادکے پیغام آتے حالانکہ میں سالگرہ منانے کاخاص قائل نہیں پھربھی اگرکسی بھی حوالے سے کوئی نیک تمناﺅں کااظہارکردے تووہ خوشیاں سمیٹ ہی لیتاہوں کیونکہ نیک تمنائیں اورخوشیوں چاہے کسی بھی صورت آئیں انہیں ٹھکرانا دانشمندی نہیں ہوتی۔۸۰۰۲ءکے بعدماہِ مئی میرے لیے معمولی سی خوشی کے ساتھ تلخ و کربناک یادیں ہی لیکرآیا۔ سڑک حادثات انسانوں کوتلخ یادیں اورکربناک عالم میں مبتلاکرتے ہیں۔عرصہ چھ سال پہلے ایساسڑک حادثہ پیش آیاجس کے سبب نہ صرف ایک علاقے کی عوام کی زندگی کورنجیدہ کیابلکہ یوں کہیے کہ علاقے سے ایک روشنی کاچراغ ہی گُل ہوگیا۔ساعیں لمحوں میں ،لمحے گھڑیوں میں،گھڑیاں پہروں میں ۔پہردِنوں میں ،دِن ہفتوں میں ،ہفتے مہینوں میں اورمہینے سالوں میں کتنی تیزی سے منتقل ہوگئے پتہ ہی نہیں چلا۔چھ سال پہلے ہواسڑک حادثہ جوآج بھی زخم تازہ کردیتاہے جب ماہ مئی کاتیسراعشرہ آتاہے۔میری مُراد۲۲مئی ۸۰۰۲ کوپیش آئے ایک دلدوزسڑک حادثے سے ہے جس نے ایک علاقہ سے اس کاہونہارفرزند،ایک گاﺅں میں علوم وفنون کی علامت سمجھی جانے والی شخصیت،ہرکس وناکس کے غمگسار،نیک دل اورہمدردشخص کوچھین لیا۔۲۲مئی ۸۰۰۲کورائے پورموڑجموں میں موٹرسائیکل پراپنے چھوٹے بھائی ماسٹرشوکت علی کے ہمراہ جموں سے اپنے آبائی گاﺅں ”دھنوں“جوکہ جموں سے تقریباً پچاس کلومیٹرکی دوری پرواقع ہے کی طرف لوٹتے ہوئے ماسٹرممتازایک حادثے کے نتیجہ میں مالکِ حقیقی کوجاملے۔وہ غالباً بی۔ایڈکاآخری امتحان دیکراپنے بھائی کے ساتھ لوٹ رہے تھے کہ ماسٹرشوکت علی جس موٹرسائیکل کوچلارہے تھے وہ مخالف سمت سے تیزرفتاری سے آرہی ایک میٹاڈورسے ٹکراگیا،حادثے کی منظوری اللہ کی طرف سے ہی تھی ۔اللہ تعالیٰ مقررہ وقت پراپنے پیارے بندوں کوکسی بہانے سے اپنے پاس بلالیتاہے۔فرشتہ موت بھی حُکمِ ربانی کی تعمیل کی خاطررائے پورموڑجموں میں حادثہ کے انتظارمیں تھا۔جوں ہی حادثہ پیش آیافرشتہ موت اپناکام کرگیا۔ماسٹرممتازچونکہ پورے جموں ضلع کی ایک ممتازشخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ دھنوں وملحقہ علاقہ جات کی آواز،فریاداورعلاقہ کی تعمیروترقی وسماجی فلاح وبہبودکے حوالے سے معتبرشخص تھے اس لیے ماسٹرممتازکی حادثاتی موت کی خبرپھیلتے ہی نہ صرف پنچایت دھنوں وملحقہ علاقہ جات غم کے اندھیرے میں ڈوب گئے بلکہ پورا جموں ضلع ماتم کدہ میں تبدیل ہوگیا۔راقم کی سماعتوں تک یہ خبربذریعہ موبائل فون پہنچی تورونگھٹے کھڑے گئے ۔اس دل دہلانے والی خبرنے میرے نیچے سے زمین ہی کھسکادی تھی۔ دِل ودِماغ پہ غموں کادھواں ساچھاگیامگرآخرکارحقیقت کوچاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی تسلیم کرناہی پڑتاہے ۔بے شک موت تلخ حقیقت ہے ۔ہرکسی کواپنے رب کی طرف ہی لوٹناہے اورموت جیسی اٹل حقیقت کوآج تک نہ جھٹلاسکاہے اورنہ جھٹلاسکے گا۔میرے پاس بھی صرف صبرہی چارہ تھا۔ میں نے اس دلخراش خبرکی تصدیق کرنے کےلئے جس کسی سے بھی رابطہ کیاتواُسے بے ساختہ روتاہی پایا۔آنکھوں سے آنسوﺅں کاسیلاب رُکنے کانام ہی نہیں لے رہاتھا۔پھر (اِناًللہِ واِناًالیہِ رَجِعوُن) دُعاپڑھی۔اوراللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کی گئی اُن آیات کی طرف غورکیاجس میں بتایاگیاہے کہ ہرنفس کوموت کامزہ چکھناہے ۔ اوراللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے ۔اللہ تعالیٰ کے فرمان کوذہن میں رکھتے ہوئے اس تلخ ودِلخراش سچائی کوتسلیم نہ کرتاتوکیاکرتا۔

ا س حادثے کولواحقین میرے سمیت کبھی نہیں بھولیں گے کیونکہ اس حادثے نے والدین سے اُن کانیک فرزند، بیوی سے اُس کاخاوند، بچوں سے اُن کاشفیق باپ اورعلاقہ سے اُس کاہونہارفرزند چھین لیا۔اس غم ناک خبرکے باعث ہرطرف آہ وبقاءکاعالم چھاگیاکیونکہ ماسٹرممتازکی وفات سے مرحوم کے بوڑھے والدین، جواں سال بیوی، کمسن بچوں پرتوجیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی ۔(راقم کی قلم مناظربیان کرنے سے معذورہے)راقم چونکہ تعلیم وکاروبارکے سلسلے میں جموں شہرمیں تھا،میںنے بھی فوراً مرحوم کے جنازے میں شرکت کےلئے اپنے آبائی گاﺅں دھنوں کی راہ لی۔علاقے میں ہرکوئی غمگین تھا، اشک بارآنکھوں سے مرحوم کے جنازے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اورراقم نے بھی آخری بارمرحوم کے مسکراتے حسین چہرے کی زیارت کی۔

ماسٹرممتازکاجنم9اکتوبر1964ءکوضلع جموں کی بلاک بھلوال کے دوردرازگاﺅں دھنوں میں شہاب دین پمبلہ کے گھرہوا ۔ ابتدائی تعلیم آبائی گاﺅں میں ہی حاصل کی اوربعدمیں جدیدتعلیم کے حصول کےلئے گوجروبکروال ہوسٹل جموں میں داخلہ حاصل کرکے تعلیم کے زیورسے آراستہ ہوئے۔ دورانِ تعلیم ہی اُن کوسرکارکے محکمہ تعلیم میںبحیثیت مُعلّم ملازمت مِل گئی ۔ درس وتدریس کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے تعلیم کوبھی جاری رکھا۔مرحوم ماسٹرممتازایک خوش طبیعت، خوش اخلاق، بلندکرداراورذمہ دارشخص تھاجنھوں نے ہمیشہ دوسروں کی خوشی کےلئے کام کیا۔

دھنوں کے ایک باشعوراورحساس طبیعت کے مالک ماسٹرمشتاق احمدرضوی جوکہ ماسٹرممتازاحمدکے ایک قریبی دوست بھی رہے مرحوم سے متعلق لکھے گئے ایک مضمون میں اُن کی شخصیت سے متعلق یوں رقمطرازہیں
”ماسٹرممتاز کی فطرت میں حصول علم کی لگن کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی ۔والدین کی کاوشوں اوردُعاﺅں کااثریہ ہواکہ اپنے گاﺅں کے پہلے گریجوٹ بن گئے ۔ حصول علم کے بعداپنے گاﺅں دھنوں میں آکراین۔آر۔سی نئی روشنی کمیٹی بنائی اورگاﺅں کے لڑکے لڑکیوں کوتعلیم کی جانب راغب کیا۔ جس کے نتیجے میں بفضلِ تعالیٰ آج دھنوں گاﺅں مکمل خواندگی کے قریب پہنچ گیاہے۔ ماسٹرممتازایک سیکولر،دوراندیش سوچ اورکردارکے مالک تھے ۔اُن کایقین تھاکہ گوجربکروال طبقہ کی ترقی کےلئے تمام باشعورلوگوںکومل کرکام کرنے سے طبقہ کے نوجوانوں کے اذہان کوبیدارکیاجاسکتاہے اوراسی میں طبقہ کی ترقی کارازمضمرہے۔تعلیم حاصل کرنے کے بعدانہیں سرکارکے محکمہ تعلیم میںبطوراستاد ملازمت مل گئی جس کے تحت انہوں نے طلباءکے دلوں میں علم کی شمع جلائی ۔ماسٹرممتازنے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ سماجی فلاح وبہبودکے کاموں میں بھی سرگرم کرداراداکیا۔ ماسٹرصاحب کوشعروادب سے لگاﺅ دوران تعلیم ہی ہوگیاتھاجس کانتیجہ یہ ہواکہ وہ بھی شعرکہنے لگے ۔اُن کی نظمیں ، نعتیں اورغزلیں اپناالگ منفرداندازبیان سے جانی جاتی ہیں ۔دوردرشن جموں ، ریڈیوکشمیرجموں کے گوجری پروگرام میں ماسٹرممتازصاحب کاکلام اُن کی زبانی سامعین وناظرین کوکئی مرتبہ سننے کاموقعہ نصیب ہوا۔ آج ماسٹرصاحب ہم میں نہیں ہیں ، اُن کی سوچ اورطبقہ اورمعاشرے کے اصلاح کےلئے ترتیب دیئے جانے والے پروگرام ومنصوبے آج بھی ہمارے قلب واذہان پرنقش ہیںاوران کی یاددلاتے ہیں۔ چندسال قبل دھنوں میں بڑے پیمانے پریوم ِ جمہوریہ کی تقریب منعقدہوئی تھی اورخاصی کامیاب بھی رہی تھی جس کی کامیابی کاسہراماسٹرممتازکوجاتاہے کیونکہ انہوں نے جس لگن ومحنت سے تقریب میں پیش کیے جانے والے ڈرامے تحریرکیے تھے اوراُن کی ڈائریکشن کی تھی وہ لاجواب تھی ۔ ان ڈراموں کی شہرت دورانِ ریہرسل ہی دوردورتک پہنچ گئی تھی، جس کے باعث ہزاروں کی تعدادمیں لوگ گورنمنٹ مڈل سکول دھنوں جواُن دنوں پرائمری سکول تھامیں تقریب کودیکھنے کےلئے جوق درجوق چلے آئے۔المختصرماسٹرممتازدھنوں وملحقہ دیہات کےلئے روشن چراغ تھے جس کی روشنی سے معاشرے میں علم عام ہورہاتھااورتاریکی چھٹ رہی تھی مگرماسٹرممتازکی حادثاتی موت کے سبب علم کی پھیلتی ہوئی روشنی دھندلی ہوگئی “

راقم باضابطہ طورپرمرحوم ماسٹرممتازصاحب کاشاگردتونہیں رہالیکن پھربھی اُن سے میںنے بہت کچھ سیکھاکیونکہ وہ علم کے پیکرتھے جہاں بھی وہ جاتے اُن سے لوگو ں کوکچھ نہ کچھ ضرورسیکھنے کوملتا، اللہ تعالیٰ نے شایداُنہیں اُستادکی ملازمت فراہم کرکے دوسروں کواخلاق کادرس دینے کی ذمہ داری سونپی ہوئی تھی جوانہوں نے آخری دم تک نہایت ہی خوش اسلوبی سے انجام دی۔راقم نے پرائمری سکول دھنوں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، جب راقم سکول جایاکرتاتھااُن دِنوں مرحوم ماسٹرممتازکی ڈیوٹی گورنمنٹ پرائمری سکول دھنگ میں تھی ، جب بھی میں گھرسے سکول جارہاہوتاتوماسٹرصاحب مجھے راستے میں اپنے سکول کی جانب جاتے ہوئے ملتے ۔ ادب سے سلام کرنے کے سِواکوئی لفظ مُنہ سے ڈرکے مارے نہیں نکلتا تھا۔پرائمری سکول کی تعلیم کے بعدمیں تعلیم کے سلسلے میں جموں آگیا، جس کے باعث مجھے ماسٹرصاحب کے ساتھ ملنے کاموقعہ کم ہی ملتاتھا ۔ایک دومرتبہ موقعہ ملاتواُنہوں نے تعلیم کے بارے پوچھااورزندگی میں اچھااِنسان بننے کی تلقین کی ۔باتیں مختصرہی تھیں لیکن الفا ظ میں وہ تاثیرتھی کہ وہ آج بھی دِل ودِماغ میںچھائے ہوئے ہیں ۔میں آج محسوس کرتاہوںکہ اُن کی باتوں میں پختگی ہوتی تھی اورہرلفظ کے پیچھے ایک حسین وزریں رازپوشیدہ ہوتاتھا، جوباتیں ہوئیں وہ بعدمیںحقیقت کی آئینہ دارثابت ہوئیں۔ مرحوم کی مثبت سوچ اوراخلاق نے مجھے حددرجہ متاثرکیاکیونکہ وہ ہمیشہ دوسروں کے بارے میں اچھاسوچتے، اچھی صلاح دیتے اورزندگی میں آگے بڑھنے کےلئے جدوجہدجاری رکھنے کی تلقین کرتے۔اگرکسی شخص کاکسی کے ساتھ کوئی جھگڑاہوتاتواُسے بات چیت کے ذریعے سلجھانے کی کوشش کرتے ۔گاﺅں کے لوگوں کواللہ کے بہتردین اسلام کے قریب رکھنے کےلئے جامع مسجددھنوں کی تنظیمی کمیٹی کے صدرکے فرائض بھی انہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیئے۔

جوں جوں میراذہن بالغ ہوتاگیاتوں توں میرے ذہن ودِل میں ماسٹرصاحب کے تئیں قدرومنزلت وعقیدت بڑھتی گئی کیونکہ چندلمحوں کی مختصربات چیت مجھے بارباراُن کے بلنداخلاق وکردارپرسوچنے پرمجبورکرتی اوراُن کی کہی ہوئی باتوں پرعمل کرنے کےلئے اُکستاتی ۔ میرادِل بہت چاہتاتھاکہ ماسٹرصاحب سے کھل کرباتیں کروں لیکن اُن کے پاس جاکردِل ودِماغ میں خوف وڈرکی کیفیت طاری ہوجاتی ۔جس کے باعث میں مرحوم ماسٹرصاحب کے ساتھ کھل کربات نہ کرسکاجس کادُکھ مجھے پوری عمررہے گا۔

ماسٹرصاحب جب بھی کسی سے ملتے توچہرے پرہمیشہ ہلکی سی مسکان ہوتی ، بات کرنے کالہجہ نرم ہوتاجودوسروں کوتہذیب سے بات کرنے اورچہرے کی کیفیت پیش کرنے کے آداب سکھاتی!ماسٹرصاحب دوسروں کوذمہ داریاں وفرائض نبھانے کی تلقین کرتے اورخودبھی اپنے حصےّ کی ذمہ داریاں بہترطریقے سے انجام دیتے ۔مرحوم ماسٹرممتازصاحب کی شخصیت اورزندگی کے مختلف پہلوﺅں پرروشنی ڈالی جائے توضخیم کتاب تحریرکی جاسکتی ہے لیکن مختصراِتناہی کہوں گاکہ ماسٹرممتازصاحب کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی مانندہے جس کے ایک ایک حرف پرعمل کرکے علاقہ کے نوجوانوں کواُن کے اصولوں کوفروغ دیناچاہیئے ۔

آج بھی جب مجھے مسائل پیش آتے ہیں تومیری نظریں ماسٹرممتازکوڈھونڈتی ہیں مگرماسٹرصاحب کے روشن خیالات سے رہنمائی پالیتاہوں۔بلاشبہ ماسٹرممتازہمارے درمیان نہیں مگران کے سنہرے اصو ل اورباتیں توہمیشہ ہمارے لیے مشعلِ راہ کاکام کریں گی ۔ماسٹرممتازہمیشہ یادوں میں زندہ وجاویدرہیں گے اوران کے فکروعمل ہماری ہمیشہ زندگی میں رہنمائی فرمائیں گے۔

عرصہ چھ سال کتنی تیزی سے گذرگیا۔اس عرصہ کے دوران ماسٹرممتازکی بڑی بیٹی سائمہ کی شادی بھی ہوئی،عائشہ نے بارہویں جماعت کاامتحان بھی امتیازی نمبرات سے حاصل کیااورحال ہی میں مرحوم ماسٹرممتازکے فرزندارجمندفردوس احمدنے بارہویں جماعت میں نان میڈیکل مضامین کے تحت امتیازی نمبرات بھی حاصل کیے،مگران خوشیوں میں ان معصوم بچوں کواپنے مرحوم والد اوران کی والدہ کشمیرہ بی بی کوان کے شریک حیات کی یادشدت سے آئی ۔کشمیرہ بی بی نے صبروتحمل سے کام لیا۔اپنی بیٹیوں اوربیٹوں کوراہ راست پرگامزن رکھ کرتعلیم کے زیورسے منورکیا۔

غالباً ۷۱جولائی ۲۱۰۲ءکادِن تھاجب ایک اورسڑک حادثہ پیش آیاجس کی وجہ سے ماسٹرممتازمرحوم کے چھوٹے بھائی سلیم خان بھی دُنیافانی سے کوچ کرگئے۔سلیم خان کی حادثاتی موت نے اہلیان دھنوں وملحقہ علاقوں کوہلاکررکھ دیا۔سلیم خان کے ننھے اورمعصوم بچوں اوران کی اہلیہ پروین اخترپرتوقیامت سے پہلے ہی قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ایک صدمے سے لواحقین اُبھرے نہیں تھے کہ دوسرے دُکھ نے انہیں آگھیرا،چندماہ پہلے ہی مرحوم ماسٹرممتازاورمرحوم سلیم خان ودیگربھائیوں بہنوں جوباحیات ہیں ان کی والدہ کاانتقال ہواجس سے مزیددُکھ ہوا۔لواحقین پہ کیاگذرگی ان حالات کوبیان کرنامشکل ہے کیونکہ کربناک حالات کی منظرکشی کرناراقم کی قلم کے بس میں نہیں۔کیوں کہ دلدوزوکربناک حالات کوبیان کرتے ہوئے نہ صرف قلمکاربلکہ قلم بھی روپڑتی ہے۔قلمکارآپے سے باہرہوجاتاہے اورقلم کپکپاناشروع کردیتی ہے۔اللہ ہی صبرعطافرمانے والااوروہی سب کاپالنے والاہے ۔وہی مرحوم سلیم خان ،مرحوم ماسٹرممتازکے لواحقین کوصبرعطافرمائے گا۔

دھنوں وملحقہ دیہات میں شعوررکھنے والوں کی کمی نہیں مگراس کے باوجودماسٹرممتازکے مشن (جوکہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے)کوآگے بڑھانے کےلئے کوئی خاطرخواہ قدم اُٹھانے کےلئے کوئی بھی پہل نہیں کررہاہے ۔ اپنے گاﺅں کے معززاورباشعورافرادسے درخواست ہے کہ وہ ماسٹرممتازصاحب کے مشن کوآگے بڑھانے کےلئے کوئی لائحہ عمل تیارکریں ۔راقم کاتعاون ماسٹرصاحب کے سماجی فلاح اورنوجوانوں کوصحیح سمت گامزن کرنے کے مشن کوآگے بڑھانے میں پیش پیش رہے گا۔آخرمیں اِتناہی کہوں گاکہ مرحوم ماسٹرممتازنے اپنی زندگی میں اپنے حصےّ کے فرائض وذمہ داریاں اداکرنے میں کوئی کسرباقی نہ رکھی اوراُن کی وفات سے جموں میں وہ خلاپیداہواہے جس کاپُرہوناممکن نہیں۔۔اللہ تعالیٰ سے دُعاہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم ماسٹرممتازصاحب ،مرحوم سلیم خان اوران کی والدہ کی مغفرت فرماکراُنہیںجنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے اورہمیں ماسٹرممتاز کے اچھے اورسنہری اصولوں پرعمل پیراہونے کی توفیق عطاکرے اورلواحقین کویہ دردناک صدمات کو برداشت کرنے کی ہمت عطاکرے اورماسٹرممتازمرحوم اورسلیم خان کے خوابوں کی تعبیرکےلئے ان کے بچو ں اوربچیوں کی رہنمائی فرمائے۔(آمین)۔
 

Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 53295 views Ehsan na jitlana............. View More