غزہ بتا میں کیا کروں…!...

یہ غزہ میں کیا ہورہا ہے… معصوم بچوں کے لاشے بکھرے پڑے ہیں۔ کسی کا سر نہیں کسی کا دھڑ نہیں کسی کی ٹانگیں غائب… مائوں کی آنکھیں پتھرکی ہوگئی ہیں۔ باپ ان لاشوں سے لپٹ لپٹ کررو رہے ہیں ۔ یہ غزہ میں کیا ہورہا ہے۔ یہ قیامت کون ڈھارہا ہے۔ ان معصوم اور نہتے لوگوں کا دشمن کون ہے۔ کیا اسرائیل ان لوگوں کا دشمن ہے یا پھر وہ عرب ممالک جو بڑے سکون سے یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ یا پوری امت مسلمہ کہ جس کے لب سلے ہوئے ہیں سوشل میڈیا بھی بھرا ہوا ہے سب لوگ دعا کے لیے کہہ رہے ہیں کیا ہم لوگ دعا کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔؟ افسوس جب وقت قیام آتا ہے تو ہم سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ کسی نے سوشل میڈیا پہ یہ پوسٹ بھی لگا رکھی ہے کہ ’’کہاں مرگئے ’’جہادی‘‘ اور آپ کا خلیفہ؟؟ کہاں ہو عراق شام اور دیگر مسلمان ممالک کی جہاد کے نام پر اینٹ سے اینٹ بجانے والو؟ اسرائیل کی سرحدیں بھی تو شام سے ملی ہوئی ہیں۔ کیا تم کو یہودیوں کی طرف سے مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام نظر نہیں آرہا…؟ کیا تمہارا جہاد صرف انبیاء علیہ اسلام ، صحابہ کرام اور اولیاء اللہ کے مزارات کو مسمار کرنے تک محدود ہے۔؟؟ کہاں گیا وہ ابوبکر بغدادی جس نے خلافت کا اعلان کر رکھا ہے۔ کیا ایسے بزدل، اندھے،بہرے اور گونگے ہوتے ہیں مسلمانوں کے خلیفہ۔کیا تم کو فلسطینی معصوم بچوں کی چیخ و پکار سنائی نہیں دے رہی؟؟ کیا تم کو حوریں صرف مسلمانوں کو خودکش حملوں میں شہید کرکے ملتی ہیں؟؟ یہودی کی طرف اسلحہ اٹھا کر جہاد کا نعرہ لگانے سے تمہاری زبانیں گنگ کیوں ہوجاتی ہیں؟ کیا تم نے اسرائیل پر ایک بھی گولی چلائی؟ کوئی راکٹ مارا؟ کوئی خودکش حملہ کیا؟… ہمارے رسول اکرمؐ اور صحابہؓ کے فرمان حق سچ ہیں کہ یہ خوارج کافروں کو چھوڑ کر مسلمانون کا قتل عام کریں گے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس غزہ میں بہنے والے لہو کی داستانوں اور معصوم فلسطینی بچوں کی لرزہ خیز تصاویر سے بھری پڑی ہیں لیکن ہمیں کیا غزہ کون سا ہمارے ملک کا حصہ ہے ہم اپنے ملک میں لانگ مارچ کریں گے،انقلاب لے کر آئیں گے لیکن اسرائیلی مظالم کے خلاف زبان نہیں کھولیں گے۔ ہمارے حکمرانوں کو تو اپنی پڑی ہوئی ہے وہ بچارے لانگ مارچ اور انقلاب کے خلاف حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے سر جوڑے ہوئے ہیں افسوس ہم تو ایک دوسرے کے ’’اکائونٹ‘‘ سیٹل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

حماس کی قائد اسماعیل ہانیہ (سے منسوب) نے شائد اسی لیے اپنے ایک ’’ٹویٹ‘‘ میں کہا کہ ’’مسلمانو تمہیں بتانا تھا کہ ہم پر بمباری ہورہی ہے۔ تمہارے آرام میں مُخلل ہونے پر معذرت!چراغ حسن حسرت کے فرزند ظہیر جاوید نے غزہ جل رہا ہے‘‘ کے عنوان سے لکھی جانے والے اپنی تحریر میں آنکھیں کھول دینے والی حقیقتیں بیان کیں ہیں وہ رقمطراز ہیں کہ ’’ غزہ جل رہا ہے، دعائوں آنسوئوں اور آہوں کے سوا میرے پاس کیا رکھا ہے، میں مسلما ن تھا مسلمان! جس سے ساسانی، رومی کانپتے تھے۔ جس نے ایران، شام، مصر، شمالی افریقہ، سپین، افغانستان، بلوچستان، ترکمانستان، ازبکستان، سے لے کر کا شغر تک کے علاقے کو روند ڈالا تھا اور اسلام کا پرچم بلند کیا تھا، جس نے شمال مغربی یورپ کو تاراج کیا تھا۔ میں وہ مسلمان تھا جس نے اتنے بڑے علاقے پر حکمرانی اللہ کا پیغام پہنچانے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قائم کی تھی۔ میں مسلمان تھا جو اللہ کے آگے جھکتا اور شہادت کو اللہ کا انعام سمجھتا تھا۔ مگر یہ پرانی باتیں ہیں۔ اب میں وہ مسلمان نہیں رہا شائد، میں بڑی طاقتوں کی خوشنودی کے لیے جنسی آزادی پر نہ صرف یقین لے آیا ہوں بلکہ ان کے ساتھ اس کھیل میں شریک ہونا پسند کرتاہوں، میں وہ ہوں جو خود کو ان جیسا ترقی یافتہ ثابت کرنے کے لیے شراب پیتا ہے ، پردے داڑھی کا مذاق اڑتا ہے۔ میں وہ ہوں جو مسجد میں ساز بجاتا ہے، ناچتا ہے، اور چاہتا ہے کہ قرآن حکیم میں ترمیم کرکے ان سب باتوں کی مذہباً آزادی دے دی جائے۔ اب میں شائد مسلمان نہیں رہا مجھے جمہوریت سکھادی گئی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جب کچھ ہو تو احتجاج کرو، جلوس نکالو، نعرے لگائو، احتجاجی یاداشتیں پیش کرکے خود کو امن پسند ثابت کرو اوراگر لہو زیادہ گرم ہوجائے تو کافر کافر کھیلا کرو ایک دوسرے کو اسلام کی سربلندی کے لیے قتل کرو۔ مجھے برمامیں ، جنوبی افریقہ میں اس لیے قتل نہیں کیا جارہا کہ ان ملکوں کے باشندوں پر ظلم کررہا ہوں بلکہ اس لیے قتل کیا جارہا ہوں کہ میں اب بھی محمد عربیؐ کے گیت گاتا ہوں۔ چیچنیا کیا ماضی کا قصہ ہوگیا ۔ بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام اور بابری مسجد کیا آپ کو یاد نہیں رہی، اور اب جو یہ غزہ میں ہورہا ہے یہ روز آپ کے ہمسائے میں ہوتا ہے۔ کشمیر کے مسلمان ہر دن ہر گھڑی… امن و شانتی کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔شائید ظہیر جاوید اور بہت سے لکھنے والے تو ان زخموں پر سے پردہ اٹھاتے رہیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امت مسلمہ اس قابل ہے کہ کچھ کر سکے ؟
غزہ بتا میں کیا کروں کہ لب ہیں سلِے ہوئے
مُحافظوں کے دِل تِرے ہیں خوف سے ہلے ہوئے
غزہ بتا میں کیا کروں شباب بے لگام ہے
وہاں پہ قتلِ عام تو یہاں پہ رقص و جام ہے
غزہ بتا میں کیا کروں کہ باز ہیں ڈرے ہوئے
خُودی جو محِوِ خواب تو حوصلے مَرے ہوئے
غزہ بتا میں کیا کروں کہ بازؤوں میں جاں نہیں
دُعا مِری جو پَر کٹی تو آنسوؤں میں جاں نہیں
میں ایک جنس بے ضرر میں اِک صدائے بے اَثر
بلال تُو اَذان تُو قُدس کا پاسبان تُو

(عابی لکھنوی)
shafqat nazir
About the Author: shafqat nazir Read More Articles by shafqat nazir: 33 Articles with 29475 views Correspondent · Daily Jang London, United Kingdom.. View More