" ماں "

وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا ٠ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ٠
اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔ اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش کیا ہے تو بھی اُن (کے حال) پر رحمت فرما۔

اللہ تعالٰی نے ماں باپ کی شان میں اپنا کلام اتار کر قیامت تک کے لیے فیصلہ فرما دیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ماں باپ کا رتبہ سب سے بلند ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے بعد ہم پر سب سے زیادہ حق ہمارے ماں باپ کا ہے۔ ان کی اطاعت اور فرمانبرداری ہر حال میں ہم پر لازم ہے سوائے اس کے کہ وہ شریعت کے خلاف حکم دیں کہ شریعت کے خلاف کسی کا بھی حکم ماننے کی اجازت نہیں۔ والدین میں سے اللہ تعالٰی نے ماں کا رتبہ زیادہ بلند فرمایا ہے۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کے مقابلے میں ماں کا درجہ تین گنا بلند ارشاد فرمایا۔ ایک شخص ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کے مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری ماں کا۔ اس شخص نے فرمایا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا تیری ماں کا، تیسری مرتبہ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی ارشاد فرمایا۔ اور جب چوتھی مرتبہ اس شخص نے یہی سوال دہرایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تیرے باپ کا۔

اللہ تعالٰی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے صحابہ کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ ایک صحابی رسول حضرت علقمہ رضی اللہ تعالٰی حالتِ نزع میں تھے اور ان کی زبان پر کلمہ جاری نہیں ہو رہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام پہنچایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فورا حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا بیٹا کلمہ پڑھو تو انھوں نے فرمایا کہ مجھ سے نہیں پڑھا جا رہا۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ تو علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جی ماں زندہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ناراض ہے کہ راضی تو انھوں نے کہا کہ ناراض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ماں کو بلوایا اور ان سے پوچھا کہ آپ علقمہ سے کیوں ناراض ہیں تو انھوں نے فرمایا کہ اس کے دین کے بارے میں مجھے کوئی شکایت نہیں کہ بہت نیک ہے لیکن مجھے ایک شکایت ہے کہ جب بھی مجھ سے بات کرتا ہے تو گستاخی سے کرتا ہے کہ میرا دل چیر دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معاف کردے تو اس نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نے مجھے بہت دکھی کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکڑیاں جمع کرنے کا ارشاد فرمایا اور کہا کہ آگ لگا کر علقمہ کو اس میں ڈال دو۔ تب ان کی ماں کا دل نرم ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ آپ میرے بیٹے کو آگ میں جلائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو معاف نہیں کرے گی تو اللہ بھی اسی طرح علقمہ کو آگ میں جلائے گا یہ سن کر انھوں نے کہا کہ میں نے علقمہ کو معاف کیا. ساتھ ہی علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر کلمہ جاری ہو گیا اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ جی ہاں یہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حال ہے تو باقی لوگ جو ماؤں کا دل دکھاتے ہیں، ان کی بے ادبی کرتے ہیں، انھیں جھڑکتے ہیں، ان سے گستاخی سے بات کرتے ہیں یا ان کا حکم نہیں مانتے اپنے حال کا اندازہ خود ہی لگا لیں۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود علقمہ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور واپس جاتے ہوئے فرمایا۔ سنو! جس نے ماں باپ کو دکھ دیا اس پر اللہ کی لعنت، اس پر فرشتوں کی لعنت، اس پر زمینوں آسمان کی لعنت۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں تشریف لے گئے تو سنا کہ قرآن پاک کی تلاوت کی آواز آرہی ہے جو ساری جنت میں گونچ رہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کون تلاوت کر رہا ہے تو فرشتوں نے فرمایا نعمان بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نعمان تو مدینہ میں ہے ۔ تو فرشتوں نے فرمایا وہ اپنی ماں کے بہت فرمانبردار ہیں یہ اس کا صلہ ہے۔

ایک مرتبہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے پوچھا کہ جنت میں میرا ساتھی کون ہوگا۔ تو اللہ تعالٰی نے ایک شخص کے بارے میں انہیں بتا دیا۔ حضرت موسٰی علیہ السلام اس شخص سے ملنے چلے گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک قصائی ہے سارا دن عام قصائیوں کی طرح اپنی دکان چلا رہا ہے کوئی ایسی بات نطر نہیں آئی کے وہ موسٰی کلیم اللہ کا جنت میں ساتھ بن سکے۔ چنانچہ حضرت موسٰی اس کے گھر کے معاملات دیکھنے کے لیے اس کے مہمان بن کر اس کے ساتھ چل دیئے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ وقت کے پیغمبر موسٰی کلیم اللہ ہیں۔

جب وہ گھر پہنچا تو جو تھوڑا سا گوشت وہ بچا کر لایا تھا اسے پکانے لگا۔ پھر روٹی بنائی اور اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے سالن میں ڈال دیئے۔ جب کھانا تیار ہوگیا تو وہ اسے لیکر گھر کے ایک کونے میں گیا جہاں ایک انتہائی بوڑھی اور لاغر عورت لیٹی ہوئی تھی جو کہ خود ہلنے سے بھی قاصر تھی۔ وہ شخص روٹی کے ٹکڑے بچوں کی طرح اس عورت کو کھلانے لگا۔ جب اس عمل سے فارغ ہوا تو اس عورت نے کچھ کہا جسے سن کر یہ شخص ہنسنے لگا۔ حضرت موسٰی سمجھ نہ سکے اور پوچھا کہ یہ عورت کون ہے اور اس نے تجھ سے کیا کہا۔ وہ شخص کہنے لگا کہ یہ میری ماں ہے۔ جب میں اس کی خدمت کرتا ہوں تو جذبات میں آکر مجھے دعا دیتی ہے کہ اللہ تجھے جنت میں موسٰی کا ہمسایہ بنائے۔ یہ سن کر میں ہنسنے لگتا ہوں کے کہاں موسٰی اور کہاں میں۔

آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہُ سے فرمایا۔ عمر تیرے دور میں ایک شخص ہوگا جس کا نام ہے اویس اس کا قبیلہ ہے مراد اور اس قبیلے کی شاخ ہے قرن۔ اس کا رنگ کالا ہوگا، قد درمیانہ اور اس کے جسم پر ایک سفید نشان ہوگا۔ جب وہ تم سے ملے تو اس سے دعا کروانا اور علی تو بھی اس سے دعا کروانا۔ ذرا غور کریں کن سے فرمایا جا رہا ہے کہ دعا کروانا؟ عمر سے۔۔ جی ہاں عمر جن کے ایمان کے لیے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ جن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ عمر کی زبان پر حق بولتا ہے۔ جن کی خواہش پر قرآن پاک کی سترہ آیات نازل ہوئیں جنہیں مواخاتِ عمر کہتے ہیں، جن کے دور میں ایک بار زلزلہ آیا تو زمین پر کوڑا مار کر ارشاد فرمایا کہ کیا عمر تجھ پر انصاف نہیں کرتا تو زمین وہی ٹھر گئی۔ اور علی۔۔۔ کون علیٰ جنہیں اللہ کے شیر کا لقب ملا۔ جو سرورِ کائنات کے داماد ہیں، جو جو خاتونِ جنت کے شوہر ہیں، جو سردارنِ جنت کے والد ہیں۔ اور جن کے ہاتھ پر خیبر فتح ہوا، جو اہلبیت اطہر میں سے ہیں۔

جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہُ کا دور آیا تو وہ اویسِ قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہُ کی تلاش کرواتے رہتے۔ ایک بار حج کے موقع پر آپ نے تمام حاجیوں کو جمع کیا اور کہا کہ سب کھڑے ہوجائیں تو سب کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا جو یمن سے ہیں وہ کھڑے رہیں باقی بیٹھ جائیں۔ پھر آپ نے کہا جو مراد سے ہیں وہ کھڑے رہیں باقی بیٹھ جائیں۔ پھر آپ نے فرمایا جو قرن سے ہیں وہ کھڑے رہیں باقی بیٹھ جائیں تو صرف ایک شخص کھڑا رہ گیا۔ آپ نے فرمایا تو قرن سے ہے تو اس نے کہا جی۔ آپ نے کہا اویس کو جانتے ہو۔ اس نے کہا جی بلکل جانتا ہوں میرا سگا بھتیجا ہے لیکن آپ کو اس سے کیا کام پڑ گیا وہ تو تھوڑا پاگل سا ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہُ رونے لگے اور فرمایا کہ وہ پاگل نہیں تو پاگل ہے۔ پھر پوچھا کہے وہ حج پر آیا ہے تو اس شخص نے کہا کہ آیا ہے اور عرفات کے میدان میں اونٹ چَرا رہا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہُ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہُ کو ساتھ لیا اور عرفات کی طرف دوڑے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص درخت کے نیچے نفل پڑھ رہا ہے اور اس کے گرد اونٹ چَر رہے ہیں۔ آپ دونوں بیٹھ گئے۔ اس شخص نے محسوس کیا کہ کوئی آیا ہے تو نماز مختصر کرکے سلام پھیرا۔ دونوں اصحاب نے پوچھا تو کون ہے تو کہا کہ جی مزدور ہوں۔ فرمایا تمہارا نام تو کہا کہ عبداللہ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہُ نے فرمایا وہ تو ہم سب ہی اللہ کے بندے ہیں تیرا وہ نام پوچھ رہا ہوں جو تیری ماں نے تیرا رکھا۔ اس پر اویسِ قرنی نے فرمایا کہ تم کون ہو اور کیوں مجھ سے پوچھ رہے ہو میں تو تمہیں جانتا تک نہیں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہُ نے فرمایا یہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہُ ہیں امیر المومنین۔ اور میں ہوں علی ابنِ ابی طالب۔ یہ سنتے ہی اویس گھبرا گئے، سلام اور معذرت کی اور کہا کہ میں نے آپ کو پہچان نہیں سکا۔ حضرت عمر نے کہا کہ ہاتھ اٹھاؤ تو اویس رضی اللہ تعالٰی عنہُ نے کہا کہ میں آپ دونوں کے لیے ہاتھ اٹھاؤں؟ میری ایسی اوقات کہاں کہ آپ کے لیے دعا کروں۔ تو حصرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہُ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اویس ملے تو اس سے دعا کروانا کہ اس نے اپنی ماں کی ایسی خدمت کی ہے کہ اب جب بھی وہ ہاتھ اٹھاتا ہے تو خالی نہیں لوٹایا جاتا۔

بس یہی نہیں، قیامت کے دن جب جنتی جنت میں داخل ہورہے ہوں گے تو۔ اللہ تعالٰی اویسِ قرنی کو روک لیں گے۔ وہ ڈر جائیں گے۔ جب سب لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالٰی فرمائیں گے۔ اویس وہ دیکھو سامنے جہنم۔ تم جتنے لوگوں کو شفاعت کرو گے میں قبول کروں گا۔ جس طرف تمہاری انگلی اٹھتی جائے گی میں انہیں بخش کر جنت میں داخل کر دوں گا۔ یہ ہے صلہ ماں کی خدمت کا اور یہ ہے ماں کی عظمت۔

آج کل کے نوجوان اپنی بیویوں سے کہتے ہیں کہ میری ماں کی خدمت کرو جبکہ یہ ان کے ذمے نہیں۔ اگر وہ آپ کے ماں باپ کی خدمت کریں تو یہ ان کا احسان ہے۔ اپنے والدین کی خدمت کرنا آپ کا فرض ہے نہ کہ آپ کی بیوی کا لیکن اکثر گھروں میں جھگڑے اسی بات پر ہوتے ہیں۔ بیوی کے اپنے حقوق ہیں اور اپنے کے والدین کے حقوق الگ ہیں جن کو پورا کرنا آپ کے ذمے ہیں۔ بیوی کے حقوق کے لیے آپ ماں باپ کے حقوق کو فراموش نہیں کرسکتے اسی طرح ماں باپ کے حقوق کے لیے آپ اپنی بیوی کے حقوق صلب نہیں کرسکتے۔ یہ ہے وہ معاشرت جو ہمارے آقا نے ہمیں سکھائی ہے۔ بہت ہی بدبخت ہیں وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر یا پر اپنے ماں پر ظلم کرتے ہیں۔ آپ کی بیوی کا آپ پر کتنا حق ہے اس کا اندازہ صرف آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وہ آپ کے لیے اپنا گھر، اپنے والدین اور اپنے بہن بھائیوں کو چھوڑکر آگئی ہے۔

حضرت نعمان بِن حارثہ، جن کا ذکر اوپر ہوا وہ اپنی ماں کی خدمت اس طرح سے کرتے کہ ان کے کپڑے خود دھوتے، ان کے لیے کھانا خود بناتے، نوالے بنا بنا کر انھیں کھلاتے، ان کے بالوں میں تیل ڈالتے اور کنگھی کرتے۔ اور پھر خادموں کی طرح ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جائے۔ اگر وہ کچھ کہتی اور ان کی سمجھ میں نہ آتا تو دہرانے کے لیے نہ کہتے بلکہ اپنی بیوی کے پاس جاتے اور فرماتے کہ ماں نے کچھ کہا ہے مجھے سمجھ نہیں آئی کیا تمہیں سمجھ آئی کے انھوں نے کیا کہا؟ یہ تو وہ خدمت جس کے صلے میں نعمان بن حارث کی آواز سات آسمانوں کے پردے چیر کر جنت میں سنائی دیتی تھی۔ دو صحابہ اپنی ماؤں کی خدمت کے لیے مشہور تھے۔ نعمان بن حارثہ اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ۔

ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ سے کس قدر محبت کرتے تھے جس کی کوئی مثال دی ہی نہیں جا سکتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر چیز میں اکمل تھے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ماں سے محبت کا واقعہ میں جب بھی سنتا ہوں تو رو دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے ہی وفات پاگئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ کئی بھائی تھا نہ کوئی بہن۔ سو آپ کی والدہ ہی آپ کا سب کچھ تھیں۔ ماں کا پیار بھی آپ ہی دیتیں باپ کا بھی اور بہن بھائیوں کا بھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوست بھی آپ کی ماں ہی تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھ برس ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ بی بی آمنہ نے اپنے سسر عبدالمطلب سے اجازت چاہی کے وہ اپنے شوہر عبداللہ کی قبر کی زیارت کے لیے جانا چاہتی ہیں۔ آپ نے اجازت دے دی۔

تین لوگوں پر مشتمل یہ قافلہ روانہ ہوا مدینہ کے لیے جس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی والدہ اور ان کی باندی اُمِ ایمن۔ ایک ماہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے اپنے ماں باپ کے پاس مدینہ میں قیام کیا۔ واپسی کے سفر پر جب یہ قافلہ ابوہ کے مقام پر پہنچا تو حضرت بی بی آمنہ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ آپ کی عمر صرف چوبیس برس تھی۔ شام کا وقت تھا۔ جنگل بیاں بان۔ اللہ کے محبوب، اللہ کے نبی، ہمارے آقا اپنی ماں کے کندھے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ ماں دم ہار رہیں ہیں اور آپ صرف چھ برس کے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندازہ بھی نہیں ہو رہا کہ یہ پہلی موت ہے جو وہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ ماں کو پکارتے ہیں وہ آنکھیں کھولتی ہیں اور پھر بند ہو جاتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر اماں اماں کہتے ہیں وہ آنکھیں کھول کر دیکھتی ہیں اور پھر آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ پھر ماں نے آخری بار ہمت کرکے آنکھیں کھولی اور کہا بیٹا میں جا رہی ہوں لیکن ایک دن اللہ تیرے ذریعے ساری دنیا کو روشن کرے گا۔

یہ ہیں سرورِ کائنات، چھ برس کی عمر اور والدہ چل بسیں جو کہ ساری محبتوں کو محور تھیں۔ جنگل بیاں باں ہے نہ بہن ہے نا بھائی نہ کوئی رشتہ دار۔ ایک خادمہ ہے کیا ان کی تسلی بھی آپ کو صبر دے سکتی تھی۔ آپ ماں کے سینے پر سر رکھ کر رو رہے ہیں اور اماں اماں پکار رہے ہیں۔ جب قبر بنا دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ لپٹ گئے۔ اُمِ ایمن اٹھاتی تھیں تو آپ کہتے میری ماں۔ میں اپنی ماں کے ساتھ جاؤں گا۔ اُمِ ایمن کھینچتی اور آپ پھر گر پڑتے۔ مکہ وہاں سے بہت دور تھا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تک کیسے پہنچے ہوں گے کوئی اس غم کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اس واقعہ میں اللہ تعالٰی نے ایک اور بھی سبق رکھ دیا آنے والی انسانیت کے لیے کے اگر میں اپنے محبوب کا جس کے لیے میں نے دنیا بنائی ہے امتحان اس طرح سے لے سکتا ہوں اور جس کی اولاد نیزوں پر چڑھا دی جائے گی تو قیامت تک کوئی اللہ سے گلہ نہیں کر سکتا کہ توں نے اپنے محبوب اور ان کی آل کے لیے تو آسانیاں دی اور ہمارے لیے دکھ کہ کوئی غم اور دکھ اس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ ہمارے آقا کو دینا میں سب سے زیادہ ستایا گیا۔

اس واقعہ کے بعد بھی ہمیشہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والدین کو یاد فرماتے ہوئے کہتے کے کاش میرے والدین زندہ ہوتے تو میں ان کی خدمت کرتا۔ کاش میری ماں ہی زندہ ہوتی اور میں عشاء کی نماز کے لیے مصلے پر کھڑا ہوتا اور نیت کرلی ہوتی ہو اور سورہ فاتحہ پڑ رہا ہوتا اور ادھر سے میرے گھر کی کھڑکی کھلتی اور میری ماں کی آواز آتی بیٹا محمد، تو میں نماز توڑ کر کہتا لبیک یا امہ۔ لبیک میری ماں۔۔۔

اور وہ مشہور حدیث تو سب ہی نے سنی ہے کہ “جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے “ اس کے علاوہ بھی بیشمار احادیث اور روایات ماں کی شان میں موجود ہیں۔ بہت ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی مائیں زندہ ہیں اور وہ ان کی خدمت کر کے سب کچھ پا لیں گے۔ اور بہت ہی بدبخت ہیں وہ لوگ جو اپنی ماؤں کو زلیل کرکے سب کچھ ہار دیں گے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ایک اور حدیث یاد آئی جس کا مفہوم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اللہ اس کی سزا دنیا میں بھی دے سکتا ہے اور آخرت میں بھی۔ لیکن ماں باپ کی نافرمانی ایک ایسا گناہ ہے کہ جس کے کرنے والے کو دنیا میں بھی سزا مل کر رہتی ہے اور آخرت میں بھی۔

اور وہ لوگ جن کی مائیں دنیا سے رخصت ہو گئیں ان سے درخواست ہے کے اپنے چوبیس گھنٹے کی زندگی میں سے کم از کم آدھا گھنٹہ تو اپنے والدین کے لیے وقف کر دیں ساری زندگی کے لیے۔ کہ اس وقت میں کوئی بھی نیک عمل کر کے، نوافل، تلاوت، زکر ازکار یا صدقہ وخیرات کی شکل میں اس کا ثواب اپنے والدین کو ایصال کریں اور اسے زندگی بھر کے لیے اپنا معمول بنا لیں۔ یہ عمل یقینا اللہ اور اپنے کے والدین کی آپ کے لیے رضا کا سبب بنے گا۔ اور وہ تو اب اللہ سے زیادہ قریب ہے۔ اور جو لوگ ماں باپ کے نا فرمان ہیں وہ آج سے ہی اللہ کے حضور توبہ کر لیں اور اپنے والدین سے بھی معافی مانگ کر ان کی خدمت میں لگ جائیں اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے۔ (جزاک اللہ خیر)
Muhammad Tahseen
About the Author: Muhammad Tahseen Read More Articles by Muhammad Tahseen: 11 Articles with 11213 views Muhammad Tahseen (MBA, HRM).. View More