تگڑی افطاری اور غریبوں کا خیال

آج کل افطارکے لیے سجے دسترخوان دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ رمضان کا مقصد تقویٰ اور غریب کی بھوک پیاس محسوس کرنے کے بجائے ’’تگڑی‘‘ افطاری تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کھجوریں،پکوڑے ،سموسے،مختلف پھل،شربت ،چائے وغیرہ ،یہ سادہ سی افطاری کی ایک جھلک ہے جو ہمارے اکثر گھروں میں ہوتی ہے، ورنہ کچھ لوگ تو ایسی پُر تکلف افطاری کا اہتمام کرتے ہیں کہ اُن کی ایک افطاری کے خرچ سے کسی غریب کا گھر کئی دن چل سکتا ہے۔ افطاری کا اہتمام پہلے بھی ہوتا تھا لیکن آج سے کچھ برس قبل ایسا نہیں تھاجیسا آج کل ہے، بس ایک دو قسم کے پھل، کھجوریں اور سادہ پانی ہوتا تھا یا پھر کچھ لوگ پکوڑے تل لیتے تھے ساتھ میں، لیکن کوشش یہی ہوتی تھی کہ اڑوس پڑوس میں اگر کوئی غریب یا سفید پوش شخص ہے تو افطاری کا کچھ حصہ اُسے بھی بھیج دیا جائے ،لیکن چند برسوں سے اہتمام کچھ زیادہ ہی ہونے لگا ہے اوردوسروں کا خیال اتنا ہی کم، اس میں ہمارے الیکڑانک میڈیا کا بڑا کردار ہے۔ جب سے ملک میں پرائیویٹ ٹی وی چینل برساتی کھمبیوں کی طرح اُگنا شروع ہوئے ہیں ریٹنگ کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع ہو گئی ہے، رمضان المبارک شروع ہوتے ہی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں سارے چینل افطاری کے وقت ایسے پروگرامز نشر کرتے ہیں جن میں پُر تکلف افطاریوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ انواع و اقسام کی چیزیں افطاری کے لیے دستیاب ہوتی ہیں، پینے کے لیے سادہ پانی کے بجائے منرل واٹر کی بوتلیں اور مختلف قسم کے مشروبات شرکاء کوپیش کئے جاتے ہیں، اِن پروگرامز کی دیکھا دیکھی لوگوں نے گھروں میں بھی اِسی قسم کی افطاریوں کا بندوبست شروع کر دیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے قرعہ اندازی کے ذریعے انعامات اور اس طرح کی اور بہت ساری چیزیں اِن پروگراموں میں شامل کی جاتی ہیں۔ یوں لوگ افطاری کے وقت جو دُعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے دُعا و مناجات کو بھول کر اِن خرافات کو دیکھنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ایک مشہور نیوز چینل اور اُن کے میزبان جو خود کو اسلامی سکالر کہتے ہیں، اِن پروگرامز میں اور ریٹنگ کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں،وہ اسلام کے نام پر مداری کی طرح تماشے کرتے ہیں اورآئے دن چینل تبدیل کرتے رہتے ہیں۔

افطار کے وقت اگر اِن فضول پروگرامز کو دیکھنے کے بجائے اپنے رب کے آگے ہاتھ پھیلائے جائیں کہ یہ خاص قبولیت کا وقت ہوتا ہے تو بہت بہتر ہے۔ ساتھ ہی اگر ہم افطاری پر بے جا اخراجات کے بجائے اُن لوگوں کو یاد رکھیں جن کو افطاری میں ایسی چیزیں تو دور دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تو کیا ہی اچھا ہو، کہ رمضان کا اصل مقصد تو تقویٰ اور غریب کی بھوک، پیاس محسوس کرکے اُس کی عملی مدد کرنا ہے۔ اگر معاشرے میں غریب آدمی دو وقت کی روٹی کے لیے ترستا رہے یا کوئی سفید پوش آدمی قرض لے کر افطاری کا اہتمام کرے یا اُدھار کے پیسوں سے اپنے بچوں کو عید پر نئے کپڑے اور جوتے لے کر دے اور ہم افطاری پر ہزاروں روپے خرچ کر دیں تو ہماری یہ بھاری بھر کم افطاریاں کس کام کی؟؟ اگر ہم آج سے یہ عہد کر لیں کہ اپنی افطاریوں کو سادہ کر لیں گے، بہت سادہ بے شک نہ کریں صرف سادہ کر لیں، ورنہ اللہ کے نبیﷺ تو اتنی سادہ افطاری کرتے تھے کہ صرف کجھور ہوتی تھی یا نمک یا سادہ پانی۔ ہم بہت کمزور ایمان والے ہیں شاید ایسا نہ کر سکیں لیکن اتنا تو کر سکتے ہیں کہ جتنا خرچ ہم افطاری پر روزانہ کرتے ہیں اِس کو آدھا کر دیں، جو ایک ہزار خرچ کرتے ہیں وہ پانچ سو کر دیں، جو پانچ سو کرتے ہیں وہ دو سو پچاس کر دیں، جو دو سو پچاس خرچ کرتے ہیں وہ ایک سو پچیس کر دیں۔ اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا کر دیں کہ افطاری کے وقت دسترخوان پر اتنی ہی چیزیں رکھیں جتنی ہم کھا سکتے ہیں۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ افطاری کی خریداری کے وقت چونکہ بھوک اور پیاس کا کچھ غلبہ ہوتا ہے اِس لیے یہی سوچ ہوتی ہے کہ یہ بھی لے لیا جائے اور یہ بھی رکھ لیا جائے، دسترخوان پر چیزیں لگاتے وقت بھی ضرورت سے زیادہ رکھ دی جاتی ہیں جو بعد میں کچرے میں پھینکی جاتی ہیں، کیونکہ پیٹ تو جلدی بھر جاتا ہے، افطاری سے پہلے اصل میں ہماری آنکھیں نہیں بھرتیں ۔اب تو رمضان کے کچھ دن گزر چکے ہیں ہر ایک کو اندازہ ہے کہ وہ کتنا کھا سکتا ہے،اگر تھوڑی سی احتیاط کی جائے تو مناسب بچت کی جا سکتی ہے۔ اس طرح سے جو بچت ہو آنے والے دِنوں کا حساب کرکے وہ رقم اگر کسی غریب کو دے دی جائے تو شاید وہ اپنے لیے سحری اور افطاری کا کوئی معقول انتظام کر لے یا پھر کسی سفید پوش آدمی کے بچوں کے عید کے نئے کپڑے اور جوتے ان پیسوں سے بن سکتے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ ہماری جیب پر کوئی اضافی بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔ رمضان تو ایسا مہینہ ہے کہ اس میں جیب پر بوجھ ڈال کر بھی دوسروں کی مدد کرنی چاہیےے کیونکہ ا للہ کے نبیﷺ کی سخاوت جو سارا سال ہی جاری رہتی تھی اس مہینے میں خصوصاً بہت بڑھ جاتی تھی۔ غریب کو ڈھونڈنے کے لیے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، اپنے عزیزوں میں یا پڑوس میں بے شمار لوگ مل جائیں گے ،جو مہنگائی کے اِس دور میں مشکل سے جی رہے ہیں اور آپ کی تھوڑی سی کاوش، تھوڑا سا حسنِ انتظام اُن کی مشکلات کو کم از کم رمضان المبارک میں تو کم کر سکتا ہے۔
Dr M. Nadeem
About the Author: Dr M. Nadeem Read More Articles by Dr M. Nadeem: 15 Articles with 11022 views A medical specialist working as Assistant Professor of Medicine in a Medical college and also a non professional columnist... View More