وقت........

 وقت تو کر کمال گزرا ہے
کس قدر جلد سال گزراہے
ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے گزرا سال ابھی کی بات ہو، وہ ساعتیں جو ایک ایک سال کے برابر محسوس ہو رہی تھیں پلک چھپکنے سے پہلے گزر گئیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خوشی اور غم کے امتزاج نے گزشت کو پْر لطف بنا دیا ہو، غموں کا وہ بار جو اٹھائے نہ اْٹھتا تھا اب محسوس ہی نہیں ہو رہا............. خوشیاں آسیب زدہ رات میں سرکش ہواؤں کی طرح دھوکا دینے آئیں تھیں.................ہمارے در سے سر پٹخ کر کسی اور ناآشنا منزل کی جانب روانہ ہو گئیں.........ہم نے بہتیری کوشش کی مگر...........خوشیاں مہمان تھیں، ’’خدا حافظ‘‘ کہہ گئیں۔ مہمان تو آتے ہی جانے کے لیے ہیں، مہمان خداوند کی طرف سے تحفہ ہیں........... مہمان خالی ہاتھ نہیں رہنے دیتے، جب آتے ہیں توخوشیاں لاتے ہیں اورجب جاتے ہیں تو جب بھی ہلکا سا غم عطا کر جاتے ہیں۔

ہم اپنے آج پر غور نہیں کرتے، ہم سمجھتے ہیں، ہمارا آج ہمارے گزرے کل کی نسبت انمول نہیں حالانکہ حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے، انسانی فطرت میں یہ بات شامل ہے جب اس کے پاس کوئی چیز ہو تو یہ اس کی قدر نہیں کرتا اور جب وہی چیز پا س نہ رہے تو انمول بن جاتی ہے۔
ع مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے

ہم مول ، بے مول اور انمول میں الجھ چکے ہیں، ہماری نگاہ کسی ایک زاویے پر نہیں ٹھرتی، ہر انسان ایک الگ مزاج رکھتا ہے اسکا ایک الگ نظریہ ہے۔ تشکّر سے محروم افراد مول، بے مول اور انمول کی داستانوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ اسی الجھن میں وقت ضائع ہو جاتا ہے اور آخرکار ِضائع کیا گیا وقت .........بے کار وقت.........ہماری نظر میں انمول بن جاتا ہے۔

وقت گزرتا جا رہا ہے، جس کام کے لیے وقت بنا ، وقت اس کام کو احسن طریقے سے سر انجام کر رہا ہے، بلکل دبے پاؤں ........کسی آہٹ کے بغیر گزر رہا ہے.........دن ڈھل رہا ہے..........رات آ رہی ہے..........رات جا رہی ہے..........دن آرہا ہے۔

’’وہ فقیر دیکھو..........وقت نے اسے فقیر بنا دیا..........بادشاہ تھا کسی وقت ، راج تھا اسکا..........‘‘
’’بس میاں وقت کا سارا کام ہے‘‘۔ وقت کا کام آنا اور چلے جانا ہے..........بنا کسی توقّف کے..........وقت کسی کو بادشاہ یا فقیر نہیں بناتا..........نہ ہی وقت برا ہوتا ہے، برے تو حالات ہوتے ہیں اور حالات انسان کے اپنے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔

انسان کو اس کی اچھائیاں ہی اعلیٰ و ارفع مقام پر لے جاتی ہیں، اس میں وقت کی بات نہیں بلکہ اپنے اپنے اعمال کی ہے، ہماری فضول خرچیاں ، ہماری بری عادات اور ہمارے اچھّے اعمال سب اپنا اپنا مناسب نتیجہ وقت کے ساتھ ساتھ پیش کرتے رہتے ہیں۔

وقت کب سے ہے؟ ..........اﷲ ہی جانے کب سے ہے۔ وقت ایسی چیز ہے جوکسی کے ساتھ آجائے تو اسے محدود کر دیتا ہے۔

کچھ لوگ ہیں جو لا محدود کو محدود کرنے کا سوچتے ہیں، یہ سراسر غلط ہے، ایمان کی کمی لامحدود کو محدود کے سفر پر روانہ کرتی ہے۔

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے کسی نے سوال کیا ..........اﷲ کب سے ہے؟ سوالی نے لا محدود کے ساتھ وقت کا (یعنی کب کا)استعمال کیا اور اسے محدود کے سفر پر روانہ کیا۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے فرمایا ’’ کب نہیں تھا کہ یہ بتاؤں کب سے ہے‘‘۔ لا حدود ذات اﷲ کی ذات ہے۔

وقت کی تین حالتیں ہیں، ماضی، جو گزر گیا، حال، جو گزر رہاہے اور مستقبل جو گزرنے کے لیے آرہا ہے۔ان کی شکلیں ایک سی ہیں، وقت بدلتا نہیں..........ہاں انسان یقینا بدلتا رہتا ہے، اس کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ وقت موجود رہتا ہے لیکن انسان نجانے کہاں چلا جاتا ہے؟ کلاس رومز (class rooms)موجود رہتے ہیں طالب علم بدلتے رہتے ہیں۔ ہم اپنے معاشرے کی تبدیلی کو وقت کی تبدیلی کہتے ہیں، کمال اور زوال ہمارے اپنے ہی کردار کا نام ہے۔

بچپن جوانی میں کب تبدیل ہو گیا؟..........جوانی بڑھاپے تک کیسے آگئی؟ کچھ سمجھ نہیں آتا ، یہ سارا معاملہ اتنی جلد کیسے کارگر ہوا کچھ خبر نہیں۔ بچپن میں ہم خواب بْنتے ہیں، جوانی میں ان خوابوں کو تشکیل دیتے ہیں، بڑھاپے میں محسوس کرتے ہیں جیسے کسی خواب ِ غفلت سے ابھی ابھی جاگے ہوں۔ لیکن بڑھاپے میں وہ وقت نہیں ملتا..........وہ وقت ملنا کیا ہے؟ وہ وقت ہوتا ہی نہیں، گزر گیاگویا کوئی بے لگام گھوڑا ہو، بے لگام گھوڑا کیسے روکیں؟