ٹُلّا عطائی: خاک اُڑتی ہوئی دیکھی ہے خراباتوں میں

زمیں ٹُلّوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگِ آسماں ہر دِل کوبھائے
عادی دروغ گو اور جیّد جاہل متفنی ٹُلّا عطائی گزشتہ شب کثرت مے نوشی کے باعث ہلاک ہو گیا۔اپنے پسندیدہ لوگوں کے بارے میں لکھنا اور اُن کی تعریف میں زمین آسمان کے قُلابے ملانا اب اہلِ قلم کا وتیرہ بن گیا ہے ۔مدلل مداحی نے اب ایک وبا کی صورت اختیار کر لی ہے جسے دیکھو وہ کاہ کو اپنے زورِ قلم سے کوہ ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے لیکن کوئی ادیب ایسا نہیں جو مردودِ خلائق اور ننگ ِ زمانہ غیبت طراز اور مُوذی و مکار درندوں کے بارے میں کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اُن کا کچا چٹھا پیش کرے اور ان کے بارے میں تمام حقائق کی گرہ کشائی کر کے عبرت سرائے دہر میں ان کی ایذا رسانیوں، لذتِ ایذا کی قباحتوں اور فتنہ سامانیوں سے لوگوں کو متنبہ کرے ۔ مشکوک نسب کے ایسے بد اندیش ، کفن چور ،سفلہ ،سفہا اور اجلاف و ارذال کرگس زادے بے بس و لاچار انسانیت پر جو کوہِ ستم توڑتے ہیں اُس سے آہیں بے اثر ،بستیاں پُر خطر ،آبادیاں خوں میں تر،زندگیاں مختصر اورگلشنِ زیست کی تمام رُتیں ہی بے ثمر ہو کر رہ گئی ہیں۔ٹُلّا عطائی اس رو بہ زوال معاشرے میں جنسی جنون ،خوف و دہشت ،ذلت و تخریب ،مکر و فریب ،جہالت ،چربہ سازی ،جعل سازی کفن دُزدی،بے غیرتی ،بے ضمیری ، بے توفیقی ،بے برکتی ،بے حیائی ،بد دیانتی اور خست و خجالت کی علامت تھا۔ اُس کی جسارت سارقانہ کے باعث اکثر ادیب اُس کا نام سُنتے ہی لا حول پڑھتے اور سوچتے نا معلوم قادرِمطلق نے اس فرعون کی مدت کو کیوں بڑ ھا رکھا ہے؟ اُس کی موت نے اہلِ درد کے دل میں چراغِ تمنا کے فروزاں ہونے کو یقینی بنا دیا ہے ۔زمین کا بوجھ کچھ ہلکا ہو گیا ہے اور ایک ننگِ وجود بالآخردنیا سے منہ کی کھا کر گور میں منہ کے بل گرا ، درندگی اور شرمندگی سے لبریز زندگی سے منہ موڑ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا ۔ ایک بگلا بھگت ،جو فروش گندم نما ، مفت خور لیموں نچوڑ ،ابن الوقت اور مارِآستین سے اہلِ عالم کو نجات مل گئی۔دنیا بھر کے مہذب معاشروں میں ایسے گندے انڈوں ،سفید کووں ،کالی بھیڑوں اور گندی مچھلیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے سخت جد و جہد کی جاتی ہے۔ہمارے ساتھ المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارے ہاں ایسے جہلا کو ان کی جہالت کا انعام مل جاتا ہے ،وقت کے ایسے سانحات کو کس نام سے تعبیر کیا جائے۔

ٹُلّا عطائی ایک مثنیٰ ، عقل و خرد ،ذہن و ذکاوت اور فہم و ادراک سے یکسر تہی مسخرا تھا جوتھو تھا چنا باجے گھنا کی قبیح مثال تھا۔اپنے ذہنی افلاس اور کوتاہ اندیشی کے با وجود وہ رواقیت کا داعی بن کر ہر وقت اہلِ کمال کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف رہتا اور اُس کے ساتا روہن صبح و مسا اس کے سامنے دُم ہلا کر اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے۔ دنیا بھر میں جب بھی کسی معاشرے پر اُس کی بے حسی کے باعث پھٹکار پڑتی ہے تو وہاں سلطانیء جمہور کی بساط لپیٹ جاتی ہے ،ا س کے بعد بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والو ں،پنا اُلّو سیدھا کرنے والوں اور مجبور وں کے چام کے دام چلانے والوں کو کُھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔زاغ و زغن اس صورت ِحال سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور عقابوں کے نشیمن میں گُھس جاتے ہیں۔ وقت کا ایک المیہ یہ ہوا کہ شاہی محلے کا مکین راسپوٹین قماش کا ٹُلّا عطائی بھی اپنے خاندان کی خواتین کو سیڑھی بنا کر درِ کسریٰ پرصدا کر کے اور قصرِ شاہی کے کھنڈرات کی چو کھٹ پر ناک رگڑنے کے بعد جاہ و منصب کی ایک من پسند چوٹی تک پہنچنے میں کام یاب ہو گیا ۔ یہ خذف جسے ہیرا منڈی کی موری میں بھی لوگ حقارت سے دیکھ کر اس سے اُٹھنے والی عفونت اور سڑاند کے باعث تُھوک دیتے تھے، وہ بونا مقتدر حلقوں کی بیساکھیوں کے بل پر خود کو باون گزا سمجھنے لگا ۔کالے دھن اور جاہ و منصب کے نشے میں دھت یہ ابن الوقت اپنے تئیں الماس سمجھ کر بے بس و لاچار انسانوں کو وقفِ یاس کر نے لگا۔ اس مخبوط الحواس ،فاتر العقل اور شراب و شباب کے دیوانے سٹھیائے ہوئے گُرگ کی بے بصری اور کو ر مغزی کا یہ عالم تھا کہ جب ضعیفی کے دنوں میں یہ اپنی زندگی کی ستر خزائیں دیکھ چُکا تھا ،یہ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا ،پریوں کا اکھاڑا سجاتااور اس میں راجا اِندر بن کر خوب ہنہناتا۔ گُلشن میں جب بھی کوئی کلی یا شگوفہ نیا کھلتا ،ٹُلّا عطائی خارِ مغیلاں بن جاتا اور اُس کی تازگی اور باس کو نگل جاتا۔اگر کوئی شخص اس بُزِ اخفش کے گھناونے کردار پر تنقید کرتا تو یہ عف عف کرتا ہوا اُس پر ٹُوٹ پڑتا اور اُسے کاٹنے کو دوڑتا۔

جامہ ء ابو جہل میں ملبوس ٹُلّا عطائی اہل ِ علم و دانش کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتا۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں اقدار و روایات کی زبوں حالی نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔بے حسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ یہاں ہر چیز کی قیمت مقرر ہے اور ہر چیز کو بکاؤ مال بنا کر رکھ دیا گیاہے ۔علم کے شعبے میں کساد بازاری نے اس قدر تکلیف دہ صورت اختیار کر لی ہے کہ ہر قارون بڑی سے بڑی ڈگری دنیا کی کسی جامعہ سے خرید کر فرعون بن جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں پرائمری میں فیل ہونے کے بعد ٹلّاعطائی گھر سے بھا گ نکلا اور اپنے بھاگ سنوارنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا جن میں چوری ،سمگلنگ،منشیات فروشی،بردہ فروشی،بھتہ خوری اور دہشت گردی شامل ہے ۔ فنونِ لطیفہ ،ادب اور فلسفہ کے شعبوں میں ٹُلّا عطائی خو د کو عقل ِ کُل سمجھتا اورہر وقت اپنے منہ میاں مٹھو بنا ٹیں ٹیں کر تا رہتا ۔اس کی بیوی ثباتی بھی خودستائی میں اس سے کم نہ تھی۔وہ اپنا شجرہ نسب عہد مغلیہ کے شاہی خاندان سے ملاتی اور بڑے فخر سے بتاتی کہ مغل شہنشاہ جہاں دار شاہ کی ملکہ لال کنور اُس کی پردادی تھی۔ٹُلّا عطائی خود کو لال کنور کے چچا زاد بھائی نعمت خان کلاونت کو اپنا پردادا بتاتا۔یہ دونوں میاں بیوی اپنا شجرہء نسب کھینچ تان کر چنگیز خان اور ہلاکو خان سے ملاتے اور اس پر اس قدر غرور کرتے کہ پُھول کر کُپا ہو جاتے۔

چُو لستان میں مقیم خود ساختہ محقق سدا بنجر کی غیر مطبوعہ کتاب ’’اُردو کے ان پڑھ نثر نگار ‘‘میں ٹُلّا عطائی کا ذکر موجود ہے ۔اس کتاب کا مخطوطہ ردی فروش رنگو کباڑیا کے پاس موجود ہے۔تحقیق اور تنقیدکے مسلمہ معائر سے قطع نظر یہ کتاب اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ اس میں کئی جہلا کی جعل سازی اور مکر کو طشت از بام کیا گیا ہے ۔سدا بنجر نے ٹُلّا عطائی کے ساتھ اپنی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’مجھے معلوم ہوا کہ ٹُلّا عطائی خود کو عالمی ادبیات کا نباض سمجھتا ہے اور قدیم و جدید دور کے مصنفین کی حیات اور اسلوب پر اُس کی بات کو لوگ مستند سمجھتے ہیں ۔اسی خیال سے میں نے اُس سے ملنے کی کوشش کی اور چاہا کہ وی آنا آسٹریا میں جنم لینے والے ادیب کارل پاپر (Karl Popper)جس کا عرصہ حیات پیدائش اٹھائیس جولائی انیس سو دو اور وفات سترہ ستمبرانیس سو چورانوے (لندن)ہے کی زندگی اور ادبی خدمات پر گفتگو کی جائے ۔ کارل پاپر کی خود نوشت (Unended Quest)کو بے پناہ مقبولیت نصیب ہوئی۔ٹُلا عطائی شہرت اور خود نمائی کا بُھوکاتھا ،جوں ہی میں نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اُ س نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،فی الفور مجھے ملنے اور انٹرویو کر نے کے لیے بُلا لیا ۔جب میں اُس نا ہنجار کے کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کلین شیو خضاب آلود بُڈھا کھوسٹ تھری پیس سُوٹ پہنے ، ٹائی لگائے ،موٹے شیشیوں کی عینک ناک پر دھرے ،ہاتھ کی اُنگلیوں میں ہیرے جواہرات کی انگوٹھیاں ٹھونسے ایک گھو منے والی کُرسی میں دھنسا تھا۔ وہ بیس کے قریب حسین و جمیل نیم عریاں دوشیزاؤں کے جُھرمٹ میں بیٹھا ہنہنا رہا تھا۔اُس کی اہلیہ ثباتی ساقی بن کر سب حسیناؤں کو مے گلفام سے سیراب کر رہی تھی۔سب مست بندِ قبا کھولے شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر قہقہے لگا رہے تھے ۔مجھے دیکھتے ہی ثباتی نے میز پر رکھا ایک لوہے کا پیمانہ زور سے اپنے شوہر کی پیٹھ پر رسید کیا اور اُسے میری آمد کا احساس دلایا۔ایک منہ زور حسینہ نے اُسے گھونسہ مارا ۔اس اچانک وار سے ٹُلّا عطائی قدرے سنبھلااور کفن پھاڑ کر بولا :
’’ اچھا توتم آ ہی گئے ۔میں تو لوگوں کو لاکھ بلاتا ہوں لیکن کوئی میرے پاس نہیں آتا اس دیار میں میری زبان سمجھنے والا کوئی نہیں۔اب جلدی سے تم انٹرویو شروع کرو جیسا کہ تم دیکھ ر ہے ہو آج میں بے حد مصروف ہوں، ان لڑکیوں کو میں نے کتھک رقص کی تربیت دینی ہے اور دیپک راگ سکھانا ۔اس دوران رقص ِ مے بھی تیزی سے جاری رہے گا۔خیر تم سوال کرو لیکن کچھ میرا بھی خیال کرو‘‘
میں نے کہا’’کچھ کارل پاپر کے بارے میں بتائیں ‘‘
’’ہا ہا ہا ۔۔۔۔‘‘ ٹُلّا عطائی اپنی باچھیں کھول کر کھلکھلا کر ہنسنے لگا اُس کے پیلے دانت اور کالی زبان صاف نظر آ رہی تھی ۔وہ یوں ہرزہ سرا ہوا ’’کیا کہا اونہہ! سب بے کار باتیں ہیں۔کارل پاپر !یہ لفظ ہے کھا رَل پاپڑ ۔تم اس وقت دنیا کے سب سے بڑے ماہر لسانیات اور فلسفی سے مخاطب ہو ۔یہ تو صاف ظاہر ہے کہ ’’کھا رَل پاپڑ‘‘ پنجابی زبان کا لفظ ہے جس میں لفظ رَل کا مطلب ہے مِل جُل کر ۔اب سمجھے یہ دعوت ہے کہ کھا رَل پاپڑ۔پاپڑ کئی قسم کے ہوتے ہیں لیکن سب پاپڑ بہت کرارے ہوتے ہیں ۔اس لیے میرا دوست ہمیشہ یہی کہتا کھا رَل پاپڑ ۔وہ سب کے ساتھ رَل کے پاپڑ کھاتا تھا اس لیے کھا رَل پاپڑ اُس کا عرف بن گیا۔آج بھی جب اُس کی یاد آتی ہے تو کرارے پاپڑ یاد آتے ہیں اور آنتیں بل کھانے لگتی ہیں جس کی وجہ سے میں بلبلا اُٹھتا ہوں۔‘‘
ثباتی بولی’’ہاں کھا رَل پاپڑ! میرے تو منہ میں پانی بھر آیا ہے۔یہ ادیب ہمارے ساتھ رَل مِل کے پاپڑ کھایا کرتا تھا۔میں پاپڑ تیل میں تلتی اور وہ کہتا اب آ اور میرے ساتھ کھا رَل پاپڑ۔میں شرماتی لجاتی کہتی ہاں کھا رَل پاپڑ اور پھر ہم سب مِل کر پاپڑ کھاتے ۔ وہ ادیب کب تھا ،اُس نے جو کچھ لکھا وہ سب میرے شو ہر سے سیکھا۔ہمارے ساتھ رَل کے پاپڑ کھاتے کھاتے وہ لکھنا سیکھ گیا۔وہ عجیب مانوس اجنبی تھا جو ہم سب کو حیران و پریشان کر گیا ۔ اس دنیا کے آئینہ خانے میں وہ ہم سب کو تماشا بنا گیا۔مجھے اب تک یاد ہے وہ جاتے وقت میری تعریف کرتے ہوئے بلند آواز میں کہتا ’’پاپڑ کرارے !کھا رَل پاپڑ ۔‘‘

میں سمجھ گیا کہ میاں بیوی دونوں مثنیٰ اور تہی ہیں اس لیے میں نے اگلا سوال کیا’’کارل پاپر کی خود نوشت Unended Questکے بارے میں کچھ بتائیں۔‘‘
’’میری بات کان کھول کر سُن لو ‘‘ ٹُلّا عطائی اپنے منہ سے بہنے والے جھاگ کو اپنی آستین سے صاف کرتے ہوئے غرّایا’’ تم میرے سامنے مسلسل غلط لفظ استعما ل کر رہے اور میرے صبر کا امتحان لے رہے ہو۔ایک بار سمجھا دیا ہے کہ یہ کھا رَل پاپڑ ہے مگر تم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہواور مسلسل غلطی پر غلطی دہرا رہے ہو اور کارل پاپر کی رٹ لگارکھی ہے ۔اب ایک اور غلطی کر رہے ہو جس کتاب کا تم نے ابھی ذکر کیا ہے وہ در اصل Unended Requestہے۔میری کتاب ’’کدے نہ مُکدی کھچ کھبیڑ ‘‘کا ترجمہ ہے ۔میری کتاب کا مسودہ میری اہلیہ نے ایک ردی فروش کے ہاتھ بیچ دیا ،اُسی کو کھا رل پاپڑ نے انگریزی کے قالب میں ڈھالا ہے۔میرے جیسے سبز قدم لوگ جن کے دم سے گلشن میں ہریالی ہے اور ہر شاخ پر بُوم اور شپر کا بسیرا ہے ،ان باتوں سے مایوس نہیں ہوتے ۔ہمیں معلوم ہے کہ اس قسم کے حادثات اب معمول بن گئے ہیں۔
’’ میں اور ٹُلا عطائی آپس میں اکثر جھگڑا کرتے رہتے ‘‘ثباتی نے اپنے میلے دانت پیستے ہوئے کہا ’’ہماری باہمی رنجش ،لڑائی جھگڑے اور تُو تکار میں جب بہت شدت آ جاتی تو ٹُلّا عطائی اپنا غصہ دور کرنے کے لیے وہ سب مکالمات ،طعنے ، کٹ حُجتیاں اور غیظ و غضب کے تاثرات لکھ لیتا جو ہمارے درمیان ہوتے تھے۔اس کے بعد وہ مجھ سے درخواست کرتا کہ گھر میں حُسنِ اخلاق کا خیال رکھا جائے ۔ ہمارا جھگڑاسد اجاری رہتا اور یہ درخواست کبھی ختم نہ ہوتی ۔کتاب ’’کدے نہ مُکدی کھچ کھبیڑ ‘‘چھیڑ خوباں کی ایک مثال بن گئی۔ میں جب بھی دیکھتی ٹُلاّ عطائی اس کتاب کے مسودے پر سر کے بل گرا ہوتا۔وہ مجھ پر کم توجہ دیتا اور ہروقت اپنی یادداشتیں لکھنے میں لگا رہتا ۔اپنی داشتاؤں کا ذکر وہ مزے لے لے کر کیا کرتا۔ حسد اور رقابت سے مجبور ہو کر ایک دن میں نے لکھے ہوئے تمام کاغذوں کا پلندہ ایک ردی خریدنے والے کے ہاتھ بیچ دیا اور اس کے بدلے پاپڑ کرارے خریدے ۔اُس وقت یہ ادیب بھی موجود تھا میں نے کہا ’’کھا رَل پاپڑ ‘‘ ۔ اُس نے پاپڑ تو کھائے لیکن وہ موقع کی تاک میں تھا،اُسی وقت باہر لپکااورگلی میں گھومنے والے ردی فروش سے ’’کدے نہ مُکدی کھچ کھبیڑ ‘‘کا وہ مسودہ کوڑیوں کے مول ہتھیا لیا۔ اپنے شوہر کی کتاب ’’کدے نہ مُکدی کھچ کھبیڑ ‘‘ کا کام میں نے ہی تمام کیا ۔یہ کتاب چَھپ تو نہ سکی البتہ یہ ہمیشہ کے لیے چُھپ گئی اب کون جانتاہے کہ ٹُلّا عطائی جو طرزِ دغا ایجاد کرتا ہے کھنڈرات میں وہی بعد میں طرزِ ادا ٹھہرتی ہے۔‘‘
’’یہ سب راز کی باتیں ہیں ‘‘ ٹُلّا عطائی اپنے سر پر دھری خچر کے بالوں کی وِگ سہلاتے ہوئے بولا ’’اَنگ لینڈ اور فائر لینڈ میں ایسا ہوتا رہتا ہے ۔ کئی ادیبوں نے میرے مسودات پر ہاتھ صاف کیے ۔میں نے دنیا دیکھی ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔میری باتیں سن کر لوگ شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں اور اکثر مجھے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ میں چُلّو میں پانی بھر کر اس میں غواصی کروں اور گھونگھے نکال کر لاؤں لیکن یہ میرے قتل کی سازش ہے ۔میں چُلّو بھر پانی میں کیوں ڈُوب مروں ؟میں حاسدوں کی چھاتی پر اسی طرح مونگ دلتا رہوں گا اور چربہ ،سرقہ اور خود نمائی کے بل پر چلتا رہوں گا۔‘‘
’’یہ بات بالکل درست ہے ۔‘‘ثباتی نے اپنی چمگادڑ جیسی آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا’’ہمارے ہاں جو بھی لکھاری آتا ہے ہم اُسے ٹانگری،الائچی دانہ، دال سیویاں،پکوڑے ،مرغی کے پنجے اور پاپڑ کرارے ضرور کھلاتے ہیں ۔یہ سب کچھ کھانے کے بعد مہمان لکھاری اپنی اُنگلیاں صاف کرنے کے لیے میز پر رکھے وہ کاغذ اُٹھا لیتے ہیں جن پر ٹُلّا عطائی تخلیقی کام مکمل کر چکا ہوتا ہے ۔ان کاغذات سے ہاتھ صاف کرنے کے بعد وہ انھیں کُوڑے میں پھینک دیتے ہیں ۔ٹُلّا عطائی اب تک منوں کاغذکالے کر چُکا ہے لیکن اسے کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ٹُلّا عطائی یوں ہی خوار و زبوں ہے کوئی پُوچھتا نہیں۔‘‘
’’مہمانوں کا یہ کام تو ہر اعتبار سے قابلِ قدر ہے ۔‘‘میں نے کہا’’یہ اَنگ لینڈ اور فائر لینڈ کیا ہیں ؟‘‘
’’عالمی جغرافیے سے اس قدر لاعلمی !‘‘ ٹُلّا عطائی دولتیاں جھاڑتے ہوئے کہنے لگا ’’اَنگ لینڈ ایک عجیب پُر اسرار ملک ہے ۔کوہ قاف کے دامن میں واقع یہ پا زمین کئی صدیوں سے نا معلوم تھی۔لوگ کسی ملک کو سر زمین کہتے ہیں جو غلط ہے بھلا کوئی زمین پر سر کیسے رکھ سکتا ہے یہ لفظ پا زمین ہوتا ہے ۔ظاہر ہے کہ ہر شخص زمین پر پاؤں ہی دھرتا ہے ۔اس پا زمین کے ہر گاؤں میں پریوں ،چڑیلوں اور بھوتوں کا مسکن ہے ۔ یہاں کی مافوق الفطرت مخلوق کے اَنگ اَنگ میں مستی رچ بس گئی ہے ،میں اس دنیا کا کو لمبس ہوں ۔ میں نے مارکو پولو اور واسکوڈے گاما سے بھی زیادہ سیاحت کی ہے ۔طُو لی اور عرضی شاعری کی ہے اکثر شاعر کہتے ہیں کہ عرض کیا ہے لیکن میں کہتا ہوں طُو ل کیا ہے ؟یہ میری طرزِ خاص ہے جس کا میں موجد بھی ہوں اور خاتم بھی۔ میں ہر بحر کا سفر کر چُکاہوں ۔خاص طور پر بحرِ منجمد شمالی اور بحرِ منجمد جنوبی میں میری شاعری کا کوئی حریف نہیں۔ علمِ عروض اور علمِ طُول میں مہارت کے باعث میں نے سب پر قافیہ تنگ کر رکھا ہے ۔ایک گیت کا شعر طُول کیا ہے :
ساڈے اَنگ اَنگ وچ پیار نے پینگاں پائیاں نیں
اساں دنیا تو چوری چوری اکھیاں لائیاں نیں
ترجمہ : ہمارے ریشے ریشے پر عشق نے پینگ چڑھائی ہے
ہم نے دنیا سے چُھپ کر ساجن سے آنکھ لڑائی ہے

اَنگ لینڈ اور فائر لینڈ کے ہر مشاعرے میں مجھے بلایا جاتا۔ہر شخص یہ کہتا کہ اس وقت ٹُلّا عطائی ہی وہ شُوم ہے جس کی ہر طرف دُھوم ہے۔ عشق میں میری دیوانگی کو دیکھتے ہوئے یہ بات ہر شخص کی نوکِ زباں تھی کہ ٹُلّا عطائی ایسا بُوم ہے جس سے معقولیت کی توقع معدوم ہے۔ دو شعر طُو ل کیے ہیں:
کٹی ہے زیست مشاعروں کے روگ میں ٹُلّا
میری لحد پہ اُڑے رائیگاں عذاب کی دُھول
ٹُلّا بھی ٹُلّے کا نہیں ہے شناسا
تھر کے صحرا میں پھرتا ہے پیاسا

میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس خبطی کے دماغ کا خانہ بالکل خالی ہے ۔میں نے ایک اور سوال کیا ’’یہ فائر لینڈ کیا ہے ؟‘‘
’’ اُف !بین الاقوامی حالات اور تاریخی و جغرافیائی حقائق سے اس قدر لا علمی ناقابلِ برداشت ہے۔‘‘ٹُلّا عطائی شراب کا گلاس چڑھاتے ہوئے بولا ’’ تعلیم کا بہت بُرا حال ہے ،سب کچھ بے کار ہے ۔اتنی بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ بحرِ منجمد شمالی کی سر حدیں بحرِ منجمد جنوبی کے ساتھ مِلی ہیں۔ان دو سمندروں کے درمیان فائر لینڈ واقع ہے فا ئر لینڈ میں ایک جزیرہء جہلا ہے ۔فائر لینڈ کی ملٹری کا نام فائر بر یگیڈ ہے ،جس کے دستے دنیا کے تمام ممالک میں تعینات ہیں۔جزیرہء جہلا میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مجھے طویل عرصہ رہنے کا موقع ملا ۔جزیرہء جہلا کے باشندے ہمیں اپنا ہیرو اور سردارسمجھتے تھے۔اُس عہدِ ستم کی یاد نے مجھے اکثر ملول کیا ہے ایک شعر طُول کیا ہے:
جام ہر موج میں ہے حلقہء سد دام تفنگ
دیکھیں کیا گُزرے ہے خطرے پہ کُہر ہونے تک

ٹُلّا عطائی یورپ اور اہلِ یورپ کے تخلیق کاروں کے بارے میں جو بے سرو پا باتیں کر رہا تھا وہ اُس کی کم علمی کور مغزی اور ہذیان کی مظہر تھیں ۔معاً میرے دل میں خیال آیا کہ کسی اور ادیب کے بارے میں دریافت کیا جائے ۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ نئے موضوع پر کوئی دُور کی کوڑی لائے۔اس لیے میں نے آسٹریا ہنگری کے ممتاز شاعر اور ناول نگار رینر ماریا رِلکے(Rainer Maria Rilke)کے بارے میں پُو چھنے کا فیصلہ کیا۔چار دسمبر اٹھارہ سو پچھتر کو آسٹریا ہنگری میں جنم لینے والے اس ادیب نے پوری دنیا میں اپنی شاعری ،ناول نگاری اور تخلیقی کامرانیوں کی دھا ک بٹھا دی۔ رِل کے انتیس دسمبر انیس سو چھبیس کو راہیء ملک عدم ہوا اور سو ئٹزر لینڈ میں آسودہ ء خاک ہے ۔میں نے ٹُلّا عطائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :
’’اب کچھ باتیں رینر ماریا رِل کے کی شخصیت اور اسلوب کے بارے میں ہو جائیں ۔‘‘
’’یہ میں کیا سُن رہا ہوں؟‘‘ ٹُلّا عطائی اُنگلی سے ناک صاف کرتے ہوئے بُڑ بُڑ ایا ’’سو بار کہا ہے کہ میں دنیا کا سب سے بڑا ماہر لسانیات ہوں۔بڑے بڑے فلسفی میرے آگے پانی بھرتے پھرتے ہیں میری موجودگی میں کم از کم ادیبوں کے نام تو ٹھیک سے ادا کر و ،میرے بعد بے شک من مانی کرتے پھرنا۔ میری بات گِرہ میں باندھ لو یہ نام ہے رَل کے ۔پنجابی زبان کے اس لفظ کا مطلب ہے مِل کر ۔ جس زمانے میں میری تعلیم کرگس انسٹی ٹیوٹ میں جاری تھی،میں رَل کے سے مسلسل رابطے میں رہا اور اُسے کئی مفید مشورے بھی دئیے۔وہ میری باتوں کو ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے نکال دیتا ،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت مصروف آدمی تھا۔ہم نے رَ ل کے ادبی کام کیے ،رَل کے کھانا کھایا ۔وہ میرے پاس میرے گھر ’’ جھوک فنا دی‘‘ میں کئی بار آیا اور ہم نے رَل کے اچھا وقت گزارا۔جب رَل کے اپنے آخری سفر پر روانہ ہونے لگا تو اُس نے مجھے بھی کہا کہ چلو رَل کے عدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفر باندھتے ہیں۔ پہلے تو میں نے بھی قریبی دوستوں کے پُر زور اصرار پر اس کے ساتھ راہیء ملک عدم ہونے پر آمادگی ظاہر کی لیکن بعد میں ثباتی کی ضد پر اپنی علمی اور ادبی مصروفیات کے بہانے اس کے ساتھ رَل کے جانے کا ارادہ ترک کر دیا ۔اب اس نے تو بہت دُور اپنی بستی بسا لی ہے اب میں اور ثباتی دونوں رَل کے اس کی یاد میں مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں اور بیتے دنوں کو یاد کر کے رَ ل کے سوگ مناتے ہیں۔اس کا تکیہ کلام ہی رَل کے تھا ۔جب بھی کسی سے مخاطب ہوتا یہی کہتا آؤ سب رَ ل کے یہ کام کریں ۔‘‘
’’ وہ کئی بار ہمارے گھر آیا ‘‘ ثباتی نے کہا’’ہمارے ساتھ رَل کے اس نے پاپڑ کرارے کھائے۔ایک مرتبہ تو کھا رَل پاپڑ بھی موجود تھا ۔میرے ہاتھ کے بنے ہوئے پاپڑ سب کو پسند تھے۔ مجھے بُری طرح یہ بات یاد آتی ہے کہ ایک مرتبہ ٹُلّا عطائی مہمانوں کا سامان ہضم کر گیااور وہ رَل کے اور ہاتھ مَل کے وہاں سے رُخصت ہوئے۔ ایک بار کھا رَل پاپڑ اور رَل کے اکٹھے ہمارے گھر آئے۔میرے شوہر کی شاعری انھیں بہت پسند تھی۔میری شاعری اور شخصیت کے وہ مداح تھے۔اس موقع پر میں نے یہ شعر کہے :
کھارَل پاپڑ رَل کے آئے
ٹُلّا اب پُھولا نہ سمائے
بغلیں جھانکے ،ناک کھجائے
سر کا گنج اور وِگ سہلائے

دونوں میاں بیوی ذہنی افلاس کی آخری حدوں کو چُھو رہے تھے۔ اُن کی خرافات سن کر میں اُکتا گیا۔میں چاہتا تھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو ان خفاش منش درندوں کے کذب اور مکر کا پردہ فاش کیا جائے۔اب میں نے ان جعلی ادیبوں سے اُردو کے کلاسیکی ادب کے بارے میں سوال پُوچھنے کا فیصلہ کیا۔میری نگاہِ انتخاب مرزا محمد رفیع سودا (پیدائش :1713وفات :1781) پر پڑی ۔میں نے کہا:
’’اب کچھ مرزا محمد رفیع سودا کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں بات ہو جائے۔‘‘
’’بہت خوب ! پھر مجھے سوداء گھر یاد آیا ،آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا کہ ابھی میں نے گھر کے لیے سودا بھی خریدنا ہے‘‘ ٹُلّا عطائی مثلِ خر اپنے کان ہلاتے ہوئے نتھنے پھیلا کر بولا ’’ ہم لوگ خاندانی رئیس ہیں میرا پردادا نعمت خان کلا ونت تھا اور میری بیوی ثباتی کی پر دادی لال کنور جو پہلے دہلی کی مقبول رقاصہ اور طوائف تھی مگر بعد میں مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کی نگاہِ انتخاب کے باعث امتیاز محل کے نام سے ملکہء ہند بنی وہ نعمت خان کلاونت کی چچا زاد بہن تھی۔شہر کے سب لوگ اس سے آگا ہ تھے۔ایک مر تبہ مر زامحمد رفیع اپنے گھر کے لیے بازار سے سودا سلف خرید کر لے کر جا رہا تھا کہ میرے پرداد نے سب کچھ اُچک لیا۔ سامان اور مال و دولت کو اُچک لینا میرے پردادا کا مشغلہ تھا۔اسی لیے سب لوگ اسے اچکا کہتے تھے ۔اُس زمانے میں میرے پردادا کا سگا بھائی شیدی فولا د خان دہلی کا کوتوال تھا۔اس قسم کی وارداتیں روز کا معمول تھا لیکن کوئی بھی میرے پردادا کا بال بھی بیکا نہ کر سکا ۔مرزا محمد رفیع سودا نے اس موضوع پر اپنے کرب کا اظہار ایک شعر میں کیا ہے:
اب جہاں دیکھو واں جُھمکا ہے
چور ہے ٹھگ ہے اُچکا ہے
’’مرزا محمد رفیع سودا کا شعر تو غلط نہ پڑھیں ‘‘میں نے اس فاتر العقل بُڈھے کو ٹوکتے ہوئے کہا ’’لفظ جُھمکا نہیں بل کہ جَھمکا ہے ۔جُھمکا تو کانوں کی بالی کو کہتے ہیں جب کہ لفظ جَھمکا کا مطلب ہے ہجوم یا انبوہ۔یہ ملاقات تو میرے لیے تضیعِ اوقات بنتی جارہی ہے۔حیرت ہے ہر سوال کے جواب میں بے سرو پا باتیں کی جا رہی ہیں۔کوئی بات تو علم و ادب کی بھی ہونی چاہیے۔‘‘
’’بس کرو ۔۔۔زیادہ عالم بننے کی کوشش نہ کرو ‘‘ثباتی نے کھا جانے والی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور تِلملاتے ہوئے کہا ’’یہ لفظ جُھمکا ہی ہے ۔میری پردادی لال کنور کا جُھمکا بریلی کے بازار میں رقص کرتے ہوئے گِر پڑا تھا ،یہ اُسی جانب اشارہ ہے ۔وہ گیت تو تم نے یقیناً سُنا ہو گا ۔آج ہم سب مِل کر اس گیت پر رقص کرتے ہیں ۔یہ پُر سوز گیت سُن کر اور ہمارا رقص دیکھ کر تم سب کچھ سمجھ جاؤ گے۔یہ کہہ کر سب حسینائیں شرم و حیا کو بارہ پتھر کر کے محوِ رقص ہو گئیں ۔ ٹُلّا عطائی ایک رقاصہ شعاع کی اُلجھی لٹ کو اپنی بد وضع اُنگلیوں سے سُلجھانے لگا۔ شعاع نامی ایک بھینگی اور بے سُری رقاصہ نے رقص نُما اُچھل کود شروع کردی اور اور بسوں میں گڑوی بجا کر بھیک مانگنے والی ڈُومنیوں کے انداز میں گلا پھاڑ کر اپنی کریہہ آواز میں یوں تان اُڑائی:
جُھمکا گِرا رے بریلی کے بازار میں
بگیا میں بلماں نے میری لٹ اُلجھی سُلجھائی
ڈھانپ کے آنچل بولے گوری تُو میرے من بھائی
آنکھ جُھکا کے کچھ نہ بولے دِھیرے سے مُسکائے
سئیاں نے جب چھیڑا مجھ کو ہو گئی ہاتھا پائی
پھر کیا ہوا
پھر جُھمکاگِرا رے ہم دونوں کی تکرار میں

ابھی وہ رذیل حرافہ شعاع گیت گا رہی تھی اور رقص کرتے ہوئے اس کے پاؤں تھرک رہے تھے کہ ٹُلّا عطائی خون آشام بھیڑئیے کی طرح شعاع پر جھپٹا اور اُسے اپنے بازؤں میں دبوچ لیا ۔دونوں عیاشوں میں سچ مچ ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔شعاع کو چُھڑانے کے لیے ثباتی اور دوسری رقاصائیں آگے بڑھیں اور اب ٹُلّا عطائی تڑ تڑ پیزاروں کی زد میں تھا۔ثباتی نے ایک بڑا سا ڈنڈا اُٹھایا اور اپنے شوہر کے سر پر دے مار ا۔وہ لڑ کھڑا کر گِرا اور بے سُدھ ہو گیا ۔میں نے وہاں سے نکلنے ہی میں عافیت سمجھی ۔اُس وقت کسی شاعر کا یہ شعر میرے ذہن میں گردش کر رہا تھا:
جب کہ دو مُوذیوں میں ہو کھٹ پٹ
اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ

سدا بنجر نے مندرجہ بالا سطور میں ٹُلّا عطائی کے بارے میں جو چشم کُشا واقعات بیان کیے ہیں وہ اپنی نوعیت کے اعتبارسے لرزہ خیز اوراعصاب شکن ہیں۔ ٹُلّا عطائی سادہ لوح نہیں تھا بل کہ سادیت پسندی کے مہلک عارضے میں مبتلا ذہنی مریض تھا۔اپنے معاشرے اور سماج میں اس کی جہالت ہی اُ س کے لیے خجالت کاباعث بن گئی۔علم دشمنی اس کی گُھٹی میں پڑی تھی۔ذوقِ جمالیات اور ذوقِ سلیم سے عاری مشکوک نسب کے اس متفنی نے محض لذتِ ایذا حاصل کرنے کے لیے اس قدر بے دردی سے اہلِ کمال کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کی کہ دنیا کے مہذب معاشرے میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں ۔اس کی کینہ پروری اور سفلگی سے عاجز آ کر کئی زیرک تخلیق کار گوشہ نشین ہو گئے اور اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا۔ ٹُلّا عطائی جو کالا دھن کماتا رہا وہ زندگی کے آخری دنوں میں جوئے اور سٹے میں ہار گیا۔منشیات کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے وہ زندہ در گور ہو گیا۔جب میں نے آخری بار اُسے دیکھا تو وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چُکا تھا ۔ اس کا سب کروفر خاک میں مِل چُکا تھا اور خیراتی ہسپتال سے اس کے لیے دوا منگوائی جاتی۔ اس چراغ ِ آخرِ شب کو بالآخر بُجھنا ہی تھا۔ فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہوتی ہیں ،وہاں دیر تو ہے لیکن اندھیر ہر گز نہیں۔اکثر لوگ کہتے تھے کہ ٹُلّا عطائی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ کر بات کرتا ہے جب اُس کاآخری وقت آیا تو اُس کی کرگسی آنکھیں مُند گئیں،اس کے بعد کسی نے اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا۔ہر فرعون اور نمرود کا یہی حشر ہوتا ہے ۔ان کا نام و نشاں مٹ جاتا ہے اور اور وہ تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں۔ابلیس نژاد درندوں کواپنی اوقات اور انجام کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

ٹُلّا عطائی اور اُس کی داستانِ حیات ہردور میں عبرت کا تازیانہ ثابت ہو گی۔جب ٹُلّا عطائی اپنے انجام کو پہنچا تو کچھ عرصہ بعد بیوہ طوائف ثباتی اُس کا مکان اور سب جائداد اونے پونے داموں بیچ کر اپنے آبائی مسکن ہیرا منڈی کے ایک قحبہ خانے میں پہنچ گئی۔اُس وقت وہ بُڑھاپے کی حدود میں داخل ہو چُکی تھی۔لوگ کہتے ہیں کہ طوائف کو تو جوانی ہی میں مر جانا چاہیے،طوائف کا بُڑھاپا اُ س کے لیے ایک عذاب اور نِرا سیاپا ہوتاہے۔بُڑھاپے کے عالم میں ثباتی پر نگاہِ التفات ڈالنے والا کوئی نہ تھا۔نو خیز کلیوں ،شگوفوں اور گُلِ تر کے شیدائی بھنورے رس چُوس کر لمبی اُڑان بھر چُکے تھے۔ستم بالائے ستم یہ کہ کوٹھے کے طوطا چشم مالک نے ثباتی سے اُس کی ساری جمع پُونجی اینٹھ لی اور اُسے ایسے نکالا جیسے دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے۔

وقت کی مثال بھی سیل رواں کی مہیب موجوں کی سی ہے۔جس طرح بہتا ہوا پانی کبھی پلٹ کر نہیں آ سکتابالکل اُسی طرح وقت بھی گزر جائے تو پھر کسی صورت میں واپس نہیں آتا۔سیلِ زماں کے تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو نیست و نابُود کر کے خس وخاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔ کوئی شخص اپنی شدید تمنا ،سخت جدو جہد اور زرِ کثیر صرف کرنے کے باوجود بہہ جانے والے آبِ رواں ا ور بِیت جانے والے لمحاتِ دوراں کے لمس سے دوبارہ کسی صورت میں فیض یاب نہیں ہو سکتا۔گرمیوں کی ایک سہ پہر میں اپنے دوست ارشد کے ہم راہ ہیر رانجھا کے مزار پر گیا۔اس قدیم ترین شہرِ خموشاں کے پُر اسرار آثارقدیمہ کو دیکھ کر نیرنگیء تقدیر جہاں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔اچانک میر ی نگاہ ایک خستہ حال جوگن پر پڑی جس کے سامنے ایک کشکول رکھا تھا جس میں چند سکے پڑے تھے ۔ وہ تباہ حال ضعیف بھکارن جس کے گرد و غبار میں اٹے ہوئے بال بکھرے ہوئے تھے ،فرشِ زمین پر حسرت و یاس، بے بسی ،بے چارگی اور محرومی کی تصویر بنی بیٹھی تھی ۔ اُس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح مسلسل برس رہی تھیں ۔میلے کُچیلے بوسیدہ اور پھٹے ہوئے چیتھڑوں میں ملبوس اس جوگن نے بھرائی ہوئی آواز میں صدا لگائی :
’’کوئی ہے جو مجھ فاقہ کش غریب بھکارن کی مدد کرے ۔میں دو دن سے بُھوکی ہوں ۔اس بھری دنیا میں اب میر ا کوئی پُرسانِ حال نہیں رہا ۔‘‘
ارشد نے نہایت توجہ سے اس مفلوک الحال ضعیف، بیماراور ناتواں بھکارن کے حلیے اور لہجے کا جائزہ لیا اور کہا :
’’ کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے‘‘
میں نے پلٹ کر دیکھا تو میری آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں یہ تو ثباتی تھی۔
Dr.Ghulam Shabbir Rana
Mustafa Abad Jhang City
 
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 610494 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.