جب بنتا ہے قلم، ہتھیار کسی قوم کا

وقت کے مداروں میں تیزی سے دوڑتی اس دنیا میں ہمیشہ سے مقابلہ رہا ھے ایک دوسرے پر سبقت اور برتری کے لۓ؛ فرد کا افراد سے، قبیلہ کا قبائل سے اور قوم کا اقوام سے ۔ گولہ بارود سے لڑائ ،سائنسی دوڑ یا سائبر اٹیکس۔ تمام مقابلوں کو دو میں تقسیم کریں تو ایک لڑائ وہ ھے جو ملکی حدود پہ ہتھیاروں کے ساتھ لڑی جاتی ہے جبکہ ایک وہ جو ملکی حدود میں قلم کے ذریعے لڑی جارہی ہے۔ پہلی جنگ قوم کے پیروں تلے زمین موجود رکھنے کے لۓلازمی ہے جبکہ دوسری قوم کو زمین سے آسمان کی بلندی تک لے جانے کے لۓضروری۔

جب بنتا ہے قلم ہتھیار کسی قوم کا۔یہ موضوع کیسے وجود میں آیا،کہاں اور کب تخلیق کیا گیا؟یہ نۓ پاکستان کا موضوع ہے؟ میرے عزیزو! یہ موضوع انسان کو تحفہ کیا گیا جب 'اور ہم نے تم پر یہ نعمت تمام کر دی' کا آغاز ہوا تھا۔ اقراء۔ اور وہیں پہ اعلان ھوا تھا الذی علم بلقلم۔ اس دن اس موضوع کو تخلیق کیا گیا آج کے لۓ اور آنے والوں کے لۓ۔

کل کائنات میں خدا تعالی کی تمام بیش بہا نعمتوں میں ایک نعمت ایسی ہے جو کاٰئنات کے ذرہ ذرہ کے لۓ یکساں اہمیت رکھتی ہے۔ 'آزادی'۔ انسان، حیوان، چرند پرند، امیر غریب، پڑھے لکھے یا جاہل۔ سب کے سب آزادی کے لۓ کوشاں اور سرگرم عمل۔ ملاحظہ کیجۓ آزادی کی قیمت۔ وہ آزادی جس کی خاطر نسلیں اپنی زندگی کوہمیشہ کے لۓ موت کی قید میں سلا دے دیتی ہیں۔وہ آزادی جس کی قیمت قومیں اپنے لہو سے ادا کرتی ہیں۔ اسلام کے بازار میں آزادی کی قیمت، مؤمن کے ہاں آزادی کی بولی کیا لگتی ہے۔ جب بنتا ہے قلم ہتھیار کسی قوم کا تو پھر جنگی قیدیوں کو مسلمانوں کے بچے پڑھانے کے عوض آزادی ملا کرتی ہے۔ جب بنتا ہے قلم ہتھیار کسی قوم کا تو پھر مردوعورت دونوں پر تعلیم کو فرض قرار دیا جاتا ہے، علم والوں کو بغیر علم والوں پر فضیلت دی جاتی ہے، علم کے لۓ سفر کرنے والوں کی موت کو شہادت کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔اور جب بنتا ہے قلم ہتھیار کسی قوم کا تو پھر تلواریں نیام میں رکھی جاتی ہیں اور مسجد کے چبوتروں پر تعلیم کی محفلیں سجھتی ہیں۔

جب کسی قوم کا ہتھیار واقعی ہی قلم بن جاتا ہے تو قوم کے بچے 'میں کام کروں گا بڑے بڑے' کا جذبہ رکھتے ہیں، قوم کے نوجوان گلی کوچوں' بازاروں اور جلسہ گاہوں سے زیادہ علمی مباحثوں، تعلیمی مقابلوں اور نئ عملی ریسرچ میں دلچسپی لیتے ہیں، قوم کے بزرگوں کا سارا وقت گھر کی بہوؤں سے الجھنے کی بجاۓ گھر کے بچوں کی تربیت میں صرف ہوتا ہے۔ قوم کی خواتین کو ہمسایوں کے گھر کی لڑایئوں سے زیادہ ان کی بھوک کا خیال ہوتا ہے۔اور سب سے بڑھ کر قوم کی ماؤں کو ان کا بچہ ٹرٹر فلمی ڈایئلاگ بولتے یوۓ نہیں بلکہ سچ بولتے اچھا لگتا ہے۔ قوم کے اذہان میں کتاب، طلباء اور استاد کے لۓقدریں بڑھتی ھیں۔گلی کوچوں میں اپنا وقت گزارتے ہجوم کی جگہ اپنی زندگی جیتاعلم نظر آتا ہے جس کے زور پر عدالتوں میں انصاف راج کرتا ہے۔ اور قلم کے ذریعے علم سیکھنے والی قوم اپنے قلم سے جو خاکہ بناتی ہے وہ ھقیقت ھوتا چلا جاتا ہے۔ مگر یہ سب نہیں ہوتا جب قلم نہیں ہوتا، جب علم نہیں ہوتا۔
Syed Hamid Arshad
About the Author: Syed Hamid Arshad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.