سفارش کرکے کے پہنچایا گیا ہوں

14، ستمبر 2002 کو سندھ یونیورسٹی کے ایک تقریری مقابلہ میں پڑھی گئی۔

کیا عرض کیجیئے دِل کرتا ہے کہ اس خطابِ پُر خطا کا عنواں سفارش کر کے پہنچایا گیا ہوں کہ بجائے سفارش کر کر بلکہ مُک مُکا اور ٹھُک ٹھُکا کرکے پہنچایا گیا ہوں کردوں۔ اندازہ فرمائیئے کہ ہمیں عالمِ ارواح کی رفعتوں سے اس رنگ و بُو کی بستی میں لانے تک کے لیئے اَبا حضور کو در در کی خاک چھاننی اور بڑے بڑے پگڑوں کی سفارش لانی پڑی تب کہیں جاکے دادا مُدمِخ میرا مطلب ہے مدقوق اور اب مغفور نے اماں حضور اں (ان کا نام تھا) سے عقدِاول و آخر کی اجازت مرحمت فرمائی۔
سرپھوڑتی پھرتی ناداں، فریاد جو دردر جاتی تھی؁

ہماری آمد کے چند ایک سالوں کے بعد اَبا حضور کو ہماری آبائی کہیں تو دادائی اور پڑدادائی زمینوں کا بیڑا پار اور عوام الناس کا غرق کرنے کے لیئے ہماری تعلیم تربیت کی بڑی فکر لاحق ہوئی۔ تو آپ نے سفارشوں پر سفارشیں کر کرا کے ہمیں ایک جانے مانے بلکہ کھانے والے اسکول میں داخل کروا یوں کہیں کے ٹھنسوا اور پھنسوا دیا۔ لیکن الحمد اللہ ہم بھی ماحول سے قطعاً متاثر نہ ہوئے بالکل چکنے گھڑے کی طرح جیسے اسکول میں داخل ہوئے تھے بالکل ویسے ہی نکل آئے۔ ہاں البتہ ہماری زبان اور نظر سنِ بلوغت سے بہت پہلے بالغ بلکہ آزاد اور مہلک بھی ہوگئے تھے ۔ زبان کا کیا کہیئے کہ اس پر گالیوں کا وُرود بالکل نومولود بچہ کی طرح ہونے لگا، یعنی بے حجابانہ اور بے لباسانہ۔ بہت گاڑھی، منجھی ہوئی اور ٹیڑھی گالیاں بھی ہماری زبان سے اِس تواتر، ترتیب اور ترنم سے نکلنے لگیں کہ اکثر ہم جولیوں اور ہم جنسوں کی مجالس میں ان کے مقرر ارشاد کی فرمائشیں ہونے لگیں اور نظر تو کالج سے پہلے ہی ایکس رے تھی مگر کالج تک آتے آتے اس میں مزید تو دو ایکسوں کے سابقوں کا اضافہ بھی ہوگیا۔

اسکول تو پھر بھی آئیں بائیں شائیں کرکے نکال لیا، لیکن کالج میں مشکلیں پڑیں اتنی کہ صرف سفارشوں سے ہی آساں ہوسکیں۔ رات کو بہت لیٹ لیٹنے کی وجہ ہم اکثر کالج لیٹ آتے۔ کچھ نیند اور بہت کچھ خمارِ یار سے ہماری پلکیں کلاس کے دوران اکثر ایک دوسرے سے معانقہ کرتی رہتیں، لیکن جب بھی جدا ہوتیں تو سامنے کترینہ، زینٹا حتیٰ کہ مادھوری تک کو کھڑا کردیتیں، اب اگر ایسے میں ہمیں بلیک بورڈ دکھائی نہ دے تو اِس میں عتابِ اُستاداں کا نشانہ بھلا ہم کیوں بنیں؟ آپ ہی انصاف سے کہیئے کہ جب ہر لیکچر "ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا" کی ٹون میں سُنائی دینے لگے تو اس میں ہمارا کیا قصور ؟ اگر پریکٹیکل کے پیریئڈ میں ہم پولیٹیکل پیریئڈ جوائن کرلیتے تو اس میں بھی ہم نِرودوشی تھے،کیوں کہ ہمیں یقین کی حد تک گمان تھا کہ یہی وہ واحد میدانِ پُرخار، خوار و خطر ہے جس میں ہم کودنے کی اہلیت اور دولت رکھتے ہیں۔ مولا کا کرم رہا کہ اگر نصابی سرگرمیوں میں ٹھٹھرتا جاڑا تھا تو غیر نصابی سرگرمیوں میں ہم نے سب سے بڑھ چڑھ بلکہ دوڑ اور گاڑی میں بیٹھ کرحصہ لیا۔ غیر نصابی سرگرمیوں کی لمبی ٹرین میں سے وہ ڈبے نکال کر جن میں جھانکنا شاید قانونی، اخلاقی اور شرعی پیچدگیاں پیدا کر دے، آئیئے باقی پر ایک اُچٹتی نظر ڈالتے چلین۔

انگلش فلموں کی سلطانی فائٹ، میرا مطلب ہے سلطان راہی اسٹائل فائٹ کا مظاہرہ نوکروں، کتوں اور اڑوس پڑوس کے آوراہ اور غیر آوارہ بچوں پر تو ہم کر ہی چکے تھے، لیکن قسم ہے اپنے پہلے عشق کی وہ مزا نہیں آیا جو ایک پڑھاکو، قدنکالتے، خوبصورت مگر مالی اور جسمانی اعتبار سے ایک نحیف لونڈے کو سرِ راہ خواہ مخواہ اپنا رقیب بنا کر مارنے، لتاڑنے اور بھنبھوڑنے میں آیا۔ کیا کہیئے ہر مُکا گولڈلیف کا کش اور ہر ٹھڈا لیمن اسکاچ کی چسکی معلوم پڑتا تھا۔ ہمارے گھر کے ایک میل کے ریڈیئس میں کوئی کچاپکا، اونچانیچا ایسا گھر نہ تھا جس میں کوئی خوش شکل، دانے دار اور ابھرتی لڑکی ہو اور ہمارے ہاں اسکا بایوڈیٹا، بلکہ سمجھیئے بایوگرافی اور باڈی گرافی پورے ناک نقشے، قدکاٹھ بلکہ فوٹوگرافی سمیت محفوظ نہ ہو۔ ہم اکثر اس ڈیٹابیس میں ترمیم اور بیشتر اضافہ ہی کرتے رہتے۔ زنانہ کالج کے گیٹ کے انتہائی خطرناک زاویہ سے ہماری آنکھیں ربِن کے چشمے کے پیچھے چماچم کرتی بلیک ہنڈاسِوِک سے بیک وقت دوربین اور کیمرے کا کام کر رہی ہوتیں۔ دور سے چال دیکھ کر بتا سکتے تھے کہ سینڈل کی ہیل کی لمبائی کس پیر کے کس حصے پر گراں گذر رہی ہے اور جوتے کے بکل کی پن بیلٹ کے کس سوراخ میں ہے۔ چوڑیوں کے رنگ، ہیربینڈز اور جیولری کے ڈزائن، بیگز میں لٹکتے کی چین، حتیٰ کہ نیل پالش اور لپ اسٹکس کے شیڈز تک ہمیں اَزبر تھے۔ خیراللہ بھلا کرے ابا کے دوستوں، داشتوں اور دست نگروں کا کہ کالج سے ہمیں کوئی گزند پہنچائے بغیر سفارش کی سیڑھی سے بالکل مکھن کے بال کی طرح نکال کر لائے۔ اب ہمارے اندر رہی کمیوں، کوتاہیوں اور کثروں کو فائنل ٹچ دینے کے لیئے ہمیں ایک مرتبہ پھر سفارشوں کے سہارے یونیورسٹی پہنچایا گیا۔

میاں! یہاں کا ماحول تو بس اللہ دے اور بندہ لے یعنی پہلے جن بیریوں کو دیوار کی آڑ میں چھپ کر پتھر مارنے پڑتے تھے، اب یہاں ان کے نیچے کھڑے ہوکے ہولے سے ہلاؤ تو ایک پکاہوا آم آن کے جھولی میں گرے ۔ وہی ادائیں، چال اور چہرے جن کو دھونڈھنے ہم سرِ شام ہی ابا سے چھپ چھپا اور بچ بچا کے جایا کرتے تھے، اب وہی کام ہم سرِ صبح کھلے بندوں، انہماک، پابندی اور باجماعت طور پر کرنے لگے۔ ابا کی طرف سے کسی دھونس، دھمکی کا دھڑکا نہ تھا۔ کیوں کہ اُن کی نظر میں ہم چمکتی پشاوری چپل پر کلف لگی کاٹن جو دیکھنے کے ساتھ سنائی بھی دیتی اور کبھی پینٹس پر دھاری دار رنگ بہ رنگی شرٹس پر ٹائی کا دم چھلا اور پوائزن لگا کر اپنی گاڑی آپ ڈرائیو کر بحرِعلوم میں پیراکی بلکہ غوطہ زنی کے لیئے ہی منہ اندھرے گھر کو تیاگا کرتے تھے۔ اُلٹی کلائی میں راڈو کا لیٹسٹ ماڈل اور سیدھے ہاتھ میں بلاضرورت آئی فون کا نیو ورژن ہم ہمیشہ اس ترتیب سے رکھتے کہ دونوں کی کمپنیاں دور سے دیکھی اور پڑھی جا سکیں۔

یہاں بھی ہمارا باعث تاخیر وہی عنان گیریاں ہوتیں۔ لیکن جب کبھی بھی حادثتاً اگر ہم کلاس میں in time ہوتے تو ہماری نظرِ انتخاب وہی دور پڑھنے والوں کے لیئے نوگو ایئریا پیچھے پڑی کرسیاں ہوتیں۔ ان کرسیوں پر بیٹھ کر کلاس کے دوران کانا پھوسی اور کھسرپھسر سے ہمارے لیئے زبان کی نزاکتوں کی ایسی پرتیں کھلتیں کہ چودھ سے چودھ کو ضرب دے کر ہمارے طبق ایسے روشن ہوتے کہ ہم ہکابکا اور ششدر رہ جاتے اور سمجھنے لگتے کہ شاید ہم پتھر کے دور سے سیدھے چل کر ان ماہرانِ لسانیات کے ہم جلیس ہوئے ہیں۔ یارانِ کلاس اپنے اپنے تجربات، مشاہدات اور تخیلات کے باریک اور تاریک گوشوں پر اس زاویہ سے روشنی ڈالتے کہ ہم حسرت اور یاس سے inferiority complex کا شکار ہونے لگتے۔ اوروں کی بریک اور ہماری چھٹی میں سموسے، چائے اور بوتلیں ہمیشہ ایسی جگہ نوشِ جان کرتے کہ جہاں سے آنکھوں کی بھی حق تلفی نہ ہوتی ہو۔ انڈین اور اردو گانوں کی ڈی وی ڈیز تو ہم نے گاڑی میں بس اپنے ذاتی استعمال اور لانگ ڈرائیو کے لیئے رکھ چھوڑی تھیں، ورنہ گرلز ٹولیوں اور پوانٹ بسوں کا طواف ہم انگلش گانوں کے ذکرِ جہر ہی سے کیا کرتے تھے۔

یونیورسٹی صرف شداد کے ارم کی ڈوپلیکیٹ ہی نہ تھی، بلکہ یہاں مسائل بھی گوناں گوں ،متنوع اور گنجلک تھے۔ لیکن اُن کے لیئے سفارشیں بھی ہم نے ویسی ہی ٹھوس، تگڑی اور تنومند تیار کر رکھی تھیں۔ حضور کیا عرض کیجیئے سفارش کے اس مہلک ہتھیار کے استعمال سے اٹینڈینٹوں، اسائنمینٹوں اور پیپروں میں مارکوں سے لے کر بینکوں اور اے سی ٹو تک کہ مسائل اس سبھاؤ، سہولت اور سُرعت سے نکلنے لگے کہ جیسے گلے سے فالودہ اُترتا جاوے ہے۔ خیر اندیشوں کی نیک تمناؤں، روڈی بھکاریوں کی دعاؤں اور سفارشات کی برکاتِ جاریہ سے ہمارے کسی کام میں آج تک کوئی رنڈک، روڑہ اور روڑی حتیٰ کہ ریوڑی تک نہیں اٹکی۔ دعا کرتے چلیئے کہ یہ سلسلہ سفارشات منصبِ منسٹری تک جاری رہے، تاکہ ہمارے آسمان سے نزول کا مقصد بہ خیروخوبی اپنے انجام کو پہنچے۔
Salahuddin Nizamani
About the Author: Salahuddin NizamaniCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.