جہاد فی سبیل الله

جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے اور قرآن وحدیث میں اسکے فضائل و احکامات واضع طور پر ملتے ہیں۔ جہاد عربی لفظ ہے اور اسکا مصدر جہد ہے جس کا معنی کوشیش ہے،جہاد سے مراد کسی نیک کام میں انتہائی طاقت و کوشش صرف کرنا اور ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کرنا ہے۔ امام راغب اصفہانی جہاد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اَلْجِهَادُ والْمُجَاهَدَةُ : اِسْتِرَاغُ الْوُسْعِ فِيْ مُدَافَعَةِ العُدُوِّ. (راغب الصفهانی، المفردات : 101)۔ ترجمہ: دشمن کے مقابلہ و مدافعت میں فوراً اپنی پوری قوت و طاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔ شریعت اسلامی کی اصطلاح میں ’’دین اسلام کی اشاعت و ترویج، سربلندی و اعلاء اور حصول رضائے الٰہی کے لئے اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو وقف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔‘‘

آج کا آرٹیکل لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جناب متکلم دیوبندیت حضرت علامہ الیاس گھمن صاحب کی کتاب حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ میری نظر سے گذری، جس میں موصوف نے پاکستان کے پرامن میجورٹی سنی مسلمانوں کو جہاد نہ کرنے کا طعنہ دیا ہے اور اپنی جماعت کے جہاد کرنے کو فخر سے بیان کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اپنے کسی آرٹیکل میں بیان کرچکا ہوں کہ میری طبعیت میں اب ٹہراؤ آچکا ہے، میں اختلافی اور منافرت پھیلانے والے موضوعات سے پرہیز کرتا ہوں۔ اسکی وجہ شائد یوکے کا سرد موسم ہے یا مجھے اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ پہلے ہی نفرت ہماری رگوں میں بہت سرائیت کر چکی ہے اور ہم گروہ در گروہ اور فرقہ در فرقہ تقسیم ہو چکے ہیں، لہذا اب نفرت نہیں محبت پھیلانے کی اشد ضرورت ہے، فرقہ بندی نہیں بلکہ اتحاد امت کے لئیے کوشیش کرنی چاہئیے لیکن اسکے ساتھ ساتھ غلط بات کا رد اور حق بات کا اظہار بھی اشد ضروری ہے۔ لہذا دیوبندی مناظر الیاس گھمن صاحب کی عبارت ملاحظہ فرمائیں موصوف فرماتے ہیں کہ میں بڑی سوچ و بچار سے ملت رضویہ ( سنی بریلوی ) کے افراد سے کہوں گا کہ اس وقت حق پر قتال کرتی ہوئی تمھاری جماعت تو درکنار ایک آدمی بھی نظر نہیں آتا جبکہ دوسری طرف بحمدالله کئی جماعتیں ہماری جہاد میں مصروف ہیں جو کفر کے طاغوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے مقابلہ میں مصروف ہیں ( حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ صفحہ نمبر ٤١ ) ۔ میں موصوف کو جانتا ہوں سرگودھا سے انکا تعلق ہے اور دیوبندیت کے نامی گرامی مناظر ہیں اور شرائط مناظرہ کے بڑے ماہر ہیں، مناظرے سے پہلے شرائط طے کی جاتی ہیں ان شرائط میں ہی کوئی ایسی شرط کا مطالبہ رکھ دیتے ہیں جو پوری نہ کی جاسکے اور راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں۔ خیر موصوف نے یہ بیان نہیں کیا کہ کہ طاغوت کون ہے ؟ جس کے خلاف آپکی جماعتیں جہاد فرما رہی ہیں ؟ کیا پاکستانی فوج ، پولیس ، عوام ، نہتے مرد ، خواتین ، بچے ، بوڑھے آپ کی نظر میں طاغوت ہیں ؟ کیونکہ آپکے نام نہاد جہادی تو انھیں ہی مار رہے ہیں ، اگر امریکہ طاغوت ہے تو اسی سے ڈالر لے کر تو آپ نے افغان جہاد کیا تھا جسکا بدلا قوم چکا رہی ہے۔ مولانا آپ اپنی اصلاح فرما لیں جسے آپ جہاد فرما رہے ہیں وہ فساد ہے، یہ ریاست کے خلاف بغاوت ہے جسکی شریعت اسلامیہ میں کوئی گنجائش نہیں۔ جناب میں باخبر بندہ ہوں جہاد افغانستان سے لیکر جہاد کشمیر تک سب جانتا ہوں کہ دولت کے لئیے نام نہاد جہادیوں نے کیا کیا گل کھلائے یہاں بیان کرنا مقصد نہیں، آئیے بتاتا ہوں جہاد کیا ہے اور کب اور کسے اسکا حکم ہے ؟ شریعتِ اسلامیہ کی رو سے اس کی درج ذیل اقسام ہیں: ١ جہاد بالعلم ، یہ وہ جہاد ہے جس کے ذریعے قرآن و سنت پر مبنی احکامات کا علم پھیلایا جاتا ہے تاکہ کفر وجہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور دنیا رشد و ہدایت کے نور سے معمور ہو جائے۔ جہالت کے خلاف جہاد بالعلم لیکن آپکے جہادی تو سکول بموں سے اڑا دیتے ہیں خدارا طعنہ زنی کی بجائے جہالت کے خلاف جہاد پر توجہ دیں۔ ٢، جہاد بالمال ، ٣ جہادبالنفس ، ٤ جہاد بالقتال ، یہ جہاد میدان جنگ میں کافروں اور دین کے دشمنوں کے خلاف اس وقت صف آراء ہونے کا نام ہے جب دشمن سے آپ کی جان مال یا آپ کے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں۔ لیکن آپکے جہادی تو ہمیں ہی مٹانے پر تلے ہیں اپنی ہی حکومت کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں اور باغیوں کے بارے میں شریعت کے جو احکام ہیں آپ کو معلوم ہوں گے اگر نہیں تو میرا آرٹیکل خوارج پڑھ لیں۔ جہاد بالقتال کے لئے کچھ بنیادی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے، جن کے بغیر جہاد انسانیت کے لیے محض فتنہ و فساد کا باعث بنتا ہے، جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ جہاد کی بنیادی شرائط میں درج ذیل شامل ہیں، جہاد اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عوام الناس کو فردا فردا، جتھوں، یا تنظیمیوں کی صورت میں جہاد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ آپ کی جماعتوں کو کس شریعت نے اجازت دی کے جہاد کرتی پھریں خدارا خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔ جہادبالقتال کی بے شمار احتیاطیں ہیں جنھیں ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے، مضمون طویل ہو گیا ہے اسی پر اکتفا کرتا ہوں باقی پھر کبھی، جو پیغام دینا تھا دے چکا۔ الله سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا کرے۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ۔۔۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 171742 views System analyst, writer. .. View More