راغب مراد آبادی اور ان کی شاعری

راغب مراد حسین آبادی کا اصل نام اصغر حسین تھا۔ راغب تخلص کرتے تھے۔ 27 مارچ 1918ء(13 جمادی الثانی 1336ھ) میں دلی میں پیدا ہوئے۔ وطن مراد آباد تھا۔ ہندوستان میں دہلی کالج سے بے اے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی آئے اور ملازمت لیبر ڈیپارٹمنٹ میں کی۔ 1980ءمیں اسی ڈپارٹمنٹ میں پبلک ریلیشن آفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ انہوں نے دو شادیاں کی، دونوں بیویاں وفات پا گئیں ان کے ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔

راغب مراد آبادی کا شمار ان ممتاز صاحب فکر اساتذہ میں ہوتا ہے جو کلاسیکی روایات کی باریکیوں کا بھر پور ادراک رکھتے ہیں۔ انہیں شاعری کی مختلف اضاف پر عبور حاصل ہے لیکن تاریخ گوئی اورفی البدیہ میں بے مثل ہیں زبان و بیاں اور فنی رموز کے حوالے سے ان کا کلام سند کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے لیکن انکی پہچان ان کی رباعیات ہیں۔ ان کے اب تک 40مجموعات کلام شائع ہو چکے ہیں۔ جس میں غزلیں ، نظمیں ، نعت اور پنجابی شاعری شامل ہیں۔ ان کی شاعری پر تو مقالہ لکھا جا سکتا ہے اس مضمون میں صرف ان کی رباعی گوئی پیش نظر رہی ہے۔

میں نے راغب صاحب کو دیکھا ، سنا اور پڑھا۔ بحیثیت انسا ن وہ مجھے اخلاص و محبت اور انکساری و عاجزی کا نمونہ نظر آئے۔ ان کی شاعری مفاہیم و رموز کی ایک وسیع دنیا ہے۔ ان کے عہد میں شاعری کی راہ گزر مطالعے اور مشاہدے کے گزرتی ہے۔آخری عمر تک تخلص علم کرتے رہے اور خود کو طالب علم سمجھتے رہے۔کبھی اسادی کا دعویٰ نہیں کیا۔ ایک شاعر کو دوسرے شاعر پر ترجیح نہیں دیتے۔ انکا کہنا تھا کہ ہر شاعر عزیز ہے پر پھول کا رنگ و بو جدا ہے۔

انکی شاعری کے فکری چائزہ سے یہ انداز ہ ہوتا ہے کہ یہ مومن ،میر، غالب، اقبال، سیماب، اور ثاقب وغیر ہ کے دور کے شاعر کا ذہن نظر آتے ہیں۔ راغب مراد آبادی نے اپنی شاعری کے ذریعہ سماجی ، معاشی مسائل اور عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو اس طرح بیان کیاہے۔

حکام نہ صدرِ خوش بیاں کی جانب
رینجرز نہ فوج کامراں کی جانب
ہر شخص سے ہو چکے ہیں مایوس عوام
اب ان کی نظر آسماں کی جانب

مانگو اللہ سے معافی جھٹ پٹ
دن امن واماں کے جلد آئیں پلٹ
نوبت نہ کہیں، فاقہ کشی تک پہنچے
ہنگاموں نے کر دی ہے معیشت تلپٹ

رباعی کا اعتراف کرتے ہوئے کسی نے ان کی شاعری کی بابت کیا خوب کہا ہے۔

راغب کے یہاں عام نظر آتی ہیں
ترکیبیں نہیں ہوتیں جو سیدھی سادھی
یوں کہئے کہ راغب کی غزل میں اکثر
آتے ہیں نظر جوش ملیح آبادی

راغب مرادآباد ی کا شمار پاکستان کے قدیم نسل کے اساتذہ شعر و سخن میں ہوتا ہے۔ پاکستان و ہندوستا ن میں چرچہ رہا۔ اپنی شعری زندگی میں پہلے غزل اور مابعد رباعی کی طرف رجحان ہوا۔ حساس دل و ذہن کے مالک تھے۔ تخلیقات کا رخ رباعیت کے طرف ہوگیا۔ دل میں جو خیال آیا چشم زدن میں شعر میں ڈھل گیابے شمار اشعار فی البدیہہ کہے گئے۔ راغب مراد آباد نے اردو ادب کی خدمت کی اور اردو کے بڑے نامور شعراءکی تربیت بھی کی۔

راغب مراد آبادی خطاط نہ تھے لیکن انکی تحریر خطاط جیسی ہے سخن گوئی کی رفتار تیز تھی۔ چائے کی پیالی کے ختم ہوتے ہوتے نظم تیار ہو جاتی۔ دنیا کے بے شمار اخبارات و رسائل میں انکا کلام شائع ہوتا ایک مزاحیہ شاعر نے کہا۔

اخبار اٹھایا تھا کہ ہاکر چیخا
یا پیسے دے اخبار کے یا آگے بڑھ
میں نے جو رباعی پڑھی وہ چیخ اٹھا
راغب کی رباعی کے پھوکٹ میں نہ پڑھ

راغب مراد آبادی نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا لیاقت علی خان اور قائد اعظم محمد علی جناح سے قرب رہا ۔ علامہ اقبال سے خط و کتابت رہی مولانا ظفر علی خاں کی شاگردی میں رہے۔ راغب مراد آبادی کے اساتذہ میں ایک نام صفی لکھنوی کا بھی ہے۔ ان کو اردوم پنجابی، عربی، انگریزی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ راغب اپنی ذات میں ادارہ تھے انکو شہنشاہِ رباعیت کہاجاتا ہے۔ رباعی پر تو راغب صاحب کی گرفت جس قدر ہے اسکی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔ چار مصرعوں میں بات کہہ کو ماحول کو حیرت زدہ کرنے کا فن جانتے ہیں۔ انکی رباعیات میں ان کے عہد کی تاریخ رقم ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں تاریخ نویسی اور شواہدو واقعات کو نظم کیا۔ ان کے کلام میں شعور ، انسان دوستی اور درد مندی کی جھلک نمایاں ہے وہ معاشرے کے دینی، ادبی تہذیبی اور سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ کراچی کے حالات سے متاثر ہو کر کہتے ہیں۔

قتل و غارت کی گرم بازاری ہے
مرنے اور مارنے کی تیاری ہے
بھائی بھائی کے خون کا ہے پیاسا
اسلام میں کیا یہی رواداری ہے

اپنا ہے یہ شہر جس میں بے بس ہیں عوام
آئے گا زباں پر نہ مری کلانعام
جمہوریت عصر کا اللہ رے نظام
ہر روز ہی قتل ہو رہے ہیں سر عام

راغب مراد آبادی کی فکر مثبت اور اظہار اثر انگیز ہے وہ انسانوں میں حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اپنے دل کی مراد ، ہم نے پائی ہے
جو بات سمجھے تھے، سمجھ میں آئی ہے
ارشادِ رسول ِ عربیﷺ ہے راغب
اہلِ ایماں بہم ہیں بھائی بھائی

شہر کراچی کو لہولہان تصویریں راغب صاحب کے اشرات میں نظر آتی ہیں اندرونی کرب، تردد اور تالیف کے ساتھ مایوسی نہیں رجائیت کا پلو نمایاں ہے کیفیات کا اظہار حقیقت نگاری کے ذریعہ کیا ہے۔

کیا گائے گا ایسے میں کوئی طربیہ گیت
ہے کرودہ کپٹ عام کہاں ہے اب پریت
جو روشنیوں کا شہر تھا اے راغب
اس میں رقصاں ہے تیرگی کا عفریت

عام الناس کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات و جذبات کو کس سادگی سے ادا کیا ہے۔

کس جرم کی یہ سزا ہے مرے داتا
تجھ کو بھی ترس ہم پہ نہیں آتا
کیا شہر میں فائرنگ ہے معمولِ حیات
اک روز بھی ناغہ نہیں ہونے پاتا

منظوم سفر ناموں کا سرمایہ اردو ادب میں بہت کم ہے۔ راغب مرادآبادی نے سفر نامے منظوم کئے ان میں وہ خود بھی منظر کا ایک حصہ ہیں۔ یہ سفر نامے بھی رباعی ہی کی ہیئت میں ہیں۔ مارچ 1984ءمیں سفر حجاز کے لئے روانہ ہوئے اور ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری کے مہمان رہے لکھتے ہیں۔

صاحب دل و نکتہ داں غنی الاکرم
خوش طینت و مہرباں غنی الاکرم
ہم سب کے نفضل حق تعالیٰ امروز
مکہ میں ہیں میزباں غنی الاکرم

میزبانی کے علاوہ اپنی گاڑی میں غنی الاکرم سبزواری راغب صاحب کو مقدس مقامات کی زیارت کے لئے لے گئے اس موقع کی رباعی ملاخط فرمائےے۔

غافل نہ رہے شکر خدا سے ہم بھی
آگاہ تھے آداب دعا سے ہم بھی
موٹر میں سبزواری ہی کی آج
گزرے مزدلفہ و منیٰ سے ہم بھی

ہاں مرکز علم وآگہی کو دیکھا
ہاں محورِ عقل و روشنی کو دیکھا
ہمراہ جناب سبزواری راغب
اللہ رے مولدِ نبیﷺ کو دیکھا

انکا خواب تھا کہ زندگی میں چین کا دورہ کریںچنانچہ یہ خواب 1988ءمیں شرمندہ تعمیر ہوا۔ چین کے سفر کو شعری رنگ دیا اور ہر شعر اخوت و محبت کا ایک مہکتا ہوا پھول نظر آتا ہے۔ چینیوں کی تعریف میں کہتے ہیں۔

رہتی ہے ادائے فرضی پر سب کی نظر
ہر فرد ہے اک عزم و عمل کا پیکر
پابندی نظم و ضبط کیا ہے راغب
یہ راز کھلام چین مین آکہ مجھ پر

زندگی میں چینی طرزِ حیات سے متاثر ہوئے۔ اک طرف دوستی و محبت دوسری طرف لطافتِ بیان ملا خط ہوا۔

آگاہ رموز دور بینی ہوجا
منت کش اسرارِ زمینی ہوجا
بیجنگ کی فضا جانفزا میں راغب
کہتا ہے یہ دل مجھ سے کہ چینی ہوجا


راغب مراد آبادی چینی شاعری کے میر و غالب یعنی لی پاؤ (701 ۔ 762ئ) اور توفو( 712ھ سے 770) کے کلام کو اردو شاعری میں ڈھالنے کا عزم رکھتے تھے۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کے دوران یہ نیت کی کہ ایک ایسا مجموعہ نعت مرتب کیا جائے جسکی ہر نعت کی ردیف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو قرآن حکیم میں سورة محمد موجود ہے اور یہ اسمِ پاک کلمہ کے حصہ ہے۔ جیسے ہی وطن پہنچے اور ادارہ کو عملی شکل دی اور 76 اشعراءو شاعرات کی نعتیں پر مشتمل مجموعہ مرت کیا۔

اساتذہ نے ندیہہ گوئی کو اظہار کا مستقل ذریعہ نہیں بنایا لیکن راغب مرادی نے بدیہہ گوئی کو اپنی شناخت کا وسیلہ بنا لیا۔ اپنے بے شمار مشاعروں کی میزبانی کی جو دنیا بھر میں ہوئے۔ ان کے بے شمار شاگرد ہیںجن میں ایک نمایاں نام حبیب جالب کا ہے۔ راغب مراد طویل عرصہ سے فراش تھے۔ 18 جنوری 2011 ءکو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ راغب مراد آبادی کے انتقال سے اردو دنیا ایک ممتاز شاعر سے محروم ہو گئی۔ حق مغفرت کرے۔ مستند شاعر تھے۔