روشنی اور اندھیرے

روشنی کے مطلق مکمل آگہی کے لیے‘ روشنی کی معرفت کے لیے ضروری ہے کہ اندھیروں کی پہچان کر لی جائے۔اندھیروں کی پہچان ہو جائے تو روشنی کے سراغ نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔روشنی ظلمت کدوں میں پلتی ہے‘ اِس کا وجود ظلمت کے نابْود ہونے کی مسلّم گواہی ہے۔ روشنی اور اندھیرے دو ایسے استعارے ہیں کہ جو تمام کائنات کو اپنے حصار میں لے سکتے ہیں۔اِنسان کی ترقّی اور تنزّلی کا کْلیتہََ دارومدار اس کے خیالات سے علاقہ رکھتا ہے، اِسی ضمن میں دوسری شے انسان کا عمل ہے۔ خیال‘ ارادے کو جنم دیتا ہے اور اِرادہ‘ عمل کو تشکیل دیتا ہے.......... اگر خیالات روشن ہو جائیں تو دل منوّر کر دیا جاتا ہے............خیالات پاکیزہ ہو جائیں تو دل باوضْو ہو جاتا ہے...................

روشنی کی معرفت کوئی مشکل عمل نہیں ہے، آسان ہے بس تھوڑا محنت طلب ہے،انسانی خیالات و عوامل روشنی اور اندھیرے کی مکمل داستان ہیں،آج کا انسان حَسد کے اندھیرے میں کھو چکا ہے،دیکھا دیکھی کے اذیّت ناک عمل میں مبتلا ہے،باپ اپنے بچّے کو تعلیم اس لیے نہیں دلا رہا کہ اس کا کردار اچھّا ہو جائے گا بلکہ شروع دن سے ہی بچّے کو تبلیغ کی جاتی ہے کہ بیٹا پڑھے گا ‘ ڈاکٹر بنے گا تو بنگلہ ہو گا‘ کار ہو گی‘پیسہ ہو گا ، جب منزل پیسہ ہو تو اس راستے کا راہی اپنے ہم راہوں کو بھی کْچل دیتا ہے،پیسے کی طمع آدمی کو shortcuts کی طرف مائل کرتی ہے اور shortcut کسی راستے کا نام نہیں بلکہ بے راہ روی کا ایک نام ہے۔shortcutsآ دمی منزل پر تو لے جاتے ہیں مگر پیچھے سب ستیاناس ہو جاتا ہے۔

اِس وقت مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے، میں ہمیشہ ہی اس پر افسوس کا اِاظہار کرتا رہا ہوں ، ایک دفعہ ہمیں اپنے یہاں کے civil hospitalجانا تھا، لیکن اس سے پہلے کہ ہم ہسپتال کی طرف جاتے ‘ہم ایک ہاؤسنگ سکیم کے دفتر گئے،وہاں سے معلومات لیں، باہر نکلے تو چچّا نے کہا ’’وہ اْدھر ہاؤسنگ سکیم کے پیچھے civil hospital ہے‘‘ میں نے کہا ’’ چلو ادھر سے ہی چلتے ہیں سامنے تو ہے، پانچ منٹ میں پہنچ جائیں گے‘‘ گہیوں کے کھیتوں سے ہوتے ہوئے ‘ shortcutلیتے ہم ہسپتال کے قریب پہنچے،جب میں نے پیچھے نظر دوڑائی تو جہاں جہاں سے ہم گزر کر آئے تھے وہاں سے فصل تباہ ہو چکی تھی،ہم اِسے پاؤں تلے روندتے آئے تھے....................اِسی طرح شارٹ کٹ کا پیروکار جہاں جہاں سے گزرتا ہے تباہی پھیلاتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ ایسا سفر جو تباہی کا باعث بنے‘ایسا سفر جس میں دوسروں کی محنت کا خیال نہ رہے وہ سفر روشنی کا سفر نہیں ہو سکتا۔

ایسا ڈاکٹر جو پیسے کے لیے ڈاکٹر بنا اورجس نے پیسے کے لیے ڈگریاں حاصل کیں ، اْس نے اندھیرے کا سفر کِیا، اس کی ڈگریاں جہالت کی ڈگریاں ہیں اور اس ڈاکٹر جیسا جاہل شاید ہی کوئی ہو، جہل اندھیرے کا نام ہے، ایسا رزق جو دوسروں کا پیٹ کاٹ کر حاصل کِیا جائے ‘ کبھی بھی انسان کے وجْود و روح کے لیے باعث ِتسکین نہیں ہو سکتا،اچھّے ماں باپ وہی ہیں جو اپنی اولاد کو اچھّی تربیئت دیں، اچھّے اخلاق کی تعلیم دیں۔ آجکل مختلف T.V Channels پر ایک مشروب کی تشہیر ہو رہی ہے، جس میں بچّے اپنے ماں باپ کے خلاف protest کرتے ہیں کہ ہمیں پڑھنے کے علاوہ کھیلنے کے لیے بھی وقت دیا جائے، تو صاحب یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیا تعلیم دے رہے ہیں ہم ؟ کیا احتجاج اور دھرنے ہی رہ گئے ہیں نئی نسل کے لیے........ہم لوگ کب سدھریں گے؟ کیا جس اندھیرے میں ہم نے پرورش پائی‘ نئی نسل بھی اسی اندھیرے کا مقدّر ہے؟ آخر کیوں ہم روشنی سے منہ موڑ بیٹھ ے ہیں،کیوں احساس نہیں ہو پا رہا کہ نئی نسل کے تقاضے کیا ہیں ؟ ضرورتیں کیا ہیں؟ کیسا ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اولادیں والدین کے خلاف احتجاج کریں، یہ آدمیّت کا کون سا مقام ہے؟ آدمیّت کے لاشے ہر سْو بکھرے ہیں۔ ـ؂
آدمیّت کی لاش پر ہم نے
رقص ِ ابلیس برملا دیکھا (واصف علی واصفؒ)

اب ہمیں روشنی کی طرف سفر کرنا چاہیے، روشنی کا مسافر بے راہروی کا شکار نہیں ہو سکتا،کسی انسان کا دل رکھ لینا روشنی ہے، یہ نہ ہو کہ انسان دل توڑتا جائے اور کہتا جائے کہ ہم روشنی کے سفر پر ہیں۔ دل بچا لینے چاہیں۔ ؂
خیال خاطر ِ احباب چاہیے ہر دَم
انیس ؔ ٹھیس نہ لگ جائے آنگینوں کو (میر ببر علی انیسؔ)

جب آبگینوں کو ٹھیس لگ جائے تو شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ کوئی چیز ان کو نہیں جوڑ سکتی۔ علم روشنی ہے، اگر موٹی موٹی کتابوں کا author علم کی بات کرے یعنی روشنی کی بات کرے اور دل بھی توڑتا جائے تو یہ روشنی ہی اس پر اندھیرا بن کر چھا جاتی ہے،جھوٹا آدمی اگر روشنی کی بات کرے جب بھی اندھیرے ہی پھیلائے گا، وہ علم جو عمل کر حصار میں نہ آ سکے اندھیروں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔

کیا نام دیں اْس علم کو جو انسانیّت کے کیے خطرہ بن گیا ، ہتھیار جانوروں کے ایجاد کیے گئے مگر انسان پر چلنے لگے، انسان کو مارا گیا، یہ کیسی ترقّی ہے؟ اس لیے اگر روشنی کی معرفت چاہیے تو اندھیروں کی پہچان کرنا ضروری ہے،روشنی کی جانب ایک قدم اٹھاؤ تو دوسرا خودبخود اٹھ جاتا ہے،خدا وند تعالیٰ کا قْرب مل جاتا ہے، روشنی کا شوق مل جائے تو روشنی خود انسان کی طرف تیزی سے سفر کرنا شروع کر دیتی ہے،جن لوگوں پر اﷲ مہربان ہوتا ہے اْنہیں خود ہی روشنی کا مسافر بنا لیتا ہے، بندہ کہتا ہے معلوم ہی نہیں ہو سکا یہ واقعہ کیسے ہوگیا، ؂
ایں ہمہ مہر و وفای کہ میان ِ من و توست
با خود آ وردم از آنجا نہ بخو د بربستم (خافظ شیرازیــؔ)