ماڈرن سٹیٹ کے ’اسلامی‘ حمایتیوں کے ساتھ ایک مکالمہ، - حصہ اول

ہر ’’ریاست‘‘ ایک طرح کا جبر ہوتی ہے، خصوصاً ابتداء میں؛ تاوقتیکہ وہ لوگوں کو اپنے ایک خاص ڈھب پر لے آئے اور ’’جبر‘‘ کی بجائے ایک ’معمول‘ نظر آنے لگے!

جو چیزیں آج آپ کو ’مستحکم‘ نظر آرہی ہیں وہ ابتداء میں ایسی نہ تھیں۔ اور جو آج ’مستحکم‘ اور ’نہ ہلنے والی‘ دکھائی دیتی ہیں ان میں سے بہت سی کل کو متروک اور مدفون پڑی ہوں گی۔ خدائی سنتوں اور طبعی امکانات کو کام میں لا کر یہاں جو تبدیلیاں بھی آپ برپا کردیں گے کل کو بہت سے لوگ ان کو ’حجتِ قاطعہ‘ جانیں گے؛ عین جس طرح آج کے بہت سے ’دیدہ ور‘ چند عشرے پیشتر کی تبدیلیوں developments کو ’حتمی وابدی‘ دیکھ رہے ہیں! ہمیشہ دنیا میں ایسے لوگ رہیں گے جو کتابِ تاریخ کے ہر ورق کو اُس کا آخری ورق جانیں۔ البتہ ایسے باہمت اور حوصلہ مند لوگ بھی یہیں ہوں گے جو اپنے ہاتھ سے تاریخ کا ورق الٹ کر جائیں۔ کچھ ابن الوقت اور کچھ ابو الوقت! کچھ تابع اور کچھ متبوع! ایک ہی نکیل؛ کسی کی ناک تو کسی کا ہاتھ! (انْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ) حضرت عمر بن العزیز� کا مشہور اثر ہے: إن اللیلَ والنھارَ یعملانِ فيكَ، فاعملۡ فيھما ’’اے ابن آدم! رات اور دن تجھ میں تبدیلیاں برپا کیے جاتے ہیں، تو بھی تو ان میں تبدیلیاں برپا کر‘‘! اور جبکہ ہمارے دین نے تو کارزارِ حیات کو دیکھنے کےلیے ہمیں ایک پرعزم و حوصلہ مند نظر دینے میں کمال کردی ہے: عَنۡ أَنَس بْن مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَبِيَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةٌ، فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَقُومَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فَلْيَفْعَلْ» (مسند احمد رقم 12981، صححہ الألبانی، السلسلۃ الصحیحۃ رقم 9) ’بروایت انس بن مالکؓ، فرمایا رسول اللہﷺ نے: جب قیامت آئے، اس حال میں کہ تم میں سے کسی کے ہاتھ میں ننھا سا پودا کاشت کرنے والا ہو تو اگر اٹھنے سے پہلے پہلے (ایک روایت میں: قیامت کے برپا ہونے سے پہلے پہلے) اسے کاشت کرسکے تو ضرور کردے‘‘۔

کارزارِ حیات کثیر پہلو ہے، ہم یہاں ’’ریاست‘‘ کی بات کریں گے۔ یہاں کی مستحکم سے مستحکم ریاست ایک وقت سے پہلے نہیں تھی۔ ’بڑے بڑے نشانات‘ دنیا میں بنتے بھی آئے اور مٹتے بھی۔ حوصلہ، نظر ، ہوش مندی، محنت، عزم، پامردی اور اجتماعی سپرٹ اِس دنیا میں بہت کچھ کروا دیتے ہیں اور قنوطیت، کم نظری، غفلت، بدنظمی، نامردی ہاتھ آئی ہوئی چیز گنوا دیتے ہیں۔ ریاست کو عربی میں ’’دولت‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا مادہ وہی ہے جو ’’تِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ‘‘ والا ہے۔ یعنی یہ ’’گردش‘‘ کرنے والی چیز ہے۔ اس میں پلٹ جھپٹ ہمیشہ چلتی ہے۔ کل یہ آپ کے ہاتھ میں تھی، آج کسی دوسرے کی چیز نظر آتی ہے، کل یہ پھر آپ کی ہوسکتی ہے۔ اصل چیز وہ ’’نظر‘‘ اور وہ ’’حوصلہ‘‘ ہے جو آپ کو میدان نہیں چھوڑنے دیتا۔ کیونکہ جو ہونا ہے میدان میں ہونا ہے؛ میدان سے باہر کچھ نہیں۔ یہاں اگر آپ کا کوئی دعویٰ ہی نہیں؛ یہاں کھیل میں آپ کوئی فریق ہی نہیں؛ تو ’نتائج‘ کی توقع کس بات پر؟! یہاں آپ ’موجود‘ کو مسترد نہیں کرسکتے تو ’مفقود‘ کےلیے جگہ پیدا نہیں کراسکتے۔ یہاں آپ کا کوئی مستقل بالذات کیس نہیں تو آپ کوئی فریق نہیں۔ ایک مضبوط ’’کیس‘‘ رکھنا، اُس پر ڈٹ کر دکھانا، قوم کو اس پر قائل کرنے کی قوت، ہمت اور صلاحیت لے کر آنا؛ ’’قافلہ‘‘ بننے کے حق میں پیشگی شرط ہے۔ غرض یہاں ایک فاعلیت درکار ہے۔ تھوڑے لوگ ہمیشہ بڑی بڑی آبادیوں کو رخ دیتے ہیں۔ ’مجمعے‘ کسی نہ کسی کا زیرنگر ہوتے ہیں! ’اکثریت‘ ہمیشہ ایک ’’جبر‘‘ کے تابع ہوتی ہے۔ اس سے کوئی مفر ہے ہی نہیں۔ اُس ’مجمعے‘ کی خوش قسمتی؛ اگر اس کی مہار تھام رکھنے والا ’’جبر‘‘ حق پر قائم اور اللہ ویومِ آخرت کا مومن ہے۔ اُس ’مجمعے‘ کی بدقسمتی؛ اگر وہ ’’جبر‘‘ باطل کا پیرو اور خلود و عُلوٌ فی الارض کا طلبگار ہے۔ مگر اِس ’’جبر‘‘ کے بغیر آج تک کوئی سوسائٹی نہیں دیکھی گئی؛ خواہ وہ ’’جبر‘‘ صریح اور صاف گو ہواور خواہ ’جمہوریت‘ ایسے کسی بہروپ میں۔ خوش سلیقہ ہو یا پھوہڑ۔ مہربان ہو یا سخت گیر۔ انسانی معاشروں کو کسی نہ کسی درجے کا ’’جبر‘‘ درکار رہتا ہے خواہ اس حقیقت کو آپ کتنا بھی گھما پھرا کر بیان کرلیں!

اِسی ’’جبر‘‘ کا نام آج کی زبان میں ’’ریاست‘‘ ہے؛ اور قطع نظر اس سے کہ اس کی صورت یا اس کی سیرت کیا ہو، یہ ایک انسانی ضرورت ہے۔ یہ اگر آپ نہیں کریں گے تو کوئی دوسرا کرے گا۔ یہاں ’’خلاء‘‘ پایا ہی نہیں جاسکتا۔ البتہ سوسائٹی میں پیدا ہونے والے بہت سے رویے اس چیز سے براہِ راست متعلق ہو جاتے ہیں کہ یہ ’’جبر‘‘ وہاں پر کیا صورت اور کیا سیرت رکھتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں یہ ’’جبر‘‘ سوسائٹی کے انتظام تک محدود نہیں رہتا بلکہ سوسائٹی کی تشکیل تک چلا جاتا ہے۔یہاں سے؛ ہر وہ نظریہ جو سوسائٹی کی تشکیل کرنے پر ایمان رکھتا ہے، اِس ’’جبر‘‘ کے ساتھ کسی نہ کسی انداز میں متعلقہ ہوجاتا ہے۔ سوسائٹی کو رخ دینے پر یقین رکھنے والا ایک نظریہ اِس ’’جبر‘‘ سے لاتعلق رہ ہی نہیں سکتا خصوصاً اگر وہ ’’جبر‘‘ جو اِس وقت سوسائٹی پر حاوی ہے سوسائٹی کے انتظام تک محدود نہیں بلکہ سوسائٹی کی تشکیل کرنے میں لگا ہے؛ یہ اگر غیر صالح ہے تو بالآخر یہ آپ کے بچے کی نماز اور حیاء تک کا کام تمام کرکے رہے گا۔ کیونکہ یہ سوسائٹی کو ڈیزائن ہی اس طرح کرے گا جہاں آپ کے نونہال کی نماز اور حیاء کےلیے اس کی مزاحمت دشوار سے دشوار تر ہوجائے؛ اور آخر دم توڑ جائے۔ پس معاشرے میں پنپنے والے رویے، اخلاق، اقدار سب کا تعلق بڑے قوی طور پر اِسی ’’جبر‘‘ سے ہے جس کو آج آپ ’’ریاست‘‘ کہتے ہیں؛ یہ ’’جبر‘‘ اگر اللہ و یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اور انبیاء سے اعراض پر قائم ہے (جوکہ فساد فی الارض کی بدترین صورت ہے) تو معاشرے میں آپ جتنی بھی ’نیکی کی تبلیغ‘ کرتے رہیں آپ کا وہ سب وعظ (کچھ خواص کو چھوڑ کر) ایک عمومی سطح پر بےاثر رہے گا؛ جیسا کہ اس وقت آپ بچشمِ سر دیکھ رہے ہیں۔ اور اگر یہ ’’جبر‘‘ اللہ و یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا اور رسالتِ آسمانی کا پابند ہے تو سوسائٹی میں ہر طرف پھول کھلیں گے اور تھوڑی سی ’تبلیغ‘ بھی یہاں ڈھیروں اثر دکھائے گی؛ لوگوں کے ایمان اور اخلاق پر حملہ آور بہت سے فتنے تب ’’ریاستی مزاحمت‘‘ کا سامنا کریں گے اور بہت سی نیکی ’’قوتِ نافذہ‘‘ کے حرکت میں آنے سے پہلے ’’تعلیم‘‘ اور ’’ابلاغ‘‘ کے ذریعے ہی نفوس میں انڈیل لی جائے گی۔ اِس لحاظ سے وحیدالدین خان اور ان سے وابستہ دبستان کا کیس جو صالحین پراِس ’’امامت‘‘ کو فرض نہیں ٹھہراتا اور اِس کو صالحین کے معاشرے میں سرگرم ہونے کے اہم ترین میدانوں میں نہیں گنتا بلکہ طریقوں طریقوں سے اس کی حوصلہ شکنی کرتااور اس کو دین میں ایک تجاوز قرار دیتا ہے، کچھ واضح شرعی و عمرانی حقیقتوں کے ساتھ تصادم ہے اور ایک کھلا مکابرہ۔

یہ جبر جس کو آج کی زبان میں ’’ریاست‘‘ کہا جاتا ہے ، اِن حضرات کے ہاں معاشرے کو رخ دینے کے دعویدار ہر نظریے کے حق میں آج تسلیم ہوتا ہے سوائے اسلام کے!

ہمارے ’اسلامی‘ ہیومنسٹوں کی نظر میں یہ ’’جبر‘‘ سو فیصد جائز اور برحق ہے سوائے جب ’’خلافت‘‘ اور ’’اسلامی امارت‘‘ کی بات ہو؛ ہاں اُس وقت یہ ’’جبر‘‘ حرام ہوجاتا ہے!

یہ ’’جبر‘‘ جو ’جدید ریاست‘ آج آزما رہی ہےتاریخ کا بدترین جبر ہے؛ کیونکہ ’’جبر‘‘ کو اتنی ’’سائنٹیفک‘‘ بنیادیں کبھی دی ہی نہ گئی تھیں۔ دماغوں کو زنجیروں میں کس دینے کے ایسے حیرت انگیز کمالات اس سے پہلے کبھی دیکھے نہ گئے تھے۔ اِس کا جبر ہزارہا پہلو رکھتا ہے جو آپ کے بچے کی درسی کتاب یا ٹی وی میں دیکھے جانے والے (بظاہر معمولی) کارٹون کے مندرجات سے لے کر جنرل اسمبلی میں جاری ایک سنگین بحث تک کڑی در کڑی جڑا ہوا ہے۔ پورا کرۂ ارض آج ایک خاص عالمی ایجنڈا کی جکڑ میں ہے؛ یہاں کے سب تعلیمی، ابلاغی، معاشی، سیاسی، ثقافتی قضیے ایک دوسرے میں الجھے ہوئے ہیں اور اس بنیاد پر ایک ہی ’’جامع‘‘ حل چاہتے ہیں (ان میں سے کسی ایک میدان کو باقی میدانوں سے الگ کرکے آپ کوئی حل دے ہی نہیں سکتے؛ بلکہ یہ ایک ’پیکیج‘ ہے جس کے مقابلے پر آپ کو بھی ’’پیکیج‘‘ ہی لانا ہوگا)۔ نیز ان قضیوں کی مقامی جہتیں یکایک ان کی عالمی جہتوں سے جا ملتی ہیں اور ان کی عالمی جہتیں بےساختہ یہاں گلی محلوں کی سطح پر بولتی ہیں؛ چنانچہ ان میں سےایک ایک قضیہ بیک وقت مقامی بھی ہے اور عالمی بھی۔ غرض معاملہ کسی ایک ملک کا نہیں (گو اِس ہڑبونگ کا میدان ہمارے ہی ممالک ہیں)؛ پوری زمین کا پانسہ پلٹنے کی سطح پر آیا ہوا ہے۔ بلکہ وہ اپنے تئیں یہ پانسہ پلٹ چکے؛ صرف اس کو ’’برقرار‘‘ رکھنے کے مراحل کی جنگیں لڑنے میں مصروف ہیں۔ یہاں سے؛ اِس ’’جبر‘‘ کے مقابلے پر ہماری ’’الجماعۃ‘‘ (معروف تر لفظوں میں ’’خلافت‘‘) اور بھی متعلقہ ہوجاتی ہے۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں مینڈکوں کا جو ’کردار‘ ہوسکتا ہے وہ ہر کسی کو معلوم ہے۔ یہاں لامحالہ آپ کو ’’ہاتھیوں‘‘ کی سطح پر آنا ہے؛ ورنہ آپ کا انجام نوشتۂ دیوار ہے۔ اس کےلیے:
1. ایک تو آپ کا اپنا پیکیج بھی جامع ہونا چاہئے؛ کیونکہ آپ کو اگر محض کوئی ایک آدھ میدان ہی درست کرنا ہے تو یہ معرکہ آپ کے لڑنے کا نہیں۔ یہ سب میدان کڑی در کڑی جڑے ہوئے ہیں؛ ان سے الگ الگ نمٹا ہی نہیں جاسکتا۔ اُدھر ’’پیکیج‘‘ ہے تو اِدھر بھی لامحالہ ’’پیکیج‘‘ ہی ہونا چاہئے۔ یہاں الحمد للہ آپ کا ’’دین‘‘ آپ کو جو جامعیت دیتا ہے اُس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔
2. دوسرا، آپ کو بھی ایک ’’عالمی فنامنا‘‘ ہونا ہے۔ آپ اگر کوئی ایک آدھ ’خطہ‘ ہیں تو اِس بےرحم عفریت کے ہاتھوں آپ کی موت یقینی ہے۔ یہاں آپ کی خوش قسمتی؛ آپ ایک ’خطہ‘ نہیں آپ ایک ’’امت‘‘ ہیں جو آج زمین کے اہم ترین مراکز پر بیٹھی اور زمین کے اعلیٰ ترین و زرخیز ترین وسائل کی مالک ہے۔ آسمانی شریعت کی امین۔ تین براعظموں کا سنگم جو باقی امتوں کو بڑی آسانی سے ’’حاشیائی‘‘ marginalize کردیتا ہے۔ جب یہ ایک عالمی ’’جبر‘‘ ہے تو اس کا مقابلہ کرنے کےلیے آپ کو ایک عالمی ’’مزاحمت‘‘ ہی لانا ہوگی؛ کوئی ’علاقائی‘ مزاحمت اس کے قدم ہلانے کی طاقت نہ رکھے گی۔ یہاں؛ ’’الجماعۃ‘‘ کا احیاء ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ڈیڑھ ارب انسان کو مل کر آج اپنا آپ رہا کروانا ہوگا۔
تو پھر یہ دو چیزیں ہوئیں جو آپ کو اِس عالمی درندے کی ٹکر کا بناتی ہیں بلکہ اس کے مقابلے پر آپ کو بالادست کرتی ہیں: ایک آپ کا ’’دینِ جامع‘‘ رکھنا اور ایک آپ کا ’’امت‘‘ ہونا۔

’’خلافت‘‘ یا ’’جماعت‘‘ جس چیز کا نام ہے ظاہر ہے وہ اِسی ’’دین‘‘ اور اِسی ’’امت‘‘ پر قائم ہوتی ہے۔ یعنی اس کا دستور: ’’دین‘‘۔ اور اس کا دائرہ: ’’امت‘‘۔ دونوں سے اُس مفسد فی الارض کی جان جاتی ہے۔ اِس ’’دین‘‘ کو وہ سیکولرزم کی قید ڈالتا ہے اور اِس ’’امت‘‘ کو نیشنلزم کی۔ (نیشنلزم کے ساتھ ساتھ، جوکہ آنے والے دنوں میں اُس کے ایجنڈا کے اندر شاید بوجوہ فٹ نہ بیٹھے، اب وہ گلوبلزم، انسان پرستی، میکڈانلڈ کلچر، ملٹی نیشنلز، اور تقاربِ ادیان کو لے آیا ہے)۔ غرض وہ اپنے تعلیمی وابلاغی ’’جبر‘‘ کو کام میں لا کر، نیز ’’جبر‘‘ کے سیاسی ومعاشی وعسکری ہتھکنڈے استعمال کرکے، سیکولرزم کو ہماری گھٹی میں اتار رہا ہے جس سے ’’دین‘‘ عبادت خانے میں محصور ہوجائے۔ پھر ’’جبر‘‘ کے انہی ہتھکنڈوں کو اختیار کرکے، ایک دوسری سطح پر ایسی صورتحال تخلیق کرتا ہے کہ اس ’’عبادت خانے‘‘ سے بھی لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اچاٹ کردیا جائے اور ان کے ’فارغ اوقات‘ کو ’’مصروف‘‘ کرنے کےلیے ان کو اتنی کچھ لغویات دے دی جائیں کہ پھر بھی جس نوجوان کا جی مسجد ہی میں لگے وہ کوئی خدا کا بہت بڑا ولی ہو۔ یعنی ایک سطح پر یہ ’’دین‘‘ کو عبادت خانے میں قید کروائے گا تو دوسری سطح پر عبادت خانے کو ’’انسانوں‘‘ سے خالی کروائے گا؛ یوں دین کو صرف ’’امورِ ریاست‘‘ سے نہیں بلکہ ’’معاشرے‘‘ سے ہی باہر کر کے آئے گا! پس ’’دین‘‘ اُس مفسد فی الارض کا سب سے پہلا نشانہ ہے اور ’’امت‘‘ دوسرا۔ ویسے تو ہم اُسے کسی بھی شکل میں اچھے نہیں لگتے لیکن ’’مسلم امت‘‘ نامی چیز کو اِس دنیا سے رخصت کرانے کےلیے؛ ہم اُسے ’پاکستانی‘ کے طور پر بڑے اچھے لگیں گے، افغانی، بنگالی، ایرانی، کویتی، سعودی، اماراتی ایسے ہر روپ میں بھلے لگیں گے، البتہ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک کے انسانوں کا اپنے آپ کو صرف اور صرف ’’مسلمان‘‘ کے طور پر دیکھنا اُس کے اوسان خطا کرتا ہے۔ لہٰذا وہ ہماری اِس پہچان کو مٹانے کےلیے ’’جبر‘‘ کے سب ذرائع جھونک دینے پر آمادہ ہے۔

پس یہ ’’دین‘‘ اِس ’’امت‘‘ کے بغیر، اور یہ ’’امت‘‘ اِس ’’دین‘‘ کے بغیر آج ایک عظیم خطرے میں ہے۔ ’’دین‘‘ کے حصے بخرے ہوں گے تو وہ ہماری موت۔ ’’امت‘‘ کے حصے بخرے ہوں گے تو وہ ہماری تباہی۔ اور یہ ’’دین‘‘ اور یہ ’’امت‘‘ ایک دوسرے سے الگ ہوں گے تو وہ ہماری ہلاکت۔ اِس ’’پیکیج‘‘ کو ایک رکھنا آج ایسے ہی ہے جیسے پانچ نحیف انگلیاں مل کر ایک مضبوط مکہ بنیں اور اپنی حرمتوں پر حملہ آور کسی ظالم کے دانت توڑ ڈالیں۔ ہمیں ’’عَلَیۡکُمۡ بِالۡجَمَاعَۃِ‘‘ کا حکم جس شریعت نے دیا ہے، اُس کو نازل کرنے والا جانتا تھا کہ ’’جبر‘‘ ایک انسانی ضرورت اور عمرانی حقیقت ہے،اور یہ بھی کہ روئے زمین پر شرک اور توحید کا آمناسامنا ایک دائمی و آفاقی عمل ہےجس کو کسی ایک دن کےلیے نہیں تھمنا۔ پس وہ دنیا جہاں ’’شرک‘‘ اور ’’خدا سے اعراض‘‘ تو کیل کانٹے سے لیس، پورے روئے زمین پر پھیلے ایک دیوہیکل تعلیمی نظام اور ایک حیرت انگیز ابلاغی مشینری کا مالک ہو، کروڑوں کی تعداد میں افواج، ہتھیار، معیشتیں ، انٹیلی جنسیں، منصوبہ ساز ادارے اور پرشکوہ ایوان رکھتا ہو… البتہ دوسری طرف ’’توحید‘‘ اور ’’خدا پر ایمان‘‘ کو صرف ’’فرد‘‘ کے طور پر ہی سامنے آنے کا حق ہو نہ کہ ایک ’’جماعت‘‘ کے طور پر؛ بلکہ ’’فرد‘‘ سے بڑھ کر کسی حیثیت میں آنا یا ایسی کسی ’’حیثیت‘‘ کا دعویٰ رکھنا اُ س کے حق میں ’بدعت‘ اور ’انحراف‘ ہو… آخر سیدھے لفظوں میں یہ کیوں نہ کہا جائے کہ اُس دنیا میں’’توحید‘‘ اور ’’خدا پر ایمان‘‘ کو پنپنے کا حق ہی نہیں ہے اور وہ دنیا درحقیقت ہے ہی فساد کی قوتوں کےلیے؛ اس کی تعمیر کسی ’’حق‘‘ پر ہوئی ہی نہیں ہے؛ اور اہل حق وہاں ہیں ہی دھکے کھانے کےلیے: }وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ (الانفال: 73)’’اور کافر لوگ ایک دوسرے کا جتھہ ہیں (مسلمانو!) اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں ایک فتنہ ہوگا اور ایک فسادِ کبیر‘‘{۔ اور آج بلاشبہ مسلمانوں کی آپس کی جتھہ بندی (ولایت)، جوکہ ’’جماعت‘‘ کا معنیٰ دینے میں قوی ترین ہے، موقوف ہونے کے باعث، زمین فساد سے بھر گئی ہے۔
*****
پس وہ ’’جبر‘‘ جو اللہ، یومِ آخرت اور رسالتِ آسمانی کو پہچان کر دینے کا روادار نہیں وہ باطل جبر ہے؛ اس کی مزاحمت ہوگی۔ہاں وہ ’’جبر‘‘ جو ’’اللہ، یوم آخرت اور رسالتِ آسمانی‘‘ پر ایمان رکھے، اُس کی اطاعت فرض ہوگی۔ البتہ ’’جبر‘‘ زمین میں ہر دو حال کے اندر پایا جائے گا؛ اور آپ کو لامحالہ اِن دو میں سے کسی ایک ’’جبر‘‘ کو اختیار کرنا ہوگا۔
*****
چنانچہ آج ہر طرف ہمیں اُس ’’جبر‘‘ کا سامنا ہے جو ہمیں خدا کی ’’بندگی‘‘ سے نکال کر اوروں کی ’’بندگی‘‘ میں دینے جا رہا ہے؛ اور ہزارہا محور پر کام کر رہا ہے۔یہاں تک کہ اِس ’’جبر‘‘ کا سامنا ہماری اُن ’قومی ریاستوں‘ کو ہے جو اسلام کو اپنی ترکیب سے ’’مکمل‘‘ طور پر خارج کردینے پر آمادہ نہیں۔ بلکہ اِس ’’جبر‘‘ کا سامنا ہماری اُن ریاستوں کو ہے جو اپنے نظامِ مملکت سے اسلام کو سو فیصد باہر رکھے ہوئے ہیں مگران کی ’’آبادی‘‘ اپنے آپ کو مسلمان کہتی اور اپنے یہاں آئینِ خداوندی (الکتاب) کی خالی تلاوت کرتی ہے۔ (یہ بھی کیوں ہے؟!) ’ماڈرن سٹیٹ‘ کے نام پر یہاں ان سب معاشروں کو اُس نقطے تک پہنچنا ہےجہاں وہ مُفسِد فی الارض اہلِ زمین کے مابین سوفیصد مطاع اور پیشوا ہو اور دنیا ’’صرف‘‘ اُس کا کلمہ پڑھے۔ یعنی یہ ’’جبر‘‘ (’’مزاحمت‘‘ نہ ہونے کی صورت میں) مسلسل بڑھے گا اور زیادہ سےزیادہ ’’خالص‘‘ اطاعت کا مطالبہ کرے گا۔ اِس کا “do more” کا مطالبہ ہزار پہلو سے ہے۔ پس وہ لوگ جو فساد فی الارض کی اِس منظم ترین تحریک کا کھلا انکار کرکے آج اپنے آپ کو مرنے کےلیے پیش کریں گے اور فی الحال غیروں سے پہلے ’’اپنوں‘‘ سے ہی اس پر برابھلا سنیں گےوہ خود اِن برابھلا کہنے والوں کے اور پورے عالم اسلام کے محسن ہوں گے؛ بلکہ کوئی وقت آئے گا کہ پوری انسانیت ان کی احسانمند ہوگی؛ کیونکہ باطل کی خدائی تمام بنی نوعِ انسان کےلیے عذاب ہے۔
*****
البتہ ہماری گفتگو یہاں ماڈرن سٹیٹ کے ’اسلامی‘ حمایتیوں کے ساتھ ہورہی ہے جن کا لازم القول یہی بنے گا کہ یہ ’’جبر‘‘ دنیا میں باطل کرے تو روا، اور اگر حق کرے تو ناروا ہے… اِلّا یہ کہ ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ کی تعریف ہی ہیومن اسٹ پیراڈائم سے لی جائے! ہاں اگر ’’حق‘‘ سے مراد ’’خدا کی اتھارٹی‘‘ ہو اور ’’باطل‘‘ سے مراد ’’مخلوق کی اتھارٹی‘‘ ہو تو ’’حق‘‘ کےلیے اُس عمرانی ضرورت کی صورت دھارنا جسے آج کی زبان میں ’’ریاست‘‘ کہا جاتا ہے حرام اور ’’باطل‘‘ کےلیے واجب ہے! وہ ’’جبر‘‘ جو انسانی سنت ہے، جس کے بغیر نہ خاندان چل سکتا ہے، نہ محلہ، نہ شہر، نہ دفتر، نہ مدرسہ، نہ ادارہ، نہ ملک اور نہ یہ پورا گلوب کوئی توازن پاسکتا ہے… یعنی ہر ہر سطح پر انسانی زندگی کو ایک ڈسپلن یا ایک ضبط اور توازن درکار ہے… وہ جبر ’’کتاب اللہ‘‘ کو آئین ماننے اور ’’مالکِ یوم الدین‘‘ پر یقین رکھنے والوں کے حق میں تو قطعی حرام اور ابتداع ہے (وحیدالدین خانی دبستان: ’’جماعت‘‘ اور ’’خلافت‘‘ کا دین میں کوئی تصور ہی نہیں، محض انتہاپسندوں کی اختراع ہے!)۔ جبکہ دینِ خداوندی (’’دین‘‘ بمعنی آئین اور ’’دین‘‘ بمعنیٰ جوابدہی، ہردو) کو نہ ماننے والوں کے حق میں بالکل درست! حالانکہ کہاں وہ ’’جبر‘‘ جو خدا پر ایمان رکھنے والی ’’الجماعۃ‘‘ کی صورت میں پیش آتا ہے اور کہاں وہ ’’جبر‘‘(بلکہ دھونس) جو ’ماڈرن سٹیٹ‘ کی صورت میں سامنے آتی ہے اور جس کی ٹکر لامحالہ دینِ انبیاء کے ساتھ ہوتی ہے جس کی وجہ: ایک تو یہ کہ باطل کی ساخت ہی میں حق سے ایک خوف اور عدم تحفظ رکھ دیا گیا ہے، اور دوسری یہ کہ انسانیت سے اس کے شر کو دفع کرنے کی صلاحیت صرف اِس دینِ انبیاء کے اندر رکھی گئی ہے۔ یہ دو حقیقتیں ایک ہی نتیجے پر لےجاتی ہیں اور وہ یہ کہ اُن کی یہ جنگ صرف وقت کے نبی اور اس کے دین اور اس کی امت کے ساتھ رہ جائے خواہ اس کو ڈپلومیٹک زبان کے جتنے مرضی پھیر دے لیے جائیں۔

پس اِن دونوں کے ’’جبر‘‘ میں کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ حق اور باطل کے مابین بھلا کیا موازنہ ہوسکتا ہے…؟!
ہمارا منتہا خدا کی ذات … اور اُن کا منتہا خود اُن کو معلوم نہیں!
Khalid Mahmood
About the Author: Khalid Mahmood Read More Articles by Khalid Mahmood: 24 Articles with 47918 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.