بیوی vs ٹی وی

ٹی وی اور بیوی یہ دو ایسی چیزیں ہیں جن کے بغیر کسی ذی روح کا گزارہ بھی ممکن نہیں ہے مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں کا بولنا عجیب تر اور چپ رہنا عجیب ترین ہے۔ دونوں کو بلانے سے خوف اور ان کے بولنے پر خوف کدا یاد آئے۔ اگر آج تک کوئی بھی تاریخ کی حیران کن پریشان کن دریافت و ایجاد ہے تو وہ یہ دونوں ہی ہیں۔ ان دونوں کے بنا گھر سونا اور ان دونوں کے سنگ ڈراؤنا۔ صبح سے جو بولنا شروع کریں رات گئے تک بھی تھکے بغیر نان سٹاپ بول سکتے ہیں دونوں۔ دونوں کو لانے سے پہلے ان کے فوائد نضر آتے ہیں اور آنے کے بعد وہ فوائد ڈھونڈے سے بھی نہیں یاد آتے۔

شاید ہی کوئی گھر ہو جو ان دونوں کے بناء ہو ان دونوں نے ہی حضرت انسان کو جتنا تنگ کر رکھا ہے اس کی مثال آج سے پہلے تاریخ میں نہیں ملتی دونوں کی ہی سب سے مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ دونوں ہی ہر چیز کے منفی پہلو اجاگر کرنے میں کمال رکھتے ہیں اگر زندگی میں رنگینی بھی اور سنگینی ذیادہ ان دونوں کے وجود سے ہی ہے۔ اگر ان دونوں کو زندگی سے باہر کر دیا جائے تو دونوں ہی کی غیر موجودگی کی خوشی ذیادہ دن برداشت نہیں ہو سکتی اور تھوڑے دن بعد پھر گھر میں موجود ہوں گے مگر مسئلہ یہ ہے کہ دونوں کو نکالنا اتنا بھی آسان نہیں ہے جتنا کہ لانا-

ٹی و ی کی ایجاد اور بی وی کے وجود کے معرض وجود میں آنے تک کے وقت کو دیکھا جائے تو آج تک دونوں ہی نے رائے کی تشکیل اور بچوں کی پرورش میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب بھی بچہ بگڑ جائے تو ان دونوں کے سر ہی سہارا باندھا جاتا ہے۔ اگر یہ دونوں سدھر جائیں تو ان دونوں کے 'اونر' کو کریڈ ٹ دیا جاتا ہے۔ کوئی کام برا ہو اگر کوئی کام لیٹ ہو اگر تو ان دونوں پر ہی الزام دھرا جاتا ہے۔ ان دونوں کا غلام جو بھی بن جائے ان کے سحر سے چھٹکارا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے آخر کو ان دونوں کا ہی کام اپنے جال میں بھنسا کت زلف گرہ گیر سے باندھ کر رکھنا ہوتا ہے۔

اگر آج کے دور میں بات کی جائے تو ان دونوں کا اختیار ہی معاشرے میں بڑھتا جا رہا ہے اور ان دونوں کا ہی مقصد یہ ہوتا ہے کہ صرف ان کی سنی جائے اور ان کے نقطہ نظر کو ہی سمجھا جائے اور ان کی ہاں میں ہاں ملائی جائے اگر عملی طور پر دیکھا جائے تو اکثریت کی ہی مانی جاتی ہے تو جیسے جیسے ان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ان کی رائَے ٹھیک یا غلط کے تناظر سے ہٹ کر جگہ بنانے میں کامیاب نظر آٹی ہے پھر اگر تو دیکھا جائے تو ان دونوں کا ہی کام تو آخر رائے دہی ہی تو ہے۔

کچھ جیالے ایسے بھی ہیں جو کہ ان کی گھر میں تعداد ایک سے ذیادہ رکھتے ہیں اور پھر ان کے گھر جو حالات ہو جاتے ہیں خرچے کے اور امن و امان کے اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں مگر یہ بات طے ہے کہ ان کو ایک سے ذیادہ افورڈ کر پانا کسی کمزور دل و جگر والے کا کام نہیں ہے اور ہر ایک کا کپ آف ٹی بھی نہیں ہے۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 273346 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More