حضرت عبداللہ بن مسعود (رض)

حضرت عبداللہ بن مسعود اُن خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جن کا شمار﴿ السابقون الاولون ﴾میں ہوتاہے اور ان کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ آپ اُن چھ لوگوں میں سے ایک ہیں جو آپ (ص)کے دارارقم میں داخل ہونے سے پہلے ایمان لاچکے تھے ، یہ سعادت بھی انہی کو حاصل ہے کہ آپ کاشمار عبادلہ اربعہ میں سے ہیں جن کا قرآن کریم اور حدیث رسول کی خدمات کے حوالے سے ایک خاص مقام ہے یہ وہ جلیل القدر صحا(رض)بی وہ ہیںجن کو افقہ الصحابہ کے نام سے تاریخ اسلام کے اندر رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا،علم وفضل کی گہرائی اور فقہ پر دسترس کا یہ عالم تھا کہ اگر نبی اکرم (ص)کے دور کے فقہی صحابہ کرام(رض) کی ایک مختصر فہرست بھی بنائی جائے تو حضرت عبداللہ بن مسعود(رض) کو کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں!
﴿ من کان مستنًافلیستنّ بمن قدمات فانّ الحیّ لاتئومن علیہ الفتنۃاولائک اصحاب محمّدٍکانو اعمقھاعلمًا وابرّھاقلوبًا واقلّھاتکلّفًا اختار ھم اللہ لصحبۃ نبیّہ ولاقامۃدینہ فاعرفو لھم فضلھم واتّبعو علی اثرھم وتمسّکو بما استطعتم من اخلاقھم وسیرھم اولائک کانو علی ھدًی مّستقیم﴾﴿1﴾
ترجمہ﴿ آپ میں سے جو لوگ کسی کی تابعداری کرنا چاہتے ہیں تو وہ اُن لوگوں کی تابعداری کریں جو فوت ہو چکے ہیں﴿اس لیے کہ زندہ لوگ فتنوں سے محفوظ نہیں ہوتے ہیں﴾اور یہ وہ لوگ جو رسول اللہ کے صحابہ تھے یہ لوگ گہرا علم رکھنے والے تھے اُن کے دل صاف تھے اور وہ تکلف کم کرتے تھے اُن کو اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم öکی صحبت کے لیے اور اقامت دین کے لیے چُنا تھا،آپ ان لوگوں کی فضیلت کو سمجھ لیں اور ان کے نقش قدم پر چلیں اور جس قد ر ہوسکے اُن کی سیرت اور اخلاق کو مضبوطی سے تھام لیںکیونکہ وہ لوگ ہدایت یافتہ ،صراط مستقیم پر تھے﴾

اور اگر فقہ حنفی کی بات کی جائے تو ان کے لیے بھی ایک اعزاز ہے کہ فقہ حنفی کی تعلیمات اور روایات کا مرجع ومنبع جناب حضرت عبداللہ بن مسعود(رض)کی ذات گرامی ہے ان کی علمی خدمات کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی(رض) کو فہ کی ایک گلی سے گزر ہے تھے کہ کچھ عورتوں کو مسائل پر گفتگو کرتے سنا تو فرمایا۔
ٔٔٔٔٔٔ ﴿رحم اللہ ابن مسعود ملًاالکوفۃباالعلم﴾﴿2﴾
’’اللہ تعالیٰ ابن مسعود پر رحم فرمائے ،انہوں نے کوفہ کو علم سے بھر دیاہے ،،

یہ حضرت عبداللہ بن مسعود(رض)کی فقہی بصیرت تھی جو ان کے شاگردوں علقمہ اور ابراہیم نخعی کے ذریعے امام اعظم ابو حنیفہ(رح) تک پہنچی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پور ی دنیا میں پھیل گی اور مسلم دنیا کی ایک بہت بڑی تعداد فقہ حنفی سے وابستہ ہے امام ابوحنیفہ(رح) کی یہ عظیم الشان اورشاہکار فقہی بصیرت حضرت عبداللہ بن مسعود(رض)کی مرہون منت ہے۔

’’آپ کانام:عبد للہ،کنیت:ابو عبد الرحمان،والد کا نام:مسعوداور والدہ کا نام ام عبد تھا ۔
شجرہ نسب یہ ہے :عبد اللہ بن مسعود بن غال بن حبیب بن شمنح بن فاربن مخزوم بن مساہلہ بن کاہل بن الحارث بن تمیم بن سعدبن نہدیل بن مدرکہ بن الیاس بن مضر،،۔﴿3﴾

ایام جاہلیت میں جب آپ (رض)ابھی بچے تھے تو عموما بھیڑ بکریاں چراکر گزر بسر کرتے تھے یہ کام کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے اُس وقت اُمرائ اور شرفائ کے بچے بھی یہ کام کرتے تھے۔گویا اُس زمانے میں سادگی،جفاکشی ،محنت اور راست بازی کا عملی درس دیاجاتا تھا۔مکہ میں آپ (ص)نے جب کئی خدائوں کو ماننے والو ںکو ایک خداکو ماننے کی دعوت دی تو اُس وقت وہ ایک کم سن اور قریب البلوغ لڑکے تھے۔ وہ روزانہ مکہ کے ایک رئیس عقبہ ابن معیط کی بکریوں کو لے کر انہیں چرانے کے لیے انسانی آبادی سے دور مکہ کی پہاڑیوں اور وادیوں کی طرف نکل جایا کرتے تھے دلچسپ بات یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود(رض) کا بکریاں چرانا اُن کے نور اسلام سے مشرف ہونے کاذریعہ بنا۔اپنے ایمان لانے کا واقعہ وہ اپنی زبانی بیان کرتے ہیں۔

ایک روز عبداللہ بن مسعود(رض) نے دور فاصلے پر اُدھیڑ عمر کے دو آدمیوں کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا جو تکان سے چور اور تھکاوٹ سے نڈھال ہونے کی وجہ سے بہت آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور شدت تشنگی کے مارے ان کے ہونٹ اور حلق سوکھ کر کانٹا ہو رہے تھے۔ وہ دونوں اس کے قریب پہنچ کر رکے۔ اسے سلام کیا اور بولے:
’’لڑکے! ہمارے لیے ان بکریوں کا دودھ دوھو ! جس سے ہم اپنی پیاس بجھا سکیں اور اپنی رگوں کو تر کر سکیں۔‘‘﴿4﴾
’’میں ایسا کرنے سے معذور ہوں۔ میں ان بکریوں کا دودھ آپ کو نہیں پیش کر سکتا کیونکہ یہ میری نہیں ہیں بلکہ میر ی امانت میں ہیں۔ میں ان کا مالک نہیں‘ امین ہوں۔‘‘﴿5﴾

لڑکے کا جواب سن کر ان دونوں نے کسی قسم کی ناگواری یا ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ان کے چہروں سے ظاہر ہو رہا تھا کہ انھوں نے اس جواب کو پسند کیا ہے۔ پھر ان میں سے ایک آدمی نے کہا :
’’اچھا کسی ایسی بکری کی نشاندہی کرو جس نے کبھی بچہ نہ دیا ہو۔‘‘ لڑکے نے اپنے قریب ہی کھڑی ایک چھوٹی سی بکری کی طرف اشارہ کر دیا۔ وہ آدمی اس کے قریب گیا۔ اسے پکڑا اور اللہ کا نام لے کر اس کے تھن پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ لڑکے نے حیرت کے ساتھ دیکھا اور اپنے دل میں کہا کہ ایسا کیونکر ہو سکتا ہے کہ ایسی بکریاں جو کبھی گابھن نہ ہوئی ہوں‘ دودھ دینے لگیں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بکری کا تھن پھول کر بڑا ہو گیا اور اس میں تیزی کے ساتھ دودھ بہنے لگا۔ دوسرے آدمی نے زمین پر پڑا ہوا ایک پیالہ نما گہرا سا پتھر اٹھا کر اسے دودھ سے بھر لیا پھر اس دودھ کو ان دونوںنے پیا اور لڑکے کو بھی پلایا۔ عبداللہ بن مسعود (رض)نے بتایا کہ اپنی آنکھوں کے سامنے پیش آنے والے اس واقعے پر مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ جب ہم سب لوگ اچھی طرح آسودہ ہو گئے تو اس بابرکت شخص نے بکری کے تھن سے کہا ’’سکڑ جا‘‘ اور وہ سکڑتے سکڑتے اپنی اصلی حالت پر آگیا۔ اس وقت میں نے اس بابرکت شخص سے کہا :
’’وہ کلمات جو آپ نے ابھی کہے تھے‘ ان میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیجئے۔‘ تو اس نے کہا:
اَنْتَ غُلَامُ، مُعَلّمُ،﴿6﴾
’’تم ایک سکھائے پڑھائے لڑکے ہو۔‘‘

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیںکہ بدر کے دن حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے پوچھاکہ تم ان قیدیوں کے بارے میں کیا کہتے ہو؟حضرت ابو بکر(رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ کہ یہ لوگ آپ کی قوم اور خاندان کے ہیں ان کو معاف فرماکر نرمی کا معاملہ فرمائیںشاید اللہ تعالی ٰ ان کو شرک سے توبہ کی توفیق عطائ فرمائے۔پھر حضرت عمر(رض)نے عرض کیا یا رسول اللہ ان لوگوں نے آپ کو جھٹلایا اور تنگ کیا ہے آپ ان کی گردنیں اڑا دیں۔پھر حضرت عبد اللہ بن رواحہ(رض) نے رائے پیش کی کہ یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آپ گھنے درختوں والا جنگل تلاش کریں اور ان کو اس میںداخل کرکے آگ لگا دیں،آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سب کی رائے سنی مگر کوئی فیصلہ نہ فرمایا اور اپنے خیمے میں تشریف لے گئے ،لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے کہ اب دیکھیں کس کی رائے پر عمل ہوتا ہے،تھوڑی دیر بعد آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خیمے سے باہر تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے دلوں کو اتنا نرم فرمادیتے ہیں کہ وہ دودھ سے بھی زیادہ نرم ہوجاتے ہیں اور بعض لوگوں کے دل کواتنا سخت کر دیتے ہیں کہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں۔
اور اے ابوبکر(رض) تمہاری مثال حضرت ابراہیم(ع) جیسی ہے کہ انہوںنے فرمایاتھا .
﴿فمن تبعنی فانہ منی ومن عصانی فانک غفور رحیم﴾﴿7﴾
ترجمہ:پھر جو شخص میری راہ پر چلے گا وہ تو میر ا ہی ہے اور جو شخص میر ا کہنا نہ مانے سو آپ توکثیر المغفرت ،کثیر الرحمۃہیں۔
اور اے ابوبکر(رض) تمہاری مثال حضرت عیسیٰ جیسی ہے انہوں نے فرمایا تھا۔
﴿ان تعذبھم فانک عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم﴾ 8﴾
ترجمہ ۔اگر توان کو سزادیں تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر ان کو معاف فرمادیںتو آپ زبرد ست حکمت والے ہیں۔
اور اے عمر(رض) تمہاری مثال حضرت نوح(ع) جیسی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا۔
﴿رب لاتذرعلی الارض من الکافرین دیارا﴾﴿9﴾
ترجمہ:اے رب !میںپر منکروں کا ایک بھی گھر بسنے والا نہ چھوڑیے۔
اور اے عمر (رض) تمہاری مثال حضرت موسیٰ (ع)جیسی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا۔
﴿ربنا اطمس علی اموالھم واشدد علی قلوبھم فلا یومنو حتی یرو العذاب العلیم﴾﴿10﴾
ترجمہ:اے ہمارے رب !ان کے مالوں کو نیست ونابود کردیجیے اور ان کے دلوں کو زیادہ سخت کر دیجیے سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ عذاب الیم کے مستحق ہو کر اس کو دیکھ لیں۔
پھر حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چونکہ تم ضرورت مند ہو اس وجہ سے قیدیوں میں سے ہر قیدی یا تو فدیہ دے گا یاپھر اس کی گردن اڑاد ی جائے گی ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود(رض) فرماتے ہیںکہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ öاس حکم کی تعمیل سے سہل بن بیضاکو مستثنی قرار دیا جائے کیونکہ میں نے ان کو اسلام کا بھلائی کے ساتھ تذکرہ کرتے ہوئے سنا ہے یہ سن کر آپ öخاموش رہے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیںکہ اس دن جتنا مجھے اپنے اوپر آسمان سے پتھروں کے برسنے کا ڈرلگا اتنا مجھے کبھی نہیں لگاآخر حضور öنے فرما ہی دیاکہ سہل بن بیضاکو مستثنی کیا جاتا ہے ۔
فرماتے ہیں کہ پھر اللہ تعالی ٰنے ﴿ماکان لنبی ان یکون لہ اسرٰی ﴾﴿11﴾سے لے کر دو آیتیں نازل فرمائیں۔
انھوں نے مدرسہ رسول سے علوم قرآن کا درس لیا۔ وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سب سے بڑے قاری اس کے معانی کے سب سے بڑے رمز شناس اور شریعت الٰہی کے سب سے بڑے نکتہ داں تھے۔ ایک بار جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان عرفات میں وقوف فرما ہوئے تھے ایک شخص نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:
’’امیر المومنین! میں کوفہ سے آیا ہوں۔ میں نے وہاں ایک شخص کو دیکھا جو قرآن میں دیکھے بغیر زبانی اس کی املائ کراتا ہے۔‘‘ یہ سن کر انھوں نے خشمگیں لہجے میں پوچھا:
’’تیرا برا ہو‘ کون ہے وہ شخص؟‘‘
’’عبداللہ بن مسعود(رض)۔‘‘ اس نے ڈرتے ہوئے کہا۔
یہ سن کر بتدریج ان کے غصے کا اثر زائل ہو نے لگا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی معمول کی حالت پر آگئے۔ پھر انھوں نے فرمایا:
’’بخدا میں نہیں جانتا کہ ان سے زیادہ کوئی دوسرا شخص بھی اس کا حق دار ہے۔ اس کے متعلق میں تم سے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں:
’’ایک رات کا ذکر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں تشریف فرما تھے۔ وہ دونوں حضرات مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے۔ اس مجلس میں میں بھی موجود تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے۔ ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ کوئی شخص مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے۔ ہم اسے پہچان نہ سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کھڑے ہو کر اس کی قرأت سنتے رہے پھر ہماری طرف مڑتے ہوئے بولے:
﴿من سرّہ ان یقرأ القراٰن رطبا کمانزل فلیقرأہ علی قرأۃ ابن ام عبد﴾﴿12﴾
’’جو شخص قرآن کو اس طرح پڑھنا چاہے جیسا کہ وہ نازل ہوا ہے تو اسے چاہیے کہ ا بن ام عبد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت کے مطابق اسے پڑھے۔‘‘
پھر جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھ کر دعا مانگنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے جاتے:
﴿ سل تعطہ‘ سل تعطہ ﴿الحد یث﴾﴿13﴾ ’’مانگو دیا جائے گا‘ مانگو دیا جائے گا۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ’’پھر میں نے اپنے دل میں کہا کہ بخدا میں صبح سویرے ان کے پاس جا کر ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی دعا پر آمین کہنا، اس کی خوشخبری سنائوں گا اور جب سویرے ان کو خوشخبری دینے کے ارادے سے ان کے یہاں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے پہلے ان کو یہ خوشخبری دے چکے ہیں۔ خدا کی قسم میں نے جب بھی کسی خیر میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسابقت کی کوشش کی‘ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیشہ مجھے پیچھے چھوڑ دیا۔‘‘
کتاب اللہ کے علم میں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام اتنا بلند تھا کہ وہ خود فرماتے ہیں:
’’قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ قرآن کریم کی جو آیت بھی نازل ہوئی اس کے بارے میں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کہاں اور کس کے متعلق نازل ہوئی۔ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ اس کے متعلق کوئی شخص مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے اور اس کے پاس پہنچنا ممکن ہو تو میں وہاں پہنچ کر اس کے علم سے ضرور استفادہ کروں گا۔‘‘﴿14﴾
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے متعلق جو کچھ فرمایا۔ اس میں ذرہ برابر مبالغہ سے کام نہیں لیا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ اپنے ایک سفر کے دوران ایک قافلے سے ملتے ہیںرات اندھیری ہے۔ اس نے پورے قافلے کو تاریکی کے پردے میں چھپا رکھا ہے۔ اس قافلے میں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک شخص سے کہتے ہیں کہ پوچھو۔
’’آپ لوگ کہاں سے آرہے ہیں؟۔‘‘
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ’’فج عمیق سے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ’’اور کہاں کا ارادہ ہے۔‘‘
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ’’بیت عتیق کا۔‘‘
یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس قافلے میں کوئی صاحب علم ہے اور انھوںنے اپنے آدمی سے کہا پوچھو۔
’’قرآن کا کون سا حصہ سب سے عظیم ہے؟‘‘
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ :
﴿اَللّٰہُ لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَج اَلْحَیُّ الْقَیَّوْمُج لَاتَأْ خُذُہ، سِنَۃٌ وَّلَانَوْمٌط ﴾﴿15﴾ ’’اللہ وہ زندہ جاوید ہستی ہے جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ نہ سوتا ہے‘ نہ اسے اونگھ لگتی ہے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ’’قرآن کا کون سا حصہ سب سے زیادہ محکم ہے؟‘‘
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ :
﴿اِنَّ اللّٰہَ یَاْ مُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبی﴾﴿16﴾
’’اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ’’قرآن کا کون سا ٹکڑا سب سے جامع ہے؟‘‘
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ :
﴿ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًایَّرَہ،o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍشَرًّا یَّرَہ،o﴾﴿17﴾

’’پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ’’قرآن کا کون سا حصہ سب سے زیادہ خوفناک ہے؟‘‘
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ :
﴿لَیْسَ بِاَ مَانِیِّکُمْ وَلَآاَمَانِیِّ اَھْلِ الْکِتَابِط مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ایُجْزَبِہٰ لا وَلَا یَجِدُ لَہ، مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًاo﴾﴿18﴾
’’انجام کار نہ تمہاری آرزوئوں پر موقوف ہے‘ نہ اہل کتاب کی آرزوئوں پر جو بھی برائی کرے گا اس کا پھل پائے گا اور اللہ کے مقابلے میں اپنے لیے کوئی حامی و مدد گار نہ پا سکے گا۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ’’قرآن کا کون سا حصہ سب سے زیادہ امید افزا ہے؟‘‘
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ :
﴿قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْاعَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ ط یَغْفِرُ الذَّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہ، ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo﴾ ﴿19﴾
’’﴿اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ﴾ کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو۔ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ وہ تو غفور و رحیم ہے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ان سے پوچھو کہ ’’کیا تم میں عبداللہ بن مسعود ہیں؟‘‘ تو قافلہ والوں نے جواب دیا کہ ’’ہاں۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف عالم و قاری اور عابد و زاہد ہی نہیں تھے بلکہ وہ بڑے ہمتی‘ نہایت دور اندیش اور زبردست مجاہد اور میدان کارزار میں پیکر جرأت و شجاعت بھی تھے۔ وہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے مشرکین کے مجمع میں با آواز بلند قرآن پڑھ کر سنایا۔ ایک روز مسلمان ﴿جب وہ قلیل التعداد اور کمزور تھے﴾ مکہ میں اکٹھے ہوئے اور آپس میں کہنے لگے۔ بخدا‘ابھی تک قریش نے باآواز بلند کسی سے قرآن نہیں سنا۔ کون ہے جو ان کو سنا دے؟ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ’’میں انہیں قرآن سنائوں گا۔‘‘ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا ’’آپ اس کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام کوئی ایسا شخص انجام دے جس کی پشت پر اس کے قبیلے کی طاقت ہو کہ اگر قریش اس کے ساتھ بری نیت سے پیش آئیں تو اس کا قبیلہ اس کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔‘‘ لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ’’نہیں یہ کام مجھے ہی کرنے دو۔ اللہ تعالیٰ مجھے ان کے شر سے محفوظ رکھے گا اور ان کے مقابلے میں میری حمایت کرے گا۔‘‘ پھر وہ چاشت کے وقت مسجد حرام میں داخل ہوئے اور مقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچ گئے۔ اس وقت سرداران قریش کعبہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقام ابراہیم علیہ السلام پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے قرآن کی تلاوت شروع کی۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِoط
﴿ اَلرَّحْمٰنُ لاoعَلَّمَ الْقُرْاٰنَo خَلَقَ الْاِنْسَانَلاo عَلَّمَہ، الْبَیَانَo﴾﴿20﴾
’’اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔نہایت مہربان‘ خدا نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔‘‘
وہ کتابِ الٰہی کی آیات پڑھتے چلے گئے۔ آواز سن کر سردارانِ قریش ان کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے:
’’یہ ابن ام عبد کیا پڑھ رہا ہے؟ ...........ارے اس کا ناس ہو۔ یہ تو اسی پیغام کا کوئی حصہ پڑھ رہا ہے جس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ تیزی سے ان کی طرف لپکے اور ان کے چہرے پر مارنے لگے لیکن انھوں نے تلاوت کا سلسلہ منقطع نہیں کیا۔ وہ برابر پڑھتے رہے اور وہیں جا کر رکے جہاں تک وہ پہنچنا چاہتے تھے۔ پھر وہ لوٹ کر اپنے ساتھیوں میںآئے۔ اس وقت ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ لوگوں نے ان کو اس حالت میں دیکھ کر کہا ’’آپ کے متعلق ہم کو اسی بات کا اندیشہ تھا۔‘‘ یہ سن کر انھوں نے کہا
’’بخدا یہ دشمنان خدا آج سے پہلے میری نظر میں اتنے ذلیل و بے وقعت نہ تھے۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو میں کل بھی ان کو اسی طرح قرآن سنا سکتا ہوں۔‘‘ لیکن ساتھیوں نے کہا کہ ’’نہیں‘ بس اتنا کافی ہے۔ تم نے ان کو وہ چیز سنا دی جس کا سننا انہیں گوارا نہیں ہے۔
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت تک زندہ رہے۔ جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ مزاج پرسی کے بعد انھوں نے دریافت کیا۔ ’’آپ کو کس چیز کی شکایت ہے؟‘‘
بولے۔ ’’اپنے گناہوںکی۔‘‘ پوچھا ’’کیاخواہش ہے؟‘‘ بولے ’’اپنے رب کی رحمت کی۔‘‘
پوچھا ’’کیوں نہ آپ کے وظیفے کی ادائیگی کا حکم جاری کر دوں جس کو لینے سے آپ نے پچھلے کئی سالوں سے انکار کر دیا ہے؟‘‘ بولے ’’مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
کہنے لگے’’آپ کے بعد آپ کی بچیوں کے کام آئے گا۔‘‘
بولے ’’کیا آپ کو میری بیٹیوں کے متعلق محتاجی کا اندیشہ ہے؟ میں نے انہیں ہر رات سورہ واقعہ پڑھنے کی ہدایت کر دی ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:
﴿من قرأ الواقعۃ کلّ لیلۃ لم تصبہ فاقۃ﴾ ﴿21﴾
’’جو شخص ہر رات کو سورۂ واقعہ پڑھ لیا کرے گا وہ فقر و فاقہ سے دوچار نہ ہو گا۔
ابو الاحوص فرماتے ہیںکہ ایک روز ہم اور عبد اللہ بن مسعود اپنے چند احباب کے ساتھ ابو موسی ٰشعری کے مکان میں تھے ،حضرت عبد اللہ چلنے کے ارادے سے کھڑے ہوئے تو ابو مسعود نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ (ص)کے بعد ان سے زیادہ کوئی شخص قرآن کا عالم ہے،ابو موسی ٰنے کہا کیوں نہیں یہ اس وقت بارگاہ رسول میں حاضر رہتے تھے جب کہ ہم لوگ غائب ہوتے تھے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو فرمایا کرتے تھے کہ میں عبد اللہ بن مسعود کو اس دب سے بہت دوست رکھتا ہوں ،جس دن رسول خدا نے فرمایا کہ چار آدمیوں سے قرآن حاصل کرو اور سب سے پہلے ابن ام عبد کا نام لیا۔﴿22﴾
ابو الاحوص فرماتے ہیںکہ ایک روز ہم اور عبد اللہ بن مسعود اپنے چند احباب کے ساتھ ابو موسی ٰشعری کے مکان میں تھے ،حضرت عبد اللہ چلنے کے ارادے سے کھڑے ہوئے تو ابو مسعود نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ (ص)کے بعد ان سے زیادہ کوئی شخص قرآن کا عالم ہے،ابو موسی ٰنے کہا کیوں نہیں یہ اس وقت بارگاہ رسول میں حاضر رہتے تھے جب کہ ہم لوگ غائب ہوتے تھے
حضرت عبد اللہ بن عمرو فرمایا کرتے تھے کہ میں عبد اللہ بن مسعود کو اس دب سے بہت دوست رکھتا ہوں ،جس دن رسول خدا نے فرمایا کہ چار آدمیوں سے قرآن حاصل کرو اور سب سے پہلے ابن ام عبد کا نام لیا
حضرت عبد اللہ بن مسعود فر ماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سنائو ،میں نے عرض کیا ،میں آپ کو قرآن سنائو حالانکہ قرآن خود آپ پر نازل ہوا ہے تو آپ (ص)نے فرمایا میرا دل چاہتا ہے کہ میں دوسرے سے قرآن سنو،چنانچہ میں نے قرآن کی سورت نسائ پڑھنی شروع کردی جب میں آیت نمبر 41پر پہچنا
﴿فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشہید وجئنا بک علی ھئولائ شہیدا﴾
تو میں نے دیکھا کہ حضور öکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں آپ (ص)نے فرمایا بس کرو ﴿23﴾
رازدن رسول (ص)ہونے کا اعزاز بھی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصے میں آیا۔جب آپ بکریوں کی گلہ بانی سے نکل کر سرور کائنات (ص)کی خدمت میں منتقل ہو ئے تو آپ ہر وقت سفر میں‘ حضر میں‘ گھر کے اندر اور گھر سے باہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کرنے کی سعادت ‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے تو آپ پردے کا انتظام کرنے کی سعادت، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر جانے کا ارادہ کرتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتے پہنانے کی سعادت، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوتے تو وہ جوتوں کو پائوں مبارک سے نکالنے کی سعادت، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عصا اور مسواک کی حفاظت کرنے کی سعادت اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمرے میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے تو وہ اس سے پہلے اس میں داخل ہونے کی سعادت آپ کا خاصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے قرب و تعلق کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر وقت اپنے گھر آنے اور اپنے تمام رازوں سے واقف رہنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ اسی وجہ سے وہ ’’رازدان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کہے جاتے تھے۔
یہ عظیم اورسعادت مند صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کے وقت اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔ اس وقت ان کی زبان مبارک اللہ کے ذکر اور اس کی آیات بینات سے تر تھی۔ ﴿24﴾
﴿اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ﴾
اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو۔
﴿حوالہ جات﴾
1۔۔۔مشکواۃجلد اول،فصل دوم،باب :باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،ص۲۸۱،رواہ ر زین
2۔۔۔محمداویس سرور،مولانا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود(رض)کے سو قصے،بیت العلوم 20نابھہ روڈپرانی انار کلی ،لاہو،پاکستان،ص:۶۱
3۔۔۔ابن الاثیر،علامہ۔اسد الغابہ، تذکرہ عبداللہ بن مسعود(رض) ،دارالکتب العلمیہ،بیروت،لبنان ج:۲
4۔۔۔عبد الرحمان رافت پاشا،علامہ،زندگیاں صحابہ کی ،مکتبہ المصباح 1۔اے ذیلدار پارک اچھرہ،لاہور،پاکستان،ص:۳۱۱
5۔۔۔ خالد محمد خالد ،رجال حول الرسول،منشورات منصورہ ملتان روڈ ،لاہور،پاکستان،ص:۵۷
6۔۔۔خالد محمد خالد ،رجال حول الرسول،منشورات منصورہ ملتان روڈ ،لاہور،پاکستان،ص:۲۷
7۔۔۔القرآن،ابراہیم:۶۳
8۔۔۔القرآن،المائدہ:۸۱۱
9۔۔۔القرآن،نوح:۶۲
10۔۔۔القرآن،یونس:۸۸
11۔۔۔القرآن،انفال:۷۶
12۔۔۔۔مسلم،الامام،الجامع الصحیح،باب فی فضائل عبد اللہ بن مسعود(رض)
13۔۔۔احمد بن حنبل،مسند احمد ۱/۴۵۴
14۔۔۔عبد الرحمان رافت پاشا،علامہ،زندگیاں صحابہ کی ،مکتبہ المصباح 1۔اے ذیلدار پارک اچھرہ،لاہور،پاکستان،ص:۴۱۱
15۔۔۔القرآن،البقرہ:۵۵۲
16۔۔۔القرآن،النحل:۰۹
17۔۔۔القرآن،الزلزال:۷۔۸
18۔۔۔القرآن،النسائ:۳۲
19۔۔۔القرآن،الزمر:۳۵
20۔۔۔القرآن،الرحمان:۱۔۴
21۔۔۔،مشکواۃ،جلد اول،فصل دوم،باب :باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،ص۲۸۱
22۔۔۔مسلم،الامام،الجامع الصحیح،باب فی فضائل عبد اللہ بن مسعود(رض)
23۔۔۔بخاری،الامام،ابو عبد اللہ ،الجامع الصحیح،البدایہ والنھایہ۶/۹۵
24۔۔۔خالد محمد خالد ،رجال حول الرسولدارالکتب العلمیہ،بیروت،لبنان

Naveed Zuberi
About the Author: Naveed Zuberi Read More Articles by Naveed Zuberi: 8 Articles with 12415 views i am student
m.phil
islamic studies
.. View More