میڈیا کی اخلاقیات

ایک بچہ جب ابھی نیا نیا چلنا سیکھتا ہے تو چلتے پھرتے گرنا اور ٹکرانا اس کے لئے ایک معمول کی بات ہوتی ہے اور اس کو آہستہ آہستہ کرتے کرتے چلنا آتا ہے۔ میڈیا اس وقت اس بچے کی طرح ہو چکا ہے جو کہ بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہے مگر پھر بھی اس کی میچورٹی اپنی عمر سے کم ہی ہے۔ میڈیا کے نگران اور نگہبان پیمرا کے آرڈیننس میں اس بچے کے لئے قواعد و ضوابط اور اصول کا بیان موجود ہے مگر اگر ان کا جائزہ لیا جائے اور میڈیا کے عملی کردار کا تو لکھتے کچھ اور کرتے کچھ کواکب والا حال ہے۔

دنیا بھر میں آپ کے ملک کو دوسرے ممالک سے روشناس کروانے کا ٹھیکہ میڈیا کے پاس ہی ہوتا ہے اسی لئے میڈیا کی تاریخ میں اکثر بہت سے ممالک میں میڈیا کو اپنی حکومتوں کے کرتوت کھولنے پر وارننگ دی گئی یا سزا و جزا کے عمل سے بھی گزارا گیا۔ حتی کہ صرف ۲۰۰۲ کے بعد ہی کچھ بطانوی اخبارات جاسوسی اور خفیہ والوں کی تحقیقات اور کھوج کا الزام عائد کرکے بند بھی کر دئے گئے ہیں۔۔

اگر ہمسایہ ملک بھارت سے ہی مثال لی جائے تو انھوں نے میڈیا کو بھر پور اپنے ملک کے اچھے امج کو دکھانے کے لئے استعمال کیا ہے۔ وہاں آج غربت ہے مگر سیاحت کے شعبے میں کئی گنا آگے ہیں وجہ انھوں نےاس شعبے کو تو جو فروغ دیا میڈیا کو بھی اس مقصد کے لئے خوب استعمال کیا۔ انڈین نیوز چینلز پاکستان کے بارے میں اتنا زہر اگلتے ہیں اس وجہ سے یہاں پر انڈین نیوز چینلز دکھانے کی اجازت نہیں۔ انڈیا میں پاکستان کا کوئی بھی چینل نہیں دکھایا جاتا۔ خود پاکستانی میڈیا نے انڈین پراڈکٹ اشتہاارات کو یسوں کے عوض آنے دیا تو آج ہر دوسرا اںڈین اشتہار آواز کے ردو بدل کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے

پیمراکے آرڈیننس میں یہ بات لکھی تو ہے کہ میڈیا کا مقصد عوام کو باشعور اور تعلیم یافتہ بنانا ہے مگر در حقیقت دیکھا جائے تو میڈیا اپنے یہ مقا صد کس حد تک اور کس طرح سے پورے کر رہا ہے وہ ایک الگ بحث ہے۔ مگر میڈِیا کو سمجھا صرف ایک بزنس گیا ہے اور بزنس میں آرگنائزیشن کا نفع ذیادہ معنی رکھتا ہے اسی لئے جو کچھ بھی کیا جائے اور نفع دوگنا تین گنا ضرور کیا جائے۔ اس کے لئے حدود و قیود توڑنا اور معاشرتی اقدار کا پاس نہ رکھتے ہوئے جو بھی ذیادہ نامناسب لگے دکھا دینا ایک عام سی بات ہے۔ کیونکہ جو نامناسب اور اابھی تک معاشرے میں جس کے بارے میں کھلے عام تزکرہ کرنا کچھ اچھا ننہیں سمجھا جاتا وہ دکھانا مزید ریٹنگ لینے اور اپنا نام بنانے والا کام ہے ۔

میڈیا کو اپنے ملک مِں بیٹھے دیکھ کر ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ میڈیا کی خبریں اور سرگرمیاں کس قدر منفی جزبات کو گرما رہی ہیں جب اپنے ملک سے باہر ہوتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس سب کو دیکھ کر اپنے ملک کے بارے میں جب برا سننے کو ملتا ہے۔ تو نفسیاتی طور پر اور معاشرتی طور پر جس جگہ پر آپ ہوتے یں تو کو قدر بے چینی اور خفت محسوس ہوتی ہے۔ کچھ تو اچھا ہوگا اس ملک میں جو فخر کے ساتھ دکھایا جا سکے۔ بہت کچھ اچھا ہوتا بھی تو رہتا ہے جس کو اتنا ہائی لائٹ نہیں کیا جاتا جتنا کچھ بھی برا ہائی لائٹ کر دیا جاتا ہے۔

جس طرح پاکستان میں اور ادارے بھی اچھا کام بھی کر رہے ہیں اور کچھ ادارے تو کرپشن اور مال بنانے میں مصروف ہیں اسی طرح میڈیا بھی ایک ادارہ ہی ہے جس کا مقصد صرف پیسہ کمانا اور کمیشن بناانا اور ریٹنگ لینا ہے۔ اور بدنامی ہمیشہ ہی نیک نامی کی نسبت ذیادہ شہرت دیتی ہے۔ ایک کے بعدد ایک واقعہ وہ بھی ایسا کہ جس پر قوم کی نظریں ضرور ٹکیں کبھی کسی اہم صحافی پر حملہ اور کبھی ملک کی فوج کے بارے میں پروپیگنڈہ اور کبھی توہین رسالت جیسے اقدامات۔

ان سب کا مقصد کہیں عوام کو اورحکمران کو چیک کرنا کہ ہر صورتحال میں ردعمل کس طرح کا اور کتنا شدید آتا ہے اور یہ ملک ابھی بھی کس لحاظ سے کتنی مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 273312 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More