زکوۃ کی فرضیت اہمیت اور اہم مسائل

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ (۱) الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلااَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ (۲) وَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (۳) وَ الَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَ (۴)
حوالہ: قرآن مجید، سورہ مومنون، آیت نمبر 1تا 4۔
ترجمہ: ’’بیشک کامیاب ہو گئے دین ِمصطفی کی تصدیق کرنے والے o جو اپنی نماز میں خشیت اختیار کرتے ہیں o اور وہ جو بیہودہ بات سے منہ پھیر نے والے ہیں o اور وہ جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ (ترجمہ افضلیہ )

زکوٰۃ کا لغوی معنی ہے : ستھرا ہونا، پاک ہونا، عمدہ نشو ونما، خوشحال ہونا، بڑھنا، زیادہ ہونا، زمین کا زرخیز ہونا، ذکی وذہین ہونا، صالح ہونا وغیرھا۔

جبکہ شریعت اسلامیہ میں زکوٰۃایک مالی عبادت ہے جو شرائط ِ وجوب پانے جانے پر فرض ہوتی ہے اورجسے مخصوص مصارف میں خرچ کرنا ضروری ہے۔ زکوٰۃ ٹیکس نہیں اگر حکومت وصول نہ بھی کرے یا مسلمان، غیر مسلم ملک میں رہتا ہو تو بھی زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے۔

شرائط وجوب زکوٰۃ :
زکوٰۃ کے واجب ہونے کی دس شرطیں ہیں:
1۔ مسلمان ہونا
2۔ عاقل ہو نا یعنی پاگل ومجنون نہ ہو
3۔ بالغ ہونا
4۔ آزاد یعنی غلام نہ ہونا
5۔ بقدر نصابِ مال کا مالک ہونا
6۔ مال کا پورے طور پر مالک اور قابض ہونا

یاد رہے کہ چاندی کا نصاب: ساڑھے باون(52.50) تولہ ہے، سونے کا نصاب :ساڑھے(7.50) سات تولہ ہے، اونٹ کا پانچ، گائے اوربھینس کاتیس، بکری کا چالیس ہے جبکہ یہ جانور سال کا اکثر حصہ چر کر گزارتے ہوں۔ نیز مال تجارت چاہے کچھ بھی ہو، اس کا نصاب یہ ہے کہ اس کی قیمت ساڑھے باون ( 52.50)تولہ چاندی کے برابر ہو جائے۔

7۔ حولان حول یعنی نصاب کا مالک ہونے کے بعد (مالک نصاب ہونے پر) پورا سال گزر جائے۔ اب سال گزرنے پر جو تاریخ ہو گی اس تاریخ کو وہ مال جس پر سال گزر گیا اور وہ مال جو دوران ِ سال حاصل ہوا، اس سب میں سے جو کچھ بچا ہوا ہے اس کا چالیسواں حصہ یعنی (1/40)کے حساب سے زکوٰۃ دینا فرض ہے۔

8۔ یہ مال قرض سے فارغ ہو یعنی حساب وکتاب میں فارغ کیا جائے اور اگر باقی بقدر نصاب یا زائد ہو تو زکوٰۃ فرض ہے ۔

9۔ حاجت اصلیہ یعنی رہائش کا مکان، سواری، استعمال کے برتن (ماسوائے سونے اور چاندی کے برتنوں کے کہ اِن میں زکوٰۃ فرض ہے) استعمال والے کپڑے، اوزار اور علماء سکالرز محققین کی کتب مطالعہ وغیرھا سے فارغ ہو۔

10۔ مال کا نامی ہونا یعنی مال خِلقی یا عملی طور پر قابل تجارت ہو۔
زکوٰۃ کسے دی جاسکتی ہے:
’’اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرآءِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔‘‘
حوالہ: قرآن مجید، پارہ 10، سورہ توبہ، آیت: 60۔
ترجمہ: ’’صدقات (واجبہ)صرف ضرورتمندوں، ناداروں (زکوٰۃ کی وصول وتقسیم میں )کام کرنے والوں، جن کے دلوں کو اسلام سے مانوس کرنا ہے اور( غلاموں کی) گردنوں کے (چھوڑانے کے ) لئے اور اﷲ کی راہ (یعنی مجاہدین اور دینی تعلیم حاصل کرنے والوں) میں اور مسافروں کیلئے۔ اﷲ کی طرف سے فرض کیے ہوئے ہیں۔ اور اﷲ بہت جاننے والا، بڑی حکمت والاہے۔‘‘

زکوٰۃ کے مستحق صرف یہی لوگ ہیں:
1۔ فقراء: فقیر کی جمع ہے، فقیر (محتاج) وہ ہے جو حاجت اصلیہ (گھر، سواری، لباس، استعمال کے برتن و بستر اور اوزارِ پیشہ) کے علاوہ کسی نصاب کا مالک نہ ہو۔ آج کل سب سے سستا نصاب ساڑھے 52 تولہ چاندی کا ہے۔

2۔ مساکین: مسکین کی جمع ہے۔ یعنی وہ نادار جس کے پاس دوسرے وقت کے کھانے کی طاقت بھی نہ ہو۔

3۔ جو حکومت کی طرف سے زکوٰۃ اکٹھی کرنے پر مقرر ہو لیکن اگر سید (اولاد سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اﷲ عنہا) یا بنو ہاشم دیگرمیں سے ہو تو نہیں لے سکتا۔

4۔ مؤلفہ قلوب: جن کے دلوں کو اسلام یا مسلمانوں سے الفت دینا ہو۔ اس سے مراد نو مسلم ہیں یا جو اسلام کی طرف راغب ہوچکے یا پھر جو مسلم اقلیتی علاقوں میں ظالم کفار ہیں۔ نوٹ: دور صدیقی میں جب غلبہ اسلام ہوا تو صحابہ کرام نے اجماعی فیصلہ کیا کہ اب مؤلفہ قلوب کے علاوہ دیگر مصارف میں زکوٰۃ خرچ کی جائے۔

5۔ رقاب: سے مراد غلام اور باندیاں ہیں جن کو مالک نے مکاتب بنادیا ہو یعنی ان سے طے پایا ہو کہ اتنی رقم لاؤ تو تم آزاد ہو۔

6۔ غار مین: وہ مقروض جس نے گناہ کیلئے قرضہ نہیں لیا۔

7۔ فی سبیل اللّٰہ: سے مراد مجاہدین، ضرورت مند علماء دین، طلباء علم دین، اور نادار حاجی ہیں۔

8۔ مسافر: جسے سفر میں خوراک، رہائش، دوائی، کرایہ وغیرہ کی ضرورت پڑ جائے۔ اور اس وقت حالت سفر میں اسکے پاس مال کی قدرت نہ ہو۔

خبردار:
مسجد، سادات، ہاشمی اور گلی، سڑک،قبروقبرستان ہسپتال کی عمارت، مدرسہ کی عمارت، سکول کی عمارت اور اپنے باپ دادا، اپنی ماں، اپنی اولاد یا اولاد کی اولاد، اپنی بیوی، اور اپنے شوہر پر زکوٰۃ خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر کردی ہے تو دوبارہ زکوٰۃ ادا کرے۔ البتہ بہن بھائی اگر مستحق ہوں تو ان پر زکوٰۃ صرف کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے۔

ذکوٰۃ کے چند ضروری مسائل:
صدقہ فطر کی طرح زکوٰۃ بھی فرض ہونے کی تاریخ سے پہلے ضرورتمندوں کو دینا جائز ہے البتہ ادائیگی بلا تاخیر لازم ہے۔ متقی پرہیز گار اور اہل علم وطلبہ علم دین کو زکوۃ دینا زیادہ بہتر اور صدقہ جاریہ ہے۔ رہن وگروی رکھی ہوئی چیز مثلاً زیور وغیر ہ کی زکوٰۃ راہن، مرتہن دونوں پر فرض نہیں۔ زکوٰۃ کی نیت دل میں ہونا لازم ہے ہاں ضرورتمند اور رشتہ دار کو ہدیہ کہہ کر بھی دے سکتا ہے۔

یاد رہے کہ اس دور میں مستحق علماء اور طلبہ دین پر زکوٰۃ خرچ کرنا سب سے افضل بلکہ ضروری ہے کیوں کہ ماہر علماء کی کمی کی وجہ سے مساجد، مدارس، خانقاہوں اور دیگر مراکز اسلام میں دینی تعلیم و تربیت کی شدید کمی ہے بلکہ بیشمار مسجدیں اور مراکز مستند دین علماء نہ ہونے کی وجہ سے غیر آباد ہیں۔

زکوٰۃ کی فرضیت واہمیت
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
’’خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِم اِنَّ صَلوٰتَک سَکَنٌ لَّہُمْ واللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْم ‘‘
ترجمہ: ’’اے پیارے نبی ﷺ! ان کے مالوں میں سے صدقہ وصول کرو، اس کی وجہ سے انہیں خوب پاک وخوب ستھرا کردو، اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو، بیشک آپ کی دعا انکے دلوں کا چین ہے، اور اﷲ سنتا جانتا ہے۔‘‘
حوالہ: قرآن مجید، سورہ توبہ، آیت نمبر 103۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے بعد جب سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ خلیفہ کے منصب پر فائز ہوئے اس وقت عرب میں کچھ لوگ کافر ہوگئے (کیونکہ زکوۃ کی فرضیت سے انکار کر بیٹھے)۔ چنانچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اُن کیخلاف جہاد کا حکم جاری فرمایا تو فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے کہا: ’’آپ اُن سے قتال کیوں کرتے ہیں جب کہ رسول اﷲ ﷺ نے تو یہ فرمایا ہے : مجھے حکم ہے کہ لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہیں اورجس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہہ لیا س نے اپنی جان اور مال بچا لیا مگر حق اسلام میں اس کا حساب اﷲ کے ذمہ ہے (یعنی یہ لوگ تو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے والے ہیں اُن پر کیسے جہاد کیا جائیگا)۔‘‘

صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:
’’خدا کی قسم میں اس سے جہاد کرونگا جو نماز وزکوۃ میں تفریق کریگا (کہ نماز کو فرض مانے اور زکوۃ کی فرضیت سے انکار کرے )، زکوۃ حق المال ہے اﷲ کی قسم ! بکری کا بچہ جو رسول اﷲ ﷺکے پاس حاضر کرتے تھے اگر مجھے دینے سے انکار کرینگے تو اس پر اُن سے جہاد کرونگا۔‘‘
فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : اﷲ کی قسم! میں نے دیکھا کہ اﷲ نے صدیق اکبررضی اﷲ عنہ کیلئے حق واضح فرمادیا، اُس وقت میں نے بھی پہچا ن لیا کہ وہی حق ہے۔
حوالہ: صحیح بخاری ،کتاب الاعتصام ،باب الاقتداء بسنن رسول اﷲ ﷺ حدیث : 7284۔

نیز رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
’’بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ شَہَادَۃِ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْل اللّٰہ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآءِ الزَّکَاۃِ وَالْحَجِّ وَ صَوْمِ رَمَضَان۔‘‘
ترجمہ: ’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ گواہی دینا کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا اور حج (عمر میں ایک بار)کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘

حوالہ: صحیح مسلم ، باب بیان ارکان الاسلام۔
حضرت ابو الدرداء رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: زکوۃ اسلام کا پُل ہے۔
حوالہ: معجم اوسط، باب المیم، حدیث نمبر 8937

حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : کہ ہمیں یہ حکم دیا گیا کہ ہم نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں اورجو زکوۃ نہ دے اس کی نماز بھی قبول نہیں۔
حوالہ: طبرانی شریف۔

حضرت عمارہ بن حزم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ اﷲ تعالیٰ نے اسلام میں چار چیزیں فرض کی ہیں جو استطاعت کے باوجود ان میں سے ایک بھی چھوڑے اور تین ادا کرے تو وہ اسے کچھ کام نہ دیں گی جب تک پوری چاروں ادا نہ کرے۔ وہ چار چیزیں یہ ہیں : نماز، زکوٰۃ ، ماہِ رمضان کے روزے، اور حج بیت اﷲ۔‘‘
حوالہ: مسند امام احمد

فضائل وفوائد
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ وَاسِع’‘ عَلِیْم’‘o اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًی لَّہُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْف’‘ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o قَوْل’‘ مَّعْرُوْف’‘ وَّمَغْفِرَۃ’‘ خَیْر’‘ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُھَآ اَذًی وَاللّٰہُ غَنِیّ’‘ حَلِیْم’‘ 0
حوالہ: قرآن مجید، سورہ بقرہ، 261,262,263)
ترجمہ: ’’جو لوگ اپنے مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُن کی مثال اس دانہ کی طرح ہے جو سات خوشے اُگائے ہر خوشے میں سودانے ہیں اور اﷲ جس کیلئے چاہے زیادہ بڑھا دے اور اﷲ بڑی دسعت والا بڑے علم والا ہے۔ جو لوگ اﷲ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں، نہ ایذا پہنچاتے ہیں اُ ن کے لئے اُن کا ثواب اُن کے رب کے حضور ہے اور نہ اُن پر کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اچھی بات اورمعاف کردینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعدایذا رسائی ہو اور اﷲ بے نیاز بڑے حلم والا ہے۔‘‘

اسی طرح سورہ بقرہ کے شروع میں فرمایا:
’’وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ۔‘‘
ترجمہ: اور متقی وہ ہیں کہ ہم نے جو انہیں دیا ہے اُس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: جو مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے ،میں اُس کیلئے جنت کا ضامن ہوں۔ میں نے عرض کیا : یارسول اﷲﷺ وہ کیا ہیں؟ فرمایا : نماز ،زکوۃ ، امانت، شرمگاہ ، پیٹ اور زبان۔
حوالہ: معجم اوسط ، باب الفا، حدیث:4925۔

حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے فرماتے ہیں :کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے فرمایا: اپنے مال کی زکوۃ دے کہ وہ پاک کرنے والی ہے تجھے پاک کر دے گی اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کر اور مسکین اورپڑوسی اور سائل کا حق پہچان۔
حوالہ: مسند امام احمد۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کر دی بے شک نے اس سے شر کو دور کردیا۔
حوالہ؛ معجم اوسط، باب الالف من اسمہ احمد۔

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ زکوۃ ادا کرکے اپنے مال کو مضبوط قلعہ میں محفوظ کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو اور مصیبت نازل ہونے پر دعا وعاجزی سے مدد حاصل کرو۔‘‘
حوالہ: مراسیل ابی داؤد مع سنن ابی داؤد، صفحہ 8

زکوٰۃ نہ دینے کے نقصانا ت:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَیُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اﷲ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ (۴۳) یَوْمَ یُحْمٰی عَلَیْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ ہٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لاَانْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَاکُنْتُمْ تَکْنِزُوْن۔‘‘
ترجمہ: ’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے اور اُسے اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں انھیں دردناک عذاب کی بشارت سنادو۔ وہ (سونا چاندی) آتش جہنم میں تپایا جایاگا اور اُس سے اُن کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پشتیں داغی جائیں گی۔(اور اُ ن سے کہا جائے گا)یہ وہ ہے جو مال تم جمع کرتے تھے اس کا مزہ چکھو۔‘‘
حوالہ: قرآن مجید، سورہ توبہ، آیت 34,35۔

حضرت ابوہریر ہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں : ’’ جس کو اﷲ تعالیٰ مال دے اور وہ اُس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کردیا جائیگا۔جس ک سر پر دو چتّیاں ہونگی وہ سانپ اُ سکے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائیگا پھر اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑے گااور کہے گا : میں تیرا مال ہوں میں تیرا مال ہوں۔‘‘
حوالہ: صحیح بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، حدیث نمبر 1403۔
نیز رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’جو قوم زکوۃ نہ دے گی اﷲ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔‘‘
حوالہ: معجم اوسط ، حدیث۴۵۷۷۔

آپﷺ نے فرمایا: جب لوگ زکوۃ کی ادائیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اﷲ بارش کو روک دیتا ہے اگر زمین پر چوپائے موجود نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا قطرہ بھی نہ گرتا۔
حوالہ: سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، حدیث: ۴۰۱۹۔

حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ زکوۃ نہ دینے والے پر رسول اﷲ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔
حوالہ؛ صحیح ابن خزیمہ، کتاب الزکوۃ، حدیث :225

حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ : زکوۃ ادا نہ کرنے والا دوزخ میں جائے گا۔
حوالہ: مجمع الزوائد، کتاب الزکوۃ، حدیث: ۴۳۳۷۔

امیر المومنین علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: فقیر ہر گز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں گے مگر مال داروں کے ہاتھوں، سن لو ایسے تونگروں سے اﷲ تعالیٰ سخت حساب لے گااور انھیں دردناک عذاب دیگا۔
حوالہ: الترغیب والترھیب کتاب الصدقات حدیث 5۔

عشر:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ وَ ٰاتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ۔‘‘
ترجمہ: ’’اور تم زمین کی پیداوار کا حق کٹائی کے روز ادا کرو۔‘‘
حوالہ: قرآن مجید، سورہ انعام، آیت نمبر 141۔

نیز ارشاد نبوی ہے کہ زمین جو کچھ بھی پیدا کرے اس میں عشر ہے۔ اس حدیث مبارک کی بنیاد پر امام اعظم ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ کے نزدیک عشر کے لئے کوئی نصاب نہیں، زمین کی پیدا وار کم ہو یا زیادہ اس میں عشر فرض ہے۔

عشر پیدا وار کادسواں حصہ ہے جب زمین کا پانی قیمت اور محنت کے بغیر ہو اور اگر زمین کے پانی پر پیسہ خرچ کیا ہو یا محنت سے زمین کو سیراب کیا ہو تو عشر نصف ہو جائیگا یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ۔

عشر انہیں ہی دیا جائیگا جنہیں زکوٰۃ دی جاتی ہے۔ ہاں! شرائط وجوب وہ نہیں جو زکوۃ کے ہیں بلکہ نا بالغ یا مجنون کی زمین کی پیداوار میں بھی عشر واجب ہے۔

ٹھیکہ میں زمین لینے والے پر عشر واجب ہے نہ کہ مالک پر۔ مزارعت یعنی حصہ پر دی ہوئی زمین کی پیدوار کا عشر مالک اورمزارع دونوں پر بقدر حصہ واجب ہے۔

عشری زمین مسلمان کو عاریۃ کچھ مدت کیلئے دی تو عشر کاشتکار پر ہے نہ کہ مالک پر اور اگر کافر کو عاریۃ دی تو عشر مالک پر واجب ہے ۔۔۔۔۔

 

Pir Afzal Usman Qadri
About the Author: Pir Afzal Usman Qadri Read More Articles by Pir Afzal Usman Qadri: 27 Articles with 51556 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.