میں عزت داو پر نہیں لگا سکتا

ذلت بعض اوقات انسان کی مجبوری بن جاتی ہے۔ بچنا ممکن نہیں ہوتانہ چاہتے ہوئے بھی ذلت انسان کو برداشت کرنا پڑتی ہے کبھی کبھی انسان مجبوریوں کی وجہ سے اس ذلت کا اس قدر عادی ہو جاتا ہے کہ وہ اُسے محسوس ہی نہیں ہوتی وہ ذلت کو ذلت سمجھتا ہی نہیں ویسے بھی یہ باتیں ایک احساس ہی ہوتی ہیں۔

حکومت نے درمیانے طبقے کے سفید پوش چھوٹی گاڑیوں کے ما لکان پر خصوصی عنایت کرتے ہوئے روزانہ پورے چھ گھنٹے کے لیے CNGاسٹیشن کھول دیئے ہیں اب جن لوگو ں میں ہمت ہے استقامت ہے وہ فقط دو گھنٹے قطار میں کھڑے رہ کر گیس ڈلوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ان قطاروں کو دیکھ کر اندازہ ہوجاتاہے کہ لوگ کس قدر مجبور ہیں مہنگائی بے روز گاری اور فکر معاش نے اُن کی مس لطیف کو ختم کر دیا ہے ایک دو گھنٹے قطار میں کھڑے ہو کر بھی گیس کا مل جانا ان کے لیے خوشی کا باعث ہو تاہے۔

شروع کے دو تین دن میں نے قطار کی ذلت سے بچنے کی کوشش کی مگر صورتحال میں کوئی بہتری نہ ہونے کے باعث ایک دن وقت ختم ہونے سے پون گھنٹہ پہلے تقریباً سوا تین بجے ایک لمبی قطار میں کھڑا ہو گیا۔ دس پندرہ گاڑیاں میرے آگے تھیں خیال تھا کہ باری جلد آجائے گی۔ مگرگیس کا کم پریشر اور ہر قطار کی ایک گاڑی کو باری باری گیس مہیا کرنے کا اصول تمام طریقہ کار کو انتہائی سست کیئے ہوئے تھا۔

چار بجنے والے تھے اور اب بھی دو گاڑیاں میرے آگے تھیں۔ میرے بالکل آگے ایک سوزوکی ڈبہ تھا۔ جس میں ایک ہی خاندان کے کوئی بیس سے زیادہ افراد سوار تھے۔ خاندان کے بزرگ اُس ڈبے کے ڈرائیور تھے۔ عجیب سما تھا۔ گاڑی میں بیٹھے بچے جوان اور عورتیں سبھی کی نظریں گیس ڈالنے والی مشین پر تھیں اور باقاعدہ پریشان چہروں کے ساتھ سبھی دعا کر رہے تھے کہ کاش انہیں گیس مل جائے۔دعا کے لیے اُن کے اُٹھے ہاتھ دیکھ کر میں ماتم کررہا تھا قوم کے اُن عظیم دانشواروں کی عقل پر کہ جن کی ذہانت نے قوم کو لمبی قطاروں میں کھڑا کر دیا ہے سوزوکی ڈبے سے آگے ایک خاتون اپنی گاڑی میں بیٹھی تھی۔ پائپ اُن کی گاڑی سے منسلک ہو چکا تھا اور اب باری کا انتظار تھا۔ خاتون نے گیس ڈالنے والے سے پوچھا۔ کتنا وقت باقی ہے۔
جواب ملا۔ ایک منٹ
خاتون گھبرا کر گاڑی سے باہر نکلیں اور اسے کہا کہ گیس ڈالنی شروع کرو مگر وہ انکاری تھا۔کہ کچھ نہیں کرسکتاجب اس طرف والی گاڑی کی گیس مکمل ہوگی تو آپ کی باری آئے گی۔
مگر چار بج گئے تو
تو میں کیا کر سکتا ہوں۔

خاتون کی رونی صورت دیکھ کر پاس کھڑے مینجر کو ترس آگیا۔ اور اس نے گیس ڈالنے والے کو کہا کہ ادھر بھی چلا دوآدھا پون منٹ میں جتنی مل جائے ملنے دو۔

خاتون کی گاڑی کو گیس ملنا شروع ہو گئی مگر ابھی سو روپے سے کم ہی ڈالی گئی تھی کہ چار بج گئے اور مشینیں بند ہو گئیں۔ خاتون نے کسی فاتح کی طرح مسکراتے ہوئے اپنے چاروں طرف کھڑے لوگو ں کو دیکھا اور گاڑی لے کر چل دی۔

میں اب جانا چاہتاتھامگر سینڈوچ تھامیرے آگے سوزوکی وین والے بزرگ بھی چلنے کو تیار نہ تھے ا ور پیچھے جو نوجوان تھا اس کا موڈ بھی گاڑی ہٹانے کا نہیں تھا۔بزرگ اب منیجرکے پیچھے پیچھے اور ان کا پورا خاندان گاڑی کے باہر یاس کی صورت بنا کھڑا انہیں دیکھ رہا تھابزرگ منتیں کر رہے تھے مگر عملے پر اس کا کچھ اثر تھا نہ خاندان کے دوسرے افراد یوں لگتا تھا کہ اپنی دعائیں بے اثر ہونے کے سبب رو دیں گے بزرگ کی منت سماجت ختم ہونے ہی نہ آرہی تھی۔ گاڑی کیسے ہٹاتے پیچھے والا نوجوان گاڑی چھوڑ کر ایک ایک شخص کے پاس جا رہا تھا اور حکومت اور گیس کے محکمے کو بے نقط اپنی تنقید کا نشانہ بنا کر اپنے دل کا غبار کم کر رہا تھا۔

نوجوان میرے پاس بھی آیا اور کہنے لگا میں تو اس ذلت کی وجہ سے گیس ڈلواتا ہی نہیں۔ غلطی سے آج آگیا ہوں مگردیکھیں ایک گھنٹے میں بھی گیس نہیں ملی کس قدر زیادتی ہے مجھے چونکہ صبح لاہور سے باہر جانا ہے اسیلئے خیال آیا کہ گیس ڈلوا لوں تھوڑی بچت ہو جائے گی مگر یہ غلط فیصلہ تھا ۔آج کی اس ذلت کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب پٹرول ہی پر گزارہ کروں گا۔ انکل آپ بھی گیس کو چھوڑیں اور پٹرول ہی پر گزارہ کریں۔

بیٹا۔معاشی مجبوریاں ہیں جو میں اورمیرے جیسے بہت سے لوگ سب کچھ برداشت کرتے ہیں کیا کریں 500روپے کا پٹرول شہر میں 45کلو میٹر چلتا ہے۔جب کہ 500روپے کی گیس 120کلو میٹر اس قدر واضح فرق ہے گیس 1500کی ہو تو ہفتہ مزے سے گزرتا ہے مگر پٹرول 3500میں گزارہ کرتاہے۔ میں نے جواب دیا۔

نوجوان نے میری طرف گھور کر دیکھا ٹھیک ہے میں تو پیسے کے لیے اپنی عزت داؤ پر نہیں لگا سکتا پھروہ لمبی 3500روپے کی معمولی رقم کے لیے میں نے نوجوان کی گاڑی کو دیکھا لگتا تھا آبائی ہے کوئی حصہ پوری طرف سلامت نہیں تھا۔آثار قدیمہ والے اگر میری طرح گہری نظر سے دیکھیں تو شایہ قدیم اثاثہ سمجھ کر محفوظ کرلیں مگر نوجوانی ہے ہی حوصلوں کا نام پیسے نہ بھی ہو ں عزت سلامت رہنی چاہیے۔

میں نے نوجوان کی منت کی بیٹا میری گاڑی درمیان میں پھنسی ہے اور آگے والے بزرگ بے معنی منتوں میں مشمول گاڑی پیچھے کر لو تو میں نکل جاؤں گا۔ نوجوان نے مگر میری بات سنی ان سنی کی اور سامنے کھڑے ایک دوسرے آدمی کو اپنے خیالات عالیہ سے مستفید کرنا شروع کردیا۔

دس منٹ تک لگاتار منتیں کرنے کے بعد بزرگ کی امیدیں دم توڑگئیں تو وہ گاڑی کے پاس لوٹ آئے۔ عورتیں اور بچے گاڑی میں سوار ہوگئے مگر اُن سب کے چہروں سے یوں لگتا تھا جیسے اُن کے خاندان میں کوئی جانکاہ حادثہ ہو گیا ہو۔ بزرگ کی گاڑی میں موجود تمام نوجوان نے گا ڑی کو دھکا لگا کر بھگانا شروع کیا۔ پیچھے والا جذباتی نوجوان اب بھی ایک شخص کو قابو کیے اپنے جذبات سے مجروع کر رہا تھا۔ اگلی گاڑی کے ہٹتے ہی مجھے راستہ مل گیا اور میں گیس کی بجائے کچھ خوبصورت خیال لیے مسکراتا گھر کو چل دیا۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443013 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More