بشر دوست

دنیا میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں ہی دوسروں کا جینا حرام کر رکھا ہے،انکا مقصدِ حیات ہی دوسروں کی زندگی میں زہر گھولنا،پریشان کرنا،الزام و بہتان تراشی کرنا،ذلیل و خوار کرنا،جگ ہنسائی سے کسی کی مٹی پلید کرنا،حتیٰ کہ کسی کی نیک نامی اور اچھے کاموں میں مین میخ اور کیڑے نکالنا بھی ان کی فطرت کا خاصہ ہوتی ہے،یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اندر سے انتہائی کمزور بزدل اور اپنے کاموں کے چور ہوتے ہیں،ان کا احساس کمتری انکو مجبور کرتا ہے کہ وہ دوسروں کی اچھائی اور نیک نامی پر ڈاکہ ڈالیں اور اپنے گناہوں کی گٹھڑی دوسروں کے سر تھوپ کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے کمالِ ہوشیاری اور اپنی ذہانت سے دوسروں کی عزت کو اپنے کھاتے میں چڑھا لی ہے اور اپنی عزت بھی بچا لی ہے۔اب دوسری طرف دنیا میں بے شمار ایسے لوگ بھی موجود ہیں جودوسرے کو خوشیاں دے کر خوش ہوتے ہیں،کسی کی مدد،کسی کو روپے پیسے، کسی کو پیٹ بھر کھانا کھلا دینا، کسی کو علاج معالجہ،کسی کو مکان بنا دینا یا کسی کی عزت افزائی اور نیک کاموں کو سراہنا بھی وہ نیکی کا کام سمجھتے ہیں،اب یہ دونوں قسم کے لوگ اس دنیا میں رہتے ہیں،سماج میں انکا رتبہ بھی ہوتا ہے،کاروبارِ زندگی بھی رواں دواں رہتی ہے،دونوں عید شب رات کو عبادت بھی کرتے ہیں،ملکی ٹیکس بھی دیتے ہیں،ملک کہ مروجہ قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے مہیا سہولتوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں،اور اپنی اپنی بساط کے مطابق جی کے بلآخر منوں مٹی تلے جا سوتے ہیں،قبر کی پہلی رات سے ہی انکی ابدی لائف کا آغاز ہوجاتا ہے،پہلی قسم کے لوگ اب پریشان ہوتے ہیں،پچھتاتے ہیں،اپنے چہروں اور سینے پر دوہتڑمار مار کے روتے چیختے ہیں کہ یہ ان سے کیا گنا ہ سرزد ہوگیا ہے،پہلی اور آخری خواہش یہی ہوتی ہے کہ اے کاش اسے تھوڑا سی مہلت اور وقت دیا جائے کہ وہ جا کے دنیا میں ان سب سے معافی تلافی کر سکے،جن پر اس نے حیات تنگ کر رکھی تھی،جن کا حق اور زمین کا ٹکڑا دبا رکھا تھا،دوسرے کی نیک نامی پر کیچڑ اُچھالتا تھا،غریبوں اور محتاجوں کو دُھتکارتا تھا،کسی کی مصیبت پر خوش ہوتا تھا،حقوق اﷲ پر تو شایدپورا اترتا تھا لیکن حقوق العباد کو پورا کرنا اپنی شان اور انا کے خلاف سمجھتا تھا،لیکن اب وائے افسوس کچھ نہیں ہوسکتا تھا اﷲ تعالیٰ نے توبہ کا دروازہ انسان کے لئے مرنے سے چند لمحے پہلے تک کھلا رکھا ہوتا ہے جزا و سزا کا تعین حقوق العباد کو ٹھہرایا جاتا ہے ، اب دوسری قسم کے لوگوں کی سنیئے،وہ انتہائی خوش،چہروں پر نور اور اطمینان،وہ سب اعلیٰ نمبروں سے جنت کے لئے کوالیفائی کر چکے ہیں،دنیا میں بھی لوگ سچے دل سے انکی عزت و احترام کرتے تھے اب اﷲ کی برگزیدہ ہستیاں ان کا احترام و اکرام کرتی نظر آہیں گی،دنیا کے بلند ترین عُہدے،رتبے اور شان و شوکت ان کے نزدیک غیر اہم اور ہیچ نظر آئیں گے،اﷲ تبارک وتعالیٰ دنیا میں ہر انسان کو نیکی کا حکم اور چانس دیتا ہے،آزمائش کی خاطر دولت دھن اور مرتبہ عطا فرماتا ہے،پھر غریب،لاچار،مفلس،بیمار،محتاج اور مصیبت زدہ لوگ اسکے قریب پہنچا دیتا ہے،ساتھ ہی دوسری طرف اسکی انا ،برداشت کا مادہ،غروروتکبر،فرعونیت اور بے پناہ طاقت بھی لاکھڑا کرتا ہے،اب اس انسان کاامتحان شروع ہوجاتا ہے،دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت کم لوگ اس امتحان میں پاس ہو پاتے ہیں ،بیشتر انا کے ہاتھوں،کوئی غروروتکبر میں اور کوئی طاقت کے نشے میں انسانیت کو بھول جاتے ہیں،بعضٰ تو کسی کو کچھ خیرات دیتے ہوئے ایک جہاں کو گواہ بنا کے دیتے ہیں اور یوں اپنی نیکیاں گنوا بیٹھتے ہیں۔
وطنِ عزیز میں سینکڑوں ارب پتی اور کھرب پتی لوگ ہیں،جنہوں نے بے پناہ محنت و مشقت اور قدرت کے دیئے مواقع سے بھرپور فاہدہ اٹھایا،بعض کو ایک طویل عرصہ پیٹ بھر کے کھانا نصیب نہیں ہوا،لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری،کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے،بعض منہ میں سونے کے چمچے لیکر پیدا ہوئے لیکن اپنے حسن تدبر،فہم اور خاندانی فراست کی بدولت جلد امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے،بعض چور دروازے سے یا لوٹ کھسوٹ،اقتدار،سیاست اور ہیرپھیر سے ارب پتی بنتے ہی زمین پر خدا بن بیٹھے ہیں،بہت کم ایسے ہیں جو اپنی دولت اور دھن کو اپنے لاکرز اور بینکوں میں گلنے سڑنے کے لئے نہیں رکھتے بلکہ اسے وطن اور دکھی انسانیت کی امانت سمجھتے ہیں،جب جب وطن نے پکارا انہوں نے لبیک کہا،ایسے ہی چند لوگوں میں ایک نام ملک ریاض حسین کا لیا جاتا ہے،جو دنیا کے چند بڑے فلاحی کارکنوں میں سے ایک ہیں،پہلی قسم کے لوگوں نے ان کے نیک کاموں میں کیڑے نکالنے کی کوشش کی،کسی نے انکی ذاتی زندگی کی کردارکشی میں اپنا حصہ ڈالنا عین ثواب سمجھا،تو کسی نے ناجائز زرائع کاالزام لگایا،لیکن ہم نے یہی دیکھا کہ آج تک کوئی بھی الزام سچ ثابت نہ ہوسکا،یہ اس بندے کا حوصلہ ہے کہ وہ نیکی سے بدگمان نہیں ہوا،اندر سے کمزور نہیں ہوا،اپنی دولت کا بیشتر حصہ آج بھی غریبوں پر لٹا رہا ہے،روزانہ لاکھوں غریب اور دکھی لوگ اسکی دولت میں سے اپنا حصہ لیتے ہیں کہ اﷲ کا یہی حکم ہے،ممکن ہے میں یہ چند سطور ہرگز نہ لکھتا کہ مبادا کوئی مجھے درباری یا خوشامد قرار دیئے،یہ میرے ضمیر کی آواز اور ایک اچھے اور نیک انسان کے لئے ہدیہ تحسین ہے،جس نے 2010 کے سیلاب میں پاکستان کے ایک انتہائی پسماندہ علاقہ سنانواں تحصیل کوٹ ادو میں سیلاب سے بے گھر لوگوں کو نہ صرف خوراک دی بلکہ انہیں رہنے کے لیے ایک جدید ماڈرن ویلج بھی بنا کے دیا،اور اس سے بڑھ کے انہیں مستقل روزگار کے قابل بھی بنایا، اب یہ کوئی ایسی انوکھی نیکی نہیں کہ جس پر قلم اُٹھایا جائے ہر سماوی اور زمینی آفات پر درجنوں اداروں نے غیر ملکی فنڈ سے بیسیوں بستیاں بنا کے غریبوں کے حوالے کیں،یہ اور بات کے پھر پلٹ کے انہوں نے ان غریبوں کی خبر نہ لی کہ آج وہ کس حال میں ہیں؟ چونکہ پیسہ ہنود یہود کا تھا برکت نہ ہوئی،دوسرا کھانے کو مچھلی تو پکڑا دی،مچھلی پکڑنے کا طریقہ نہ بتایا،یوں وہ لوگ آج بھی مشکلات میں جی رہے ہیں، چونکہ سنانواں میرا اپناNativeTown ہے، گزشتہ روز میرا ایک دوست مبشر اقبال قریشی نے اپنے ہمراہ سنانواں میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے تعمیرکردہ بیگم اختر رخسانہ میموریل ٹرسٹ کے زیراہتمام ماڈرن ویلج کا دورہ کرایا،دیکھ کہ حیرانگی ہوئی کہ کس قدر منظم انداز میں یہ بستی آبادکی گئی ہے،انتہائی دوردراز علاقہ میں قائم یہ گاؤں جنگل میں منگل کا سماں دکھا رہا تھا،جدید دنیا کی تمام تر سہولتیں یہاں میسر تھیں،سکول میں جدید نصاب اورانتہائی ڈسپلن نظر آیا،اعلیٰ تعلیم یافتہ سٹاف بہت محنت اور لگن سے اپنے فرائیض سرانجام دئے رہا تھا،اس علاقے کے لئے یہ سکول کسی''ایچیسن اور دانش '' سے کم نہ تھا، بستی میں مقیم خواتین سلائی کڑائی کے بعد قرآن شریف کی تعلیم حاصل کرتی ہیں اور مرد حضرات ایک جدید فٹبال سٹیچنگ سنٹر میں ہنر سیکھتے ہیں اور اپنی روزی خود کماتے ہیں،اور یہی وہ نقطہ ہے جو اس کو دوسروں سے منفرد کرتا ہے، اس بستی کے تمام انتظامیہ امور کے انچارج ملک ریاض تبسم نے ہمیں بتایا کہ بحریہ ٹاؤن نے آج تک کسی فلاحی کام کے لئے کسی غیرملکی ڈونر ایجنسی سے ایک پائی تک نہیں لی،جو بھی خرچ کیا ملک ریاض حسین نے اپنی جیب سے خرچ کیا،اور یہ کہ انہوں نے جب بھی کہیں کوئی بستی آباد کی سب سے پہلے وہاں کے لوگوں کو کوئی ایک ہنر میں مشتاق کیا،کہ وہ لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں تاکہ انکی خودداری مجروح نہ ہونے پائے،یہ وہ سوچ تھی جوبہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے،اگر باقی ارب،کھرب پتی ملک صاحب کی تقلید کریں اور ملک کے کسی ایک مسئلے کو پکڑ لیں اور اس پر کچھ خرچ کر دیں تو یقین کریں،آج سے یہ خود کش بمبارختم ہوجاہیں گے،لوگ اپنی اولادوں کو نہروں میں پھینکنا چھوڑ دیں گے،عدم برداشت اور بے روزگاری کی کوکھ سے جنم لینے والے قتل وغارت،ڈاکے،تاوان اور مایوسی ختم ہوجائے گی، دعا ہے اﷲ تعالیٰ اس ملک کو ہزاروں ملک ریاض حسین جیسے"بشردوست" عطا کرئے۔آمین۔
Nadeem Rehman Malik
About the Author: Nadeem Rehman Malik Read More Articles by Nadeem Rehman Malik: 18 Articles with 19770 views MS.c Mass com, M.A Political Science.gentleman with excellent social etiquettes and refined manners. He is a resourceful, active,hardly,carefull and.. View More