تہذیبوں کے ارتقاء میں چوپال کی روایت

اس وقت دنیا گلوبل ولیج کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ کمپیوٹر کے ایک کلک پر دنیا بھر میں پیش آنے والے حالات وواقعات آپ کے سامنے آجاتے ہیں․․․․․․․ایک وہ زمانہ تھا جب انسان غاروں میں آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر ایسے خاکے بنایا کرتا۔ ․․․․․جو اس کی برتری پر دلالت کرتے تھے۔ ․․․․․․․گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ انسان غاروں کے گھپ اندھیروں سے باہر روشنی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ وہ دن کے اجالوں کو روشنی تصور کرتا اور دن ڈھلتے ہی سہم جاتا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اندھیرے اس سے اس کا سایہ بھی چھین لیتے ہیں۔

ایک دن وہی انسان جو غاروں میں روشنی کی تلاش میں سرگرداں رہتا تھا پتھروں کو آپس میں رگڑنے لگا․․․․․․وہی پتھر جو صدیوں سے برف کی مانند سرد پڑے تھے۔ ․․․․․اچانک شعلہ پیداکرنے لگے․․․․․․․․وہی آگ کا شعلہ انسان کی بیداری کا سبب بنا․․․․․․․․یوں․․․․․غاروں میں بسنے والا بوڑھا انسان ․․․․․․․․ایک نئے جذبے سے جی اٹھا۔ وہ دن بھر کی مشقت اور ہمت سے دھیرے دھیرے ارتقاء کی منازل طے کرنے لگا۔

وقت گزرتا رہا ․․․․․․․عہد بہ عہد انسان کا سفر جاری رہا۔ وہی انسان جو ایک عہد میں اپنے لباس سے ماوراتھا․․․․․․․․زندگی کو ایک ڈھنگ اور سلیقے سے گزارنے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف انسانوں کے میل جول اور آپس میں رابطوں نے ایک معاشرے کو جنم دیا․․․․․․․ان وقتوں میں ہر فرد کو فراغت کے لمحات میسرتھے․․․․سو اس فراغت نے مختلف اور عمدہ روایتوں کی بنیادیں ڈال دیں․․․․․․․جب مختلف معاشرے پروان چڑھے تو ایک قوم کے خدوخال نمایاں ہونے لگے۔

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ محبت وپیار اور مل بیٹھنے کی روایتیں پرورش پانے لگیں․․․․․ہر چھوٹے بڑے گاؤں کے لوگ چوپال لگائے مختلف حالات وواقعات اور دن بھرکی اپنی مصروفیات کوایک دوسرے سے بیان کرتے یوں بات سے بات چلتی․․․․․․․․․رات ڈھلنے لگتی․․․․․․․ٹمٹماتے ستارے اونگھنے لگتے․․․․․․․․․بادلوں کے پیچھے چھپا چاند ․․․․․․․ہر لمحہ بعد دھرتی پر چاندنی بکھیر دیتا․․․․․․․․یوں گاؤں میں بنے چوپال مختلف تہذیبوں کا استعارہ بنتے چلے گئے․․․․․․․․او ر روایتیں پروان چڑھنے لگیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ روایتیں ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک سفر کرنے لگیں․․․․․․․پھر تھوڑے ہی عرصہ بعد شہروں میں آن بسیں․․․․․․․․ان روایتوں کے امین ہر طبقہ فکر کے لوگ تھے ہر طبقہ ان روایتوں کی پرورش میں محبت اور خلوص کی مٹھاس ڈال رہاتھا․․․․․․․․ایسے میں تاریخ نے دنیا کی بہت بڑی ہجرت دیکھی․․․․․․․جو قیام پاکستان کا سبب بنی․․․․․․․․․․ہندوستان سے پاکستان کا سفر محض سفر ہی نہیں تھا․․․․․․․․بلکہ دکھوں کا ایسا موڑتھاجس سے لمحوں کی ابتدانے صدیوں کامزاج بدل ڈالا․․․․․․․

چوپال کی وہ روایتیں بڑے بڑے شہروں میں پروان چڑھنے لگیں․․․․․․․جہاں کراچی کا دبستان ہر طبقہ فکر کے اذہان کو فکری شعور دے رہا تھاتو وہاں لاہور میں ٹی ہاؤس علم وادب ، فکروفن کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ ادیب اور شاعر باقاعدگی سے ٹی ہاؤس میں جمع ہوتے اوراپنی تخلیقات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے․․․․․․․یوں نئے پڑھنے لکھنے والے اپنی تخلیقی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کرتے․․․․․․․اس طرح نئے اذہان علم وادب کی جستجو میں آگے اورآگے سفر کرنے لگے اس سے یہ سفر آنے والی نسلوں کی راہیں متعین کرتارہا․․․․․․․یوں روایتیں پروان چڑھتی رہیں․․․․․بڑے بڑے تخلیق کار ان روایتوں کی پرورش میں اپنا حصہ ڈالتے رہے․․․․․یوں وقت کا پہیہ اپنی چال چلتارہا․․․․․وہ لوگ جو گاؤں میں چوپال لگائے ہنسی خوشی اپنا وقت گزارتے تھے․․․․․․․․․انہی لوگوں کی یہ روایتیں شہروں میں ڈیرے ڈالنے لگیں․․․․․یہ بڑے شہر جن میں کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور ، حیدرآباد، گوجرانوالہ، اسلام آباد اور ملتان شامل تھے۔یہی لوگ جو ادب کی مختلف اصناف کو اپنے لیے ذریعہ اظہار بناتے چلے آئے تھے․․․․․․․آپس میں مل بیٹھے ․․․․․․․یوں ایک نئی دنیا آباد ہوگئی․․․․․․․․کوئی غزل کہہ رہاتھا تو کوئی نظم کو اپنا ذریعہ اظہار بنارہا تھااسی طرح نثر کے میدان میں طبع آزمائی نے اصناف ادب کو نئی منزلوں کے کئی کارواں دے دیئے․․․․․․․․جینے اور زندگی بسرکرنے کے اس انداز نے سب کو ایک ایسی جگہ لا کھڑاکیا جہاں ایک نئی تہذیب جنم لے رہی تھی۔

بڑے شہروں سے پرے چھوٹے شہر بھی ایسی لازوال تہذیبوں کوپروان چڑھا رہے تھے․․․․․․․ان شہروں میں مل بیٹھنے کی روایت کا اپنا انداز تھا۔دیگر شہروں کی طرح لیہ جو علمی ادبی شخصیات کا مرکزرہا ہے․․․․․․․ہر تخلیق کارکو․․․․․اس کی تخلیق کے معیارپر پرکھنے لگا ․․․․․․․․․پڑھنے لکھنے والے نوجوان سرِشام مختلف ہوٹلوں کے باہر رکھی چارپائیوں پر چوپال لگا لیتے اور رات ڈھلے اپنی اپنی تازہ تخلیقات ایک دوسرے کے سامنے پیش کرتے․․․․․یوں سمجھتے سمجھاتے․․․․․․․․․ہنستے مسکراتے برسوں بیت جاتے․․․․․․․․․یوں محسوس ہوتا جیسے پروان چڑھتی یہ روایتیں بچپن سے لڑکپن کا سفر طے کرتی جوانی کی سرحدوں پر آن رکی ہوں․․․․․․․․اس فضا میں نسیمِ لیہ اور ڈاکٹر خیال امروہوی کی گرما گرم بحثوں نے تخلیق کے نئے زاویے تراش دیے۔ جہاں شہباز نقوی اور شعیب جاذب اپنے اپنے انداز سے تخلیق کو منظم انداز میں دوام دے رہے تھے وہاں نئی نسل کارواں کی صورت منزلوں کی جانب رواں دواں تھی․․․․․

جوں جوں وقت گزرتا رہا ․․․․․روزگارکا عفریت نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو نگلنے لگا․․․․․․․․․یوں ٹی ہاؤس کی جگہ نئی عمارتیں سراٹھانے لگیں․․․․․لیکن ان میں چند نوجوان ایسے بھی تھے جو ہر عفریت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے لمحہ لمحہ آگے بڑھ رہے تھے اور مسلسل تخلیق کے نئے امکانات کھوج رہے تھے۔ وہ سفر جو تاریکیوں سے شرو ع ہوا ․․․․․․․․․اب ایک نئے دور میں داخل ہوچکاتھا یعنی اکیسویں صدی باہیں کھولے ان کے استقبال کے لیے منتظر کھڑی تھی۔

لیہ شہر کی جنوبی سرحد جہاں لیہ کا آغاز ہوتا ہے وہاں پہاڑپور نام کا ایک گاؤں ہے․․․․․․․پہاڑپور محض ایک گاؤں کا نام ہی نہیں․․․․بلکہ ایک ایسی فکری آماجگاہ ہے جس نے آگے چل کر ایک قوم کو نیا تشخص فراہم کرنا ہے۔ یہ سہ ماہی ’’نیا قدم انٹرانیشنل‘‘، ’’شعاعِ فردا‘‘ اور ’’لازماں سے زماں تک‘‘ جیسی تخلیقی قدروں کے پاسباں جسارت خیالی کی سرزمین ہے․․․․․․․جہاں علم وادب کا پودا ․․․․․․․․․اس وقت تناور درخت بن چکا ہے اور اپنے سائے میں علم و ادب کی تمام روایتوں کو دوام دے رہا ہے۔

یہ ایک عجیب اتفاق ہے ہم پڑھنے لکھنے والے لوگ ایسی عمدہ قدروں کی تلاش میں پہاڑپور کا رخ کرتے ہیں ۔۔۔پہاڑپور نہر کے کنارے واقع المدینہ ریسٹورینٹ علم وادب سے وابستہ لوگوں کی بہترین بیٹھک ہے․․․․․․․یہ باغات کے بیچوں بیچ سبزہ زاروں کا ایک خوبصورت استعارہ ہے․․․․․․․یہاں پاکستان بھر سے آئے دوستوں کی ․․․․․․․اہلِ ادب کی محفلیں جمتی ہیں جب کہ ان محفلوں کے میزبان اور روح رواں جسارت خیالی ہوتے ہیں۔

المدینہ ریسٹورنٹ کے بیچوں بیچ ․․․․․․․چوپال کی روایت عہد حاضر کو خوش آمدید کہہ رہی ہوتی ہے․․․․․وہی انسانی جذبات و احساسات سے وابستگی کا ایک عالم جو انسان کے وجود میں سانسوں سے مشروط چلا آیا ہے․․․․․․․․عمدہ علامتوں کے طوررپر محسوس ہونے لگتا ہے۔ ریسٹورنٹ کے مغرب میں شمال کی جانب بہتی نہر اور دور تلک درخت ہی درخت خدائی پہرہ داروں کی طرح سراٹھائے جھوم رہے ہوتے ہیں․․․․․․کھلا آسمان ․․․․․․․چودھویں رات کا پچھلا پہر ۔۔درختوں کی ہلتی ٹہنیاں عدم تحفظ کے ہر اس احساس پر غالب آجاتی ہیں۔۔۔جو صدیوں پہلے انسان پر غالب آجایا کرتاتھا۔

یہاں ہر دوسرے ماہ لیہ سے ڈاکٹر خیال امروہوی ، نسیم اختر قادری، ریاض حسین اور راقم الحروف پہاڑپور کا سفر باندھتے ہیں۔ جبکہ چوک اعظم سے ناصر ملک اور صابر عطاء پہاڑ پورکا رخ کرتے ہیں․․․․․․․․جسارت خیالی اپنے دوستوں کے ہمراہ المدینہ ریسٹورنٹ پر سب کا پرتپاک استقبال کرتے ہیں․․․․․․․․یوں سر شام محفل جم جاتی ہے․․․․․․․․ڈاکٹر خیال امروہوی کی عالمانہ گفتگو او ر مزاح آمیز جملے محفل میں قہقہوں کا موجب بنتے ہیں جسارت خیالی کی غزلیں․․․․․تخلیق کی نئی سمعتوں کا پتہ دینے لگتی ہیں․․․․․․․ایسے میں ناصر ملک کی نظمیں ماورائی قوتوں کو زمین پر خوش آمدید کہنے لگتی ہیں․․․․․․․․․اور صابر عطاء کے تجزیے دلچسپ موضوعات کا احاطہ کرنے لگتے ہیں․․․․․․․․ہمارے دوست نسیم اخترقادری کے مزاح انگیز جملے محفل میں نئی جان ڈال دیتے ہیں اور راقم انسانوں کے اندر رقص کرتی خوشیوں کو دوام دینے کے خیال سے ہر لمحہ نئی سے نئی تفہیم کو اپنے نقطہ نظر سے پیش کررہا ہوتا ہے․․․․․․․․وہاں ملک عبدالعزیز ایڈووکیٹ کی موجودگی ․․․․․․․․وقت گزرنے کے ہر احساس پر غالب آجاتی ہے۔

لمحہ لمحہ کٹتی رات․․․․․․․ایک پہر سے دوسرے پہر داخل ہوتی رات بادلوں کی اوٹ سے چھپتا نکلتا چاند․․․․․․․․ہر سو چلتی ٹھنڈی ہوائیں․․․․․․․․․طلمساتی دنیا کا ایک وقفہ محسوس ہوتی ہیں ۔۔نہر کنارے دورتک․․․․․․․․چہل قدمی نہ بھولنے والی یادوں کا حصہ بن جاتی ہے․․․․․․․وہ سب دوست چوپال روایتوں کے امین ہیں ۔۔۔جو سپیدہ سحر تک اس خوبصورت ماحول سے لطف اٹھاتے ہیں وہ سب طلوع ہوتی صبح کو غور سے دیکھتے ہیں جودھیرے دھیرے پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہوتی ہے۔پرندوں کے غول درختوں کاساتھ چھوڑرہے ہوتے ہیں اوروہ رزق کی تلاش میں دورتک محو پروازہوتے ہیں۔

المدینہ ریسٹورنٹ کے روح رواں مہر سجاد عرف سجن․․․․․․․․مبارکباد کے حق دار ہیں کہ وہ علمی ادبی محفلوں کو وہ ماحول مہیا کرتے ہیں جو برس ہا برس سے اعلیٰ اقدار کا اثاثہ رہا․․․․․․․اس کے علاوہ وہ تمام دوست جن کا فرداً فرداً ذکر کرنا ضرووری ہے جو ایک پہر تک محفل میں رنگینوں کا باعث بنے رہتے ہیں ان میں پروفیسر اقبال ندیم، مہر غلام شبیر، رضاکاظمی، مٹھوشاہ، عابد فرید، سکندرشاہ، میاں نور الٰہی ایڈووکیٹ، مہر احمد علی واندر ایڈووکیٹ، ملک حفیظ کالرو ایڈووکیٹ، ملک مظاہر حسین جکھڑ ایڈووکیٹ، کے بی ملک، بشیر حسین ناظم، ندیم سوہیہ ، ملک منظور کلو(علاقائی گلوکار) عبداﷲ نظامی، محمد اقبال پنوار، سلیم گجر، واحد بخش انجم، عاشق علی، ڈاکٹر شیر خان،سعید سوہیہ ایڈوکیٹ ا ور خاص طور پر علی بھائی جو اپنی خوبصورت باتوں سے محفل کو اور خوبصورت بنادیتے ہیں۔

المدینہ ریسٹورنٹ علم وادب کی پہچان بن کر ابھر رہا ہے یہ ان روایتوں کا امیں ہے جو ابتدا سے انسان کا اثاثہ حیات تھیں۔ دنیا کہ گہما گہمی اور مصروفیات زمانہ سے چند لمحے مستعار لے کر گوشہ عافیت اختیارکرنے سے ․․․․․․․․زندگی میں تازگی کا احساس کروٹیں لینے لگتا ہے․․․․․․․․جسارت خیالی تمام دوستوں کو ایک ایسے ماحول میں خوش آمدید کہتے ہیں جو فطرت کی رنگینوں سے لبریز ہوتا ہے ۔

بلا شبہ زندگی معدوم ہوتے نقطے کی مانند ہوتی ہے۔ ایسے میں خوشی اور مسرت کا ہر لمحہ یادگار بنادیا جائے تو اس سے روایتوں کی پاسداری کے ساتھ ساتھ نئی تہذیب فروغ پائے گی جس سے ایک نیا تشخص ابھر کر سامنے آئے گا․․․․․․․․بلا شبہ ․․․․․․․تادیر دوام کے ساتھ۔
Jamshaid Sahil
About the Author: Jamshaid Sahil Read More Articles by Jamshaid Sahil: 7 Articles with 6601 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.