فحاشی ،بدکاری کی محافل فیشن شو

اخلاقیات کی معلم اورشرم وحیاکی پیکرقوم ان صفات قدسیہ سے عاری ہوچکی ہے جن کی بدولت اسکے سامنے پہاڑ رائی ہوتے تھے۔بیت المقدس کی طرف مجاہدین اسلام مارچ کررہے ہیں راستے کے دونوں اطراف شیاطین نے جال پھیلا رکھے ہیں۔ ایک طرف سونے ، چاندی اور ہیرے جواہرات کے ڈھیر لگادیئے تو دوسری طرف نفس کی مرغوب حسین دوشیزائیں حسن وادا کے دلآویز جلوے بکھیر رہی ہیں۔ یہ تمام صلیبی ممالک سے منتخب کرکے لائی گئیں۔ بڑے سورما انکی اداؤں پر اپنا سب کچھ قربان کرتے تھے۔انکی نگاہوں میں ان حسیناؤں کی بڑی قدرومنزلت تھی۔ لیکن تاریخ نے انہیں آج جس ناقدری اور بے توجہی سے دوچار کیا ایسا تو انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کوئی مرد ہو کر ان کی طرف مائل نہ ہو۔ سیدنا حضرت ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہ جنرل آفیسر کمانڈنگ کا فرمان نافذ ہوا کہ بحکم قرآن مومنوں سے کہدو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ آج تو کچھ اور ہی سماں تھا کہ صلیبی سورماؤں کے ہوش اڑانے والے غلامان رسول عربی ﷺ ذکر الٰہی کرتے پاک نگاہیں نیچے کیئے کس شان سے بیت المقدس کی طرف بڑھ رہے ہیں کہ فرشتے بھی ان کے تقدس کو سلام کرتے ہیں۔ صلیبی مذہبی رہنماؤں نے کہا تھا کہ اگر ان لوگوں کی نگاہیں زرو جواہر اور ان حسیناؤں پر جم گئیں تو صلیبی لشکر ان پر غالب آئے گا اور اگر انہوں نے اس جال کو تقویٰ سے عبور کیا تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور یہی ہوا کہ تلواریں نیام میں رہیں اور دشمن گھائل ہوا۔ بیت المقدس کی کنجیاں امیرالمؤمنین کے حوالے کردی گئیں۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ حیا ایمان سے ہے۔ جس میں حیا نہیں اس میں ایمان نہیں۔ میاں بیوی سے ایک دوسرے کی شرم والی چیزیں پوشیدہ نہیں رہتیں لیکن ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کا کبھی ستر مبارک نہیں دیکھا(الشفا شریف) لیکن آج یہی قوم اخلاق و کردار باختہ ہوگئی۔ آج اس کی ہوا اکھڑ چکی ہے۔مغربیت کے دلدادہ صنف نازک کی نمائش کرکے اپنے ایمان باختہ ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔جن کے گھر وں میں اچھی شکل و صورت والی لڑکیوں نے جنم لیا انکے تو وارے نیارے ہوگئے گویا کہ سونے کی کان مل گئی۔ شو بز ، اشتہارات اور پھر ڈراموں یا فلموں میں اس مظلوم کو جوت کر خوب پیسہ کماتے ہیں۔ یہ طرز عمل قبل اسلام مشرکین کے عمل سے ملتا جلتا ہے وہ رزق کے خوف وغیرہ سے زندہ دفن کرتے تھے اور آج مال کے حریص انہیں بازاری مال بنا کر مال کماتے ہیں۔ عورت کی عزت انکی نگاہوں میں ذرا برابر نہیں۔عورت شادی شدہ ہوتو خاوند کی عزت و آبروہے اگر غیر شادی شدہ ہوتو ماں باپ اور بھائیوں کی غیرت ہے۔ مگر ان تمام کی غیرت اس وقت کہاں جاتی ہے جب پیسوں کی خاطر ان کی غیر ت کسی کی بانہوں میں جھول رہی ہوتی ہے یا کسی کے بستر پر ہوتی ہے؟ انسان اس قدر درندہ بن گیا ہے کہ اپنی لخت جگر کی عصمت کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔اکثر و بیشتر انتہائی کم عمر بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں اور پھر قتل کی وارداتیں عام ہیں۔ وزیر اعلیٰ صاحب انکے گھروں میں جاکر دلاسا دیتے ہیں جو میڈیا پر اس مظلوم خاندان کی رہی سہی عزت بھی تنکوں کی طرح ہوا میں اڑجاتی ہے۔ بیسیوں ایسے کیس ہوئے مگر کسی ایک کو سرعام عبرت کا نشاں نہ بنایا گیا۔ سزا اور جزا پر عمل درآمد کیسے ہو؟ مجرموں کے تعلقات یا رشتہ داریاں جمہوری سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ہیں۔ سزاکے لیئے پولیس کی تحریر، وکلاء کی موشگافیاں ، ججوں سے رابطے، اسکے باوجود کسی دیانتدار جج نے سزا دے بھی دی تو انگریز کا کالا قانون ،سول جج سے سیشن جج وہاں ہائی کورٹ ، جہاں اس وقت 2008 کے کیسز لگ رہے ہیں ۔ وکلاء کا حاضر نہ ہونا ، کیسز کا ایڈ جرن ہونا، پھر طاق نسیاں میں جانا اور اگر پندرہ بیس سال بعد فیصلہ آگیا تو اب سپریم کورٹ ، بس اب کیا ہے ، کوئی ضمانت پر مزے اڑائے یا جیل میں مرے، ارباب اقتدار و اختیار اﷲ کو کیا جواب دوگے؟ حکمرانوں نے ایسا ماحول ہی کیوں پیدا کیا کہ نوجوان مرد عورتیں بے راہروی کا شکار ہوگئے۔ جب لباس جیسی نعمت خداوندی کے نام پر فحاشی کی ترغیب دی جائے، جس لباس کی نمائش کی جارہی ہے دراصل یہیں سے بدکاریوں کی ابتداء ہوتی ہے۔ شیاطین نے لباس کا مقصد نہیں سمجھا ۔ قران کریم سورۃ الاعراف کے رکوع نمبر ۱۰ میں اﷲ رب العالمین نے ارشاد فرمایا: اے آدم(علیہ السلام) کی اولاد ہم نے تمہاری طرف ایک لباس اتاراکہ تمہاری شرم کی چیزیں چھپائے اور ایک وہ کہ تمہاری آرائش ہو۔اور پرہیز گاری کا لباس وہ سب سے بھلا۔یہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہے کہ کہیں وہ نصیحت مانیں۔ ائے آدم کی اولاد خبردار تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسا تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکالااتروادیئے ان کے لباس کہ انکی شرم کی چیزیں انہیں نظر پڑیں۔۔۔۔

قاری صاحبان قرآن کا مطالعہ کرلیں۔ مخلوق میں سے لباس جیسی نعمت صرف انسان کو عطا ہوئی۔ لباس وہ نعمت ہے کہ دنیا کے تمام انسان اسکو استعمال کرتے ہیں۔ اس میں مسلمانوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ تہہ بند، چادر،شلوار، لمبا کرتا ، سرپر ٹوپی عمامہ، چادریں اوڑھنا، پلو لٹکانا، غرضیکہ کئی انداز ہیں شرم کی جگہوں کے ستر کی۔ قرآن کریم نے تو قانون پردہ بتادیا۔ کہ عورتیں اپنے چہرے بھی چھپائیں۔ لباس انسان کے جسم کی کیفیت وماہیت کو دوسروں کی نگاہوں سے مستور رکھتا ہے۔ ہندو عورتیں، سکھ عورتیں اور دیگر کئی مذاہب کی عورتیں پردہ کرتی ہیں ۔ لباس بھی کھلے، اسی طرح مرد بھی پگڑیوں کا استعمال کرتے ہیں، جن میں ہندو، سکھ اور عیسائی بھی شامل ہیں۔ میں مسلمانوں کے بارے کیا کہوں جنہیں تقویٰ کا لباس اور سرپر عمامہ، عورتوں کا پردہ اﷲ اور اسکے رسول ﷺ نے واضح طور پر دیالیکن انہیں شیطان کی اتباع کچھ زیادہ ہی مرغوب ہے۔ اہل مغرب پر ابلیس کااختیار زیادہ ہوا۔ اس نے انکے لباس اتروادیئے۔ فیشن شو کے نام پر شیاطین کی محافل اب پاکستان میں زیادہ منعقد ہوتی ہیں۔ جہاں عورتیں عریانی کا مظاہرہ کرکے دین باختہ عورتوں اور لڑکیوں کو پاکستان میں بے حیائی کی وبا پھیلانے کے لیئے تیار کرتی ہیں۔ پھر میں کہوں گا کہ یہ سب کچھ حکمرانوں کا کیا دھرا ہے۔ ایسی خبیث محافل پر پابندی لگائیں۔ میٹروبس کی جگہ بے حیاؤں کے میٹر ٹھیک کریں۔ ملک میں اخلاقی قدروں کی ترویج کریں۔ یا د رکھو جہاں اﷲ اور اسکے رسول کے احکامات کی دیدہ دلیری سے مخالفت کی جائے وہاں طرح طرح کے عذاب آتے ہیں۔ جو اس وقت باہم عناد، قتل و غارتگری،پاکستانی طالبان، بھتہ خوری، رشوت ، باہمی نفرت، لوٹ مار، ذخیرہ اندوزی، وافر نعمتوں کی فراوانی اور ہرچیز کی قلت۔ دین سے دوری، جہالت ، طرح کی بیماریاں اور وبائیں۔یہودیوں اور صلیبیوں کے گماشتے حکمران۔ یہ سب کچھ عذاب الہی نہیں تو اور کیا؟ توبہ کا دروازہ بند ہونے سے پہلے توبہ کرو اپنے رب سے معافی مانگو اور اصلاح کرو۔ممکن ہے اﷲ تمہارے اوپر رحم فرمائے آمین۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 127835 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More