دھوتی میں سب ننگے ۔۔۔

اب آپ کہیں گے کہ ڈاکٹر صاحب کا دماغ سرک گیا ہے ۔۔۔۔۔ بے ھودگی اور ناشائستگی پہ اتر آئے ہیں ۔۔۔ تو جناب ایسا ہرگز نہیں۔ یہ قصور تو آپ کی بلکہ ہماری زبان کا ہے۔ زبان بھی کیا کرے اس کے بولنے والوں کی اکثریت جو ننگے بھوکوں کی ہے ۔۔۔۔۔ تو کچھ محاورے اور کہاوتیں تو ہوں گی نا اس قسم کی۔

اب جن لوگوں کو تنقید برائے تنقید کا شوق ہے وہ یہ اعتراض اٹھا سکتے ہیں کہ صرف دھوتی میں ہی کیوں؟ ۔۔۔۔۔ انسان تو شلوار میں بھی اسی کیفیت میں ہوتا ہے اور پاجامہ اور چڈے میں بھی ۔۔۔۔۔ تو ان کے لئے عرض ہے بھائی! اس محاورے یا کہاوت کی مقصدیت کو مدِ نظر رکھ کر ہی دھوتی کا استعمال کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔ دراصل یہ بات اس وقت بولی جاتی ہے جب یہ کہنا مقصود ہو کہ سب غریبوں کا ایک سا ہی حال ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اوپر سے بے چارہ کوئی کتنی ہی سفید پوشی کرلے اندر سے سب کا حال ایک سا ہی پتلا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ حال امیروں کا نہیں ہوتا اس لئے اس محاورے میں پتلون کا استعمال نہیں کیا گیا۔ پتلون جوکہ امیروں کا لباس ہے اس لئے اس میں لوگ ننگے نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔ کیوں؟ ۔۔۔۔۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس بات کی وضاحت کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی موقعہ ۔۔۔۔۔۔ یہ الگ بات کہ کوئی لنڈآ سے خرید کر پتلون یوں ہی پہن لے تو ہم اس کا کچھ نہیں کر سکتے۔

اب ایک آخری پریشانی رہ گئی چلیں اسے بھی دور کئے دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دھوتی کو غریبوں کا لبادہ ہی کیوں گنا گیا ہے۔ بہت سے امیر بھی دھوتی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ تو عرض ہے کہ استثنیٰ تو ہر بات اور ہر چیز میں ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔ لیکن جو شخص غریب سے امیر بنتا ہے عموما دیکھا گیا ہے کہ وہ جو کام اپنی پہلی فرصت میں کرتا ہے ان میں سے ایک فوری طور پر دھوتی کو اتار کر ایک طرف رکھ دینا شامل ہے ۔۔۔۔۔ اب اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کے بعد وہ یوں ہی پھرتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔ ہاں یہ دوسری بات ہے کہ بہت سے نودولتئے بعض موقعوں پر ظرف کا مظاہرہ نہیں کرپاتے اور آپے اور جامے سے پاہر ہو جاتے ہیں۔
(ڈاکٹر ریاض احمد)

یہ اوپر کی تحریر کا ھاجمولا ہم نے اس لئے دیا ہے کہ ہم ایک ہائیکو آپ سب کو سنانے لگے ہیں اور ہماری نوجواں نسل جو انگریزی میں سر کھپانے کی وجہ سے اردو کو آسانی سے سمجھ نہیں پاتی اسے دقت نہ ہو۔

حال احوال (ایک غریب کو دوسرے سے)

کیسے ہو ، چنگے؟
پوچھ نہیں ، ہم ہیں سارے
دھوتی میں ننگے

(ڈاکٹر ریاض احمد)
Dr. Riaz Ahmed
About the Author: Dr. Riaz Ahmed Read More Articles by Dr. Riaz Ahmed: 10 Articles with 5517 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.