میڈیا ۔۔۔۔۔کچھ غور طلب پہلو

پرنٹ میڈیا کے روا ئتی مقام کے باوجود موجودہ دور میں الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔خاص طور پر ٹی وی چینلزشعوری یا لا شعوری طور پر ہماری زندگی کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ یہ ٹی وی چینلز ہی ہیں جو نہ صرف مختلف معاملات پر ہماری رائے کی تشکیل کرتے ہیں، بلکہ ہمارے سماجی رویوں اور سوچ کو بھی ایک خاص رخ دیتے ہیں۔معلومات، تعلیم اور تفریح کی فراہمی۔۔۔میڈیاکے تین بنیادی مقاصدہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو انہی مقاصد کو مدنظر رکھ کر پروگرام تیار کیے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں ہمیں ــ ــ "کسوٹی "اور" نیلام گھر" جیسے معیاری تفریخی و معلوماتی پروگرام دیکھنے کو ملتے تھے۔ جنہیں بچے، بوڑھے، نوجوان سب ہی شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ بچوں کے لئے پیش کیا جانے والا پروگرام "بولتے ہاتھ" واحد پروگرام تھا جو گونگے بہرے بچوں کی معلومات، تعلیم اور تفریح کی غرض سے خاص طور پرتیار کیا گیا۔ ہم آج تک اس معیار کا کوئی دوسرا پروگرام نہیں بنا سکے۔

ایک زمانہ تھا کہ پی ٹی وی کے ڈرامے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی بہت شوق سے دیکھے جاتے تھے۔ ڈاکٹر انور سجاد، امجد اسلام امجد، منو بھائی، حسینہ معین، اشفاق احمد اور عطاالحق قاسمی جیسے بڑے لکھاریوں کے ڈرامے جب خلیل شہزاد، ساحرہ کاظمی، نثار حسین، نصرت ٹھاکر ، ایوب خاور اور یا ور حیات جیسے ہدایت کاروں کی زیر نگرانی بنتے تو ناظرین پر طویل عرصے تک اپنا خاص تاثر چھوڑ جاتے۔ یہ ڈرامے نشر ہوتے تو محاوراتا نہیں واقعتا پاکستان اور بھارت کی گلیاں اور سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔ بھارت کی ڈرامہ اور فلم اکیڈمیوں میں پاکستانی ڈرامے دکھا کر طالبعلموں کو اداکاری کی تربیت دی جاتی اور ہدایتکاری کے اسرارورموز سکھائے جاتے تھے۔ سرکاری اہتمام میں چلنے کے باوجود خبرنامے کا معیار یہ تھا کہ لوگ پی ٹی وی کے نیوز کاسٹرز اور اینکرز کو سن کر اپنے تلفظ کی ادائیگی اور لب و لہجہ کی تصحیح کیا کرتے تھے۔

آج ہمارے ہاں ٹی وی چینلز کی بھرمار ہے۔ مگر معلومات، تعلیم اور تفریح جیسے بنیادی مقاصد نظرانداز ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔تفریخی پروگراموں کو فقط ڈراموں اور ناچ گانے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ظاہری خوبصورتی اور اخلاق باختگی جیسے سطئحی عناصرکو گلیمر اور کمرشلزم کی آڑ میں کامیابی کا معیار بنایا گیا تو ڈرامہ زوال پذیر ہو گیا۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے ڈرامے بھارتی سوپ ڈراموں کی نقالی کرتے نظر آتے ہیں۔آج ہمارے ڈرامے معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے اور ناظرین کو کوئی مثبت پیغام دینے سے قاصر ہیں۔ چند ایک کے علاوہ تقریبا تمام ڈراموں کی کہانی کم و بیش پیار محبت کی داستانوں، غیر شائستہ مراسم اور عورت کی مظلومیت کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔

ایک وقت تھا کہ پی ٹی وی کے ڈراموں میں کوئی مبہم سی قابل اعتراض جھلک نظر آ جاتی تو اخبارات کے دفاتر میں عوام کے ٹیلی فون کالز اور خطوط کا تانتا بندھ جاتا تھا اور اخبارات ان ڈراموں پر سراپا احتجاج بنے دکھائی دیتے تھے۔آج کے ڈراموں میں انتہائی قابل اعتراض مناظر بھی ناقابل اعتراض گردانے جاتے ہیں۔بیشتر پرائیویٹ ٹی وی چینلز تو بھارتی چینلز کو بھی مات دیتے نظر آتے ہیں۔ ان غیر اخلاقی مناظر کو دقیانوسی سوچ اور تنگ نظری قرار دے کر جدید تقاضوں کے منافی خیال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسی جدید دور میں ایرانی فلم تمام غیر اخلاقی اور نا شائستہ عوامل کا سہارا لیے بغیر حجاب میں ملبوس ہیروئن دکھا کر آسکر ایوارڈ جیت لاتی ہے۔ ناچ گانا بھارتی ثقافت کا حصہ ہے مگر ہمارے چینلز بھارتی نقالی میں اسے اپنی تہذیب کا خاصہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ میوزک وڈیوز ہوں یامختلف مصنوعات کے اشتہارات کہیں بھی ہماری تہذیبی اقدار اور اخلاقی روایات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔بلکہ نوجوان نسل کو بے راہ روی کی طرف مائل کرنیوالی غیر اخلاقی ترغیبات دی جا رہی ہیں۔ اس سارے معاملے میں سنسر بورڈ عضو معطل ہو چکا ہے جسکا کوئی مثبت کردار دکھائی نہیں دیتا۔محکمہ اطلاعات اور ثقافت کی ترویج کے ادارے تو ایک طرف، ہمارے دانشور حلقوں کی جانب سے بھی کوئی حرف ملامت کم ہی سامنے آتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم اس ثقافتی یلغار کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہوں۔

ہمارے ہاں نیوز چینلز کی اہمیت تفریخی چینلز سے کہیں ذیادہ ہے۔جنکے باعث عوام ہر طرح کی معلومات اور حالات حاضرہ سے با خبر رہتے ہیں۔انہیں اپنے علاقہ، شہر، صوبہ اور ملک کی صورتحال کے بارے میں آگاہی رہتی ہے۔ مگر بریکنگ نیوز جیسی بدعت نے سنسنی خیزی اور غیر مصدقہ خبر کی فراہمی جیسے غیر صحتمند رجحان کوفروغ دیا ہے جو قابل افسوس ہے۔ جلد بازی اور سبقت لے جانے کی دوڑ میں سنسنی کا عنصر خبریت اور صداقت پر حا وی ہو گیا ہے۔ خبر پہلے چلا دی جاتی ہے اور اسکی تصدیق کی زحمت بعد میں گوارا کی جاتی ہے۔یہ بات درست ہے کہ عدالتیں تو بعد میں فیصلہ سناتی ہیں مگر نیوز چینلزفوری فیصلہ صادر کر کے کسی بھی شخص کو ملزم سے مجرم بنا دیتے ہیں۔شمائلہ رانا جیسے بہت سے واقعات ہمارے سامنے ہیں،عدالت میں اسکی بے گناہی ثابت ہونے تک مذکورہ ایم پی اے کی عزت نفس،نجی زندگی اور سیاسی کیرئیر بریکنگ نیوز کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔حالات حاضرہ کے جو پروگرام سنجیدگی کے حامل ہونے چاہیےں وہ بھی پست قسم کے سطحئی پروگراموں کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔کامیاب میزبان اسے تصور کیا جاتا ہے جو سیاستدانوں کو لڑائے اوراس حد تک لے جائے کہ ساری حدود و قیود بھی پامال ہو جائیں۔پی ٹی وی اپنی تمام ترخرابیوں اور جانبداری کے باوجوداس نام نہاد جدید روایت سے بچا ہوا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ چینلز کی چکاچوند کے باوجود آج بھی پی ٹی وی کو ایک فیملی چینل کا درجہ حاصل ہے۔ خبر ہو یاحالات حاضرہ کے پروگرام سیاست کے علاوہ کم ہی موضوعات کو زیربحث لایا جاتا ہے۔بالکل اسی طرح کسی بھی معاملہ یا صورتحال کے منفی پہلو کی تو خوب تشہیر کی جاتی ہے مگر مثبت کاموں اور پہلوؤں کو یا تونظرانداز کر دیا جاتا ہے یا سرسری طور پر پیش کیا جاتا ہے۔گویا مایوس عوام کو ایسی خبروں، معاملات یا مثبت باتوں سے بے خبر رکھا جاتا ہے جو انکی مایوسی کو کم کر کے امید کی روشنی پیدا کرئے۔ طنز و مزاح کی آڑ میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کو تضحیک کا نشانہ بنانا بھی کوئی قابل ستائش بات نہیں ۔ سنجیدہ مسائل اور حکمرانوں کی غفلت کو مزاح اور پھکڑ پن میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے تو دراصل ان مسائل کی سنجیدگی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس صورتحال میں پیمرا اور وزارت اطلاعات بھی کوئی مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔

صحافتی ضابطہ اخلاق اورٹی وی چینلز لے لئے قوانین و ہدایات اپنی جگہ موجود ہیں مگر عملی طور پر ان کا نفاذ نہ ہونے کے برابر ہے۔حکمرانوں کے خلاف خبر یا صحافتی رویوں کے خلاف تو پھر بھی وزارت اطلاعات کی طرف سے کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے مگر ان مسائل پر کبھی توجہ نہیں دی جاتی جو ان ٹی وی چینلز کی وجہ سے کروڑوں عوام کے دل و دماغ میں الجھنیں پیدا کر رہے ہیں۔بد قسمتی سے مختلف چینلز ذاتی احتساب کا بھی کوئی موثر نظام وضع نہیں کر سکے۔میڈیا کو معاشرے کا واچ ڈاگ کہا جاتا ہے جو معاشرے میں ہونے والی برائیوں کی نشاندہی، حکمرانوں کے غلط کاموں پر گرفت اور ملک و قوم کی بہتری کے لئے تجاویز کی فراہمی جیسے اقدامات کرتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے اس واچ ڈاگ کے لئے بھی کسی واچ ڈاگ کا اہتمام کیا جائے۔

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25329 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.