لال چاند…… کیا قیامت قریب آگئی ؟

ماہرین فلکیات کے مطابق ایک پیشنگوئی سامنے آئی ہے کہ پندرہ اپریل آسمان پر حیرت انگیز طور پر مون اکلیپسmoon eclipseکا آغاز ہونے والا ہے جس میں کرہ ارض،سورج اور مریخ ایک لائن میں آجاتے ہیں اور اسکے نتیجے میں خون کے رنگ کا چاند نمودار ہوتا ہے،موجودہ دور کے بعض لوگ اسے دنیا کے خاتمے اور حضرت عیسیٰ ؑ کے دوبارہ ظہور ہونے کا وقت قرار دے رہے ہیں ۔مذہبی پیشنگوئیوں سے قطع نظر امریکی خلائی ادارے ناسا نے بھی اس خونی چاند کے وقفے وقفے سے چار مرتبہ نمودار ہونے کا وقت قریب آنے کی تصدیق کی ہے۔جس کے مطابق یہ بلڈ مون رواں سال پندرہ اپریل اور آٹھ اکتوبر جبکہ سال 2015میں ۴ اپریل اور ۲۸ ستمبر کو دیکھا جا سکے گا۔اس سال پندرہ اپریل کو چاند گرہن مکمل طور پر امریکہ میں دیکھا جا سکے گا دنیا میں آج کل صیہونی لابی کا راج ہے،یہودیوں کی کتاب تالمود میں انکے عقیدے کے مطا بق جب چاند گرہن ہوتا ہے تو وہ بنی اسرائیل قوم کے لئے برا شگون ہوتا ہے ،لیکن اگر چاند کا چہرہ ایسے سرخ ہوجائے جیسے خون تو سمجھو دنیا پر تلوار آرہی ہے۔دنیا بھر کے یہودی دو ہزار سال سے اس چاند گرہن کا مطالعہ کرتے چلے آرہے ہیں،یہودی علم نجوم سے دور رہتے ہیں مگر سورج اور چاند گرہنوں کے دوران زمین میں تبدیلیوں کا مطالعہ مقدس کتابوں کی روشنی میں ضرور کرتے ہیں ،ان کے نزدیک تاریخ میں جب کبھی ۴ خونی چاند گرہن ایک ترتیب میں آئے تو بنی اسرائیل کے لیے ایسی آفت کا آغاز ہوا جس میں یقینی فتح پوشیدہ ہوتی ہے،ایسا تاریخ میں بار بار ہوا ہے۔اس سارے عمل کو وہ یہودی ایلی (اﷲ) کیطرف سے نشانی جانتے ہیں۔

خونی چاند گرہن مکمل چاند گرہن کو کہا جاتا ہے یعنی جب چاند زمین کے سائے میں چھپ جانے کی وجہ سے بالکل سرخ ہوجاتا ہے۔یہ ۴ چاندگرہن مسلسل گزشتہ ۵۰۰ سال میں صرف ۳ مرتبہ لگے ہیں اسکی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ یہ خونی چاند کسی نہ کسی یہودی مذہبی دن کے دوران ظہور پذیر ہوتا ہے گزشتہ صدیوں میں یہ چاند گرہن دو یہودی مذہبی دنوں میں مسلسل رونما ہوتے رہے اور اب 2014میں دو دفعہ اور 2015میں پھر دو دفعہ مسلسل انہی دنوں میں رونما ہوں گے۔گزشتہ ۵سو سال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1492-93میں ایسا ہوا اور بنی اسرائیل پر آفت آئی ۔اسپین کو ازابیلا اور فرڈینڈ نے فتح کیا اوریہودیوں پر افتاد ٹوٹ پڑی وہ غلام بنائے گئے،قتل کیے گئے ان سے زبردستی عیسائی مذہب اس طرح قبول کروایا گیا کہ سود کھانالازمی قرار دیا گیا اور ہفتے کے دن کاروبار کرنا بھی۔

دوسری دفعہ ایسے چار خونی چاند گرہن 1949-50میں ظہور پذیر ہوئے تو اسرائیل وجود میں آچکا تھا اور ڈیوڈ بن گوریان کی حکومت تھی۔اس حکومت کے خلاف ۷ عرب ممالک نے ملکر حملہ کیا ،اس وقت اسرائیل ایک نوزائیدہ ملک تھا اور مغرب میں یہودیوں کے خلاف نفرت اور قتل عام سے بھاگے ہوئے یہودی یہاں آباد تھے۔تیسری دفعہ یہ چار خونی چاند 1967-68میں ظہور پذیر ہوئے۔اس دوران مشہور عرب اسرائیل معرکہ ہوا ایک جانب قوم پرست اور کمینسٹ نوازعرب تھے جنہیں روس کی پشت پناہی حاصل تھی اس جنگ میں اسرائیل کی ندد کرنے امریکہ آیا اور دو ہزار سال کے بعد یروشلم یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔

یہودی گزشتہ ۲ سال سے آنے والے ۴ خونی چاند کا انتظار کر رہے ہیں ،ان میں پہلا خونی چاند گرہن 15april 2014کو لگے گااس دوران یہودیوں کا مشہور تہوار پاس اوور آرہا ہے یہ ۷ دن تک منایا جاتا ہے اس دوران وہ ایک خاص قسم کی روٹی بناتے ہیں اور معبد کے سامنے قربانی کرتے ہیں ،دوسرا خونی چاند گرہن ۸اکتوبر کو اسی سال لگے گا اس دوران یہودیوں کا تہوار Feast of tabernacleمنایا جائے گااس تہوار کے آخری دن یوم کپور ہوتا ہے یہ دن یہودیوں کے مصر سے صحرائے سینائی کی طرف روانگی اور پھر چالیس سال تک وہاں اﷲ کے عذاب میں بھٹکنے کی یاد میں ہے۔تیسرا خونی چاند گرہن۴اپریل 2015کو لگے گا یہ ریدش کے دنوں میں ہوگا اور چوتھا اور آخری خونی چاند گرہن 28ستمبر2015 کو لگے گااور یہ سکوٹ کے دنوں میں سے ہوگا۔پوری عالمی یہودی آبادی یہ تصور کر ہی ہے کہ یہ اسرائیل کے لیے کسی جنگ کا آغاز ہوگا اور اسکا انجام فتح ہوگی۔یہودیوں کے اخبار ،میڈیا، اور رسائل میں اس سارے عمل کو tregedy and then triumphکہہ رہے ہیں یعنی غم و اندوہ کے بعد کامیابی۔

اس دوران وہ یہ پروپیگنڈہ کرہے ہیں کہ اب امریکہ اس قابل نہیں رہا کہ دنیا میں امن قائم کرسکے، لہذا اب اسرائیل کو خود آگے بڑھ کر دنیا میں جاری دہشتگردی کو روکنا ہوگا۔مسلمانوں سے جنگ کے راستے میں سب سے زیادہ کھٹکنے والی چیز پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے،جسکے خلاف منظم مہم کا آغاز پہلے ہی کیا جاچکا ہے لیکن اب اس میں شدت لائی جائے گی۔عربوں کی بغاوتوں اور رنجشوں سے فائدہ اٹھا کر حملے کی تیاریاں کی جا ہی ہیں کیونکہ یہودیوں کو اب یہ یقین ہوچکا ہے کہ اب عالمی بادشاہت انکے ہاتھ میں آنے کو ہے ۔یہ وہی حکومت ہے کہ جسمیں محمد ﷺنے مسیح دجال کے نزول سے تعبیر کیا ہے۔خطرہ سامنے نظر آرہا ہے۔آپ ﷺنے فرمایا ـ: دجال کا ظہور اس وقت ہوگا جب مساجد میں اس کا ذکر ختم ہوگیا ہوگا۔اگر ہم نے اس خطرے کا مقابلہ قومیتوں اور علاقائیت کی بنیاد پر کریں گے تو پھر شکست ہمارا مقدر بنے گی اس لیے کیونکہ میرے رب کا وعدو صرف اپنے بندوں کے لیے ہے ،رنگ،نسل اور علاقے کے بندوں سے نہیں ۔
اﷲ سے دعا ہے کہ وہ آنے والے سالوں کو مسلمانوں کے لئے دین کے قریب ہونے کا ذریعہ بنائے…… آمین !
Gul Arsh Shahid
About the Author: Gul Arsh Shahid Read More Articles by Gul Arsh Shahid: 16 Articles with 12967 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.