قومی ہیروز کا جائز مقام

6جولائی 1935 کو کلکتہ میں پیدا ہونے والا محمد محمود عالم وہ محب وطن پاکستانی تھا جس نے دوبار پاکستان ہجرت کی ایک بار مشرقی پاکستان اور جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو یہ پاکستانی پھر پاکستان آگیا۔ 1965کی جنگ کے ہیرو ایم ایم عالم کی برسی خاموشی سے گذر گئی سرکاری سطح پر کسی قسم کی تقریب کا اہتمام نہیں کیاگیا،محمد محمود عالم نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں بھارتی فضائیہ کے متعدد جہاز گرا کر نہ صرف حملہ پسپا کیا بلکہ عالمی ریکارڈ بھی بنا ڈالا ایم ایم عالم نے ایک منٹ کے اندر ایک ہی پرواز کے دوران بھارت کے 5 جہاز اپنے 86 سیبر کے ذریعے گرانے کا کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ وہ طویل عرصہ تک علیل رہنے کے بعد 18 مارچ 2013ء کو کراچی میں انتقال کرگئے ان کے ورثا کی جانب سے خراج عقیدت اور ایصال ثواب کیلئے دعا کی گئی لیکن حکومتی سطح پر کوئی تقریب منعقد نہ ہوئی۔تاریخ بتاتی ہے کہ 6 اور 7 ستمبر کو بھارت کی طرف سے سرگودھاکے مقام پر ہونیوالے پہلے فضائی حملے کے موقع پر ایم ایم عالم وہاں تعینات تھے پاکستان ائیر فورس کے 11اسکواڈرن کے کمانڈر تھے جب پہلا حملہ ہوا اور ائیر بیس پر الارم بجایا گیا جس کا مطلب یہ تھا کہ جہازوں سے نکل کر خندق میں چلے جائیں ایم ایم عالم کے ساتھ موجود جونیئر افسراور ریٹائرڈایئرکموڈورامتیاز احمد بھٹی نے بتایاکہ وہ اس وقت اپنے جہاز میں موجود تھے جلدی سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایم ایم عالم اپنے جہاز میں ہی بیٹھے تھے میں نے انھیں کہا کہ اندر چلیں تو انھوں نے میری بات کا جواب دینے کے بجائے الٹا مجھے ہی سوال کر دیا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ ابھی جو حملہ ہوا اس میں کون کون سے جہاز استعمال ہوئے ہیں میں نے اپنے اندازے سے جواب دیا جس پر انھوں نے اپنا اندازہ بتایا کہ کون کونسے جہاز استعمال کئے گئے ہیں اْنہوں نے بتایاکہ پہلے حملے کے ختم ہونے کے بعد دوسرے حملے کی اطلاع ملی تو ہمیں تیار ہونے کا حکم دیا گیا جس پر میں اپنے جہاز میں چلا گیا جبکہ ایم ایم عالم اپنے جہاز میں ہی تھے بھارتی ائیر فورس چھ چھ جہازوں پر مشتمل فارمیشن میں حملہ کرتے تھے جن میں سے چار جہاز حملہ کے لئے استعمال ہوتے تھے جبکہ دو جہاز ان جہازوں کے دفاع کے لئے استعمال ہوتے تھے جب دوسراحملہ شروع ہوا تو ہمیں اڑان کے احکامات ملے ہم نے ایک ساتھ اپنے اپنے جہاز اڑائے اور حملہ کو روکنے کے لئے روانہ ہو گئے امتیاز بھٹی کے مطابق جوابی کارروائی کی اور کڑانہ پہاڑیوں پر پہنچے تو ایک انڈین جہاز میرے حملے کی رینج میں آیا میں اس پر گولیاں برسانے لگا تو میں نے دیکھا کہ بھارتی جہاز کے عین نیچے ایم ایم عالم کا جہاز تھا جس پر میں نے فوری طور پر فائرنگ کا ارادہ بدل دیا تاہم ایم ایم عالم نے انڈین جہاز کو میزائل مار کر تباہ کر دیا جبکہ اس کے پائلٹ نے پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگا دی بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اسکواڈرن لیڈر ہے اور ہلواڑہ سے اس نے اڑان بھری کچھ آگے گئے تو لالیاں کے قریب انڈیا کی 6 جہازوں پر مشتمل ایک اور فارمیشن سے ہماری مڈھ بھیڑ ہو گئی جو کہ حملہ کے لئے سرگودھا کی طرف بڑھ رہی تھی ایم ایم عالم نے اپنا جہاز ان کے پیچھے لگا دیااور ان پر ہلہ بول دیا ایم ایم عالم نے آن کی آن میں ان کے متعدد جہاز گرا دیئے جن کی اصل تعداد میں نہیں بتا سکتا کیونکہ میں خود اس وقت حملہ میں مصروف تھاااگرچہ ہماری تعداد بہت کم تھی لیکن ہماری ٹریننگ اس قسم کی تھی کہ ہم بڑی تعداد سے خوفزدہ نہ ہوئے اور انڈیا پر چڑھ دوڑے، ہمارے پاس ایم ایم عالم جیسے تجربہ کار اور منجھے ہوئے پائلٹ موجود تھے تو دوسری طرف ایسے نوجوان پائلٹ بھی تھے جو کہ اپنی جان پر کھیل کر ملک کا دفاع کر رہے تھے انڈین آرمی کے 27 ویں سکوارڈن کے پانچ طیارے ایک منٹ سے کم وقت میں زمین بوس کرنے کے علاوہ اس شاہین نے اسی جنگ میں چارمزید طیاروں کو تباہ کیا تھا اس سب کچھ کے بدلے میں اس مرد مجاہد کا یہ تو حق بنتا تھا کہ ہماری حکومت اس مجاہد کی برسی سے بھی با خبر ہو تی اور ایم ایم عالم جیسے فرزندان وطن کا تو حق یہ ہے کہ اْن کی زندگی کے کارنامے گاہے بگاہے قوم کویاد کرائے جاتے رہیں تاکہ قوم کی رگوں میں جوشیلا خون ٹھنڈا نہ ہونے پائے اگر چہ آج جو ایک روشن ستارہ ہم میں نہیں ہے لیکن ان کے کارنامے آج بھی ہمیں دفاع وطن سے غافل نہ ہونے کا درس دیتے ہیں اورآج کے اس مشکل دور میں ہمیں باور کراتے ہیں کہ دفاع سے وطن سے بڑھ کر کوئی بھی فرض مقد س نہیں ہے ایم ایم عالم کی برسی پر میں سوشل میڈیا نے حکومت کو جس طرح جگانے کی کوشش کی وہ قابل تعریف ہے کہ کم از کم یہ لوگ سوچے گے ضرور کہ جن لوگوں کی وجہ سے آج ہماری ریاست قائم دائم ہے ان کی برسی پر تقریب نہ سہی ان کی یاد میں چند کلمات تو کہے جا سکتے تھے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی ہیروز کے کارناموں کو کو دنیا کے سامنے اور نئی نسل کے سامنے بار بار بیان کیا جائے تاکہ نئی نسل میں وطن سے محبت کا جذبہ بلکل اسی طرح جوش اور ولولہ پیدا کرتا رہے جیسا جذبہ ایم ایم عالم کے دل میں تھا اور ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ تاریخ ان قوموں کو بلکل فراموش کر دیتی ہے جو قومیں اپنے قومی ہیروز کو فراموش کر دیتی ہیں
6جولائی 1935 کو کلکتہ میں پیدا ہونے والا محمد محمود عالم وہ محب وطن پاکستانی تھا جس نے دوبار پاکستان ہجرت کی ایک بار مشرقی پاکستان اور جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو یہ پاکستانی پھر پاکستان آگیا۔ 1965کی جنگ کے ہیرو ایم ایم عالم کی برسی خاموشی سے گذر گئی سرکاری سطح پر کسی قسم کی تقریب کا اہتمام نہیں کیاگیا،محمد محمود عالم نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں بھارتی فضائیہ کے متعدد جہاز گرا کر نہ صرف حملہ پسپا کیا بلکہ عالمی ریکارڈ بھی بنا ڈالا ایم ایم عالم نے ایک منٹ کے اندر ایک ہی پرواز کے دوران بھارت کے 5 جہاز اپنے 86 سیبر کے ذریعے گرانے کا کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ وہ طویل عرصہ تک علیل رہنے کے بعد 18 مارچ 2013ء کو کراچی میں انتقال کرگئے ان کے ورثا کی جانب سے خراج عقیدت اور ایصال ثواب کیلئے دعا کی گئی لیکن حکومتی سطح پر کوئی تقریب منعقد نہ ہوئی۔تاریخ بتاتی ہے کہ 6 اور 7 ستمبر کو بھارت کی طرف سے سرگودھاکے مقام پر ہونیوالے پہلے فضائی حملے کے موقع پر ایم ایم عالم وہاں تعینات تھے پاکستان ائیر فورس کے 11اسکواڈرن کے کمانڈر تھے جب پہلا حملہ ہوا اور ائیر بیس پر الارم بجایا گیا جس کا مطلب یہ تھا کہ جہازوں سے نکل کر خندق میں چلے جائیں ایم ایم عالم کے ساتھ موجود جونیئر افسراور ریٹائرڈایئرکموڈورامتیاز احمد بھٹی نے بتایاکہ وہ اس وقت اپنے جہاز میں موجود تھے جلدی سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایم ایم عالم اپنے جہاز میں ہی بیٹھے تھے میں نے انھیں کہا کہ اندر چلیں تو انھوں نے میری بات کا جواب دینے کے بجائے الٹا مجھے ہی سوال کر دیا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ ابھی جو حملہ ہوا اس میں کون کون سے جہاز استعمال ہوئے ہیں میں نے اپنے اندازے سے جواب دیا جس پر انھوں نے اپنا اندازہ بتایا کہ کون کونسے جہاز استعمال کئے گئے ہیں اْنہوں نے بتایاکہ پہلے حملے کے ختم ہونے کے بعد دوسرے حملے کی اطلاع ملی تو ہمیں تیار ہونے کا حکم دیا گیا جس پر میں اپنے جہاز میں چلا گیا جبکہ ایم ایم عالم اپنے جہاز میں ہی تھے بھارتی ائیر فورس چھ چھ جہازوں پر مشتمل فارمیشن میں حملہ کرتے تھے جن میں سے چار جہاز حملہ کے لئے استعمال ہوتے تھے جبکہ دو جہاز ان جہازوں کے دفاع کے لئے استعمال ہوتے تھے جب دوسراحملہ شروع ہوا تو ہمیں اڑان کے احکامات ملے ہم نے ایک ساتھ اپنے اپنے جہاز اڑائے اور حملہ کو روکنے کے لئے روانہ ہو گئے امتیاز بھٹی کے مطابق جوابی کارروائی کی اور کڑانہ پہاڑیوں پر پہنچے تو ایک انڈین جہاز میرے حملے کی رینج میں آیا میں اس پر گولیاں برسانے لگا تو میں نے دیکھا کہ بھارتی جہاز کے عین نیچے ایم ایم عالم کا جہاز تھا جس پر میں نے فوری طور پر فائرنگ کا ارادہ بدل دیا تاہم ایم ایم عالم نے انڈین جہاز کو میزائل مار کر تباہ کر دیا جبکہ اس کے پائلٹ نے پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگا دی بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اسکواڈرن لیڈر ہے اور ہلواڑہ سے اس نے اڑان بھری کچھ آگے گئے تو لالیاں کے قریب انڈیا کی 6 جہازوں پر مشتمل ایک اور فارمیشن سے ہماری مڈھ بھیڑ ہو گئی جو کہ حملہ کے لئے سرگودھا کی طرف بڑھ رہی تھی ایم ایم عالم نے اپنا جہاز ان کے پیچھے لگا دیااور ان پر ہلہ بول دیا ایم ایم عالم نے آن کی آن میں ان کے متعدد جہاز گرا دیئے جن کی اصل تعداد میں نہیں بتا سکتا کیونکہ میں خود اس وقت حملہ میں مصروف تھاااگرچہ ہماری تعداد بہت کم تھی لیکن ہماری ٹریننگ اس قسم کی تھی کہ ہم بڑی تعداد سے خوفزدہ نہ ہوئے اور انڈیا پر چڑھ دوڑے، ہمارے پاس ایم ایم عالم جیسے تجربہ کار اور منجھے ہوئے پائلٹ موجود تھے تو دوسری طرف ایسے نوجوان پائلٹ بھی تھے جو کہ اپنی جان پر کھیل کر ملک کا دفاع کر رہے تھے انڈین آرمی کے 27 ویں سکوارڈن کے پانچ طیارے ایک منٹ سے کم وقت میں زمین بوس کرنے کے علاوہ اس شاہین نے اسی جنگ میں چارمزید طیاروں کو تباہ کیا تھا اس سب کچھ کے بدلے میں اس مرد مجاہد کا یہ تو حق بنتا تھا کہ ہماری حکومت اس مجاہد کی برسی سے بھی با خبر ہو تی اور ایم ایم عالم جیسے فرزندان وطن کا تو حق یہ ہے کہ اْن کی زندگی کے کارنامے گاہے بگاہے قوم کویاد کرائے جاتے رہیں تاکہ قوم کی رگوں میں جوشیلا خون ٹھنڈا نہ ہونے پائے اگر چہ آج جو ایک روشن ستارہ ہم میں نہیں ہے لیکن ان کے کارنامے آج بھی ہمیں دفاع وطن سے غافل نہ ہونے کا درس دیتے ہیں اورآج کے اس مشکل دور میں ہمیں باور کراتے ہیں کہ دفاع سے وطن سے بڑھ کر کوئی بھی فرض مقد س نہیں ہے ایم ایم عالم کی برسی پر میں سوشل میڈیا نے حکومت کو جس طرح جگانے کی کوشش کی وہ قابل تعریف ہے کہ کم از کم یہ لوگ سوچے گے ضرور کہ جن لوگوں کی وجہ سے آج ہماری ریاست قائم دائم ہے ان کی برسی پر تقریب نہ سہی ان کی یاد میں چند کلمات تو کہے جا سکتے تھے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی ہیروز کے کارناموں کو کو دنیا کے سامنے اور نئی نسل کے سامنے بار بار بیان کیا جائے تاکہ نئی نسل میں وطن سے محبت کا جذبہ بلکل اسی طرح جوش اور ولولہ پیدا کرتا رہے جیسا جذبہ ایم ایم عالم کے دل میں تھا اور ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ تاریخ ان قوموں کو بلکل فراموش کر دیتی ہے جو قومیں اپنے قومی ہیروز کو فراموش کر دیتی ہیں-
Raja Tahir Mehmood
About the Author: Raja Tahir Mehmood Read More Articles by Raja Tahir Mehmood: 21 Articles with 13110 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.