مولانا عبید اللہ سندھی ایک مختصر تعارف

﴿بوٹا سنگھ﴾ مولانا عبید اللہ سندھی ١۰ مارچ ١۸۷۲ء چیانوالی سیالکوٹ میں پیدا ہوے۔ بوٹا سنگھ کی ابتدا ئی تعلیم تحصیل جام پور کے اردو مڈل سکول سے شروع ہویٴ مطالعہ کا ذوق و شوق اور گہراہی سے غور و فکر انکی طبیعت میں تھا۔ تاریخ پنجاب میں سکھ حکومت کے حالات انھوں نے غور اور دلچسپی سے اسطرح پڑے کے انھیں سکھ ہونے پر فخر ہونے لگا۔ گھر کی عورتوں سے انگریزوں کے ذریعے سکھوں پر ڈھاےٴ گےٴ مظالم کے قصے سن کر انگریز حکمرانوں کے خلاف نفرت انکے دل میں جاگزیں ہو گیٴ تھی۔

١۸۸۴ء میں انھیں ایک آریہ سماج طالبِ علم نے کتاب تحفتہ الہند دی جس کے اندر نو مسلموں کی فضیلتیں اور آخرت کے احوال درج تھے اس کتاب کے بار بار مطالعے سے انکے دل میں اسلام کی شمع روشن ہوگیٴ اس طر ح شاہ اسماعیل شہید کی تقویت الاایمان نے توحید کی روشنی پیدا کی انکے وجود کا داخلی انقلانب عام معمولی واقع نہ تھا اور نہ ہی جذباتی اور حادثاتی تھا انھوں نے خود ایک رسالے میں تحریر کیا میں شاہ اسماعیل شہید کو اپنا امام مانتا ہوں کے انکی کتاب تقویت الاایمان میرے اسلام لانے کا ذریعہ بنی ہے۔ مولانا ١٦ برس کی عمر میں مسلمان ہوگےٴ تھے۔ انھوں نے اپنا نام عبیداﷲ تحفتہ الہند کے مصنف کے نام پر رکھا تھا۔ اسکے بعد وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی گرفت سے نکل کر پنجاب سے سندھ چلے گے پھر سکھر پہنچے تو انھیں شفقت و محبت کے شجر سایہ دار پیر جی حافظ محمد صدیق ملےجو انکے قبولِ اسلام کے جذبے سے بہت متاثر ہوےٴ اور انھوں نےاس نو مسلم کو اپنا روحانی فرزند بنا لیا حافظ صاحب کی تربیت کا اثر یہ ہوا کہ اسلامی معاشرت انکی طبیعت ثانیہ بن گیٴ ان کو اپنے استاد کے ساتھ حد درجہ محبت تھی جس وجہ سے انھوں نے اپنے نام کے ساتھ سندھی لکھنا شروع کردیا جب ان کی والدہ نے انکی دین پور میں موجودگی کی خبر سنی تو وہا ں پہنچ گیٴ انھو ں نے ہر ممکن طریقے سے انھیں واپس لانا چاہا لیکن جس راستے کا انھوں نے خود انتخاب کیا وہ اس پر ثابت قدم رہے۔ اس زمانے میں انھوں نے دیو بند کا تذکرہ سنا تھا اور تحصیل علم کا شوق کشاں کشاں اکتوبر ١۸۸۸ء میں دیو بند لے گیاجہاں وہ حضرت شیخ الہند کے حلقہ درس میں داخل ہوےٴ ١۳۰۷ھ میں ہدایہ تلویح مطول شرح عقاٴھد مسلم الثبوت میں امتحان دیا تو آپ امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوےٴمولانا سید احمد دہلوی نے درس اول میں انکےجوابات کی تعریف کی اور فرمایا کے اگر اسکو کتابیں ملیں تو شاہ عبدالعزیز ثانی ہو گا۔

دارالعلوم دیو بند تحریک آزادی کا ایک بہت بڑا مرکز تھا جہاں سے ایسے رجال کار پیدا ہوےٴ جنھوں نے دنیا کی سیاست کو ایک نیا رخ دیااور انگریز سامراج کے خلاف صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اسکے خلاف شعور اور جد وجہد پیدا کی۔ اس ادارے کی حیثیت عام تعلیمی مدرسوں جیسی نہیں تھی یہ آزادی پسندوں نے بنایا تھا اور اس سے آزادی کے بڑے بڑے راہنما پیدا ہوےٴ مولانا سندھی نے شیخ الہند کی محبت میں رہ کر اپنے استاد کا علم اور اعتماد حاصل کیا اس وقت کے اساتذہ کے حلقہ میں شیخ الہند کا یہ محقولہ مشہور تھا کہ فرنگی سے نفرت جزو ایمانی ہے۔ اپنی تعلیم مکمل کرکے آپ واپس سندھ پہنچے اور مولانا تاج محمد امروٹی انھیں امروٹ لے گےٴ اور مولانا سندھی نے اپنی والدہ کو اپنے پاس بلالیا۔مولانا سندھی نےامروٹ شریف کو اپنا ٹھکانہ بنا کر اپنی علمی اور سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب سندھ میں ولی اللہی تحریک کے سلسے کے فروغ کی بہت ضروت تھی تو آپ نے اپنے استاد شیخ الہند کی ہدایت پر امروٹ میں ایک درس گاہ کی بنیاد رکھی جسکے اندر پڑھنے والے طلباء کو حریت وطن اور جہاد احیا ء دین قیم کا درس ملتا تھا توحید و جہا د دو چیزیں تھیں جس پر مولانا بہت زور دیتے تھے مولانا کی اس کوشش سے تھوڑے عرصے میں اس درسگاہ نے سندھ میں علمی و سیاسی لحاظ سے ایک مرکزیت حاصل کر لی پیر سید رشید اﷲ اور مولانا سندھی نے ملکر ١۹۰١ میں مدرسہ دارالرشاد کا افتتاح کیا جسکے مہتمم مولانا خود تھے مولانا نے آٹھ دس سال کی مسلسل علمی جد وجہد کے بعد ١۷١۰ ھ میں طلبا کی رسمِ دستار بندی کے لیے ایک جلسہ منعقد کیا اس جلسے کی صدارت خود ان کے استاد شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے کی۔

جمیعت الانصار ہو یا تحریکِ ریشمی رومال یہ ایسی عظیم جد وجہد جنھوں نے قومی آزادی کو ایک نیا رخ دیا ۔مولانا سندھی نے دیو بند کے تیا ر کردہ بکھرے ہوےٴ موتیوں کو جمیعت الانصار کی صورت میں جہاد آزادی کے لیے تیار کیا اس کے بعد آپ دہلی میں نظارة المعارف القرآنیہ کی بنیاد رکھ کر دیو بند اور علی گڑھ کے طلبا کو ایک نیا پلیٹ فارم دیا مولانا ایک بہت بڑی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے آپ نے اپنے غور و فکر اور تدبر سے کام لے کر ہندوستانی معاشرے کے حقیقی سیاسی، سماجی ،اقتصادی اور فکری مسائل کا تعین کیا اور ان مسائل کا قرآنی حل پیش کیا ۔یہ غور و فکر اور تدبر و بصیرت جو مولانا کو حاصل تھی اس کی وجہ وہ یہ تین بتاتے ہیں۔١۔شاہ ولی اﷲ کا فکرو فلسفہ۲۔دارالعلوم دیو بند کی تعلیم و تربیت اور ۳ یورپ کی نشاة ثانیہ کی تاریخ کا بغور مطالعہ۔

مولانا سندھی ١۹١۵ سے لے کر ١۹۳۹ تک جلاوطن تھے اس دوران وہ افغانستان، سوویت یونین ، ترکی اور حجاز میں رہے ۔ انھیں اس دوران براےٴ راست اربابِ اقتدار سے ملنے کا موقع ملا اس زمانے میں مولانا سندھی کے تجربات و مشاہدات اور غور و فکر نے مولانا کی صلاحیتوں کو جلا بخشا ۔ اور دنیا کے بدلتے ہوےٴ حالات کا بغور مشاہدہ کیا یہی وجہ ہے کہ بہت سےنام نہاد دانشور اورکم ذہن جو تجربات و مشاہدات سے عاری رہے وہ مولانا کی بات نہیں سمجھ سکتے تھے میرے خیال میں مولانا کے ناقدین کے سا تھ یہی مسئلہ رہا بقول قطب الارشاد شاہ عبد القادر راےٴ پوری مولانا سندھی کی بات سمجھنا دشوار ضرور ہے لیکن وہ بات صحیح کہتے ہیں۔طویل جلاوطنی کے بعد مولانا سندھی اگست ١۹۳۹ کو وطن واپس پہنچے تو انھوں اپنی تبلیغ و اشاعت کا کام تا دم آخر جاری رکھا مولانا کی شخصیت پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات صاف طور پر واضح ہو جاتی ہے مولانا نے مختلف ملکوں میں جو بدلتے ہوےٴ حالات دیکھے مولانا کے افکار جو دین اسلام کے احیاء کے حوالے سے تھے وقت کے ساتھ تبدیل ہوےٴ ہوں لیکن بنیادی نقطہ فکر قرآن مجید اور آیما اسلام کے افکا ر ہی تھے ۔ مولانا عمر بھر اسلام کے لیے زندہ رہے اور تکالیف برداشت کرتے رہے،۔ مولانا نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور پوری زندگی آزادی کے ساتھ اس کے احیا کے لیے جدوجہد کرتے رہےان کی پوری زندگی خداپرستی اور انسان دوستی کی صحیح نمونہ تھی اور اسلام کی تعلیمات جو بلاتفریق رنگ ، نسل، مذہب ،زبان اور علاقہ کل انسانیت کی ترقی کا پروگرام ہے۔ مولانا کی زندگی کی جدوجہد کا یہ باب ١۹۴۴ء میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ان کی ہمہ گیر شخصیت اور انقلابی پروگرام آج کے آزادی پسندوں اور انقلابی جدوجہد کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے-

Muhammad Hanif
About the Author: Muhammad Hanif Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.