آئین پاکستان اور اسلام ۔۔۔ ایک مختصر جائزہ

بعض اوقات انسان بہت کچھ لکھنا چاہتا ہے مگر مناسب موضوع نہیں ملتا، موضوع مل جائے تو الفاظ کہیں گم ہو جاتے ہیں۔ الفاظ نہ ملنے کے باعث قلم جنبش نہیں کر پاتا، الفاظ مل بھی جائیں تو موضوع سے ربط نہیں ہوتا۔ ربط آنا شروع ہو تو ان میں ٹھہراؤ نہیں ہوتا یا روانی نہیں آ پاتی۔ ایسا ہی اکثر میرے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ بہت دنوں سے قلم اٹھا کر دیر تک یہ سوچتا رہتا کہ کیا لکھوں؟ موضوع تو ہزارہا تھےپر کوئی ایسا موضوع نہیں مل رہا تھا جہاں اپنے خیالات کی ترویج کر سکوں ۔ ایک دن ایک دوست سے معاشرتی ذرائع ابلاغ (Social Media) پر گفتگو کے دوران قرارداد مقاصد پر بحث ہوئی۔ اور الفاظ کسی سیلاب کی طرح قلم سے بہہ نکلے۔ ذیل میں اسی گفتگو کو مضمون کی شکل میں قارئین کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست ، مملکت خداد پاکستان کئی برس تک یہ فیصلہ ہی نہ کر پائی کہ اس مملکت کے قوانین کن اصولوں کے تحت مرتب پانے ہیں۔ 1949 میں قرارداد مقاصد کو قانون سازی کے لئے بنیادی اکائی تسلیم کیا گیا۔ 1956، 1962 اور 1973 کے آئین میں اس قرارداد کو بنیادی حیثیت حاصل رہی۔ تاہم غور طلب امر یہ ہے کہ کیا قرارداد مقاصد یا چند ایسی شقوں کی شمولیت سے جن کو اسلامی کہا جاتا ہے، کی وجہ سے پاکستان کا آئین اسلامی اور یہ مملکت ایک اسلامی مملکت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے؟ آئیں اس آئین کا مختصرجائزہ لیتے ہیں۔

قراداد مقاصد کہتی ہے کہ ’’ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے‘‘ یہاں تک تو کسی کو بھی اعتراض نہیں ہو سکتا۔قاری جب آگے پڑھنا شروع کرتا ہے تو یہ الفاظ سامنے آتے ہیں کہ ’’ اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا‘‘ یہاں سے یہ قرارداد ایک لادینی (Secular) طرز اختیار کر لیتی ہے۔ کیوں کہ اس قرارداد نے یہاں سے حاکمیت اعلی اللہ رب العزت سے لے کر مجلس قانون ساز کے سپرد کر دیا، وہی مجلس قانون ساز جو قانون سازی کے لیے قرآن و سنت سے رجوع کیے بغیر آئین و قانون سازی کر سکتی ہے۔ 1956 سے 1973 تک جتنے بھی آئین و قانون بنے ان کا مصدر انسانی ذہن تھا نہ کہ قرآن، سنت و اجماع صحابہ کی مدد سے اجتہادی طریقہ اختیار کرتے ہو قانون سازی۔ 1973 کے آئین میں ہونے والی 20 ترامیم بھی انسانی ذہن سازی کے مرہون منت ہیں، کسی ایک بھی شق کو بناتے ہوئے قرآن و حدیث کو مصدر نہیں بنایا گیا۔ چونکہ مجلس قانون ساز کی دو تہائی اکثریت نے ان قوانین کو اختیار کرنے کی منظوری دی لہذا یہ قوانین نافذ العمل ہیں۔ اور اسی مجلس قانون ساز نے قراداد مقاصد میں ان الفاظ یعنی ’’ اللہ حاکم مطلق ہے‘‘ کو شامل کرنے کی منظوری دی لہذا یہ الفاظ اس قراداد کا حصہ ہیں۔ اگر یہ مجلس قانون ساز اس کی منظوری نہ دیتی تو کبھی یہ الفاظ قرارداد مقاصد کا حصہ نہ بنتے۔ان الفاظ کا مقصد ان افراد کو خاموش کرانا تھا جو اسلام کے نام پر بنے پاکستان کے لیے اپنا تن ، من اور دھن قربان کرنے کو تیار تھے۔

اس آئین کی شق نمبر 1 کی ذیلی شق نمبر 1میں درج ہے کہ ’’مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہو گی‘‘۔ اس شق کی بنیاد ہی اسلام سے متصادم ہے۔ اسلام کا نظام حکومت وفاقی طرز کا نہیں ہے، جس میں مختلف علاقوں کو خودمختاری حاصل ہوتی ہے تاہم وہ ایک مرکزی حکومت کے ذریعے باہم متحد ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان میں صوبوں کو خودمختاری حاصل ہے تاہم وفاقی حکومت کے ذریعے یہ صوبے باہم متحد ہیں۔ بلکہ اسلام وحدت کا نظام ہے، جس میں مغرب میں مراکش کووہی حیثیت حاصل ہے جو مشرق میں انڈونیشیا کو حاصل ہے۔ کسی علاقے کا بھی انتظام دوسرے علاقے کے انتظام سے مختلف نہیں ہوتا۔ جبکہ وفاقی طرز حکومت میں انتظامِ حکومت ہر علاقے کا مختلف ہوتا ہے۔ جیسا کہ خیبر پختونخواہ، سندھ، پنجاب، اور بلوچستان کے مختلف انتظامی طریقہ کار۔ اسلام میں تمام علاقوں کی مالیات (Budget) بھی ایک جیسی ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ایک صوبے کی آمدن اس کے اخراجات سے زیادہ ہے تو اس صوبے کے اخراجات اس کی ضرورت کے مطابق ہوتے ہیں نہ کہ اس کی آمدن کے مطابق، اسی طرح اگر ایک صوبے میں آمدن ، اخراجات سے کم ہے تو اس کے ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مجموعی آمدن میں سے اس پر خرچ کیا جائے گا۔ جبکہ وفاقی نظام حکومت میں ایسا نہیں ہوتا، بلکہ ہر صوبہ اپنی آمدن و اخراجات کا خود ذمہ دار ہے اور وفاق صوبوں کو ان کی ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ قومی مالیاتی کمیشن (NFC) کے تحت بنائے گئے کلیات کی مدد سے تقسیم کرتی ہے۔ جو دولت کی مساوی تقسیم کو یقینی نہیں بناتا۔

اسی طرح اسلام کا نظام حکومت جمہوری نہیں ہے۔ جمہوریت میں اقتدار اعلی کے حامل عوام ہوتے ہیں۔ چاہے ’’ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے‘‘ جیسی شقیں ہی کیوں نہ ڈال دی جائیں۔ اس وجہ سے جمہوریت میں حکومت اور قانون سازی کا حق و اختیار صرف عوام کو حاصل ہے۔ یہی حکمران منتخب کرتے ہیں اور یہی ان کو معزول کرتے ہیں۔ اور یہی لوگ دستور و قوانین کو مرتب، منسوخ یا تبدیل کر سکتے ہیں۔ جبکہ اسلام کے نظام حکومت کی بنیاد اسلامی عقیدہ اور احکام شریعہ ہیں اور اقتدار اعلی شریعت کو حاصل ہے امت کو نہیں۔ نہ تو امت نہ ہی حکمران اس امر کے مجاز ہیں کے قانون سازی کر سکیں۔ بلکہ حاکم کو صرف اتنا اختیار ہے کہ وہ قرآن و سنت کے اخذ کردہ احکامات کو قوانین مرتب کرنے کے لیے استعمال کرے۔ ان قوانین کو مرتب کرنے کے لیے نہ تو وہ کسی کی رائے کا محتاج ہے اور نہ ہی وہ انسانی منظق کی بنیاد پر ان کو مربوط کر سکتا ہے۔ بلکہ ہر قانون کا ماخذ شارع ہے جس کی دلیل ضروری ہے۔ امت حاکم کو منتخب تو کرسکتی ہے مگر معزول نہیں کر سکتی، کیونکہ یہ اختیار صرف شرع کو حاصل ہے۔ لہذا جمہوری نظام چاہے صدارتی ہو یا پارلیمانی اسلامی نظام سے مطابقت نہیں رکھتا۔

اس آئین کی شق نمبر 2 میں یہ الفاظ تحریر ہیں ’’ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہو گا‘‘ اس پر بحث کرنے سے پہلے میں یہ عرض کر دوں کہ پاکستان کا آئین انگریزی زبان میں تحریر ہے۔ اور یہ ترجمہ انگریزی سے اردو میں کیا گیا ہے۔ انگریزی زبان میں تحریر اس آئین میں یہ الفاظ کچھ اس طرح تحریر ہیں ’’ Islam shall be the state religion of Pakistan‘‘۔ State Religion یا مملکتی مذہب ایک اصطلاح ہے جس کا ماخذ مملکتی کلیسا سے ہے۔ میں یہاں اس کی تاریخ کی تفصیل میں جانے کی بجائے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مملکتی مذہب کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں اسلام نافذ ہو گا، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ریاست اسلام کو بطور مذہب قبول کرے گی۔ یہی تعریف ویکی پیڈیا پر موجود ہے۔ لہذا جو افراد اس شق سے دھوکہ کھاتے ہیں وہ یہ جان لیں کہ یہ شق نہ تو اسلام کو نافذ کرتی ہے نہ اسلام کو نافذ کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ بلکہ یہ تو ایک بے جان شق ہے جس کا مقصد عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ ہم ایک ایسا اسلامی ملک ہیں جہاں اسلام کے نفاذ کو مطالبہ جرم ہے۔

تھوڑی سے روشنی آئین میں موجود ان نام نہاد اسلامی شقوں پر بھی ڈال لیتے ہیں جن کی بنیاد پر لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ پاکستان کا یہ آئین اسلامی ہے۔ شق نمبر 227 (1) میں موجود ان الفاظ کو غور سے پڑھئے ’’ تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، جن کا اس حصہ میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے، اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو‘‘ یہ شق کھول کھول کر یہ امر بیان کر رہی ہے کہ یہ آئین اسلامی نہیں، اور نہ ملک میں موجودہ قوانین اسلامی ہیں، وگرنہ تمام موجودہ قوانین کو قران اور سنت میں منضبط احکامات کے تابع کرنے کی کیا ضرورت ہوتی؟ مگر اگلے ہی لمحے اس شق نے خود کو اسلام کے حوالے کرنے سے یہ کہہ کر بچا لیا کہ ’’ جن کا اس حصہ میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے‘‘ یعنی آئین کے اس حصہ نہم ’’اسلامی احکام‘‘ میں اگر کسی قانون سے اسلامی ہونے کا حوالہ نہیں تو وہ قانون اپنی اصل حالت میں قابل قبول ہو گا۔ اور آگے لکھا ہے کہ ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔ جبکہ پاکستان میں کوئی بھی قانون ایسا نہیں جو کہ اسلامی احکامات کے منافی نہ ہو۔ جن قوانین کو اسلامی کہہ کر پیش کیا جاتا ہے وہ بے شک اپنی شبہات میں اسلامی ہوں، چونکہ ان کو مصدر قرآن و حدیث نہیں لہذا یہ تب تک قابل قبول نہیں جب تک ان کو ان کے اصل ماخذ سے نہ جوڑ دیا جائے۔

زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کافرانہ قوانین کو اسلامی بنانے کا طریقہ بھی اسی شق کی ذیلی شق نمبر دو میں مربوط ہے۔ شق نمبر 277 کی ذیلی شق نمبر (2) میں لکھا ہے کہ ’’ شق نمبر (1) کے احکام کو صرف اس طریقے کے مطابق نافذ کیا جائے گا جو اس حصہ (یعنی حصہ نہم ’’اسلامی احکام‘‘) میں منضبط ہے۔ یعنی اگر ان کافرانہ قوانین کو اگر مسلم کرنا ہے تو پہلے ان کو غسل کرا کر پا ک کیا جائے گا۔ اور پاک کرنے کا یہ عمل اسلامی نظریاتی کونسل کرے گی۔ جس کی تشکیل شق نمبر 228 کے تحت عمل میں آتی ہے۔ میں اس کی تشکیل اور ہئیت پر بحث نہیں کرتا، تاہم میں اس سے بھی اختلاف رکھتا ہوں۔ بلکہ میں اس طریقہ کار پر آتا ہو جس کے تحت ان قوانین نے مسلمان ہونا ہے۔ شق نمبر 229 یہ کہتی ہے کہ ’’ صدر یا کس صوبے کا گورنر اگر چاہے یا اگر کسی ایوان یا کسی صوبائی اسمبلی کی کل رکنیت کا دو بٹا پانچ حصہ یہ مطالبہ کرے، تو کسی سوال پر اسلامی کونسل سے مشورہ کیا جائے گا کہ آیا کوئی مجوزہ قانون اسلام کے احکام کے منافی ہے یا نہیں۔صدر اور گورنر تو حکومت کو حصہ ہونے کے باعث ایسی غلطی کریں گے نہیں تاہم مجلس قانون ساز کے 342 ارکان کا 20 فیصد یعنی 69 ارکان جب یہ سوچیں کہ اس قانون کے اسلامی ہونے یہ نہ ہونے کے بارے میں رائے لی جائے تب جا کر ہی رائے لی جا سکتی ہے، وگرنہیں، تاہم اگر کوئی نہ سوچے تو قانون سازی تو چونکہ اسلامی احکامات کی روشنی میں ہی ہو رہی ہے لہذا اس قانون کو، جس کو شق نمبر 227 خود غیر اسلامی کہتی ہے اسلامی ہی تصور کیا جائے گا۔ یعنی یہاں بھی اسلام 20 فیصد ارکان کی رائے کا محتاج ہے۔ ان قانون سازوں نے سوچا کہ کہیں کبھی 20 فیصد لوگ ایسا کر ہی نہ بیٹھیں لہذا شق نمبر 230 کی ذیلی شق نمبر 3 میں یہ الفاظ شامل کر دیے گئے ’’ جب کوئی ایوان، کوئی صوبائی اسمبلی، صدر یا گورنر، جیسی بھی صورت ہو، یہ خیال کرے کہ مفاد عامہ کی خاطر اس مجوزہ قانون کا وضع کرنا جس کے بارے میں سوال اٹھایا گیا تھا، مشورہ حاصل ہونے تک ملتوی نہ کیا جائے، تو اس صورت میں مذکورہ قانون مشورہ مہیا ہونے سے قبل وضع کیا جا سکے گا‘‘۔ لیں جی مسئلہ ہی حل۔ یعنی سود کا نفاذ اگر مفاد عامہ کے لئے ضروری ہے تو اس کا مشورہ بعد میں اس کا نفاذ پہلے۔ جبھی چالیس سال سے اسلامی نظریاتی کونسل سود کے متعلق کوئی سفارشات نہیں پیش کر سکی اور اگر کی بھی ہیں تو چونکہ دو تہائ ارکان اس کے خاتمہ کے لئے رضامند نہیں لہذا سود کو اسلامی ہی سمجھا جائے گا۔

اس آئین کی شق نمبر 4 کی ذیلی شق نمبر 2 الف میں یہ الفاظ درج ذیل ہیں ’’ کوئی ایسی کاروائی نہ کی جائے جو کسی شخص کی جان، آزادی، جسم، شہرت یا املاک کے لئے مضر ہو، سوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے‘‘۔ چونکہ اس شق میں کسی کو بھی مارنا، اس کی آزادی کو سلب کرنا، اس کے جسم کو نقصان پہنچانا، اس کی شہرت کو پامال کرنا یا اس کی املاک کو تہس نہس کر دینا قانون کے ساتھ مشروط ہے، لہذا قانون کی رو سے یہ سب جائز ہو گا۔ اب چونکہ قوانین تو ہیں ہی اسلامی لہذا اگر کوئی پولیس والا کسی شخص کی چار دیواری میں بلا اجازت لیکن مجسٹریٹ کی اجازت سے گھس جاتا ہے تو وہ جائز ہے، جبکہ عمر فاروق ؓ کا یہی عمل ناجائز تھا۔ اگر کوئی پولیس والا کسی کے گھر کو تہس نہس کر دے تو یہ عمل جائز جبکہ ریاست مدینہ میں کسی دشمن کے کھجور کا تنا تک کاٹ دینا حرام تھا۔

اسی شق کی ذیلی شق نمبر 2 ب میں یہ الفاظ تحریر ہیں ’’ کسی شخص کے کوئی ایسا کام کرنے میں ممانعت یا مزاحمت نہ ہو گی جو قانوناً ممنوع نہ ہو‘‘ لہذا اس اسلامی شق کے تحت چونکہ پرمٹ حاصل کر کے شراب کی خرید و فروخت جائز ہے لہذا چاہے مسلمانوں کو شراب بہا دینے کا حکم آیا تھا، پھر بھی خدا کا یہ حکم آئین کی اس شق سے بالاتر نہیں۔

اس آئین کی شق نمبر 5 کی ذیلی شق نمبر 1 میں یہ الفاظ تحریر ہیں ’’ مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے ‘‘ لہذا وفاداری مملکت سے فرض ہے نہ کہ اسلام سے۔ لہذا سب سے پہلے پاکستان ہے اور جو شخص اسلام کی بات کرے وہ مملکت سے وفادار نہیں کیوں کے اس کے اسلام کی توثیق اسلامی نظریاتی کونسل نے نہیں کی۔ اور اسی سب سے پہلے پاکستان کی بنیاد پر لاکھوں بے گناہوں کو صرف اس بنیاد پر قتل کر دیا جاتا ہے کیوں کے وہ مملکت سے زیادہ اسلام کے وفادار ہیں۔ اسی طرح مملکت جس کا مملکتی مذہب بھی اسلام ہے اگر اسلام کو بطور آئین تسلیم کرنے کو تیار نہیں تو ایسے آئین کے متعلق بات کرنے والا بھی مملکت کا غدار تصور ہو گا۔ لہذا وہ دین جس کو خدا نےہمارے لیے پسند کیا ہے اس سے وفاداری سے پہلے مملکت کی وفاداری ضروری ہے، اور وہ جو خدا کے رسول نے کہا تھا نہ کہ تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک میں تمھیں اپنے ماں باپ، مال و اولاد و دوستوں اور رشتے داروں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں، اس ارشاد کو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھیے، کیونکہ آپ کا آئین آپ کو اس کی اجازت نہیں دیتا۔ کیوں کہ رسول ﷺ سے محبت اسلام سے محبت ہے۔ اور چونکہ یہ دستور اسی شق کی ذیلی شق نمبر 2 کے تحت یہ الفاظ لکھتا ہے کہ ’’ دستور و قانون کی اطاعت ہر شہری کی ذمہ داری ہے ‘‘ لہذا دستور سے ہٹ کر کسی کی بھی اطاعت ناقابل معافی جرم ہے چاہے وہ اللہ رب العزت کا یہ حکم ہی کیوں نہ ہو کہ اے لوگ اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی۔

میں شق نمبر 1 سے شق نمبر 280 تک لاحاصل بحث کر سکتا ہوں، پر وہ کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔ پر قارئین خود ہی سوچ لیں جو اسلامی نظریاتی کونسل بھی انسانوں کے رائے کی محتاج ہو وہ کیا حیثیت رکھتی ہو گی، اور اگر غلطی سے کبھی اس کی کسی سفارش پر عمل ہو بھی گیا تو عدالت عالیہ آئین پاکستان کی محافظ کے طور پر موجود ہے،متحدہ مجلس عمل کی حکومت تو خود اس عدالت کی ڈسی ہوئی ہے جب اس نے حسبہ بل کو غیر آئینی کہہ کر رد کردیا تھا کیا اس وقت آئین کی ان اسلامی شقوں نے حسبہ بل کو تحفظ دیا؟ یقیناً نہیں۔ ۔ میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے گذارش کرتا ہوں کہ چھوڑ دیجئے اس نام نہاد جمہوریت کو، جس نے انسانیت کو ذلت کی پستی میں گرا دیا اور آئیے اس حکم کی طرف جو اللہ کی طرف سے ہم پر نازل کیا گیا ہے۔

ان الحکم الاللہ

’’حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے‘‘(سورۃ یوسف 40)

جب حکم اللہ کا ہے تو انسان یا مجلس قانون ساز کے حکم کی کیا حیثیت؟

فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما

’’ آپ کے رب کی قسم، یہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک یہ آپ کو اپنے تمام تر اختلافات میں فیصلہ کرنے والا نہ بنا لیں، پھر جب آپ فیصلہ کریں تو یہ اپنے اندر گرانی محسوس نہ کریں، بلکہ ان فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کردیں ‘‘(سورہ النساء 65) جب اللہ کے رسول کے حکم پر عمل کرنا فرض ٹھیرا تو اس رسول سے حکم سے ہٹ کر قانون کی کیا حیثیت؟

ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون

’’ اور جو شخص بھی اس کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے لوگ ہی کافر ہیں‘‘ (سورۃ المائدہ 44)

ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون

’’ اور جو شخص بھی اس کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے لوگ ہی ظالم ہیں‘‘ (سورۃ المائدہ 45)

ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفسقون

’’ اور جو شخص بھی اس کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے لوگ ہی فاسق ہیں‘‘ ( سورۃ المائدہ 47) جب احکامات کا ماخذ اللہ رب العزت کی بجائے انسانی ذہن اور دو تہائی اکثریت کی حمایت ہو تو ایسے ہی لوگوں کو اللہ نے کافر، ظالم اور فاسق کہا ہے۔
Mahmood Ali
About the Author: Mahmood Ali Read More Articles by Mahmood Ali: 3 Articles with 4926 views After completing M-phill in Accounting and Finance currently providing services to different national and multinational organizations in Pakistan.
.. View More