پاکستان کا لاوارث میڈیا

کسی بھی چینل کا نیوز روم اس چینل کاسب سے اہم حصہ ہوتا ہے،ٹالک شو اور دیگر پروگرام کی اہمیت اپنی جگہ ، نیوز روم سے آن ائیر ہونے والے مواد کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو افراد ٹالک شو یا دیگر پروگرام میں شاید اتنی دلچسپی نہ رکھتے ہوں مگر نیوز آن ئیر کے وقت ضرور کان دھرتے ہیں،بالخصوص بریکنگ نیوز کی توڑتی اسکرین پر جب ڈنگہ بجنا شروع ہوجائے۔ بہرکیف نیوز روم کی پکارقوم سے خطاب کے مترادف ہوتی ہے، نیوز روم سے آن ئیر ہونے والا مواد اس خوبصورت اور ڈرامائی انداز میں قرینے سے سجا کر عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ عوام چینل کے دیگر معلوماتی پروگراموں کو ترک کرکے اوقات اخبار میں نیوز لگا کر بیٹھ جاتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ نیوز کے اوقات میں چینل کی ریٹنگ بھی ہائی ہوتی ہے،اور یہ ایک چینل کا معاملہ نہیں تقریباّ تمام نیوز چینل کا یہی حال ہوچکا ہے،الا ماشاء اللہ کوئی ایک دو چینل ہونگے جو بیچارے صحافتی حق ادا کرنے کی ذمہ داری نبھارہے ہونگے مگر ان کی صحافتی ذمہ داری ریٹنگ کے آڑے آجاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ عوام میں شاید اتنے مقبول نہیں ہو پاتے ۔اب تو حالت یہ ہے کہ اس ہائی ریٹنگ کے چکر میں مرچ مصالحے کے مقابلے کا رجحان حد سے زیادہ بڑھتا جارہا ہے، خبر ایک ہوتی ہے مگر ہر چینل کے اپنے مصالحے جات کی بنا پر ایک خبر کے کئی ذائقے ملتے ہیں-

گذشتہ کچھ عرصوں سے نیوز چینلز پر ایک نیا فیشن چل نکلا،اگر کسی شخصیت کو عوام کے دماغوں میں گھسانا ہو تو وہ اس شخصیت کو نیوز کے اوقات میں نیوز روم لا بٹھاتے ہیں، چونکہ عوام کا اکثریتی طبقہ ان اوقات میں چینل کے سامنے خبر کی لالچ میں بیٹھا رہتا ہے اور یہاں نیوز روم سے عوام کے دماغوں پر اپنی پسند کردہ شخصیت کو دخول بالجبر دماغ کیا جارہا ہوتا ہے، جس کی تازہ حالیہ مثال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی پاکستان آئی ہوئی تھی،شبانہ اعظمی کون ہے؟ یہ کون نہیں جانتا ،40سال سے وہ فلم انڈسٹری میں کیا خدمات سرانجام دے رہی ہیںیہ بھی سب جانتے ہیں،مختصر یہ کہ وہ ایک فنکارہ ان کے شوہر جاوید اختر فلمی دنیا کے گانے اور فلمیں لکھنے والا،بیٹا فرحان اخترفنکار،گلوکار اور بیٹی زویا اختر فلمیں پروڈیوس کرنے والی، ازقصہ مختصر سادہ لوح زبان میں مراثی گھرانہ،ان موصوفہ کو گذشتہ روز ایک معروف نجی چینل کے نیوز روم میں بٹھا کر ان سے 30منٹ اور 33سیکنڈ ان کے مراثی کارناموں پر گفتگو کی گئی، کسی نیوز چینل کے نیوز روم میں 30منٹ کادورانیہ کسی کے لئے وقف کرنااس چینل کے مخصوص ایجنڈے کی سوچ کی عکاس ہے۔

انہی دنوں یو آن ریڈلے بھی پاکستان کے دورے پر تھیں، یو آن ریڈلے (مریم) جو کہ نومسلم برطانوی خاتون صحافی ہیں، 2001میں افغانستان میں رپورٹنگ کے دوران طالبان دور حکومت میں گرفتار ہوئی اور پھر دس دنوں میں رہا کردی گئی،طالبان کی قید سے رہا ہونے کے بعد برطانیہ پہنچتے ہی مسلمان ہوگئی،اور اپنے آپ کو اس دین کے لئے وقف کردیا، مغربی میڈیا کی سازشوں کا اپنی صحافتی صلاحیتیوں سے مقابلہ کرنا شروع کیا، ان کا اہم کارناموں میں نہایت اہمیت کا حامل کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے 5سالوں سے لاپتہ ڈاکٹر عافیہ کو دریافت کیا اور دنیا کے سامنے ان امریکیوں کا چہرہ بے نقاب کیا، آج کل شام کی جاری قتل وغارت گری اور ظلم کے خلاف آواز حق بلند کررہی ہیں،تو کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یو آن ریڈلے ایک ایسی عظیم خاتون کہ جن کو ایک رول ماڈل کے طور پر آج کی ہماری لڑکیوں کے سامنے پیش کرنا چاہئیے تھا انہیں تو میڈیا سے بلر کردیا ، پانچ دن کے اپنے اس دورے میں یو آن ریڈلے نے مختلف مقامات پر خطاب کیے، بالخصوص خواتین کے لئے مختلف سیمنارز میں شرکت کی،کراچی کے جامعہ بنوریہ عالمیہ للبنات کے خواتین کے شعبے میں بھی خطاب کیا، مگر یہ سب عوام کی نظروں سے یکسر اوجھل کرکے رکھا گیا، اور مراثیوں کو نیوز روم میں بٹھاکر کنجر پن کا فخریہ مظاہرہ کیا گیا۔

Salman Rabbani
About the Author: Salman Rabbani Read More Articles by Salman Rabbani: 2 Articles with 1429 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.