ایک عالمی حقیقت ’علاقائی‘ لباس میں

پچھلی ایک صدی سے دنیا بھر میں’جمہوریت‘ کے نام پر جو مصنوعات پائی گئیں، خصوصاً تھرڈ ورلڈ میں، ان کی صورت گری کرنے والا مغرب ہی ہے۔ کسی شخص کےلیے اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں۔ جمہوریت مغرب میں ایک خاص تاریخی عمل کے زیراثر وجود میں آئی اور پھر مغرب سے دنیا میں ہر طرف برآمد ہونے لگی۔ کسی بھی سیاسی یا معاشی یا سماجی نظام کی طرح یہ باقاعدہ ایک نظام ہے۔ اس کے اسلام کے ساتھ کچھ پہلو مشترک ہیں تو یہ بات کچھ اسی کے ساتھ خاص نہیں۔ کسی بھی سیاسی یا معاشی یا سماجی نظام میں اسلام کے ساتھ کچھ مشترک پہلو پائے ہی جائیں گے۔ بلاشبہ سوشلزم کی کئی باتیں اسلام کے کچھ امور سے مشابہت رکھتی تھیں اور بلاشبہ سرمایہ داری نظام کی کچھ جزئیات بھی اسلام کی کچھ جزئیات سے مماثلت رکھ سکتی ہیں مگر اس بنیاد پر کسی باطل نظام کو ’اسلام‘ نہیں کہا جا سکتا۔

یہ بات کہ اس نظام کا مصدر ومنبع یورپ کی پچھلی چند صدیاں ہیں... محتاج بیان نہیں۔ ہمارا نہیں خیال اِس پر کوئی بھی شخص آپ کے ساتھ اختلاف کرسکتا ہے۔

کہنے کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ کسی چیز کا مغرب سے برآمد ہونا اس کے بجائے خود باطل ہونے کی دلیل نہیں اور یہ کہ مغرب کسی اچھائی پر چلتا ہے تو وہ اچھائی ہمارے لئے شجر ممنوعہ تو نہیں ٹھہرے گی؛ لہٰذا اس کا ایک معروضی (Objective) جائزہ لئے بغیر ہی اس کو مسترد کر دینا کیونکر درست ہو سکتا ہے...
بلاشبہ جمہوریت یا وقت کے کسی بھی نظام کو معروضی انداز سے (Objectively) ہی دیکھنا چاہئے اور بلاشبہ ہم نے معروضی جائزہ کے بعد ہی سلطانیِ جمہور کے عقیدہ کو کفر کہا ہے؛ اور اس کی وجوہات ہم جابجا بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کا کفر ہونا تو طے ہے اور اس کو دلائل سے ثابت کرنا بھی ہمارا ذمہ رہا، تاہم یہ سوال پھر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہمارے دانشور طبقوں کو اِس جمہوریت کا سراغ ملا کہاں سے؟ کیا، جیساکہ کسی کسی وقت اِن کی زبان پر آتا ہے، یہ ابوبکرؓ و عمرؓ کی سیرت پڑھتے ہوئے ایک دم کہیں سے آٹپکی اور اپنی تمام تر جمہوری اصطلاحات اورجمہوری کلچر کے ساتھ، اِن کے سیرتِ صحابہؓ وقرونِ اولیٰ کے مطالعہ کے دوران یہ اِن پر منکشف ہوتی چلی گئی؟ یا پھر یہ لباس پہلے مغرب کے تن پر پہنا ہوا اِن کو نظر آیا اور سو سال تک مسلسل نظر آتا رہا تو اس میں اِن کو دلچسپی پیدا ہوئی؟ پھر جب آقا کی پوشاک اِن کی نظروں میں بے حد جچی تو تب اس کے ’دلائل‘ کی بھی ضرورت جانی گئی اور آخر میں کہیں جاکر اُن طبقوں کا اِس پر اعتراض دورکردینے کی احتیاج سامنے آئی جو ’طرزِ کہن‘ پہ اڑنے کی ضد کیا کرتے ہیں اور جو کہ ’مساجد پر قابض‘ ہونے کے ناطے بہرحال مسلمانوں کی ایک تعداد پر اثر انداز ہوتے ہیں... اور یہاں سے ’ڈیموکریسی‘ کو حضراتِ ابوبکرؓ و عمرؓ سے نسبت کا بھی شرف ملا؟!!

واقعہ درحقیقت یہی ہے۔ ’پیپر کرنسی‘ کی طرح ’جمہوریت‘ کا بھی دور دورہ ہونے کا ایک وقت تھا۔ یہ وقت کا ایک فیشن ہے۔ جو قومیں ابوبکرؓ اور عمرؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ (۱) کو نہیں مانتیں اور جنکی مذہبی کتابوں میں ’شورائیت‘ کا کہیں کوئی ذکر نہیں ان کے ملکوں میں بھی اسی نظام کو آنا تھا۔ ہمارے یہاں بھی اسی کو چلنا تھا۔ البتہ ہمارے مغرب کے خوشہ چینوں کی خوش قسمتی کہ اِن کو ابوبکرؓ وعمرؓ کے ہاں بھی ’دلائل‘ مل گئے۔ ویسے اگر یہ ’دلائل‘ نہ ملتے تو کیا خیال ہے ’جمہوریت‘ اپنے ہاں نہ آتی!!؟

چنانچہ اب ’جمہوریت‘ کو ہر سمت سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ ’جدید‘ ذہن رکھتے ہیں اور ’روشن خیال‘ کہلاتے ہیں تو اس جمہوریت کا ثبوت آپ کو چرچل اور ابراہیم لنکن سے دیا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر آپ ’پرانی‘ طرز کے آدمی ہیں تو اسی جمہوریت کا ثبوت آپ کو ’خلافت راشدہ‘ سے فراہم کیا جا سکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں چیز ایک ہی ثابت ہوگی، یعنی جمہوریت۔ اس کا آپ ’اسلامی‘ مطلب لینا چاہتے ہیں تو بے شک لیجئے، ’غیر اسلامی‘ مطلب لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اس کی آزادی ہے۔ آپ کی خوشی پر کسی کو کیا اعتراض! مگر جس جمہوریت میں آپ حصہ لیں گے وہ ایک ہی جمہوریت ہے! اب ہر کسی کو اس کی پسند کی جمہوریت ملنے سے تو رہی۔ اتنی جمہوریتیں کہاں سے لائی جائیں کہ ہر شخص خوش ہو جائے۔ ملک ایک ہے تو جمہوریت بھی وہاں ایک ہی ہوگی۔ جہاں سب کو رہنا ہے وہاں سب کو ایک ہی چیز پر اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا جو چیز دستیاب ہے وہ تو ہے ایک ہی، البتہ اس کی تفسیر آپ اپنے اپنے انداز سے کر سکتے ہیں۔ اس میں ’تنوع‘ پیدا کرنے کی یہی ایک صورت ہے!

چنانچہ ہر آدمی اس ’جمہوریت‘ سے اپنی مرضی کا مطلب اور مفہوم لے سکتا ہے۔ اس میں اور اپنے ملک کے دستور میں اس بات کی پوری گنجائش ہے۔ یہ اب آپ پر ہے کہ آپ اس ’اپنے والی جمہوریت‘ کا مطلب کیا لیتے ہیں اور اس کے جواز کی دلیل کہاں سے لیتے ہیں۔ مغرب سے یا مشرق سے، شمال سے یا جنوب سے ... آپ کسی بھی طرف سے اس جمہوریت تک پہنچ سکتے ہیں ... کچھ شک نہیں کہ جمہوریت کے اس عالمی نظام میں اسلام پسندوں کو بھی یہ ’سہولت‘ فراہم کی گئی ہے۔ یعنی یہ کہ اس جمہوریت کا جواز ثابت کرنے کے لئے اسلام پسند اپنا الگ طرز استدلال اپنا سکتے ہیں جبکہ ’غیر مذہبی‘ پارٹیاں عین اسی جمہوریت کو ثابت کرنے کےلیے اپنا الگ طرز استدلال رکھ سکتی ہیں۔ غرض اسلام پسندوں کے ’شرعی دلائل‘ بھی عملاً اسی چیز کو ثابت کر رہے ہوں گے جسے مغرب زدہ طبقوں کے ’غیر شرعی دلائل‘ !!!

اس ’حکمت‘ کا تقاضا یہ ٹھہرا ہے کہ جمہوریت کے پس منظر میں جہاں افلاطون اور یونان کی قدیم عوامی جمہوریتوں کا ذکر ہو اور جہاں چرچل اور لنکن کا حوالہ دیا جائے وہاں __ معاذ اللہ __ ابوبکرؓ و عمرؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ کا بھی ذکر کر دیا جائے بلکہ بعض حلقوں کو قائل کرنے کےلیے تو حوالہ دیا ہی ابوبکرؓ و عمرؓ کا جائے۔ البتہ دلیل جو بھی دی جائے اور حوالہ جو بھی کسی کو دل لگے عملاً اس سے جو چیز ثابت ہو وہ ایک ہی ہو اور ایک ہی ہو سکتی ہے: ملک میں رائج نظام کی حقانیت۔ حتی کہ اگر آپ ایسا پائیں کہ یہ تو پوری جمہوریت نہیں تو اس کو ’پوری جمہوریت‘ بنانے کےلیے اس کو ماننا ضروری ہو اور اگر آپ محسوس کریں کہ یہ نظام تو پورا اسلامی نہیں تو اس کو ’پورا اسلامی‘ کرنے کےلیے اس کا دیا ہوا راستہ اختیار کرنا ناگزیر ہو ... غرض ان سب بحثوں سے عملاً صرف ایک چیز ثابت کرنے کی گنجائش ہو اور وہ ہے تیسری دنیا کو دیے جانے والے اِس ’نظامِ مشقت‘ کے ساتھ خود چلنا اور قوم کو لشتم پشتم اِس نظام کے ساتھ چلانا۔

حتی کہ اس نظام کو بدلنے کےلیے بھی پہلے اس کا حصہ بنئے اور اپنے اوپر باقاعدہ اس کی مہر لگوائیے پھر اس کے مقرر کردہ طریق کار کے مطابق __ جی ہاں صرف اور صرف اسی کے مقرر کردہ طریق کار کے مطا بق اور اس کی نشان کردہ سب راہداریاں گزر کر __ اس میں تبدیلی کی درخواست دیجئے۔ یہ آپ کی اس تبدیلی کی تجویز کو __ جو کہ ظاہر ہے جزوی ہی ہو سکتی ہے ___ رد کر دے تو اس کی مرضی۔ آپ کی کوئی بات اس کو پسند آجائے__ کبھی کبھی شریعت کے حوالے دینا اس کو پسند بھی آتا ہے! __ تو اس کی مرضی۔ بہرحال کچھ تبدیلی ہو یا نہ ہو ... یا یوں کہہ لیجئے کہ جب تک کچھ تبدیلی نہ ہو، آپ کو اس کے ساتھ چلنا ہوتا ہے۔

غرض اس گرداب میں آنے کےلیے ہر آدمی اور ہر گروہ الگ الگ بنیاد اختیار کرتا ہے۔ ہر پارٹی کے ہاں اس کے اسباب جدا ہیں مگر عملاً سب کو ایک ہی عمل میں شریک ہونا ہے۔ پاکستان میں بحالی جمہوریت کی تحریک چلانے اور بار بار کی انتخابی مشق کرنے کےلیے غیر مذہبی جماعتیں جو وجوہات رکھتی ہیں وہ یقینا ان وجوہات سے بہت مختلف ہوں گی جو عین اسی محنت کےلیے ہماری مذہبی جماعتیں اپنے پاس رکھتی ہوں گی مگر عملاً دونوں پر ایک ہی قاعدہ قانون کا اطلاق ہوگا اور عملاً دونوں کو ایک ہی قسم کی جمہوریت ملے گی۔ آپ اسکو لیتے ہوئے جو بھی نیت کرتے ہیں وہ آپکا اپنا معاملہ ہے مگر وہ چیز جو آپ کو بالفعل دی جا رہی ہے صرف ایک ہے خواہ آپ ’اسلام پسند‘ ہیں یا ’ترقی پسند‘ یا ’لادین‘۔ آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اس میں آپ ایک بے دین جماعت سے ضرور مختلف ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ واقعتاً ہے کیا، اس پر نقطہ ہائے نظر کا اختلاف عملاً بے فائدہ ہے۔ بلکہ عبث ہے۔ دیکھنے والوں کے اعتبار سے یہ کئی کچھ ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک معیّن چیز ہے ... ایک ایسی معیّن چیز جو مختلف اطراف سے دیکھنے میں مختلف نظر آتی ہے!

ایسی چیز پر ظاہر ہے سب خوش رہ سکتے ہیں۔ ’سب‘ کو خوش رکھنا اور ’سب‘ کو ساتھ لے کر چلنا جمہوریت کا خاصہ ہے۔ اپنے ہاں بھی اپنا یہ خاصہ برقرار رکھنے میں یہ حیرت انگیز حد تک کامیاب ہے۔ تھوڑی بہت شکایتیں تو ہر کسی کو رہ سکتی ہیں اور ’شکایتیں‘ ہونا بھی جمہوریت ہی کا ایک دوسرا خاصہ ہے مگر ہر آدمی ہی اس کے ساتھ چل ضرور سکتا ہے!

ہر آدمی کا ساتھ چلنا اور ہر طبقے کی نمائندگی ہونا خودبخود معاملے کو کہیں ’بیچ‘ میں لے آتا ہے۔ ہر آدمی خود ہی سمجھ لیتا ہے کہ یہاں وہ اکیلا نہیں بلکہ یہاں ہر شخص کی __ ’ایک خاص حد تک‘ __ سنی جانا ہے۔ ابھی شکر کیجئے کہ یہاں مسلمانوں کی تعداد کوئی اٹھانوے فیصد کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے اس لئے لگتا ہے کہ یہ نظام بس ایک مسلمانوں کو ہی ساتھ چلا رہا ہے حالانکہ یہ اسکے ساتھ خوامخواہ کا حسن ظن ہے! خدانخواستہ یہاں کبھی ہندوؤں اور سکھوں اور بدھوں کی تعداد کچھ زیادہ ہوتی پھر دیکھتے کہ ’خلافت راشدہ کی شورائیت‘ سے ثابت کیا جانا والا یہ نظام کیا عجب صورت دھارتا ہے! اگرچہ اسکا ایک اچھا خاصا مظاہرہ پھر بھی دیکھنے میں آ ہی جاتا ہے! یہ وہ نظام ہے جسکے اندر ’اہم معاملات‘ میں تو ’گرگے‘ صرف اپنی ہی چلاتے ہیں اور ان ’اہم معاملات‘ میں اکثریت اور اقلیت سب غیر متعلقہ ہوتے ہیں۔ البتہ عمومی اور غیر اہم معاملات میں یہ بہت سارے مختلف الخیال طبقات کو اکٹھا کرتا ہے جسکے باعث معاملہ خود ہی کہیں ’درمیان‘ میں آرہتا ہے جس سے سب ہی نہ تو پوری طرح خوش ہو سکیں اور نہ ناراض! ہمارے کچھ لوگوں کے نزدیک یہ شورائیت ہے!

پس جہاں تک ’غیر اہم معاملات‘ کا سوال ہے تو یہاں مسئلہ بہت آسان ہے؛ سب کو جمع کر دو اور پھر ان کی اوسط نکال لو۔ جواب جو بھی آئے ’صحیح‘ ہی ہوگا!

مختلف الخیال طبقے خود ہی آپس میں ایک توازن پیدا کر لیتے ہیں۔ بس تھوڑی سی نگرانی کی ضرورت رہتی ہے اور اس کےلیے کئی ادارے اندرون وبیرون ملک کام کرتے ہیں!

چنانچہ آپ دیکھتے ہیں دیندار کیا بے دین، عالم کیا جاہل، عورت کیا مرد، امیر کیا غریب، اسلام پسند کیا غیر اسلام پسند، صنعتکار کیا مزدور، جاگیردار کیا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے، کھلاڑی کیا اداکار ... کونسے طبقے کی یہاں نمائندگی نہیں؟! یہاں تو جوان بہو بیٹیوں کی پوری پوری نمائندگی ہے! یہاں سب اپنی اپنی کہیں گے اور سب کی باری باری سنی جائیگی۔ آپ بھی، باری آنے پر، اسلام نافذ کرنے کا مطالبہ کیجئے۔ البتہ آپکی مانی بھی جائے، اسکے کچھ اپنے قواعد وضوابط ہیں۔ یہ ’مساویانہ‘ نظام ہر کسی کے ساتھ ایک سا پیش آتا ہے! نیک کیا بد، حق کیا باطل، سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے! قلت وکثرت کے سوا کسی اور بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی یا ترجیحی سلوک کرنے کا روادار نہیں! ہر فریق کو اپنا مطالبہ سامنے لانے سے پہلے دیکھنا ہوتا ہے کہ اسکے پاس ’سیٹیں‘ کتنی ہیں! (کیا شک ہے کہ اسلام پسند یہاں ابھی تک اسلام نہیں لا پائے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کے پاس ’سیٹیں‘ کافی نہیں تھیں)

آپ اسلام نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں یا کوئی بے دینی کا مطالبہ، آپ صحیح بات کر رہے ہیں یا غلط ... آپ کی بات مانی جانے کےلیے اس نظام کی اپنی شروط ہیں۔ آپ کی بات اگر بالکل درست بھی ہے اور اس پر قرآن کی بیسیوں آیات کی قطعی دلالت تک اگر موجود ہے تو یہ مفروضہ پھر بھی درست نہیں کہ آپ کی بات ماننے کےلیے یہ بجائے خود ایک کافی بنیاد ہے کہ آپکے پاس شرعی دلائل ہیں لہٰذا اب تو یہ نظام آپ کی بات ماننے کا پابند ہی پابند ہے! کسی چیز کا فی نفسہٖ حق یا باطل ہونا یہاں مسئلے کی سرے سے بنیاد نہیں۔ یقین نہ آئے تو تجربہ کر لیجئے۔ کبھی اِسکو خدا کی آیات اور نبیؐ کی احادیث سنا کر دیکھئے، اور توقع کیجئے کہ یہ پارلیمنٹ میں آپ کی ’سیٹوں‘ کی تعداد پوچھنے کی بجائے آپ سے آیات و احادیث سن کر ”حق“ کے سامنے سر تسلیم خم کر دے گا!!!
سیکولر ازم اور سلطانیِ جمہور کا اصل کفر یہی ہے۔

اسلام کے اندر مسئلے کی بنیاد اس کا حق یا باطل ’ہونا‘ ہے۔ اللہ اور اس کا رسولؐ جو فرما دے، وہ کسی بھی اضافی شرط کے بغیر، اور خودبخود، قانون تصور ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی شرط ہے تو وہ یہ کہ یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچے کہ واقعی کوئی بات اللہ اور اسکے رسول نے کی ہے اور یہ کہ اس بات سے واقعی اللہ اور رسول کی منشا یہی ہے۔ مگر یہ نظام اس کو یہ درجہ تو خیر کیا دے گا کہ اللہ اور رسول جو فرما دے وہ آپ سے آپ قانون ہو، یہ اس پر توجہ کرنے کا بھی پابند نہیں۔ یہ اس کو جب چاہے گا آپ اپنی مرضی سے درخوراعتنا سمجھے گا نہ چاہے گا تو نہیں سمجھے گا اور فیصلہ بہرحال اکثریت رائے سے کرے گا۔ کوئی شخص ہمارے ساتھ اختلاف نہ کرے گا کہ خدا کے ٹھہرائے ہوئے ’حلال و حرام‘ کو یہاں ’اکثریت‘ حاصل ہوتی تو وہ کب کا ’قانون‘ بن چکا ہوتا۔ (’نافذ‘ ہونے کی بات ابھی نہیں ہورہی؛ خدا کے ٹھہرائے ہوئے حلال و حرام کے ’قانون‘ متصور ہونے کی بات ہورہی ہے)

چنانچہ آپ کی بات درست ہے یا غلط، حق ہے یا باطل، اس میں قرآنی آیات کے جگہ جگہ حوالے پائے جاتے ہیں یا یہ گمراہی اور بے حیائی کی کھلی دعوت ہے ...۔ اسکے ”پاس“ ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے اور بڑا سادہ۔ یہ ’مساوات‘ پر اس قدر گہرا یقین رکھتا ہے کہ حق اور باطل اس کے یہاں نفسِ امر میں ایک برابر ہیں۔ لہٰذا اس کو دیکھنا یہ نہیں ہوتا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، اس کو پروا اس بات کی نہیں کہ آسمان سے محمد ﷺ پر کیا اترا اور زمین پر کیا کچھ خانہ سازی ہوئی۔ آیا یہ بات اللہ کی ہے یا غیر اللہ کی۔ اس کو غرض کسی بات سے ہے تو وہ یہ کہ کسی قرارداد کو ووٹ کتنے پڑے۔ حق اور باطل اپنی ذاتی حیثیت میں اس کی بلا سے۔ حق کا بجائے خود حق ہونا اور باطل کا بجائے خود باطل ہونا اس کے حساب سے قطعی طور پر ایک غیر متعلقہ سوال ہے۔

یہ اس نظام کا صریح ترین کفر ہے۔ یہ مغرب میں ہو یا مشرق میں اس کا یہ کفر ہر جگہ باقی ہے۔ کچھ ’اسلامی شقیں‘ یہاں اگر اس میں شامل کردی گئی ہیں تو بھی ایسا نہیں کہ اِس کی یہ خاصیت اس سے اب ہمیشہ کےلیے جاتی رہی! حق کا بجائے خود حق ہونا اور باطل کا بجائے خود باطل ہونا اب بھی اس کےلیے فی الواقع ایک غیر متعلقہ سوال ہے۔ اللہ کے ہاں سے نازل ہوا ہونا کسی چیز کے خودبخود ’قانون‘ ہونے کےلیے اب بھی ناکافی ہے۔ خدا کے فرمائے ہوئے کو ’پاس‘ ہونے کےلیے اب بھی اکثریت کے ووٹ چاہئیں... اور اکثریت کے ووٹوں کا انتظار بھی ...!

یہ حقیقت یہاں ہر شخص دیکھ سکتا ہے اور ہر وقت دیکھتا ہے۔ خدا کے احکام کو آسمان سے اترے ہوئے یقینا چودہ سو سال ہو چکے۔ کوئی ہماری مدد کرے اور بتائے، خدا کے اِن اَحکام کو __قانون کا درجہ پانے کےلیے __ اکثریت سے ’پاس‘ ہونے کے سوا اور کس چیز کا انتظار ہے؟؟؟

اور ذرا کوئی ہمیں یہ بھی بتائے کہ ’سلطانیِ جمہور‘ کا شرک اس کے علاوہ کیا کچھ اور بھی ہے؟؟؟

جمہوریت کا یہ عالمی اصول __ یعنی سلطانیِ جمہور بذریعہ نمائندگانِ جمہور __ ہر جگہ رائج ہے اور ہمارا ملک بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ہمارے دانشوروں کو ابھی اصرار ہے کہ مغرب کی بجائے اس نظام کا مصدر ومنبع خلافت راشدہ کو مانا جائے!

سبحان اللہ! خلافتِ راشدہ... اور خدا کے نازل کردہ احکام کا، ’قانون‘ کا رتبہ پانے کےلیے، مخلوق کے ہاتھوں ’پاس‘ ہونے پر موقوف رہنا... یہ کفر تو حضرات ہمارے دورِ ملوکیت میں نہیں ہوا! ایسے نظام کی نسبت خلافتِ راشدہ سے!
بشکریہ حامد کمال الدین۔ مدیر سہ ماہی ایقاظ

Khalid Mahmood
About the Author: Khalid Mahmood Read More Articles by Khalid Mahmood: 24 Articles with 47921 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.