معاشرہ ایک چال

سماجی زندگی کا مطلب انسان کا معاشرے سے تعلق اور روزمرہ زندگی میں کردار ،لوگوں سے میل جول ہوتا ہے۔ماں کی کوک سے لیکر قبر کے اندھیرے تک کے درمیان میں دیا گیا خدا کی طرف سے وقت کس طرح سے گزارنا ہے یہ انسان خد طے کرتا ہے ،اس دوران وہ بنے بنائے رشتوں کو نبھانا جیسے ماں باپ،بہن بھائی ہوتے ہیں سیکھتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ماں باپ سے رشتہ بچے کا اُس کے معبود کی طرف سے ہوتا ہے اور مزید لوگوں سے تعلق جو وہ خد بناتا ہے اسے ہم معاشرہ کہتے ہیں۔

قریبی رشتوں سے تعلق کےُ اصول اور اُن کی اہمیت اور اُن سے وابستگی ،اُن سے پیار خلوص اور قدر انسان گھریلو تربیت میں سیکھتا ہے۔بزرگوں کا کہنا ہے کہ انسان کا پہلا استاد اُسے جنم دینے والا ہوتا ہے ،پھر جب وہ اس استادی میں بہت کچھ سیکھ لیتا ہے تو سماجی شاگردی میں قدم رکھنے کے قابل ہو جاتا ہے ،جہاں وہ دنیا کے اصولوں سے ہم کلام ہوتا ہے ،اِس دوران انسان گِر کر سنبھلتااورسنبھل کر چلنے کے طریقے کار اور داؤپیچ سیکھتا ہے ،حقیقتن انسان سماجی تربیت سے زیادہ سیکھتا ہے بنسبت کھریلو استادی سے۔

ہم بات کر رہے ہیں ہجری ۱۴۳۵ کی جہاں انسان کی سماجی زندگی اِک جگہ پر آکر تھم سی گئی ہے،جہاں ایک انسان کو انسان کے لئے وقت نہیں ،اگر وقت ہے بھی تو ایک مطلب کی حد تک ۔بنیادی لحاظ اور میل جول کی اہمیت کا خیال نا کیئے بغیر ہر انسان اپنی اوقات کے مطابق ایک دوڑ میں بھاگا چلا جا رہا ہے ،بلکل اُس لنگر کی طرح جسے پانے کے لئے عقیدت مند ایک دوسرے پر جھپٹا کرتے ہیں پر ملنا اتنا ہی ہے جتنا نصیب میں ہوگا،لیکن اِس حقیقت کو آج کی صدی کا انسان ماننے کو تیار ہی نہیں کہ معاشرے کے بگاڑ اور سُدھار کی ترکیب اُسی کی وجہ سے ہے یہ الزام نہیں زمیداری کی بات ہے۔کسی اور کی بات کیا کی جائے، میں میڈیا پرسن ہونے کی ناطے اِس بات پر افسردہ ہوں کے معاشرے میں موجودہ خرابیوں اور برائیوں کی موجودہ صورتِحال کا کچھ سبب میری وجہ سے بھی ہے کے میں نے اِن برائیوں کو ختم کرنے کے لیئے کچھ اقدامات نا کر سکا۔

"افسوس اس بات کا نہیں کہ کیا ہو رہا ہے ،افسوس اِس بات کا ہے کہ زمیداری قبول نا کی کچھ مٹانے کی کچھ سلجھانے کی۔"

اِن سب کی وجہ ہے آج کے انسان کا اپنی اِک الگ سمجھی جانے والی زندگی جس کی بدولت انسان آج معاشرتی زندگی سے دور ہوتا چلا جا رہاہے۔اِس کی چھوٹی سی مثال اِیسی ہے کہ آج بچہ صبح اُٹھتا ہے سکول چلا جاتا ہے ،واپس آتا ہے کھانا ہضم کرنے کے لیئے ٹیلیویزن پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھتا دیکھتا تھکاوٹ کے مارے سوجاتا ہے،جب اُٹھتا ہے تو ٹیوشن کا وقت ہو جاتا ہے اور دوبارہ پڑھنے نکل جا تا ہے جب واپس آتا ہے تو اس وقت رات ہو جاتی ہے اور اگلے دن کی روٹین کو دوبارہ دہرانے کے لیئے رات کا کھانا کھا کر سو جاتا ہے۔یہی حال اِن کی طرح اِک پیشِ آور ڈیوٹی کرنے والے کا بھی ہےجو صبح جاتا ہے گھر سے نکل کر اُن برائیوں کو نظرانداز کیئے ہوئے جس کا وہ بھی اِک حصہ ہے اور اِسی طرح سے واپس بھی آجاتا ہے تھکا مارا اُور سو جاتا ہے۔

آج معاشرتی برائیوں کا دَلدل انسان نے خد تیار کیا ہے، اور اس کی وجہ ہے انسان کا انسان سے دور ہونا اور اِن برائیوں کے خاتمے کی زمیداری سے دور بھاگنا۔بات صرف ہے توبات ہے رسوائی کی۔۔۔

اِنصاف کی بات اگر کی جائے تو آج کا معاشرہ اگر چل رہا ہے تو اِک چال کی بنا پر جہاں انسان کو انسان سے نفرت دکھا کر ایک دوگلی زندگی جینا سکھایا جاتا ہے ،پیارو محبت کے درس دینے کے بجائے سرخ رنگ دکھا کر انسان کو معاشرتی وابستگی سے دھکیلا جا رہا ہے،بس یوں سمجھ لیجئے کہ انسا ن کو انسان سے ڈرا دیا جائے تو معاشرہ ااور اُس سے تعلق ختم کیا جا سکتا ہے جس کی زمیداری ہم سب پر بنتی ہے۔

مدد،فلاحی کام ،حوصلہ افضائی،میل جول ،انفرادی کردار،خلوصِ محبت،حسنِ اخلاق،بھائی چارہ کے ساتھ ساتھ مُحِبِ وطنی ۔۔۔ میں یہ سمجھتا ہوں کے یہ سب معاشرے کے بنیا دیں ہیں اور اِن سب کی ضرورت آج بہت زیادہ ہے ،نہ کہ معاشرے کو ایک چال جیسا اسٹرکچر دے کر انسانوں کو خرابیوں میں مبتلا کیا جائے۔
 

Salman Qureshi
About the Author: Salman Qureshi Read More Articles by Salman Qureshi: 2 Articles with 1448 views I think the reward for conformity is that everyone likes you except yourself.
Being Social activist to be More stable at humanitarian ground.
.. View More