لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوةحسنة

 خالق کائنات نے جب سے یہ دنیا وجود میں لائی ہے اسی وقت سے انسانوں کی رہنمائی ورہبری کیلئے مختلف ادوار میں مختلف پیغمبر بھیجے ہیں اللہ تعالی نے ہر قوم کیلئے ایک رسول کو مبعوث فرما یااور رسولوں کے مبعوث کئے جانے کا مقصد بتاتے ہوئے اللہ تعالی یوں کہتاہے قرآن میں :
ہم نے تمہارے درمیان خود تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جوتمہیں ہماری آیات سناتاہے تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے ،تمہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔ (سورة البقرہ ۱۵۱)

اسطر ح رسولوں کو مبعوث فرماکر اللہ تعالی نے اپنی حجت تمام کردی اور پھر سب سے آخر میں نبی کریمﷺ کے ذریعہ تمام انسانیت کیلئے رہتی دنیا تک لوگوں کے واسطے رہبری ورہنمائی کا سامان فراہم کردیاگیا گویا اس آیت میںاسی طرف اشارہ ہے:
درحقیقت اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میںتمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔
(سورةالاحزاب ۱۲)

بلاشبہ ہر پیغمبر کی زندگی ایک نمونہ ءعمل ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بالخصوص حضرت ابراہیم ؑ اور نبی کریم ﷺ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان (دوپیغمبروں) کی زندگیوں میں تمہارے لئے بہترین نمونہ عمل موجود ہے۔

بیشک ابراہیمؑ کی زندگی بھی قربانیوں سے سرشار ہے لیکن موضوع اللہ کے رسولﷺ کے متعلق ہے۔ سورة الاحزاب کی آیت کا یہ چھوٹا سا حصہ اس پس منظر میں نازل کیاگیا کہ غزوہ احزاب کے موقع پر جسے جنگ خندق بھی کہاجاتاہے جب خندق کھودی جارہی تھی اس وقت اللہ کے رسولﷺ بھی اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ خندق کھودنے میں برابر کا ساتھ دے رہے تھے جو قربانیاں وہ دے رہتے تھے اس سے کہیں زیادہ آپﷺ دے رہے تھے جن تکالیف میںصحابہ ؓ مبتلاتھے ان تکالیف میں آپﷺ بھی مبتلا تھے آپﷺ نے پیغمبروقت یا ان صحابہؓ کا لیڈر ہونے کے باوجود اپنے لئے عافیت کوشی یا سہل پسندی کا انتخاب نہ کیاتھابلکہ بھوک سے بدحال ہوکر جب کسی صحابی رسول نے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے تھے اور رسولﷺ سے اسکا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا آپ نے دو پتھر باندھے ہیں جبکہ میں نے اپنے پیٹ پر تین پتھر باندھ رکھے ہیں اسوقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رسولﷺ کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے نہ صرف یہ بلکہ آپ ﷺکی زندگی کاہر پہلو ایک احسن نمونہ لئے ہوئے ہے۔

حضوراکرم ﷺ سراپا ہدایت ہیں آپﷺ کی تعلیمات دنیا کیلئے ہدایت ورہنمائی، سکون قلبی اور اطمینان ذہنی کا ذریعہ ہے۔ انسانیت کے بھٹکے ہوئے قافلوں کیلئے آپ ﷺ کی حیثیت روشنی کے مینار کی سی ہے آپ ﷺ آفت زدہ انسانوں کیلئے امن کا شہر ہیںجن لوگوں نے بھی آپﷺکے دامن رحمت میں پناہ پائی انہوں نے کسی اور کی پناہ کو پسند نہ فرمایا آپﷺ کا لایا ہوا نسخہءکیمیاءزخمی انسانیت کیلئے مرہم شفاہے۔

انبیاعلیہ السلام کے سلسلے کی آخری کڑی حضرت محمد مصطفی ﷺ خدا کے کلام قرآن مجید کے ذریعہ سے جہاںانسانیت کو خدا کی وحدانیت، انسان دوستی کا، رحمدلی کا، مساوات کااور بھائی چارگی کادرس دیتے ہیںوہیںاپنے اسوہءحسنہ کے ذریعہ سے تقلید کا ایک بہترےن نمونہ چھوڑتے ہیں-

قرآن جو زمین والوں کے نام انکے خالق کی آخری آواز ہے یہ مالک کائنات کی وہ واحد کتاب ہے جو قیامت تک لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف بلاتی رہیگی جسطرح اس نے مکہ کی گلیوں میں بار بار صدادی تھی ۔قرآن نے بارہا نبی کریمﷺ کو دنیا کا واحد رہنمااورآخری ہادی قرار دیااور اگر کوئی واقعی ھدایت کا متلاشی ہے تو اسکو ہدایت آپﷺ کے لائے ہوئے نسخے کے سوا اور کہیں سے نہیں مل سکتی-

رسول عربیﷺ نے قرآن مجسم بنکر کتاب اللہ کی عملی تشریح وتفسیر پیش کی ہے حضرت عائشہؓسے کسی نے پوچھا کہ آپﷺ (اپنے برتاﺅ میں) کیسے تھے؟؟ تو حضرت عائشہ نے یوںجواب دیا کہ کیا تم نے قرآن نے نہیں پڑھا ہے۔ گویا آپﷺکتاب اللہ کی عملی شکل تھے انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا موجود نہیں جسکے بارے میں آپﷺ کا اسوہ حسنہ موجود نہ ہو آپﷺ نے زندگی کے سارے معاملات یعنی سیاست، معاشیات، سماجیات،اخلاقیات حتٰی کہ زندگی میں سونے، جاگنے، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے یہاں تک کہ ضرورتوں سے فارغ ہونے کے آداب تک بتادئیے ہیں اور آپﷺ کی زندگی کا ہر سانس اور عمل کا ہر قدم قرآن کی روشنی اور خداکے احکامات کے عین مطابق تھا اسلئے اللہ تعالیٰ حضورﷺکی زندگی کو پوری کیلئے اسوہ حسنہ قرار دیا۔

آپﷺ نے سادگی کا اسقدر اہتمام فرمایا کہ عبادت کیلئے مرکز اسلام مسجد نبوی ﷺ تعمیر کی تو وہ اتنی سادہ تھی کہ چھت پر کھجور کی شاخیں، مٹی کی دیواریں، کھجور کے تنوں کا ستون اور منبر کے سہارے کیلئے کھجور کا ہی ایک اور تنہ گاڑلیاجبکہ قیصروکسریٰ کے محلات اسوقت بھی آسمان سے باتیں کرتے تھے لیکن رسول خداﷺ نے ہر معاملے میں رضائے الہیٰ کے حصول کو ہی ملحوظ رکھا -

اسطرح رسولﷺ کی زندگی میں بھی انتہائی سادگی تھی بستر میں کھجور کی چٹائی ہوتی تھی جو جسم پر اپنے نقش چھوڑ جاتی تھی حضرت عمرؓ نے کہا کہ قیصر و کسریٰ تو عیش کریں اور آپﷺ شاہ عرب وعجم بھی ہو کرآپ کے جسم پر بورئیے اور چٹائی کے نشان ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا:
اے ابن خطابؓ ! میںتو اس سوار کی مانند ہوں جو کسی چھاﺅ ں میں تھوڑی دیر دم لیتا ہے اور پھر اپنی منزل مقصود کی طرف چلاجاتاہے۔
آپﷺ کی گفتگو میںشگفتگی، نصیحت میں پاکیزگی، خوش خلقی اور نرمی کے اجزاءپائے جاتے تھے اور لہجہ محبت لئے ہوئے ہوتاتھا۔ گویایوں کہ:
نرم دم گفتگو، گرم د م جستجو
رزم ہویا بزم ہو پاک دل وپاکباز

آپﷺ کی شخصیت ہرخاص وعام کیلئے یکساں تھیحضورﷺ کی یہی سادگی دوستوں اور اجنبیوں میں احساس اپنائیت پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی تھی کہ روم کے صہیبؓ ، عرب کے ابوبکرؓ،عثمانؓ ،علیؓوعمرؓ ، فارس کے سلمانؓ ، حبش کے بلالؓ اور حضرت ابوہریرہؓ ہر رنگ ونسل کے لوگ آپﷺکے اطراف جمع ہوتے تھے اور کسی احساس کمتری میںمبتلانہ ہوتے تھےمعاشرے میں مساوات کا رنگ غالب رکھنے کیلئے حضورﷺ کی یہ سادگی زبردست نفسیاتی اور معاشرتی حکمت عملی پر مبنی تھی وہاں کوئی معیار زندگی کی دوڑ نہ تھی۔

حضورﷺ کی یہ سادگی انقلاب آفریں سادگی تھی اسمیںسب کیلئے اسوئہ حسنہ موجود تھاچنانچہ حضوراکرمﷺ کے صحابہؓ بھی اسی پر عمل پیرا تھے وہ بھی سادگی کے پیکر تھے اور اسی کے سبب وہ فاتح تھے لیکن جب مسلمانوں نے سادگی کو چھوڑدیااور عیش و عشرت کے دلدادہ ہو گئے تو وہ محکوم بن گئے اور انھوں نے اپنا مقام کھودیا گویا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ (یعنی مسلمانوں)پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ ساری دنیا ان پر ٹوٹ پڑے گی جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوت پڑتے ہیں تو صحابہؓ کرام نے پوچھا کہ کیا اسوقت مسلمان تعداد میں کم ہونگے؟؟ آپﷺ نے جواب میں فرمایا کہ نہیں بلکہ تعداد میں زیادہ ہونے کو باوجود انکی کوئی حیثیت نہ ہوگی بالکل اسی طرح مسلمانوں نے جب نبی کریمﷺ کے اسوہ کو پس پشت ڈالدیا تو دنیا کی نظروں میں بے حیثیت ہو کر رہ گئے۔

حضوراکرمﷺ جس دعوت کے علمبردار تھے وہ ساری انسانیت کو مخاطب کرتی تھی جس نے بھی آپﷺ کا ساتھ قبول کیاپھر کبھی جدا ہونا پسند نہ کیا وجہ صرف یہ تھی کہ آپ ﷺ بہترین قائد ، بہترین مربی تھے کہ آپﷺ نے اپنے صحابہؓ کے درمیان کبھی کوئی امتیاز نہیں برتابلکہ ہر صحابیؓ رسول یہ محسوس کرتے تھے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ انھی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔

خو ئے دلنوازی آپ ﷺ کا وہ خلقی معجزہ تھا کہ جان کا دشمن یمامہ کا سردار ثمامہؓ بن اثال بھی کہتے ہیں کہ اب مجھے آپ ﷺ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں۔

آپ ﷺ کے حلم وبردباری کا یہ مقام تھا کہ لوگ آپ ﷺ سے ملاقات کے موقع پر اور آپکی مجلسوں میں غیر معمولی آزادی برتتے تہذیب کی حدود پھلانگ جاتے پھر بھی آپ ﷺ اپنی زبان مبارک سے کچھ نازیبا کلمات نہ کہتے۔

کن کن صفات کا تذکرہ کیا جائے ۔ آپﷺ کے صبر کا یہ عالم تھا کہ مشرکین و کفار مکہ آپ ﷺ کو اذیتیں دیتے رہے لیکن جب فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے فاتح ہونے کو باوجود کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا اورآپ ﷺ نے سب کو امان دے دی اور معاف فرمادیا وہ روﺅف و رحیم تھے۔

طائف کا وہ واقعہ بھی آپﷺ کی بے پناہ عظمتوں کی نشاندہی کرتاہے کہ آپﷺ کو لہولہان کےئے جانے کے باوجود آپﷺ نے انکی نسلوں کے حق میں بہتری کی امید ظاہر کی اور سزا دینے سے منع فرمادیا
پھر آپﷺ کو خدا کے بندوں سے اتنا پیار تھا کہ آپﷺ نے انکی کمر کو کھینچ کھینچ کر کے جہنم سے جنت کی طرف لے آتے آپﷺ کالوگوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کا یہ داعیہ اور و ہ اونچا مقام کہ قرآن نے کہا:
اے نبی ﷺ! شاید تم اس غم میں اپنی جان گھلادوگے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے
(سورة الشعراء۳)

آپﷺ کو اپنی ذمہ داری کا بھی بیحد احساس تھا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ حضورﷺ نے ان سے تلاوت کی خواہش کی تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ گھبراگئے کہ میں اور مہبط وحی کو قرآن سناﺅ ں ۔ آپﷺ نے اصرار کیا تو عبداللہؓ نے سورة النساءکی تلاوت شروع کی اور جب یہ آیات پرپہنچے تو آواز آئی عبداللہ ؓ بس کرو۔

پھر سوچو کہ اسوقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں یعنی محمدﷺ کو گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔ ( سورةالنسائ۱۴)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نگا ہ اٹھاکر دیکھا تو آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ آپ اس گواہی کے خوف سے لرزجاتے تھے-

لیکن آج افسوس اس بات کا ہے کہ امت مسلمہ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے دربدر کی ٹھوکریں کھارہی ہے اس امت نے دامن رحمت سے کٹ کر اغیار سے وابستگی اختیار کرلی ہے اس نے آفتاب مدینہ ﷺ کے اسوئہ حسنہ سے منہ موڑلیا اور مغرب کی اندھادھند نقالی شروع کردی اور اسی کو ترقی کانام دے دیا گیا۔

آج ضرورت نبی مہربانﷺ کی تعلیمات کو عام کرنے کی ہے اس پر عمل پیرا ہونے کی ہے اور میلاد النبیﷺ کا یہ جشن جسکو نہ کبھی نبی کریمﷺ نے منایا نہ آپکے صحابہؓ نے منایا ہے۔یہ جشن اسی وقت مناسب ہوگا جب اللہ کے رسولﷺ کی تعلیمات پر عمل کرکے فاتح عالم بنیں اور جب جشن منائیں تو یہ صحیح معنوں میں اور حقیقی جشن ہوگا۔ اللہ کے رسولﷺ اپنی پیدائش کا جشن اپنی حیا ت میں کبھی نہیں منائے اور نہ اسکی تاکید کی اور آپﷺ نے خطبئہ حجة الوداع کے موقع پر دین کی تکمیل کااعلان کردیا-

گویا یہ جشن منانے کے بجائے دنیا کو اسلام کے ذریعہ سے تسخیر کرکے بہترین جشن تب منانا ہی اسوئہ حسنہ کا حق ادا کرنے کی طرح ہوگا اور یہی وقت کا تقاضاہے-

میری دعاہے کہ اے اللہ مسلمانوں کو صحیح قوت فکر عطا کرئیے کہ ہم دنیا کو اسلام کا صحیح علمبردار بن کر دکھائیںاور اسلام کے پیغام کو عام کرسکیں۔

 
Shahmeena Subhan
About the Author: Shahmeena Subhan Read More Articles by Shahmeena Subhan: 4 Articles with 4022 views i am a simple girl with mercy in deeds...:).. View More