پاکستان کی زبانیں

سندھی زبان
سندھی انڈو آریان گروہ کی زبان، اور جنوبی ایشیاء کے علاقہ سندھ کی زبان ہے جو پاکستان کا صوبہ ہے۔ پاکستان میں سندھی بولنے والوں کی تعداد تقریباً ایک کروڑ پچاسی لاکھ اور بھارت میں تقریباً اٹھائیس لاکھ ہے اور سندھی کو پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اگرچہ سندھی انڈو آریان گروہ کی زبان ہے لیکن اس میں دراوڑی اثرات بھی پائے جاتے ہیں، جو اس کو خاص انفرادیت اور اہمیت دیتا ہے۔ سندھی بولنے والے زیادہ افراد پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہیں، اور بقیہ دنیا کے باقی حصوں میں خاص کر بھارت کے کئی حصوں میں آباد ہیں جو 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سندھ سے ہجرت کر کے بھارت گئے اور وہاں آباد ہو گئے۔ سندھی عام طور پر ترمیم شدہ عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ حکومت بھارت نے 1948ء میں عربی رسم الخط کی جگہ دیونا گری رسم الخط کو اردو، سندھی، جیسی زبانوں کے لیے بھارت میں رائج کیا۔

تاریخ
سندھی چودھویں صدی عیسوی سے اٹھارویں صدی عیسوی تک تعلیم و تدریس کی مشہور زبان رہی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب شاہ عبدالطیف بھٹائی اور کئی دوسرے شعراء نے سندھی زبان میں اپنا صوفیانہ کلام لکھا اور انسان اور خدا کے درمیان رشتے کی وضاحت کی۔ قرآن کا پہلا ترجمہ سندھی میں کیا گیا، جو بارہویں صدی عیسوی یا اس سے پہلے، قرآن کا پہلا ترجمہ ہے

جغرافیائی تقسیم
سندھی جنوب مشرقی پاکستان کے سکولوں میں پہلی زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ سندھی وسیع ذخیرہ الفاظ کی وجہ سے محررین اور مصنفین کو راغب کرتی ہے جسکی وجہ سے ادب اور شاعری کا ایک وسیع ذخیرہ رکھتی ہے۔ سندھی کے کئی لہجے پاکستنان کے باقی صوبوں پنجاب، بلوچستان، سرحد کے کئی علاقوں اور بھارت کی ریاست گجرات اور راجستھان میں بولے جاتے ہیں۔

پنجابی (گورمکھی ਪੰਜਾਬੀ، شاہ مکھی پنجابی) ایک ہندو یورپی زبان ہے جو کہ باشندگان پنجاب میں مروج ہے۔ پنجابی بولنے والوں میں ہندومت، سکھ مت، اسلام، اور مسیحیت کے پیروکار شامل ہیں۔ اول الذکر مذہب کے علاوہ باقی تینوں مذاہب میں اس زبان کو خاص حیثیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں ہوئیں مردم شماریوں کے مطابق دنیا میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد ۹ کروڑ سے زائد ہے (یاد رہے کہ اس گنتی میں غربی لہجے یعنی پہاڑی اور لہندے کو بھی شامل کیا گیا ہے)۔ اس زبان کے بہت سے لہجے ہیں جن میں سے ماجھی لہجے کو ٹکسالی مانا جاتا ہے۔ یہ لہجہ پاکستان میں لاہور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ کے اطراف میں جبکہ ہندوستان میں امرتسر اور گورداسپور کے اضلاع میں مستعمل ہے۔

جغرافیائی وسعت
پنجابی پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ یہ ملک کی 45 فی صدی آبادی کی مادری زبان ہے، جبکہ 70 فیصد پاکستانی یہ زبان بولنا جانتے ہیں۔ اس کے برعکس ہندوستان کی آبادی کا محض 3 فیصد ہی پنجابی جانتا ہے۔ تاہم پنجابی ہندوستان کی ریاست پنجاب کی سرکاری زبان ہے، جبکہ پاکستان میں پنجابی کو کسی قسم کی سرکاری پشت پناہی حاصل نہیں۔ مزید برآں پنجابی کو ہندوستانی ریاستوں ہریانہ اور دہلی میں دوئم زبان کی حیثیت حاصل ہے۔

پنجابی امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ اور کینیڈا میں اقلیتی زبان کے طور پر بولی جاتی ہے۔ پنجابی نے بھنگڑا اور موسیقی کی وساطت سے بھی کافی عالمی مقبولیت پائی ہے۔

تاریخ
پنجابی زبان کا اخترع اپبھرمش پراکرت زبان سے ہوا ہے۔ اس زبان میں ادب کا آغاز بابا فریدالدین گنجشکر سے ہوتا ہے۔ بعد ازاں سکھ مت کے بانی بابا گورو نانک کا نام آتا ہے۔ سکھوں کے پانچویں گورو ارجن دیو نے گورو گرنتھ صاحب کی تالیف کی تھی۔ یہ کتاب گورمکھی رسم الخط میں لکھی گئی تھی اور اس میں پنجابی کہ علاوہ برج بھاشا اور کھڑی بولی کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔

پندرھویں سے انیسویں صدیوں کے درمیان مسلمان صوفی بزرگوں نے پنجابی زبان میں بے مثال منظوم تحریریں رقم کیں۔ سب سے مقبول بزرگوں میں بابا بلھے شاہ شامل ہیں۔ ان کی شاعری کافیوں پر مشتمل ہے۔ قصہ خوانی بھی پنجابی ادب کی ایک مقبول صنف ہے۔ سب سے مشہور قصہ ہیر اور رانجھے کی محبت کا قصہ ہے جو کہ وارث شاہ کے قلم سے رقم ہو کر امر ہو چکا ہے۔ دیگر صوفی شعرا میں شاہ حسین، سلطان باہو، شاہ حسین اور خواجہ فرید شامل ہیں۔

تقسیم ہند کا سب سے برا اثر پنجابی زبان پر پڑا۔ایک طرف ہندو پنجابی جوکہ صدیوں سے پنجابی بولتے آئے تھے اب ہندی کو اپنی مادری زبان کہلوانے لگے، اسی طرح مسلمان اردو کو اپنی مادری زبان سے زیادہ ترجیح دینے لگے۔ نتیجتاً پاکستان میں پنجابی کو کسی قسم کی سرکاری حیثیت نہ دی گئی، جبکہ ہندوستان میں پنجابی کو سرکاری حیثیت دینے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی گئیں۔ تاہم اب ریاست پنجاب میں پنجابی سرکاری اور دفتری زبان ہے۔

پنجابی کے جدید ادبا میں موہن سنگھ، شو کمار بٹالوی، امرتا پریتم، سرجیت پاتر (ہندوستان سے)، منیر نیازی، انور مسعود، اور منو بھائی (پاکستان سے) شامل ہیں۔

پنجابی کے شعراء

* وارث شاہ
* ہاشم شاہ
* منیر نیازی
* امرتا پریتم
* انور مسعود
* میاں محمد بخش
* بابا بلھے شاہ

پشتو
پشتو یا پختو (پشتو: پښتو) ایک مشرقی اريانی زبان ہے اور ايران سے تعلق نہین رکهتا، جو پٹھانی یا افغانی بھی کہلاتی ہے.

یہ افغانستان میں 65 فیصد جبکہ پاکستان میں 20.15 فیصد لوگوں کی مادری زبان ہے. پشتو افغانستان کی سرکاری اور قومی زبان بھی ہے. اِسی وجہ سے اِسے بین الاقوامی حیثیت حاصل ہے.

لہجے
کئی وجوہات کی بناء پر پشتو کی بے شمار بولیاں ہیں. تاہم، مجموعاً پشتو کی اصل میں دو لہجے ہیں: نرم یا مغربی لہجہ اور سخت یا مشرقی لہجہ. اِن دونوں بولیوں میں فرق کچھ حروفِ علّت اور آوازوں کا استعمال ہے.

قندہار کی بولی سب بولیوں میں معتدل ہے. یہ لہجہ عرصہ دراز سے اپنی اصل حالت برقرار رکھے ہوئے ہے.

جغرافیائی تقسیم
پشتو زبان پاکستان کے مغربی علاقوں جیسے صوبہ سرحد، وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان میں 30 ملین اور افغانستان میں 15 ملین سے زائد افراد بولتے ہیں. کچھ پشتو بولنے والے گروہ سندھ کے شہروں جیسے حیدرآباد اور کراچی میں بھی آباد ہیں.

ذخیرہ الفاظ
پشتو زبان زمانہ قدیم سے دوسرے زبانوں جیسے فارسی اور سنسکرت سے الفاظ لیتی رہی ہے. دوسرے تہذیبوں اور گروہوں کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے پشتو میں قدیم یونانی، عربی اور ترکی زبان کی بھی الفاظ ہیں. جدید الفاظ انگریزی سے لئے گئے ہیں.

بلوچی
بلوچ قبائل کی زبان۔ ہند یورپی زبان کی ایک شاخ ’’ہند ایرانی‘‘ جو مروجہ فارسی سے قبل رائج تھی۔ کی ایک بولی ۔ پاکستانی صوبہ بلوچستان ایرانی بلوچستان، سیستان، کردستان اور خلیج فارس کی ریاستوں میں بولی جاتی ہے۔ بلوچی ادب کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا رند دور جو 1430ء سے 1600ء تک کے عرصے پر محیط ہے۔ دوسرا خوانین کا دور جس کی مدت 1600ء سے 1850ء تک ہے۔ تیسرا دور برطانوی دور جو 1850ء سے شروع ہوا اور اگست 1947ء میں تمام ہوا۔ چوتھا ہمعصر دور جس کا آغاز قیام پاکستان سے ہوا۔

رند یا کلاسیکی دور میں بلوچ شعرا نے چار بیت طرز کی رزمیہ داستانیں اور مشہور بلوچ رومان نظم کیے۔ اُس دور کے شعرا میں سردار اعظم، امیر چاکر رند، امیر بیو راغ، پھوزرند، گواہ شاہ لاشاری، میر ریحان رند، شاہ مرید، میر شاد داد، میر جمال رند اور شاہ مبارک قابل ذکر ہیں۔ خوانین قلات کے دور میں خان عبداللہ خان، جنید رند، جام درک درمبکی، محمد خان کشکوری، مٹھا خان رند اور حیدر ہلاچانی شعرا نے شہرت پائی۔ برطانوی دور نے ملا فضل رند، قاسم رند، مست توکلی ، رحم علی، بہرام جکرانی، حضور بخش جتوئی، عبدالنبی رند، عزت پنج گرج، نور محمد بام پشتی، ملاابراہیم سرسبزی، ملا بہرام سرسبزی اور اسماعیل پل آبادی جیسے شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔

قیام پاکستان کے بعد بلوچی ادب کی ترقی و فروغ کے لیے مؤثر کوششیں کی گئیں۔ 1949ء میں بلوچستان رائٹر ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ 1951ء میں بلوچ دیوان کی تشکیل ہوئی اور بلوچی زبان کا ایک ماہوار مجلہ ادمان کا اجرا ہوا۔ کچھ عرصے بعد ماہنامہ بلوجی جاری کیا گیا۔ اس کے فوری بعد ماہنامہ اولس اور ہفت روزہ ’’دیر‘‘ شائع ہوئے۔ 1959ء میں بلوچی اکیڈیمی قائم ہوئی جس کے زیر اہتمام متعدد بلوچی کلاسیکی کتب شائع ہو چکی ہیں۔

ہمعصر بلوچی شعرا میں ظہور شاہ، عطا شاد، مراد ساحر، گل خان نصیر، مومن بزمد، اسحاق شمیم، ملک محمد تقی، صدیق آزاد، مرعاد ساحر، گل خان نصیر، اکبر بارک زئی، ہاشمی شاکر، مراد ساحر، مراد آوارانی، میر عبدالقیوم، میر مٹھا خان مری اور ملک پناہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ نئی پود میں امان اللہ گجکی، نعمت اللہ گجکی، عبدالحکیم بلوچ، عبدالغفار ندیم، اور صورت خان مری نے بلوچی ادب کے ناقدین کو کافی متاثر کیا ہے۔

ہندکو
ہندکو صوبہ سرحد کے مختلف علاقوں اور پنجاب کے ضلع اٹک میں بولی جانے والی زبان ہے۔ اسے ہم پنجابی زبان کا ہی ایک لہجہ کہ سکتے ہیں۔ کیونکہ دونوں زبانوں کے بولنے والوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔

ہندکو صوبہ سرحد کے قریبا تمام بڑے شہروں مثلاً پشاور، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، ایبٹ آباد، ہری پور، مانسہرہ، صوابی کی اکثریتی آبادی کی زبان ہے۔

ہندکو کا مطلب ہے ہند کی زبان۔ وسطی ایشیا سےہندوستان آنے والوں کو سب سے پہلے اس زبان سے پالا پڑتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس علاقے کی زبان کا نام ہندکو یا ہند کی رکھا۔

پاکستان کے معروف شاعر محسن احسان کا تعلق پشاور سے ہے وہ ہندکو زبان بولتے ہیں۔ احمد فراز اور قتیل شفائی بھی ہندکو زبان بولتے تھے جن کا تعلق بالترتیب کوہاٹ اور ہری پور سے تھا۔ محسن احسان کی تحقیق کے مطابق ہندکو پشاور قلعے کے اندر بولی جاتی تھی اور قلعے سے باہر پشتو یا پختو زبان رائج تھی۔ یعنی ہندکو حکمرانوں کی زبان تھی جیسا کہ ہندوستان میں حکمران فارسی بولا کرتے تھے۔

سرائیکی
سرائیکی زبان دنیا کی ایک پرانی زبان ہے۔ یہ وسطی پاکستان میں بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ دنیا کے کئی اور ممالک میں بھی بولی جاتی ہے۔ یہ انڈو آریاءی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن اس کی بنیادوں میں قدیم افریقی زبان کے ساتھ منڈرای اور دراوڑ زبانوں کے اثرات بھی ہیں۔ اس زبان میں خصوصی طور پر چار درآمدی آوازیں ہیں جو سندھی کے علاوہ کسی دوسری ہند آریاء زبان میں نہیں ملتیں۔ مثلاً ٻ۔ڄ ۔ڳ۔ وغیرہ. یہ زبان شاعری کے حوالے سے بہت امیر ہے ۔خواجہ فرید اس زبان کا بڑا شاعر ہے۔ اس طرح نثر میں بھی بہت سرمایہ موجود ہے۔

شاعری
سرائیکی میں تقریباً ڈیڑہ ہزار سال کی شاعری موجود ہی۔

* سچل سرمست
* حمل لغاری
* بیدل سندھی
* لطف علی
* خواجہ غلام فرید
* غلام رسول ڈڈا
* ممتاز حیدر ڈاہر.. اس زبان کی بڑی شاعر ہیں۔
* اور آجکل کے معروف و مشہور شاعر احمد خان طارق
Tahira Inam
About the Author: Tahira Inam Read More Articles by Tahira Inam: 21 Articles with 225892 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.