دلوں کا پیوند کار شاعر (جاوید احساسؔ)

 شہرِبنوں شعرو ادب کے حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔یہاں کے لوگ فطری طور پر ادب دوست اور ادب نواز ہیں۔ادب اور بالخصوص شاعری کا ذوق عام و خاص میں پایا جاتا ہے۔جہاں تک یہاں کے شعراء کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنی اُفتادِ طبع کے زیرِ اثر غزل ہی کی جانب مائل رہے ہیں۔چنانچہ اصنافِ سخن میں غزل کو یہاں مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے اس حوالے سے بنوں کو اگر غزل کا چمن زار کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

اگر چہ بنوں میں پشتو زبان بولی جاتی ہے اور پشتو شاعری کا رجحان بھی زیادہ ہے مگر اس کے باوجود کچھ شعراء نے پشتو کے ساتھ ساتھ اردو شاعری میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔مقبول عامر کے علاوہ افتخار درانی،عبدالسلام بیتابؔ،ہارون سورانی،عمرقیاز قائلؔ، زاہدسیف ، ؔا رشد ساہرؔ،عاقل عبید خیلوی، اور کچھ اور نوجوان شعراء پشتو کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی کامیاب غزل کہتے ہیں۔ ایسے ہی شعراء میں سے ایک توانا نام جاوید احساسؔ کا ہے جو پشتو کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی جاندار اور شاندار غزل لکھتے ہیں جاوید احساسؔ کا پشتو شاعری پر مشتمل پہلا شعری مجموعہ( سرچینہ)کے نام سے۲۰۱۰ء میں چھپ چکا ہے اور تاحال مذکورہ مجموعہ کے تین ایڈیشنز منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ (سرچینہ)اباسین آرٹس کونسل پشاور سے رحمان بابا ایوارڈ اورادبی ثقافتی جرگہ مردان سے خیبر پختونخوا ایوارڈکے علاوہ مختلف ادبی ایوارڈ اور اعزازات اپنے نام کر چکا ہے اور ادبی دنیا میں جاوید احساسؔ کی پہچان بن چکا ہے۔

جاوید احساسؔ بنوں شہرکے علاقہ لنڈیڈاک کے گاؤں کشمیر دردڑیز میں۲ مئی ۱۹۷۶ میں پیدا ہوئے۔اُنہوں نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم اپنے ہی گاؤں کے سکولوں میں حاصل کی۔دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی علوم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔اس کے بعدانٹر اور ڈگری کے امتحانات پرایؤیٹ طور پر شاندار نمبروں سے پاس کئے۔بعد ازاں گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان سے انگریزی ادبیات میں ماسٹرز کیا۔اس کے بعدیونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان بنوں میں بطورِ ڈیوٹی آفیسر خدمات سر انجام دیتے رہے اور آج کل اکرم خان درانی کالج میں بطورِ اردو لیکچرر تعینات ہیں۔علاوہ ازیں ریڈیو پاکستان بنوں میں اردو اور پشتو ادبی پرگرامز کی میزبانی کے فرائض بھی بخوبی انجام دے رہے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ جاوید احساسؔ پشتو شعر وادب کے حوالے سے تو کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔پشتو شاعری میں اپنے جدید اور منفرد اسلوب اور نثر میں جداگانہ اندازِ بیان کی بدولت کافی شہرت اور مقبولیت رکھتے ہیں۔احساس ؔ پشتو کے ساتھ ساتھ اردو شاعری خصوصاً غزل میں تازہ تر لہجے کے شاعر ہیں۔وہ شاعری میں حتی الوسع اپنی تخلیقی شخصیت کو بھر پور طور پر فعال اور متحرک رکھنا چاہتے ہیں۔ا س کے علاوہ وہ گاہے گاہے تنقیدی مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں۔ اردو ادب میں کلاسیکی اور جدید شعراء کا مطالعہ ان کا محبوب مشغلہ ہے۔چنانچہ اردو شاعری کی بھر پور اورجاندارروایت کے ساتھ ساتھ اپنی تخلیقی فکر و نظر کو بھی سامنے لانے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔جاوید احساسؔ ابتداء ہی سے مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں ان کے قول کے مطابقـ ’’بچپن سے کوئی بھی کتاب،اخبار یا ورق جو میرے ہاتھ لگا پڑھے بغیر نہ چھوڑا‘‘۔پشتو اور اردو ادب کے ساتھ ساتھ انگریزی، فار سی اور عربی ادب کا مطالعہ بھی ان کے معمولات کا حصہ رہا ہے ۔ ادب کے علاوہ تاریخ ،فلسفہ،نفسیات ،عمرانیات ،سیاسیات، مذہب ،تصوف اور سائنس کا مطالعہ بھی ان کے مشاغل میں شامل ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے ذہن و دل کی کھڑکیاں تازہ ہوا اور روشنی کے لئے کھلی رکھی ہوئی ہیں‘‘یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں نئے خیالات، متنوع موضوعات،مختلف لب ولہجے اور منفرد اسالیب دیکھنے کو ملتے ہیں۔

جاوید احساس ؔ بنیادی طور پر ایک غزل گو شاعر ہیں۔ان کی غزلوں میں جوش و جذبہ،حُسنِ تخیّل،متانت و لطافت،سوز و گداز،حقیقی جذبات اور اظہار کی بے تکلفی پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں لطیف جذبات اور وجد انگیز غنایئت موجود ہے۔دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تغزل ان کی شاعری کی روح ہے۔
احساسؔ کے پرُ امید لہجے میں کہے ہوئے اشعار سچے انسانی جذبات واحساسات سے معمور ہیں۔ وہ کسی مخصوص نظریے کا پرچاریا کسی خاص طبقے کی نمائندگی نہیں کرتے یعنی ان کی سوچ کا دائرہ تنگ نہیں وہ کائنات کا بغور مطالعہ کرتے ہیں اور انسانی زندگی میں پیش آنے والے ہر اہم واقعے اور تجربے کو حتی الوسع اپنی شاعری میں سمونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں تازگی اور توانائی کا احساس ملتا ہے۔ اور ان کی شاعری ذہنوں کواحساس کی سطح پر جھنجوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ زندگی کے شاعر ہیں اور انکی شاعری کے مطالعے سے زندگی کے متعلق آگہی ملتی ہے ۔وہ غزل کو نئی جہتوں سے آشنا کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ الفاظ کے مزاج کو سمجھتے ہیں اور الفاظ کے مناسب استعمال پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔اسی لئے ان کے کلام میں روانی اور سلاست کے ساتھ ساتھ اُسلوب کی سنجیدگی اور ایک طرح کی بلند آہنگی اور روانی پائی جاتی ہے۔اُن کی ترکیبوں میں بندش کی چستی و دلکشی مصرعے کی بُنت پر شاعر کی ماہرانہ گرفت کا ثبوت ہے۔صوفیانہ مضامین ہوں،فلسفیانہ نکات ہوں،معرفت کے رموز ہوں یا حُسن وعشق کا بیان ہو وہ اسے نہایت بے تکلفی اور سادگی سے نظم کرتے ہیں۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ وہ شاعری میں فکر و جذبہ کو ساتھ ساتھ لے کرچلتے ہیں نہ فکر ان کے جذبہ پر غالب ہوتی ہے اور نہ جذبہ ان کی فکر پہ حاوی ہوتا ہے بلکہ وہ ان دونوں کو متوازن رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ فکر و خیال کے ساتھ ساتھ جذبہ و احساس سے معمور شاعری کرتے ہیں اگر چہ ابھی تک ان کا کوئی اردو شعری مجموعہ منظرِ عام پر نہیں آیا تاہم جاوید احساسؔ کے فکر و فن کو ذیل کے اشعار سے سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
بات ہو کوئی پتے کی تو زباں کھولیں ہم
ورنہ اس شور میں کیا بولیں اور کیوں بولیں ہم
پھر یہ ارماں کا زہر پی ہی لیں مگر پہلے
اِسے شرابِ زندگی میں خوب گھو لیں ہم
روز وہ شخص گزرے ہے ہماری بستی سے
روز جی چاہتا ہے اس کے ساتھ ہو لیں ہم
تمہاری یاد جو برسے بقدرِ شبنم بھی
اتنا غم ہے کہ بارشوں کی طرح رو لیں ہم

ایک حساس شاعر ہونے کے ناطے احساسؔ کو اگر چہ زندگی کے موجودہ ماحول اور حالات سے یک گونہ مایوسی محسوس ہوتی ہے وہ زندگی کی فضاء کو شور و شر سے آلودہ پاتے ہیں ۔تاہم یہ مایوسی کی کیفیت بیزاری اور بے دلی تک نہیں پہنچتی۔وہ ان حالات میں بھی زندگی اور اس کے متعلقات سے اپنے اپ کو مستقل طور پر وابستہ رکھنا چاہتے ہیں وہ حالات سے پسپائی اختیار نہیں کرتا بلکہ زندگی کی جنگ ہمت اورحوصلے سے لڑنا چاہتا ہے اور یہی پیغام ان کی شاعری میں بنی نوع انسان کے لئے موجود ہے یعنی حالات چاہے کیسے ہی کیوں نہ ہوں وہ ان سے کلی طور پر دلبرداشتہ نہیں ہوتے بلکہ ان تمام تر محرومیوں،ناکامیوں اور تلخ حقائق کے باوجودزندگی کو مثبت سوچ اور پرُ امید انداز میں گزارنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
ہمیں تو پیار سے غرض ہے نہ کہ پیکر سے
ہمیں تو جو بھی پیار دے،اُسے پسند کریں

جاوید احساس ؔپیار ومحبت کو عام کرنا چاہتے ہیں وہ کسی ایک انسان سے نہیں بلکہ پوری انسانیت سے محبت کو اوّلیت دیتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ محبت سب کے لئے ہو اور محبت کے جذبہ کی صحیح عکاسی کی جانی چاہئے ۔پیار و محبت کے لفظوں کو محدود معانی میں استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ موجودہ دور انسانی رشتوں میں پیار محبت اور امن کا پہلے سے زیادہ متقاضی ہے۔
اب تو ہو سکتی ہے پیوند کاریٔ اعضاء
اب تو ٹوٹے ہوئے دلوں کو بھی پیوند کریں

احساسؔ اپنی شاعری میں جدت پیدا کرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے اپنی شاعری میں نئے خیالات اور موضوعات کو سمونے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ان کا مذکورہ بالا شعر ان کی جدت پسند ی پر دلالت کرتا ہے۔ ان معروضات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ: جاوید احساسؔ کا شمار عہدِحاضر کے اُن شعراء میں ہوتا ہے جو اپنے افکار کے ذریعے امن و محبت اور انسان دوستی کا پیغام دیتے ہیں۔

احساس ؔاردو اور پشتو ادب میں اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں۔ اپنی قابلیت اور انتھک محنت سے وہ اپنے ہمعصر نوجوان شعراء میں اپنا نام اور مقام بنا چکے ہیں مستقبل میں شعر و ادب کے حوالے سے ان سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ان کی درازیٔ عمر کے لئے ہماری دعائیں اور روشن مستقبل کے لئے نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔
نمونہء کلام
تجھ سے اب ترکِ محبت کا فائدہ کیا ہے
اب میرے پاس میری جان رہ گیا کیا ہے
اس نئے شخص کو یارو نہ بتائے کوئی
کہ میری پہلی محبت کا نتیجہ کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال باقی ہے ذوقِ جمال باقی ہے
ابھی دنیا میں عشق کا کمال باقی ہے
ابھی سے پھٹنے لگی ہے وجود کی دھرتی
جو دل میں ہے ، ا بھی وہ بھونچال باقی ہے
عدو کے عہدِ ستم کا میں عین شاہد ہوں
عروج دیکھ لیا ہے زوال باقی ہے
ترے احساس ؔ کے منصب پہ اب بھی فائز ہوں
جو ترا درد تھا اب تک بحال باقی ہے
shahid
About the Author: shahid Read More Articles by shahid: 4 Articles with 5015 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.