لوگوں کو ہنسانے کا مشغلہ باعث ہلاکت ہے

حضرت بہزا بن حکیم اپنے والد (حکیم ابن معاویہ) سے اور وہ اپنے والد (حضرت معاویہ ابن عبدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو باتیں کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے (پھر مزید فرمایا) اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے”۔ (مسند احمد، ترمذی، ابوداؤد و دارمی)

فائدہ:۔ اس حدیث کی عربی عبارت میں ویل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عربی میں ”ویل” کے معنی عظیم ہلاکت کے ہیں اور ویل دوزخ کی ایک گہری وادی کا نام بھی ہے جس میں اگر پہاڑ ڈال دیئے جائیں تو گرمی سے پگھل جائیں۔ اہل عرب کے کلام میں یہ لفظ اس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کسی برائی اور ناپسندیدہ امر کا ارتکاب کرتا ہے اس کو تنبیہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ایک اور حدیث میں ہے کہ: ”حقیقت یہ ہے کہ بندہ ایک بات کہتا ہے اور صرف اس لیے کہتا ہے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے تو وہ اس بات کی وجہ سے (دوزخ میں) جا گرتا ہے اور اتنی دوری سے گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیانی فاصلہ سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بندہ اپنے قدموں کے ذریعہ پھسلنے سے زیادہ اپنی زبان کے ذریعہ پھسلتا ہے”۔ (بحوالہ بیہقی)۔ دوسروں کو ہنسانا لوگوں کا ایک مشغلہ ہے اور بعض قومیں تو مستقل اس کی روٹی کھاتی ہیں۔ یہ لوگ مختلف محفلوں میں جاتے ہیں لوگوں کو ہنسانے کے طریقے سوچتے رہتے ہیں۔ طرح طرح کے جھوٹے قصے خود بناتے رہتے ہیں اور حاضرین کو ہنساتے ہیں وہ اس کی بالکل بھی پرواہ نہیں کرتے کہ کس پر تہمت لگی اور کتنا جھوٹ بولا اور کتنے کفریہ کلمے زبان سے نکالے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کہ ہنسانے ہی کا کام کرتے ہیں۔ اس مشغلہ سے بہت سے گناہ صادر ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذکورہ بالا حدیث میں سخت وعید فرمائی اور فرمایا کہ اس کے لیے ہلاکت ہے، پھر ہلاکت ہے، پھر ہلاکت ہے۔ اس میں سب سے زیادہ بدترین طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کو ہنسانے کے لیے کسی خاص شخص کا مذاق اڑایا جائے اس کی نقل اتاری جائے اور اس کے ساتھ مسخرہ پن کیا جائے۔ بعض مرتبہ کسی کی غیبت بھی کی جاتی ہے جس سے حاضرین کو ہنسانا مقصود ہوتا ہے۔ دنیا میں تو ہنسنے ہنسانے سے ذرا دیر کے لیے نفس کو مزا تو مل جاتا ہے لیکن آخرت میں اس کی وجہ سے جو بربادی سامنے آئے گی اس وقت اس کے انجام کا پتہ چلے گا۔ کیونکہ کسی کی نقل اتارنا اور مذاق کرنا کوئی معمولی برائی نہیں۔ آخرت میں سب کا حساب ہے۔ کسی کمزور سے کمزور اور غریب سے غریب آدمی کا مذاق اڑایا جائے، وہ یہاں کچھ نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کا پروردگار روز جزا کے دن اس کا بدلہ دلائے گا اور وہاں ہر دعوے دار قوی ہو جائے گا کسی کا حق نہیں مارا جائے گا۔ جن لوگوں کا مشغلہ ہنسنے ہنسانے اور لوگوں کی برائیاں کرنے کا ہوتا ہے اول تو ایسے لوگ نیکیوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ گناہوں میں ہی سار وقت گزارتے ہیں لیکن اگر کوئی نیکی کر بھی لی تو ایسی کبھی کبھار کی نیکیوں کی تعداد اتنی معمولی ہوتی ہے کہ لوگوں کی بےآبروئیاں کر کے جو گناہوں کے پہاڑ اپنے سر رکھ لیتے ان پہاڑوں کے مقابلہ میں ان سب نیکیوں کی کیا حیثیت ہوگی؟ یوں ہنسنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ بعض باتوں پر اچانک ہنسی آجاتی ہے۔ ایسی ہنسی پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ لیکن دوسروں کو ہنسانے کا مشغلہ کرنا یا خود زیادہ ہنستے رہنا انتہائی بری بات ہے۔ آج ہمارے اس دور میں ایسے لوگوں کو ادب شناس اور مہذب گردانا جاتا ہے کہ اس مشکل دور میں یہ لوگوں کو ہنساتے ہیں اور باضابطہ طور پر ان کو حکومت کی سرپرستی مہیا کی جاتی ہے اور انہیں بڑے بڑے حکومتی اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ لیکن یہ لوگ انتہائی غفلت کے عالم میں ہیں اور آخرت کے اس دن کو بھلائے بیٹھے ہیں جو کہ ایک اٹل حقیقت ہے اور جس دن ہر چیز کا حساب دینا ہے اور جس دن سب کچھ سامنے آجائے گا۔ اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں کو اس فعل بد سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
Haris Khalid
About the Author: Haris Khalid Read More Articles by Haris Khalid: 30 Articles with 60714 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.