یادیں بچپن کی

میں پہلے اکثر سوچتا تھا کہ لوگ اپنے بچپن ، اپنے ماضی اور اپنے گزرے ہوئے وقت کو کیوں اتنا یاد کرتے ہیں۔ آخر ایسی کیا بات ہوتی ہے جو لوگ شدت سے اپنے اُس وقت کو یاد کرتے ہیں۔ جو وقت ہمیشہ کے لیے جا چکا ہے ، کبھی بھی لوٹ کر واپس نہ آنے کے لیے اور اب جو وقت ہے وہی رہے گا اور آئندہ پھریہ وقت بھی آہستہ آہستہ تبدیل ہوتا جائے گا اور پھر یہ وقت بھی گزر جائے گا اور پہلے کی طرح ہماری صرف اور صرف یادیں بن کر رہ جاویں گی۔

اُس وقت مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ جس وقت، جس دور میں ، میں رہ رہا ہوں، میرا بچپن، میرا حال ایک خوبصورت وقت ہے اور جب یہ گزر جائے گا تو بعد میں مجھے میرا یہ بچپن ، میرا یہ حال، مجھے مستقبل میں بہت یاد آئے گااور میری زندگی کا یہ حصہ میری آنے والی زندگی کے صرف خوبصورت ترین لمحات بن کر رہ جائیں گے اور پھر میں صرف اور صرف اس کو یاد کر سکوں گا لیکن اپنے اس خوبصورت وقت اور لمحوں کو کبھی واپس نہ لا سکوں گا اور نہ دوبارہ کبھی ان لمحوں کو چھو سکوں گا۔

ویسے تو انسان کی زندگی کو Seven Stagesمیں تقسیم کیا گیا ہے۔ لیکن بچپن، جوانی اور بڑھاپا یہ زندگی کے نمایاں حصے ہیں۔

بچپن ہر شخص کی زندگی کا سب سے حسین اورخوبصورت حصہ ہوتا ہے۔ کیونکہ جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو ہم بس اپنی موج مستی کی دنیا میں رہتے ہیں۔ اِدھر اُدھر، اندر باہر، یہاں تک کہ ہمارا دل جہاں چاہے ہم اپنی مرضی سے آزادی کے ساتھ گھوم پھر سکتے ہیں۔ ہمیں کسی بھی قسم کی کوئی فکر،کوئی پریشانی یا کسی بھی قسم کا کوئی غم، کوئی دکھ نہیں ہوتا۔ ہمیں روکنے والاکوئی نہیں ہوتا۔ہر طرف اپنی ہی بادشاہی اور شہنشاہی ہوتی ہے۔

بس صبح گھر سے سکول کے لیے نکلنا،سارا دن سکول میں پڑھنا،کلاس فیلوز کے ساتھ کھیلنا، مستی کرنا، اور پھر دوپہر کو سکول سے واپس آ کر کھانا کھا کر کچھ دیر کے لیے سو جانا اور پھر شام کو ٹیوشن پڑھنے کے لیے چلے جانااور جب رات کو واپس ٹیوشن سے گھر لوٹنا تو اس کے بعد پھر سے وہی بے فکری اور کھیل کی دنیا میں مگن ہو جانا، آخر کار تھک ہار کر سو جانا۔۔

اسی طرح میرا بچپن بھی کئی ایسی یادوں سے بھرا پڑا ہے کہ جب کبھی اکثرتنہا،اندھیرے میں بیٹھا،بند کمرے میں سوچ رہا ہوتا ہوں تو مجھے میرا بچپن ، میرا ماضی بے اختیار یاد آنے لگتا ہے ۔وہ بھی اتنی شدت سے کہ دل چاہتا ہے کہ میں جلدی سے ابھی اور اسی وقت کسی نہ کسی طرح اپنے اُس بچپن ، اپنے ماضی میں پہنچ جاؤں اور کبھی واپس نہ آؤں۔ اس فکر کے دور کو چھوڑ کر اُس زمانۂ بے فکری میں آرام سے رہوں۔ لیکن ۔۔!!ہائے۔۔ افسوس۔۔افسوس!!! کہ میں چاہ کر بھی اب اُس وقت ، اُس حسین و جمیل اور خوبصورت ترین وقت کبھی واپس نہیں جا سکتا اور نہ کبھی کھینچ کر اس وقت کو واپس لا سکتا ہوں۔

یقینا آپ سب کا بچپن بھی ایسی کئی یادوں سے بھرا پڑا ہوگا کہ آپ سب کا من بھی یہی سب کچھ کرنے کیلئے کرتا ہوگا۔

وہ سکول کی رونقیں۔۔ وہ گلی محلوں کی کرکٹ۔۔ وہ دوستوں کے ساتھ کھیلنا۔۔وہ گلی محلوں کے گھروں کی بیل بجا کر بھاگنا۔۔ وہ اپنی گلی،محلوں میں شور مچامچا کر پورا محلہ سر پر اٹھا لینا۔۔جب رات کو لائٹ جانا تو سب بچوں کا گلی میں نکل کر شور کرنا،خوب چیخ و پکار کرنا۔۔فٹ بال، ہاکی ، بیڈ منٹن جیسے کھیل کھیلنا۔۔وہ رسہ ٹپائی کھیلنا۔۔

وہ گراؤنڈ میں اپنے گھر کے صحن میں سب دوستوں اور کزنز کا پکڑن پکڑائی کھیلنا۔۔۔وہ برف پانی، Ready Go، کیکلی میکلی ،سٹاپو،کوکلا چھپاتی آئی ۔جیسے کھیل کھیلنا۔۔وہ لڈو کھیلنا۔۔وہ رات کو چھپن چھپائی کھیلنا۔۔وہ بارش کے پانی میں کاغذ کی کشتی بنا کر اس کے ساتھ کھیلنا۔۔ وہ بارش میں نہانا۔۔

بھری گرمی جون ،جولائی اور اگست کی چھٹیوں میں صبح کے وقت ٹیوشن سے فارغ ہو کر شام تک کھیلنا۔ کیرم بورڈ۔۔سونا،چاندی،ہیرا،موتی۔۔ چیل اڈی، کاں اڈا۔۔ جیسے کئی خوبصورت کھیل کھیلنا۔ رات کو سوتے وقت اپنے نانا، نانی۔۔داد، دادی۔۔ سے جنوں، پریوں کی کہانیاں، قصے سننا۔

جب ایسے کئی خوبصورت لمحات ، طرح طرح کے کھیل جو آپ کے بچپن کا حصہ ہوں، اپنے بچپن میں کھیل چکے ہوں۔ ان سب لمحات کو جی چکے ہوں تو آپ ہی بتائیں کہ کیسے کسی کو اپنا بچپن یاد نہیں آئے گا۔ کون ہے جس کا دل واپس اپنے بچپن میں لوٹ کر جانے کو نہیں کرئے گا۔شاید ہی ایسا کوئی دنیا میں موجود ہو جسکا دل دوبارہ یہ سب کرنے کو نہ کرے۔ ایک دفعہ پھر اس کا دل اپنی موج مستی میں رہنے کا نہ کرے۔ نہیں ۔۔ !!بالکل بھی نہیں ۔۔!! ایسا نہ کرنے کو کسی کا دل کبھی بھی نہیں چاہے گا ۔ بلکہ ہر انسان کی پہلی خواہش یہی ہو گی کہ وہ اپنا خوبصورت بچپن واپس پا لے ۔۔کاش کہ ایک بار پھر وہ اپنے بچپن میں لوٹ کر چلا جائے۔

بچپن کا ہر ایک ایک لمحہ آپ کو پھوٹ پھوٹ کر شدت سے یاد آتا ہے۔ اس لیے ہم اپنے جذبات سے بے قابو ہو جاتے ہیں اور بس اپنی ان بچپن کی یادوں میں مصروف ہو جاتے ہیں اور پھر کبھی آپ کا اپنی اُن یادوں سے باہر آنے کو دل ہی نہیں کرتا۔
Muhammad Owais
About the Author: Muhammad Owais Read More Articles by Muhammad Owais: 6 Articles with 17836 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.