جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

سیاست کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں:

۱۔سیاست کے یہ معنی مراد لئے جائیں کہ اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے ہر قسم کے وسیلے کو اختیار کیا جائے چاہے وہ وسیلہ دھوکہ اور فریب کاری ہی کیوں نہ ہو (یعنی مقصد کے حصول کے لئے کسی بھی چیز کو وسیلہ بنایا جاسکتا ہے) واضح ہے کہ اس قسم کی سیاست دھوکے اور فریب سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے اور ایسی سیاست کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے.

۲۔سیاست کے یہ معنی مراد لئے جائیں کہ اسلامی اصولوں کے مطابق انسانی معاشرے کے نظام کو چلایا جائے اس قسم کی سیاست کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کے نظام کو قرآن اور سنت کی روشنی میں چلایا جائے ایسی سیاست دین کا حصہ ہے اور ہرگز اس سے جدا نہیں ہے.

اب ہم یہاں پر سیاست اور دین کے درمیان رابطے اور حکومت کو تشکیل دینے سے متعلق چند دلیلیں پیش کریں گے:

اس سلسلے میں واضح ترین گواہ پیغمبر خداؐ کا عمل ہے پیغمبرخداؐ کے اقوال اور کردار کے مطالعے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ آنحضرتؐ نے اپنی دعوت اسلام کے آغاز ہی سے ایک ایسی مضبوط حکومت قائم کرنے کا ارادہ کرلیا تھا جس کی بنیاد خدا پر ایمان کے محکم عقیدہ پر استوار تھی اور جو اسلام کے مقاصد کو پورا کرسکتی تھی یہاں پر بہتر ہے کہ ہم رسول خداؐ کے اس عزم و ارادہ کے سلسلے میں چند شواہد پیش کریں:

پیغمبرخداؐ اسلامی حکومت کے بانی ہیں

۱۔جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ملا کہ لوگوں کو کھلم کھلا طریقے سے اسلام کی دعوت دیں تو اس وقت آنحضرتؐ نے مختلف طریقوں سے جہاد و ہدایت کے زمینے کو ہموار کیا اور اسلامی سپاہیوں کی تربیت اور ان کی آمادگی کا بیڑا اٹھایا اس سلسلے میں آپ نزدیک اور دور سے زیارت کعبہ کے لئے آنے والے افراد سے ملاقات کرتے تھے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیتے تھے اسی دوران آپؐ نے مدینے کے دو گروہوں سے عقبہ کے مقام پر ملاقات کی اور ان سے یہ معاہدہ کیا کہ وہ لوگ آنحضرتؐ کو اپنے شہر میں بلائیں گے اور آپ ؐ کی حمایت کریں(سیرہ ہشام جلد۱ ص۴۳۱ مبحث عقبہ اولی طبع دوم مصر )اور اس طرح اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے آنحضرتؐ کی سیاست کا آغاز ہوا۔

۲۔رسول خداؐ نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ایک ایسی مضبوط فوج تیار کی جس نے بیاسی جنگیں لڑیں اور ان جنگوں میں کامیابی حاصل کر کے اسلامی حکومت کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو ہٹا دیا.

۳۔مدینے میں اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد آنحضرتؐ نے اس زمانے کی سیاسی اور اجتماعی بڑی طاقتوں کے پاس اپنے سفیراور خطوط بھیج کر ان سے رابطہ قائم کیا اور بہت سے قبیلوں کے سربراہوں سے اقتصادی ،سیاسی اور فوجی معاہدے کئے تاریخ نے پیغمبرخداؐ کے ان خطوط کی خصوصیات و تفصیلات کو بیان کیا ہے جو آپؐ نے ایران کے شہنشاہ ’’کسریٰ‘‘ ، روم کے بادشاہ ’’قیصر‘‘ ، مصر کے بادشاہ ’’مقوقس‘‘، حبشہ کے بادشاہ ’’نجاشی‘‘ اور دوسرے بادشاہوں کو بھیجے تھے. بعض محققین نے آنحضرتؐ کے ان خطوط کو اپنی مستقل کتابوں میں جمع کیا ہے(جیسے کہ’’الوثائق السیاسیہ‘‘ (مؤلفہ محمد حمید اللہ) ’’مکاتیب الرسول‘‘(مؤلفہ علی احمدی) ہیں۔

۴۔رسول خداؐ نے اسلام کے مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے اور اسلامی حکومت کے استحکام کے لئے بہت سے قبیلوں اور شہروں کے لئے حکام معین فرمائے تھے ہم یہاں اس سلسلے میں بطور مثال ایک نمونے کا ذکر کرتے ہیں پیغمبر اسلام ؐ نے رفاعہ بن زید کو اپنا نمائندہ بنا کرانھیں ان کے اپنے قبیلے کی طرف روانہ کیا اور خط میں یوں تحریر فرمایا:

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ، (ھذا کتاب) من محمد رسول اللّہ [ص] لرفاعۃ بن زید بعثتہ اِلیٰ قومہ عامۃ و من دخل فیھم یدعوھم اِلیٰ اللّہ والیٰ رسولہ فمن اقبل منھم ففي حزب اللّہ و حزب رسولہ و من أدبر فلہ أمان شہرین‘‘(مکاتیب الرسول جلد ۱ ص ۱۴۴)

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بہت مہربان اور نہایت ہی رحم کرنے والا ہے محمد رسول خداؐ کی طرف سے یہ نوشتہ رفاعہ بن زید کے نام، بے شک میں انہیں ان کی قوم کے عام لوگوں اور قوم میں شامل ہوجانے والوں کی طرف بھیج رہا ہوں تاکہ وہ انہیں خدا اور اس کے رسول کی طرف دعوت دیں پس جس نے ان کی دعوت کو قبول کیا وہ خدا اور اس کے رسول کے گروہ میں شامل ہو گیا.اور جو ان کی دعوت سے روگردانی کرے گا اس کے لئے صرف دو ماہ کی امان ہے.

پیغمبر اسلامؐ کے ان اقدامات سے بخوبی یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ بعثت کے آغاز ہی سے ایک ایسی مضبوط حکومت بنانا چاہتے تھے کہ جس کے سائے میں انسانی معاشرے کی زندگی کے تمام پہلوؤں سے متعلق، اسلام کے احکام کونافذ کیا جاسکے، اب سوال یہ ہے کہ رسول خداؐ کا مختلف گروہوں اور قدرتمند قبیلوں سے معاہدہ کرنا ،ایک مضبوط فوج تیار کرنا، مختلف ممالک میں سفیر بھیجنا اور اس زمانے کے بادشاہوں کو خبردار کرنا، نیز ان سے خط و کتابت کرنا ساتھ ہی ساتھ شہروں کے گورنر اور حکام معین کرنا اور ایسے ہی دوسرے امور کا انجام دینا اگر سیاست نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ پیغمبر اسلام ؐ کی سیرت کے علاوہ خلفائے راشدین کا کردار اور خاص طور پرحضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب ۔ کا طرز عمل بھی شیعوں اور اہل سنت دونوں فرقوں کیلئے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ سیاست دین سے جدانہیں ہے.دونوں اسلامی فرقوں کے علماء نے حکومت قائم کرنے کے سلسلے میں قرآن مجید اور سنت پیغمبرؐ سے مفصل دلیلیں بیان کی ہیں نمونے کے طور پر ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں:

ابوالحسن ماوردی نے اپنی کتاب ’’احکام سلطانیہ‘‘ میں یوں لکھا ہے:

’’الإمامۃ موضوعۃ لخلافۃ النبّوۃ في حراسۃ الدین و سیاسۃ الدنیا و عقدھا لمن یقوم بھا في الأمۃ واجب بالإجماع‘‘(الاحکام السلطانیۃ (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر)

امامت کو نبوت کی جانشینی کے لئے قرار دیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ دین کی حفاظت کی جاسکے اور دنیا کی سیاست و حکومت کا کام بھی چل سکے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسی حکومت قائم کرنااس شخص پر واجب ہوجاتا ہے جو اس کام کو انجام دے سکتا ہو۔

اہل سنت کے مشہور عالم ماوردی نے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دو طرح کی دلیلیں پیش کی ہیں:

۱۔ عقلی دلیل

۲۔ شرعی دلیل

عقلی دلیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’لما في طباع العقلاء من التسلیم لزعیم یمنعھم من التظالم و یفعل بینھم في التنازع والتخاصم ولولا الولاۃ لکانوا فوضیٰ مھملین ھمجاً مضاعین‘‘(الاحکام السلطانیۃ (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر)

کیونکہ یہ بات عقلاء کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی رہبر کی پیروی کرتے ہیں تاکہ وہ انہیں ایک دوسرے پر ظلم و ستم کرنے سے روکے اور اختلاف اور جھگڑوں کی صورت میں ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرے اور اگر ایسے حکام نہ ہوتے تولوگ پراگندہ اور پریشان ہوجاتے اور پھر کسی کام کے نہ رہ جاتے.اور شرعی دلیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’ولکن جاء الشرع بتفویض الأمور اِلی ولیہ في الدین قال اللّہ عزّوجلّ ( یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا

أَطِیعُوا اﷲَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْکُم)ففرض علینا طاعۃ أولي الأمر فینا وھم الأئمۃ المأتمرون علینا‘‘(الاحکام السلطانیۃ (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر)

لیکن شرعی دلیل میں یہ ہے کہ دین کے امور کو ولی کے سپرد کردیا گیا ہے خداوندکریم فرماتا ہے:

’’ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمہیں میں سے ہیں.پس خداوند نے ہم پرصاحبان امر کی اطاعت کو واجب کردیا ہے اور وہ معصوم امام ہیں جو ہم پر حکومت کرتے ہیں۔‘‘

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے فضل بن شاذان سے ایک روایت نقل کی ہے جو امام علی بن موسیٰ الرضا ۔ کی طرف منسوب ہے اس طولانی روایت میں امام ۔ نے حکومت قائم کرنے کو ایک لازمی امر قرار دیا ہے . ہم اس روایت کے چند جملے ذکر کرتے ہیں :

’’إنّا لا نجد فرقۃ من الفرق ولا ملۃ من الملل بقوا و عاشوا إِلاّ بقیّم و رئیس، لما لابدّ لھم منہ من أمر الدین والدنیا، فلم یجزفيحکمۃ الحکیمأن یترک الخلق لما یعلم انہ لابدّ لھم منہ والإقوام لھم إلاّ بہ فیقاتلون بہ عدوھم و یقسمون بہ فیءھم و یقیمون بہ جمعتھم و جماعتھم و یمنع ظالمھم من مظلومھم ‘‘
(علل الشرائع باب ۱۸۲ حدیث نمبر۹ ص ۲۵۳)

ہمیں کوئی ایسی قوم یا ملت نہیں ملے گی جو اس دنیا میں باقی رہی ہواور اس نے زندگی گزاری ہو سوائے یہ کہ اس کے پاس ایک ایسا رہبر اور رئیس رہا ہو جس کے وہ لوگ دین اور دنیا کے امور میں محتاج رہے ہوں پس خداوند حکیم کی حکمت سے یہ بات دور ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایک ایسی چیز عطا نہ فرمائے جسکے وہ لوگ محتاج ہیں اور اسکے بغیر باقی نہیں رہ سکتے ہیں کیونکہ لوگ اپنے رہبر ہی کی ہمراہی میں اپنے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور اسی کے حکم سے مال غنیمت کو تقسیم کرتے ہیں اور اس کی اقتداء میں نماز جمعہ اور بقیہ نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں اور رہبر ہی ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا ہے.

اس سلسلے میں وارد ہونے والی ساری روایتوں کی تشریح کرنا اور تمام مسلمان فقہاء کے اقوال کا جائزہ لینا اس مختصر مضمون کی گنجائش سے باہر ہے اس کام کے لئے ایک مستقل کتاب درکار ہے۔اسلامی فقہ کا دقت کے ساتھ مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ شریعت کے بہت سے قوانین ایسے ہیں جو ایکمضبوط حکومت کے بغیر نافذ نہیں کئے جاسکتے ہیں.

اسلام ہمیں جہاد اور دفاع کرنے ، ظالم سے انتقام لینے اور مظلوم کی حمایت کرنے، شرعی حدود اور تعزیرات جاری کرنے، امر بالمعروف و نھی عن المنکر انجام دینے، ایک مالی نظام برقرار کرنے اور اسلامی معاشرے میں وحدت قائم کرنے کا حکم دیتا ہے اب یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ اہداف ایک مضبوط نظام اور حکومت کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے کیونکہ شریعت کی حمایت اور اسلام سے دفاع کرنے کے لئے ایک تربیت یافتہ فوج کی ضرورت ہوتی ہے اور اس قسم کی طاقتور فوج تیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک مضبوط حکومت قائم کی جائے اور اسی طرح فرائض کی پابندی اور گناہوں سے دوری کے لئے حدود اور تعزیرات کو جاری کرنا اور ظالموں سے مظلوموں کا حق لینا ایک حکومت اور نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر قوی حکومت نہ پائی جاتی ہو تو معاشرہ فتنہ اور آشوب کی آماجگاہ بن جائے گا اگرچہ حکومت قائم کرنے کے لازمی ہونے کے سلسلے میں ہماری ان دلیلوں کے علاوہ بھی بہت سی دلیلیں ہیں لیکن ان دلیلوں ہی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نہ صرف دین سیاست سے جدا نہیں ہے بلکہ شریعت کے قوانین کے مطابق اسلامی حکومت قائم کرنا ایک لازمی امر ہے جو کہ اس دنیا میں پائے جانے والے ہر اسلامی معاشرہ کے لئے ایک فریضہ قرار دیا گیا ہے۔

جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

(علامہ اقبال)
mudassir mehmood zahidi
About the Author: mudassir mehmood zahidi Read More Articles by mudassir mehmood zahidi: 4 Articles with 12257 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.