امام حسین رضی اللہ عنہ کا خطبہ

جب حر نے تمام دعوتی خطوط دیکھنے کے بعد بھی کوئی تبدیلی ظاہر نہ کی تب امام حسین؀ نے مقام بیضہ پر خطبہ دیا۔ جس میں اپنے مقاصد کی وضاحت کی ۔ آپ نے فرمایا:
"لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم،محرمات الہٰی کے حلال کرنے والے،خدا کا عہد توڑنے والے،خدا اور رسول کی مخالفت اورخدا کے بندوں پرگناہ اور زی...ادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اوروفعل کے ذریعہ سے غیرت کا اظہار نہ کیاتو خدا کا حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دے۔لوگو!خبردار ہوجاؤ۔ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت کی ہے اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ملک میں فساد پھلایاہے۔ حدود الہٰی کو معطل کر دیا ہے ۔ مالِ غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال چیزوں کو حرام کر دیا ہے۔ اس لیے مجھ کو غیرت میں آنے کا زیادہ حق ہے۔"
لشکرحر جو اب آپ کا خطبہ سن چکا تھا اب آگے چلنے کو بیتاب تھا لٰہذا خطبہ ختم ہوتے ہی پھر سے چلنا شروع ہو گیا۔ کچھ دؤرجا کر راستے میں طرماج بن عدی سے آپ کی ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے آپ؀کویمن چلنے کی دعوت دی لیکن آپ؀ نے یہ پیشکش شکریےکے ساتھ ٹال دی۔

ابن زیاد کا سپہ سالار کو نیا حکم
امام حسینکا قافلہ اور حر کا لشکر ساتھ ساتھ آگے چلتے رہے جہاں کہیں آپ کے قافلےکا رخ صحرائے عرب کی طرف ہو جاتا حر آپ کو روک دیتا اور موڑ کر کوفہ کی طرف کر دیتا چلتے چلتے اپ نینوا پہنچے۔ وہاں ابن زیاد کے قاصد نے حر کو خط دیا جس مین حکم تھا
"جونہی میرا خط تم تک پہنچیں حسین اور ان کے ساتھیوں کوجہاںوہ ہیں وہیں روک لواورانہیں ایسی جگہ أترنے پر مجبور کرو جو بلکل چٹیل میدان ہواور جہاں سبزہ اور پانی وغیرہ کا چشمہ نہ ہو۔ میرا یہ قاصد اس وقت تک تمہارے ساتھ ساتھ رہے گا جب تک مجھے یہ نہ معلوم ہو جائے کہ جو حکم میں نے تمہیں دیا ہے اس کی تم نے حرف بہ حرف تعمیل کی ہے۔"
حر بن یزید نے آپ کو قاصد کی آمد سے اگاہ کیا اور کہا کہ "اب اپ کو اس جگہ نہ رہنے دوں گا۔ بالأخر یہ ۷۲نفوس پر مشتمل مختصر سا قافلہ 2محرم 61ھ بمطابق 2 اکتوبر 680ء کو کربلا کے میدان میں اترا۔
دوسرے ہی روز عمربن سعد کو حکم ملا کے تم 6 ہزار سپاہیوں کے ساتھ وہاں پہنچو ،حکم کی تعمیل کرتے ابن سعد وہاں پہونچ گے۔ لیکن اپ چونکہ لڑائی کے خواہشمند نہ تھے اس لیے پھر سے مذکرات کی را ہیں تلاش کی ۔ اور پھر خود امام حسین؀ کے سامنے بھی نہ گے اور مذکرات کے لیے قرہ بن سفیان کو بھیجا۔ امام حسین نے قرہ نؤبن سفیان سے کہا کہ" اگر تمہیں میرا آنا ناپسند ہے تو میں مکہ واپس جانے کے لیے تیار ہوں۔"قرہ بن سفیان نے عمر بن سعد کو امام حسین کی تجویز بیان کر دی۔ ابن سعد نے تجویز کو پسند کیا اور ابن زیاد یہ تجویز بھیج دی۔ لیکن ابن زیاد نے نہ صرف تجویز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ عمر بن سعد کو بھی نرم سست کہا اور حکم دیا کہ امام حسین بیعت نہ کریں تو ان کا پانی دو۔ اور مذید سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ" اگر امام حسین اور انکے ساتھی اپنے اپ کو حوالہ کر دیں تو بہتر ہے ورنہ جنگ کی راہ لو۔"

امام حسین کا خطبہ کربلا
حضرت امام حسین نے جب دیکھا کہ صلع کی أخری کوشش بھی ناکام ہو گئ ہے تو آپ نے اپنی مختصر ترین فوج کو منظم کیا حضرت عباس کو علم مرمت کیا ۔زبیر بن قیس کو میمنہ پر اور حبیب بن مطہر کو میسرہ پر متعین کیا۔ اس کے بعد اللہ تبارک تعالٰی کے حضور کی اور سے تائید اور نصرت چاہی۔ اسکے بعد دشمن کی صفوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا:

"اے لوگو ! جلدی نہ کرو ، پہلے میری بات سن لو ، مجھ پر تمہیں سمجھنے کا جو حق ہے اسے پورا کر لینے دو اور میرے أنے کی وجہ بھی سن لو۔اگر تم میرا عذر قبول کرلو گے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے۔اگر تم اس کے لیے تیار نہیں تو تمہاری مرضی،تم اور تمہارے شریک مل کر زور لگا لواور مجھ سےجو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالٰی میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے ۔
لوگو ! تم میرے حسب ونسب پرغورکرو اور دیکھو میں کون ہوں ۔اپنے گربیانوں میں منہ ڈالو اور اپنے اپ کو ملامت کرو۔تم خیا ل کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے۔؟ کیا میں تمہارے نبی ؀ کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں۔ کیا سید الشہداء حضرت امیر حمزہ میرے والد کے چچا نہ تھے؟کیا جعفرطیار میرے چچا نہ تھے ؟ کیا تمہیں رسول اللہ؀ کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اورمیرے بھائی کے بارے فرمایا تھا کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے ۔ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے ۔ہے تو بتاؤ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے ؟ اگر تم مجھے جھوٹا سمجتھےہو تو آج بھی تم میں وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ کی یہ حدیث سنی ہے،تم ان سے دریافت کر سکتے ہو۔اب تم بتاؤ اس حدیث کی موجودگی میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے۔"

لیکن نواسۂ رسول ؀ کی اس تقریر کا ظالم کوفیوں اور ان کے سرداروں پر ذرا اثر نہ ہوا ماسوائے حر بن یزید کے۔

حربن یزید تمیمی ریاحی کا تعارف

یہ شان خدا وندی ہے کہ وہ آگ کی تلاش میں نکلنے والے کو پیغامبری سے نواز دے یا توتلی زبان والے کو کلیمی کے گُر سیکھا دے ۔وہ قہاری و جبروت ہے چاہے تو ابوجہل کر بیٹے کو اکابر اصحاب میں شامل کر دے ۔ یہ اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے کے وہ بُت فروش کے گھر میں نبی پیدا کر دے یا پیغمبر کے گھر میں مُشرک پیدا کر دے، یہ اسی کی قدرت ہے کے ابن صحابی کے نام پر ایسا دھبہ لگا کہ دنُیاکے تمام سمندر بھی اسے نہیں مٹا سکتے اور ایک ایسے شخص کو اصحاب حسین میں داخل کر دیا جو لشکر یزید کا جنگجوسالار تھا۔اور وہ ہے حر بن یزید۔

حر بن یزید ایک جوانمرد نڈر پہلوان اورطاقتور سپہ سالار تھا ۔ کوفہ کے لوگ اسے کوفہ کا دلیرترین مرد قرار دیتے تھے۔ فنون جنگ و حرب سے خوب آشنا تھا،اس زیرک سپہ سالار کا شمار ان خاص سپہ سالاروں میں ہوتا تھا جو اس زمانے کی پہلے درجے کی طاقت یعنی سلطنت ایران کےلیے استعمال کیے جاتے تھے۔
جب کوفہ میں یزید کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کو خبر ملی کے امام حسین عراق میں داخل ہو چکے ہیں تو اس نے حر کو ایک ہزار کا لشکر دے کر آپکا راستہ روکنے کے لیے بھیجا۔روانہ کرتے وقت ابن زیاد نے حر کو حکم دیا کہ اگر امام حسینکوفہ آنے پر اصرار کریں تو تم أن کو گرفتار کر کے دارالامارہ لے آنا۔ کہا جاتا ہے کہ جب حر عبیداللہ کہ محل سے نکل رہا تھا تو پیچھےسے ایک صدا آئی۔ صاحب اواز کہہ رہا تھا ،حر تمہیں مبارک ہو کیونکہ تم خیر کی سمت جا رہے ہو،! حر پلٹا صدا کی جانب مگر اسے کوئی نظر نہ آیا۔ حیرت کے ساتھ اپنے اپ سے پوچھا یہ کیسی بشارت ہے اور کون سی خیر ہو سکتی ہے جو امام حسین کے خلاف لڑنے میں ملتی ہے۔

سخت دھوپ میں جب شدت کی گرمی پڑھ رہی تھی دوپہر کے وقت حر کا لشکر امام کے قافلے کے پاس پہنچا جہاں انہوں نے پڑاؤ کیا ہو تھا۔ حر اس کی سپاہ اور اس کے گھوڑے بھی بہت پیاسے تھے۔ امام حسیننے ان کی پیاس دیکھی تو اپنے ساتھیوں کو ہدائت فرمائی کہ ان لوگون اور ان کے جانوروں کو پانی پلاؤ۔ حر کا سپاہی پانی پینے سے قاصر تھا مشک سے پانی گر رہا تھا ،تب امام حسین؀نے اسے اپنے دست مبارک سے پانی پلایا اور سیراب کیا۔ حر کے لشکریوں اور گھوڑوں پانی پی لیا تو نمازظہر کا وقت ہو چکا تھا۔امام خیمے سے باہر تشریف لائے اور مختصر سا خطبہ پڑھا۔ جس میں آپ نے فرمایا لوگو میں تمہارے اس وقت تک نہیں آیا جب تک تمہاری طرف سے خطوط موصول نہیں ہوے۔ تمہارے الچی اور قاصد میرے پاس آئے اور مجھ سے درخواست کرتے ہوئے کہتے رہے کہ ہمارے پاس آئیں کیونکہ ہمیں ایک امام کی ضرورت ہے، اس کے بعد امام حسین حر سے مخاطب ہو کر فرمایا کیا تم اپنے سپاہیوں کے ساتھ نماز ادا کرنا چاہو گے ۔ حر نے عرض کیا : نہیں ، ہم سب آپ کی امامت میں نماز ادا کریں گے ۔

حر کو جب یقین ہو گیا تھا کہ یزیدی امام حسین کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس کے تن بدن پر لرزا طاری ہوا اس میدان جنگ کی طرف دیکھا اور سوچ میں پڑھ گیا ۔ اس کی آنکھیں مشاہدہ کر رہیں تھیں کہ ایک طرف فرزند رسول اور ان کا خاندان اور دوسری طرف دشمنان رسول خدا ۔ ایک طرف خدا کے عبد صالح اور دوسری طرف غاصب بادشاہ نظر أ رہا تھا جو اعلانیہ شراب نوش کرتا تھا اور حرام کو حلال سمجھتا تھا ۔ایک طرف عشق اور شہادت کی حکمرانی تھی اور دوسری طرف پلیدی اور خانت کا دور دورہ تھا ۔ ایک جانب سعادت تھی اور دوسری طرف شقاوت و بد بختی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حر نے اپنا آخری ارادہ کر لیا اور ایسے حال میں دُنیا اور دُنیا کی چمک دمک کو پس پشت کیا جب ہزاروں کے لشکر کا سپہ سالار تھا چنانچہ اپنے گھوڑے کو پانی پلانے کے بہانے لشکر یزید سے دُور اور خیام حسین ؀ کے قریب سے قریب تر ہوتا گیا۔ ایک لشکری ساتھی (مہاجرین اوس) جو اس وقت حر کے ساتھ تھا پوچھنے لگا " کیا سوچ رہے ہو ؟ کیا حسین پر حملہ کرنا چاہتے ہو ؟" حر نے کوئی جواب نہ دیا ، بلکہ اس کا پورا بدن کانپ رہا تھا ۔ مہاجر نے کہا " خدا کی قسم میں نے کبھی بھی تمہیں اس حال میں نہیں دیکھا ، اگر کوئی مجھ سے پوچھتا کہ کوفہ کا دلیر ترین ادمی کون ہے تو میں تمہارا نام لیتا "۔ حر نے کہا واللہ میں اپنے اپ کو جنت اور دوزخ کے درمیان دیکھ رہا ہوں اور اگر میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا بھی دیا جائے تب بھی کسی چیز کو جنت پر ترجیح نہیں دوں گا ۔" اس کے بعد حر نے گھوڑا دوڑایا اور خیام امام ؀ کے روبرو پہنچ گیا ۔

حر جب امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو نادم و شرمندہ تھا اور اپنے ہاتھ اپنے سر پر رکھے ہوے تھا ۔ امام حسین کے سامنے کہنے لگا۔" اللھم الیک انبت فتب علی فقد ارعبت قلوب اولیائک و اولاد بنت نبیک ۔ ترجمہ: اے اللہ میں طرف لوٹ آیا پس میری توبہ قبول فرما کیونکہ میں نے تیرے اولیاء اور تیرے رسول (ص) کی بیٹی کے فرزندوں کو خوف و دہشت سے دو چار کیا ۔ اس کے بعد امام حسین کے سامنے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور کہا کہ میں اپنے کیے پر پشیمان ہوں ۔ اور خدا کے سامنے اپنے اس عمل سے توبہ کرتا ہوں ۔ کیا میرے لیے توبہ کرنے کا امکان ہے؟ امام حسین نے فرمایا " ہاں "
اب حر اپنی غلطیوں سے تائب ہو چکے تھے ۔ لیکن پھر بھی عرض کیا " چونکہ میں پہلا آدمی تھا جو آپ؀ کے مقابلے میں آیا لٰہذا سب سے پہلے آپ کے سامنے قتل ہونا چاہتا ہوں ۔ شاید حساب کے روز میرے آپ کے جد (ص) کے ہاتھ میں قرار پانے کے قابل ہو جائے ۔ (جاری ہے)

Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 55999 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.