جدائی کا زخم اور لانگ مارچ

زخم چھوٹا ہو بڑا مگر اس کے پیچھے بڑی بڑی کہانیاں چُھپی ہوتی ہیں ، زخم کا درد اور نشان تو شاید چند دنوں میں ختم ہوجائے مگر ان کے پیچھے کی کہانیاں بھولے نہیں بھُلا سکتے ،بلوچستان بھی ایسی زخموں کی کہانیوں سے بھرا پڑا ہے، مگر حال ہی میں کوئٹہ سے کراچی تک کئے جانے والے پیدل مارچ نے ان زخموں کو ایک بار پھر کھول کر پیش کردیا ہے، بلوچستان جو کہ ہر دور میں مشکلات میں ہی گھرا رہا ہے چاہے وہ آمرانہ دور حکومت ہو یا پھر جمھوریت مگر بلوچستان کو ہمیشہ اپنے حق کی آواز پر سزائیں ہی ملی ہیں،بلوچستان کے زخم بھرنے کے دعوے تو بہت کئی گئے ہیں مگر ان زخموں پر مرہم لگانے کی بجائے نمک ہی چھڑکا گیا ہے،زخمی بلوچستان میں جہان کئی دیگر مسائل موجود ہیں وہیں لاپتہ افراد کا مسئلا بھی سنگین ہوتا جارہاہے،لاپتہ افراد کے ورثا اس اُمید سے احتجاج کرتے رہے ہیں کہ شاید کہیں سے ان کے پیاروں کے بارے میں کوئی خبر مل جائے، بلوچستان سے لاپتہ ہونے والوں کے ورثا کئی برسوں سے احتجاج اور بھوک ہڑتالیں کرتے آرہے ہیں ، اسی سلسلے میں کوئٹہ تا کراچی پیادل لانگ مارچ بھی کیا گیا، سات سو کلو میٹر سے زائد کا مفاصلہ طئے کرکے لانگ مارچ کراچی تو پہچ گیا ہے ، مگر اس اعصاب شکن سفر نے لانگ مارچ مین شریک بچیوں اور بزرگوں کے پاﺅں زخمی کردئے ہیں، مگر اس لانگ مارچ مین شریک لوگوں کے مطابق ان ظاہری زخموں سے زیادہ اذیت ناک وہ زخم ہیں جن کی وجہ سے ہم یہ لانگ مارچ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں،وائس آف بلوچ مسنگ پرسن کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے مطابق اب تک اٹھارہ ھزار سے زائد بلوچ لاپتہ ہوئے ہیں جبکہ کئی سو افراد کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا یا ان کی مسخ شدہ لاشین ملی ہیں،بلوچستان سے لاپتہ ہوئے کئی افراد اپنے گھر کا سہارا تھے کسی گھر سے باپ تو کہیں بیٹا اور کسی کا بھائی لاپتہ ہے،اور اس طرح گھر کا ایک فرد اور ہنستہ کھیلتا چہرہ اچانک غائب ہوجائے تو شاید اس سے بڑا کوئی دکھ اور زخم ہوئی نہیں سکتا،یہ دنیا کا دستور ہے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے اُس کو ایک دن اس فانی دنیا سے جانا بھی اور یہی ہوتا چلا آیاہے کہ جب کوئی دنیا چھوڑ جاتا ہے تو اُس کے جدائی کا غم بھی آہستہ آہستہ مدھم ہونے لگتا ہے، مگر جب کوئی اچانک لاپتہ ہوجائے اور اس کے موت اور زندہ ہونے کی خبر نہ ملے تواس کی جدائی کا غم کبھی نہیں بھُلایا جاسکتا،بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ سے نکلنے والے لانگ مارچ میں شامل ہونے والا بچہ اور چند بچیاں کئی اُمیدیں اپنے آنکھوں میں سمائے بیٹھے ہیں ، اس لانگ مارچ میں ایک دس سالا بچہ حیدر بھی شامل ہے کہ جس کے والد رمضان کو اس کے سامنے اُٹھایا گیا تھا،اس عمر میں جسے کتابیں اُٹھا کر اسکول جانا چاہئے وہ اُس ہاتھ گاڑی (ٹرالی) کو دھکیل کر کراچی پہچا ہے جس میں لانگ مارچ مین شریک افرادکا کچھ سامان ، ایک اسپیکر لدا ہے اور جس کے سامنے ایک بورڈ آویزاں ہے جس پر درج ہے © ” یونائیٹیڈ آرگنائیزیشن لاپتہ بلوچ افراد کی باحفاظت بازیابی کے لئے موثر کردار ادا کرے “ اس لانگ مارچ میں حیدر کی دو بہنیں بھی اس اُمید سے شامل ہیں کہ اُن کے والد کی باحفاظت بازیابی ہوسکے، اس مارچ میں ایک بچی سمی بلوچ بھی اپنے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بازیابی کی اُمید سے اس کٹھن منزل کو طئے کرکے کراچی پہچی ہے،مارچ میںبلوچ ہیومن رائٹس آرگنائیزیشن کی ایک خاتون گُل بی بی بلوچ یکجتی کے طور پر سات سو کلومیٹر سے زائد کا سفر طئے کرکے کراچی پہچی ہیں، جبکہ اپنے بیٹے کی مسخ شدہ لاش دفنانے کے باوجود ماما قدیر اس مارچ میں آگے آگے چل رہے ہیں کہ شاید کوئی کرشمہ ہو جائے اور لاپتہ بلوچ بازیاب ہوجائیں، ذاکر مجید کی بہن فرزانہ مجید کے پاﺅںاس لانگ مارچ سے زخمی تو ضرور ہوئے ہیں لیکن یہ زخم ان جدائی کے زخموں کے آگے کچھ نہیںوہ اور اس کے ورثا ذاکر مجید کے لاپتہ ہونے سے اب تک سہہ رہے ہیں۔

Sarwar Baloch
About the Author: Sarwar Baloch Read More Articles by Sarwar Baloch: 5 Articles with 3941 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.