’کتا شہید ہے‘’پاک فوج نہیں‘

شاید کالم کا عنوان پڑھ کر قارئین کو 440Vکا شدید جھٹکا لگا ہوچونکہ ایسا خود خاکسار کے ساتھ بھی ہو چکاہے۔دراصل یہ بیان جید سیاستدان مولانا فضل الرحمن D صاحب کا ہے جوآج پانچ دن پرانا ہو چلا مگر اب تک معصوم عوام کی عقل میں نہیں اترا۔مورخہ 5نومبر بروز منگل کو مولانا صاحب نے فرمایاــــ’’امریکہ اگر کتا بھی مارے تو اسے شہید کہوں گا‘‘۔اب تک کے عوامی ردعمل سے ثابت ہو چکا کہ عوام کو اتنے ذمہ دار اور سینئر سیاستدان سے ایسے جذباتی اور بھونڈے قسم کے بیان کی توقع نہیں تھی جس کی نہ کوئی مناسبت ہے اور نہ کوئی ٹھوس مطلب۔اول یہ کہ کتا ایک ناپاک اور نجس جانور ہے تو کیا کتا شہید ہو سکتا ہے۔اور کیا کتے کو شہید قرار دے کرمولاناصاحب نے شہید کے مقام اور رتبے کی توہین نہیں کی؟شہادت کا مقام و مرتبہ ایک’ سچا ‘عالم دین ہی بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے۔یہ وہی مقام ہے جس کو پانے کی حضرت علی کرم اﷲ وجہ سے لیکر حضرت عمر فاروقؓ تک تمام صحابہ اکرام کو شدید خواہش تھی اور جس کے لیے وہ خدا کے حضور عمر بھر گڑگڑا کر دعائیں کرتے رہے مگر یہ مقام چند خوش نصیبوں کو ہی نصیب ہوا۔اس مقدس اور بلند مقام کو ایک نجس جانور کتے سے منسوب کرنا اسلامی اقدار کی توہین ہے جس کے مرتکب مولانا صاحب ہوئے ہیں،جنہوں نے 5نومبر کو امریکہ کے ہاتھوں مارے جانے والے کتے کو بھی شہادت کے درجے پر فائز کیا ہے۔اور یہ بات انتہائی سنگین اس وقت ہو جاتی ہے جب یہ حرکت کوئی عام آدمی نہیں بلکہ خود کو شیخ الشیوخ اور عہد حاضر کے عظیم عالم سمجھنے والے مولانا فضل الرحمن نے کی ہے۔اپنے تقریروں میں صحا بہ اکرام کی مثالیں ’کوٹ‘ کرنے اور بیانات میں قرآن کے حوالے دینے والے کے ہاتھوں ایسا بیان شرمناک نہیں بلکہ انتہائی شرمنا ک ہے۔اور ایمان کی پناہ مانگ کرمزید عرض کروں ’’آپ امریکہ کے ہاتھوں مارے جانے والے کتے کو بھی شہید کہتے ہیں اور سالالہ چیک پوسٹ پر امریکہ کے ہاتھوں مارے جانے والے 26 پاکستانی فوجیوں کو بھی شہید کہتے ہیں تو پاک فوج اور(کتوں) میں کیا فرق رہ گیایعنی آپ کو ان دونوں میں کوئی امتیاز نہیں۔گیاری سیکٹر میں امریکہ کے ہاتھوں 26فوجیوں کی ہلاکت کو بھی شہید کا درجہ دینا اور امریکہ کے ہاتھوں مرنے والے کتے کو بھی شہید کا درجہ دینااسلام کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج کے شہید جوانوں کے خون کی بھی توہین ہے۔اورافواج پاکستان اور اسلام کی مقدس پارلیمنٹ میں اس سے زیادہ توہین نہیں ہو سکتی۔مولانا صاحب JUI-Fکے قائد ہیں اور وزیراعظم پاکستان بننے کی دیرینہ خواہش رکھتے ہیں۔قائدمیں کچھ خوبیاں ہوا کرتی ہیں جو کسی شخص کو لیڈر بناتی ہیں ۔لیڈر ہمیشہ جذبات پر قابو رکھتا ہے ،وہ پہلے تولتا ہے اور پھر بولتا ہے۔جذبات اور ناپاک علامتوں پر مشتمل بھونڈے قسم کے بیانات لیڈروں کا شیوہ نہیں۔اور پھر اس قسم کا بیان دے کر ڈٹ جانا بھی حماقت اور کم عقلی کے سوا کچھ نہیں۔اب مولانا کو کم از کم یہ کالم پڑھنے کے بعد اپنی سنگین غلطی کا اعتراف کرلینا چاہیے۔خدا سے توبہ کرنی چاہیے اور پوری قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ہوش رباعنوان میں موجود دوسرا فقرہ جناب منور حسن صاحب کا بیان ہے۔موصوف ایک عرصہ سے معروف مذہبی جماعت کے امیر ہیں۔یہ بیان بھی کسی تندرست کو بخار چڑھانے کے لیے کافی ہے۔منور حسن صاحب فرماتے ہیں’’حکیم اﷲ محسود کو شہید تسلیم کرتا ہوں‘‘۔یادرہے یہ وہی حکیم اﷲ صاحب ہیں جن کے سر کی قیمت پاکستان کی غریب حکومت نے5کروڑاور حکومت امریکہ نے 50کروڑ روپے مقرر کر رکھی تھی۔حکیم اﷲ2009ء سے ایک ایسی کالعدم تنظیم کا امیر تھا جو سال2003ء سے اب تک 60,000سے زائد معصوم پاکستانیوں کے قتل میں ملوث ہے۔اور جس نے پچھلے دس سال میں ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر حد عبور کی۔تو کیاایسے شخص کو شہید قرار دینا شہیدوں کی توہین نہیں؟کیا یہ وہی حکیم اﷲ محسود نہیں جس کی جماعت چند سالوں کے دوران 3ہزار سے زائد پاکستان فوجیوں اور سپاہیوں کو شہید کر چکی ہے۔اگر حکیم اﷲ ’شہید‘ ہے توپھر پچھلے دس سالوں کے دوران مارے جانے والے ساٹھ ہزار معصوم شہری کیا ہیں؟منور صاحب مزید فرماتے ہیں’’دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا ساتھ دے کر لڑنے والی پاک فوج شہید نہیں ہو سکتی‘‘کافی پہلے کا عرض کر چکا ہوں ہمارے سیاستدانوں کو کسی کام کی تمیز نہیں اور بیان دینے کی تو بالکل نہیں۔پاکستانی فوج کے خلاف ایسا بیان اپنی ملک سے غداری کے زمرے میں آتا ہے۔چند دن پہلے کے ایک سروے کے مطابق ملک کی 89فیصد عوام دیگر اداروں کی نسبت فوج کو پسند کرتی ہے اور اس کی کارکردگی سے بے حد مطمئن ہے۔یہ وہی فوج ہے جو آج تک ملکی سرحدوں کی حفاظت کرتی آرہی ہے ۔جو دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ہزاروں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکی ہے تو کیاہے ۔یہ وہی فوج ہے جس نے شدت پسندی کے خاتمہ کے لیے قبائلی علاقوں میں کئی آپریشن کیے تو کیا اس مرنے والے جوان شہید نہیں ؟جماعت اسلامی کا یہ نظریہ عوامی حلقوں میں مسلسل confusionپیدا کرہا ہے اور ملک دشمنی کے زمرے میں آجاتا ہے۔اورایسی خون خوار، دہشت گرداور کالعد م تنظیموں کے نظریات کی ترجمانی اور تحفظ دینے سے جماعت اسلامی پر پابندی کا جواز بن سکتا ہے۔عافیت اسی میں ہے کہ منور حسن فوراًمعافی مانگ کر اپنا بیان واپس لے لیں ورنہ اگر یہ بات چل نکلی تو بہت دور تک جائے گی اور لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔منور حسن کے اس بیان پر عوام کی ناپسندیگی سے واضح ہے ایسی پالیسیوں سے جماعت اسلامی کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے۔شاید اسی باعث جماعت اسلامی آج تک عوام کے دلوں میں جگہ نہیں بنا سکی۔ایک حالیہ سروے کے مطابق پورے ملک میں عوام کی صرف 2فیصد عوام ہی جماعت اسلامی کو پسند کرتی ہے۔جماعت اسلامی کی ایسی ہی پالیسوں کے باعث بنگلہ دیش اس پر پابندی عائد کر چکا ہے اور اگرایسی پالیسی یہاں بھی اپنائی تو پاکستان میں بھی جماعت اسلامی کوکالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔لہٰذا امیر جماعت اسلامی کو ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر عقلمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ پھر کہتے پھریں گے’’کج شہر دے لوک وی ظالم سن کج مینوں مرن دا شوق وی سی‘‘۔
Javed Askari
About the Author: Javed Askari Read More Articles by Javed Askari: 8 Articles with 6817 views Syndicated Columnist, Political Analyst, Poet and Author, writes "Neemtalh" column 2 to 3 times in a week published in more than 50 Newspapers of Paki.. View More