میدان عرفات کی تاریخ وفضیلت

میدان عرفات کی تاریخ وفضیلت
سلمان عبدالصمد

میدان عرفات کی تاریخ :
عرفات مکہ سے باہر ایک میدان ہے،یہ بہت برکت والی اور پاک جگہ ہے، اﷲ تعالی نے اس جگہ کی قسم بھی کھائی ہے۔ حج کرنے کے دوران یہاں وقوف کرناضروری ہے۔ ا عرفات کے میدان میں نہ جائیں تو حج قبول نہیں ہوتا۔جبلِ رحمت جو کہ عام طور پر جبلِ عرفات کے نام سے معروف ہے، مکہ مکرمہ کے مشرق میں واقع گرینائٹ کی ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے۔اسی پہاڑی پر نبی اکرم ﷺنے خطبہ حج الوداع دیاتھا۔ اس کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ حضرت آدم و حوا جنت سے زمین پر بھیجے جانے کے 200سال کے بعد اس مقام پر دوبارہ ملے۔ اس پہاڑکے اردگرد کے میدان کو میدانِ عرفات کہا جاتا ہے۔

مقام عرفہ یا عرفات، مکہ مکرمہ کے جنوب مشرق میں جبل رحمت کے دامن میں واقع ہے۔ جہاں وقوف عرفات جیسا حج کا بنیادی رکن ادا کیا جاتا ہے۔ یہ میدان مکے سے تقریباً 16 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ میدان عرفات سال کے 354 دن غیر آباد رہتا ہے اور صرف ایک دن کے 8 سے 10 گھنٹوں کے لیے (9 ذی الحج) ایک عظیم الشان شہر بنتا ہے۔ یہ 9 ذی الحج کی صبح آباد ہوتا ہے اور غروب آفتاب کے ساتھ ہی اس کی تمام آبادی رخصت ہو جاتی ہے اور حجاج ایک رات کیلئے مزدلفہ میں قیام کرتے ہیں۔ دور جاہلیت میں قریش نے حرم سے متعلق دیگر بدعات کے علاوہ مناسک حج سے وقوف عرفات کو بھی خارج کر دیا تھا۔ قبل از اسلام دیگر لوگ تو عرفات تک جاتے تھے لیکن قریش مزدلفہ سے آگے نہ بڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اہل حرم ہیں اس لیے حرم کی حدود سے باہر نہیں نکلیں گے لیکن نبی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد خداوندی کے تحت عام لوگوں کے ساتھ خود بھی عرفات تک گئے۔جبل رحمت بھی یہیں پر ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بہت سے اولیائے کرام اور پیغمبر علیہم السلام تشریف لائے تھے اور خدا وند کریم کے حضور سر جھکایا تھا۔حاجی یہی کو شش کر تے ہیں کہ اسی کے قریب ڈیرے ڈالیں۔عرفات کے میدان میں ایک بہت بڑی اور خوبصورت مسجد ہے ، اس مسجد کو مسجد نمرہ کہتے ہیں۔میدان عرفات مکہ سے تیرہ میل دور مشرقی سمت میں طائف کے راستے پر واقع ہے۔ یہ شمالی جانب عرفات ایک پہاڑی سلسلے سے ملا ہوا ہے۔ یہ میدان حدود حرم سے باہر واقع ہے۔ مشرق تا مغرب یہ چوڑائی میں چار میل اور لمبائی میں سات تا آٹھ میل قریب ہے۔ مکہ سے آنے والے حاجی عاززمین سے نکل کر ان ستونوں کے پاس سے گزرتے ہیں جو حرم کی حد بندی کرتے ہیں۔ ان ستونوں کے مشرق کی جانب عرفہ نامی نشیب ہے جس کے دور کے کونے پر مسجد نمرہ ہے۔ حجاج کے وقوف کرنے کی جگہ یا مقام اجتماع اس مسجد سے مشرق اور جبل رحمت سے مغرب کی جانب دور تک چلا گیا ہے اور مشرق کی جانب کوہستان طائف کے سلسلے سے گھرا ہوا ہے۔

میدانِ عرفات میں ہی حضرت آدمؑ و حواؑ، دونوں نے جنت میں اپنی غلطی پر پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے اﷲ سے توبہ کی اور اﷲ تبارک و تعالیٰ نے انھیں معاف فرمادیا۔ دورانِ حج مسلمان ذی الحج کی 9ویں روز اسی پچھتاوے اور اﷲ سے توبہ کی سنت کو ہرسال دہراتے ہوئے لاکھوں مسلمان حج کے موقع پر میدانِ عرفات میں جمع ہوکر د ن بھر قیام کرکے اﷲ کے حضور توبہ و عبادت کرتے ہیں۔

یہ میدان دس میل لمبا چوڑا ہے۔لو گ منٰی سے بسوں اور لاریوں میں یہاں آتے ہیں۔ یہاں بھی خیمے کرائے پر ملتے ہیں اور حاجی اس میدان میں خیمے لگا کر رہتے ہیں میدان میں جس طرف نظر جاتی ہے خیمے نظر آتے ہیں۔ حج کے مہینے کی نو تاریخ کو عرفات میں حاضری دینی ہوتی ہے۔ایک مسجد بطن عرفہ ہے یہ خانہ کعبہ کی حد سے قریب ہے۔میدان عرفات میں اب اسپتال ،پولیس چوکیاں،ہوٹل اور پھل وغیرہ کی دوکانیں ہیں۔ نہر زبیدہ بھی یہیں ہے۔ اب یہ نہر اوپر سے ڈھانپ دی گئی ہے۔پہلے اس میدان میں دور دور تک پانی اور کھانے پینے کی چیزیں نہیں ملتی تھیں ،لیکن اب انسانی ضرورت اور سہولت کی ہر چیزمل جاتی ہے۔

عرفات کی وجہ تسمیہ :
عرفات کے نام کی تین توجیہات کی جاتی ہیں۔ اس کے تین قریب ترین معنیٰ’’ پہچان ‘‘کے ہیں اور تین ہی مختلف روایات ملتی ہیں:
(1)جب حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا جنت سے زمین پر اتارے گئے تو وہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سری لنکا کی ایک پہاڑی سراندیپ پر اترے تھے جہاں ان کے قدموں کے نشانوں کی روایت بھی ملتی ہے۔اماں حوا کو جدہ کے مقام پر اتارا گیا تھا جہاں ان کا مزار بھی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام روئے زمین پر خود کو تنہا محسوس کررہے تھے، اس لیے وہ حوا کی تلاش میں نکل پڑے اور اسی عرفات کے میدان میں ان دونوں کی ملاقات ہوگئی۔ یہاں دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا تھا۔
(2)دوسری توجیہہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مناسک حج سکھائے تھے جو انھوں نے جان لیے تھے، اسی جاننے کو ’’عرفہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
(3)تیسری توجیہہ ا س نام کی یہ ہے کہ اس مقام پر لوگ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے توبہ و استغفار کرتے ہیں۔ روز محشر یہیں حشر برپا ہوگا اور دنیا کے تمام لوگ ا ﷲ کو’’ پہچان‘‘ لیں گے۔

اس میدان کا ذکر قرآن حکیم میں :
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے پاس ذکر الٰہی کرو۔‘‘(سورہ بقرہ آیت198)
علمائے کرام اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ 9 ذی الحج کو فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد سورج نکلنے کا انتظار کرے اور زوال آفتاب سے پہلے سے پہلے عرفات پہنچ جائے، تاکہ وقت وقوف ہوجائے پھر جیسے ہی مغرب کا وقت شروع ہو، عرفات چھوڑ دیا جائے اور مزدلفہ میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پہلے مغرب کی نماز ادا کرے اور پھر دوسری اقامت کہہ کر عشا کی نماز ادا کی جائے۔ وقوف عرفات حج کارکن اعظم ہے۔ یہ وقوف خواہ ایک منٹ کا ہو، اس کی ادائیگی فرض ہے۔
حضو رﷺکا فرمان مبارک ہے:’’وقوف عرفات ہی حج ہے۔‘‘

خاتم الانبیاء نے خطبہ حجۃ الوداع یہیں ارشاد فرمایا تھا اور اسی دوران آپﷺپر یہ قرآنی آیت نازل ہوئی تھی:’’آج کے دن ہم نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام تمام کردیا اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔‘‘(سور المائدہ 3)

یہاں مسلمانوں کو تین خوش خبریاں سنائی گئیں: تکمیل دین، تکمیل قرآن اور ا ﷲ تعالیٰ کا دین اسلام پسند کرنا۔ ان خوش خبریوں سے پہلے ہی مسلمان درج ذیل وجوہ کی بنا پر سرشار تھے: صحابہ کا حضور ﷺ کے ساتھ حج کرنا۔ جمعہ کے دن حج ہونا۔ اور عرفات کا میدان ہونا۔

اسی میدان میں ایک مشہور تاریخی پہاڑ جبل رحمت ہے جہاں سرکار دو عالم ﷺ نے وہ تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا تھا جسے سن کر صحابہ کو اندازہ ہورہا تھا کہ شاید یہ آﷺ کا آخری خطبہ ہو۔ آپﷺبار بار اشارتاً فرما رہے تھے:’’مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔ شاید اس حج کے بعد میں کوئی اور حج نہ کرسکوں۔‘‘ (صحیح مسلم)

ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ حضورﷺ نے عرفہ کی شام کو میدان عرفات میں امت کی مغفرت کی دعا مانگی اور بڑی گریہ و زاری کی جس کے جواب میں رحمت الٰہی جوش میں آئی اور ارشاد ہوا:’’میں نے تمھاری دعا قبول کرلی اور جو گناہ بندوں نے میرے کیے ہیں، وہ معاف کردیے، البتہ جو ظلم ایک نے دوسرے پر کیے ہیں، ان کا بدلہ لیا جائے گا۔‘‘

مسجد نمرہ میں نبی کریمﷺ نے عرفہ کے دن ظہر اور عصر کی نماز یں ملا کر پڑھی تھیں۔ اس وقت یہ جگہ بھی ایک چٹیل میدان تھی۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حاجی کو اس مسجد میں وقوف نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ اس میں اختلاف پایاجاتا ہے۔ بعض کی رائے میں یہ عرفات سے خارج ہے، کچھ کی نظر میں مسجد کا کچھ حصہ عرفات سے خارج ہے اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ یہاں وقوف نہ کیا جائے۔ اس مسجد میں نماز پنجگانہ کی ادائیگی کا اہتمام نہیں ہے، کیوں کہ آبادی سے یہ کافی فاصلے پر ہے۔ یہاں صرف حج اور جمعے کا اجتماع ہوتا ہے۔ عرفات کا میدان چند گھنٹوں کے لیے خیمہ بستی بن جاتا ہے جو میلوں پر محیط ہوتا ہے۔

وقوف عرفات:
حج تمتع کے واجبات میں دوسرا واجب وقوف عرفات ہے۔ جسے قربۃ الی اﷲ اور خلوص نیت سے انجام دینا چاہیے۔ وقوف عرفات سے مراد یہ ہے کہ حاجی عرفات میں موجود ہو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ سواری کی حالت میں ہو پیادہ، متحرک ہو یا حالت سکون میں۔ میدان عرفات کی حدود عرنہ، ثوبہ اور نمرہ کے میدان سے ذی المجاز تک اور مازین کے آخر موقف (وقوف کی جگہ) تک ہے۔ البتہ یہ خود حدود عرفات ہیں اور وقوف کی جگہ سے خارج ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ رحمت نامی پہاڑی وقوف کی جگہ میں شامل ہے لیکن پہاڑی کے دامن میں بائیں جانب قیام کرنا افضل ہے۔ وقوف میں معتبر یہ ہے کہ وہاں سے رہنے کی نیت سے ٹھرے پس اگر حاجی اول وقت میں وہاں ٹہرنے کی نیت کرے مثلا آخر تک سوتا رہے یا بیہوش رہے تو یہ کافی ہے۔ لیکن اگر نیت سے پہلے سوتا رہے یا بیہوش رہے تو وقوف ثابت نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر وقوف کی نیت کرکے وقوف کا پورا وقت سوتا رہے یا بیہوش رہے تو اس وقوف کے کافی ہونے میں اشکال ہے۔

واجب ہے کہ نویں ذی الحجہ کو عرفات میں حاضر ہو اور بنا بر یں احتیاط زوال آفتاب کی ابتدا سے غروب تک وہاں رہے اظہر یہ ہے کہ زوال سے اتنی دیر تاخیر کر سکتا ہے کہ غسل کرکے ظہر و عصر کی نماز ملا کر پڑھ لے۔ اگر چہ اس پورے وقت میں وہاں رہنا واجب ہے اور کوئی جان بوجھ کر چھوڑے تو گنہگار ہوگا مگر یہ کہ یہ رکن نہیں ہے۔ یعنی اگر وقوف کے وقت اگر کچھ مقدار چھوڑ دے تو اس کا حج باطل نہیں ہوگا۔ تاہم اگر کوئی اختیار پورا وقوف چھوڑ دے تو اس کا حج باطل ہو جائے گا۔ لہذا وقوف میں سے جو رکن ہے وہ فی الجملہ (یعنی کچھ مقدار قیام) رکن ہے (نہ کہ پورا وقوف)۔اگر کوئی شخص بھول کر یا لاعلمی کی وجہ سے کسی اور عذر کی وجہ سے عرفات کے اختیاری قیام (دن میں قیام) کو حاصل نہ کر سکے تو اس کے لیے وقوف اضطراری ہے۔ شب عید ضروری ہے اور اس کا حج صحیح ہوگا اور اگر جان بوجھ کر وقوف اضطراری کو چھوڑ دے تو حج باطل ہو جائیگا۔ یہ حکم اس وقت ہے کہ جب اس کے لیے وقوف اضطراری کو اس طرح سے حاصل کرنا ممکن ہو کہ اس کی وجہ سے طلوع آفتاب سے پہلے وقوف مشعر ختم نہ ہوتا ہو۔ لیکن اگر عرفات میں وقوف اضطراری سے وقت مقررہ وقوف مشعر کے ختم ہونے کا خوف ہو تو صرف وقوف مشعر پر اکتفا کرنا واجب ہے اور اس کا حج صحیح ہوگا۔

فضیلت عرفات:
عرفہ کادن اورعرفات کامیدان وہ بابرکت زمان اورمکان ہیں،جہاں اﷲ تعالی کی جانب سے ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر خوشخبری نازل ہوئی تھی،کہ اسلام کادین مکمل اورامت پرشریعت کی تکمیل کاعظیم نعمت پورا ہوا۔عرفات کے میدان میں جاری مبارک اجتماع ایک طرف مسلم امہ کی عظمت اوربرم کی علامت ہے،تودوسری جانب مسلمانوں کو مساوات، بھائی چارے اوروحدت کادرس دیتاہے،اﷲ تعالی کے عظیم نمائندے حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے تاریخی خطبے میں اسی لفظ پرشدیداصرارکیا،اس مبارک خطبے کے بعض حصے درج ذیل ہیں۔اے گو! یقیناتمہاراخون اورمال تم پرحرام ہیں،جن کے پاس امانت ہو،اسے حوالے کردیں، جاہلیت میرے قدموں کے نیچے ہیں، عورتوں کے بار ے میں اﷲ تعالی سے ڈرو، اگراﷲ تعالی کی کتاب اوررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی کروگے، تو کبھی بھی راستے سے نہیں بھٹک جاؤگے،ہرمسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے،تمام مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اے لوگو!تمہارا رب ایک ہے،تم سب آدم علیہ السلام کی اولادہو اورآدم علیہ السلام مٹی سے بنے تھے،یقیناتم میں بہتروہ شخص ہے، جو اﷲ تعالی سے زیادہ ڈرتاہو۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس تاریخی خطبے میں مسلمانوں کوصرف اتحادکیلئے نہیں بلایا،بلکہ اتحادواتفاق کی موانع اور اختلافات کیاسباب مثلا خون بہانا، مال غصب کرنا،جاہلیت کے عادات کواپنانا ، سود کھانا، نسب پرفخرکرنا،عورتوں پرمظالم اوران کے حقوق کوپامال کرناوغیرہ کے بار ے میں پرلطیف وصیت کی تھی۔

سعودی حکومت کی پیش رفت :
سعودی عرب حکومت نے میدان عرفات میں آگ سے محفوظ رہنے والے 60 ہزار مستقل خیموں کا انتظام کیا ہے ۔ اس سلسلے میں سپریم حج کمیٹی کے سربراہ نے میونسپل کمیٹی کو منصوبے کی نگرانی کرنے کی ہدایت کر دی ہے جو مجوزہ پلان کے نمایاں خدوخال اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ لگائے گی۔العربیہ ڈاٹ نیٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بلدیہ میں ترقیاتی میں صوبہ جات کے سیکرٹری ڈاکٹر حبیب بن مصطفی زین العابدین کے حوالے سے بتایا کہ وزیر مسؤل نے میدان عرفات میں مستقل خیموں کے بارے دس روز قبل تجویز پیش کی تھی، جس کے موصول ہوتے ہی اس پر کام شروع کر دیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ منصوبے کی تکمیل سے حاجیوں کو عرفات میں زیادہ سے زیادہ جگہ میسر آئے گی۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد عرفات کے میدان میں کاٹن کے خیموں کا استعمال ترک کر دیا جائے گا کیونکہ یہ آتشزدگی کا باعث بنتے ہیں۔ نیز مستقل خیمہ بستی میں اﷲ کے مہمانوں کو مناسب معیار کی اعلی شان خدمات کی فراہمی بھی یقینی ہو گی۔ادھر با وثوق ذرائع نے اس منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ ایک ارب سعودی ریال لگایا ہے۔ زید العابدین کے بہ قول اس دیو ہیکل منصوبے کو تین برس میں مرحلہ وار مکمل کیا جائے گا۔ ہر مرحلے کی تکمیل پر تیار ہونے والے خیموں کو حجاج استعمال کر سکیں گے۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92279 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More