صدر گوگیرہ کا تاریخی پس منظر

صدر گوگیرہ وسطی پنجاب کے زرخیز میدانی علاقے میں دریائے راوی کے کنارے ضلع اوکاڑہ کا ایک خوبصورت تاریخی قصبہ ہے۔اس کا نام یہاں کے رہائشی کھرل قبیلے کی شاخ گوگیرہ کی نسبت سے ہے۔صدر گوگیرہ شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ دہلی کو ملتان سے ملانے والی شاہراہ پر واقع ہونے کی وجہ سے بر صغیر کے حکمرانوں کے لئے جغرافیائی اور دفاعی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ملتان اور لاہور کے مابین کا علاقہ لنگڑیال،کھرل،کاٹھیہ،بھٹی اوربلوچ جیسے محنتی اورخوددار قبائل کی سرزمین ہے۔راجہ رنجیت سنگھ نے اپنے دور حکومت میں ان قبائل کو زیر نگیں کرنے کی کوششیں کیں لیکن ناکام رہا اور ان قبیلوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے پر مجبور ہو گیا۔1849ء میں جب انگریزوں نے سکھ حکمرانوں سے اقتدار چھین کر پنجاب کا زبردستی الحاق کر لیا تو اس علاقے کی دفاعی اور جغرافیائی اہمیت کے پیش نظروہ اسے غیر محفوظ ہاتھوں میں نہ دیکھ سکتے تھے۔1849ء میں ان علاقوں کا انتظام کرنے کے لئے پاکپتن، اوکاڑہ، ساہیوال، گوگیرہ اور ہڑپہ کے علاقوں پر مشتمل ایک ضلع بنایا گیا اور پاکپتن کو اس ضلع کا صدر مقام مقرر کر دیا گیا۔گوگیرہ کے کھرل قبیلے نے انگریزوں کی بالادستی کو کبھی دل سے تسلیم نہ کیا۔انگریزوں نے ان قبائل کو اپنا مطیع بنانے کے لیے گوگیرہ کو ضلع کا صدر مقام بنانے کا فیصلہ کیا اور 1852ء میں گوگیرہ میں ضلع کچہری،بخشی خانہ اور جیل تعمیر کر کے ضلعی حکام کو گوگیرہ میں تعینات کر دیا۔گوگیرہ کے بالمقابل راوی کے دوسرے کنارے پر واقع جھامرہ کا رہنے والاخوددار کھرل قبیلے کا سردار رائے احمد خان کھرل انگریزوں کے اقتدار کو پسند نہ کرتا تھا۔1857ء میں جب جنگ آزادی کا آغاز ہوا تورائے احمد خان کھرل نے راوی کے تمام قبائل کو اکٹھا کر کے علم جہاد بلند کر دیا۔احمد خان کھرل نے اعلان کیا کہ وہ اور اس کے ساتھی جو کچھ کر رہے ہیں اسے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی مکمل تائید وحمائت حاصل ہے۔انگریزوں نے ان تمام قبیلوں کو چور اور ڈاکو مشہور کر رکھا تھالیکن یہ تمام لوگ کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔رائے احمد خان کھرل نے راوی کے دونوں اطراف کے سرداروں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے ان کو اس بات پر قائل کر لیا کہ سب ایک ساتھ مل کر انگریزوں کی تمام چوکیوں پر حملہ کریں اور ان کو اس علاقے سے نکال دیں۔لیکن بدقسمتی سے اس پنچائت میں کمالیہ کے کھرل قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک سردار نے فوری طور پر گوگیرہ میں انگریز حکام کو مخبری کر دی اور انگریزوں نے ایک بڑی فوج کے ساتھ حریت پسندوں پر حملہ کر دیا۔اگر کمالیہ کے کھرل احمد خان کا اس وقت ساتھ دیتے تو بڑی آسانی سے انگریزوں کے قدم اکھاڑے جا سکتے تھے۔26جولائی 1857ء کو احمد خان کھرل اور اس کے ساتھیوں نے گوگیرہ جیل پر حملہ کر دیاجس کے نتیجے میں پچاس سے زائد آدمی ہلاک اور زخمی ہو گئے۔اس کاروائی کے جواب میں انگریزوں نے اس کے گاؤں جھامرہ کو آگ لگا دی۔3ستمبر کو انگریزوں اورسکھوں کے فوجی دستوں نے گوگیرہ کے نزدیک گشکوری کے مقام پرجنگل میں احمد خان کھرل پر حملہ کر دیا۔احمد خان اور اس کے ساتھی بڑی بہادری سے لڑے اور انگریز فوج کے 20سپاہی جہنم واصل کر دئیے۔اس جنگ میں احمد خان کھرل،اس کا بھتیجا مراد کھرل اور سارنگ کھرل بھی شہید ہو گئے۔اس کے فوراً بعد عظیم مجاہد کے ساتھیوں مراد فتیانہ،سوجا بھدرو اور موکھا وہنی وال نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کوڑے شاہ کے مقام پر انگریز ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر لارڈ برکلے اور پچاس فوجیوں کو ہلاک کر کے احمد خان کھرل کی شہادت کا بدلہ لے لیا۔اس واقعے کے بعد انگریزوں نے لاہور، ملتان اورگرداس پور سے چیمبر لین کی قیادت میں اپنی افواج کو بلا کر شدید گولہ باری کی اور حریت پسندوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔انگریزوں نے لارڈبرکلے کی ایک یاد گار بھی گوگیرہ میں تعمیرکی جو آج بھی موجود ہے۔1867 ء میں جب ریلوے لائن کا منصوبہ مکمل ہوا تو ضلع کا صدر مقام گوگیرہ سے ساہیوال منتقل کر دیا گیا۔صدر گوگیرہ میں انگریزوں کی تعمیر کردہ جیل کی عمارت اب بالکل ختم ہو چکی ہے لیکن لارڈ برکلے کی یاد گار،بخشی خانہ اور ضلع کچہری کی عمارت اب بھی موجود ہیں۔ضلع کچہری کی عمارت لڑکوں ہائی سکول کے قبضہ میں ہے۔انگریزوں کی تعمیر کردہ یہ عمارات آج بھی جنگ آزادی کے عظیم ہیرو رائے احمد خان کھرل اور اس کے ساتھیوں کی یاد دلاتی ہیں۔گوگیرہ کے علاقے میں احمد خان کھرل کی بہادری کے قصے لوک گیتوں اور ڈھولوں کی صورت میں گائے جاتے ہیں۔

Maqsood Ahmad Bhutta
About the Author: Maqsood Ahmad Bhutta Read More Articles by Maqsood Ahmad Bhutta: 2 Articles with 3988 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.