اور ہم خوارہوئےتارک قرآن ہوکر

لاہور میں پانچ سالہ ننھی پری سنبل کو چند درندہ صفت لوگوں کی جانب سے درندگی کا نشانہ بنائے جانے کے خلاف لوگ سراپا احتجاج ہیں۔حوا کی بیٹی کو درندگی کا نشانہ بنانے کا یہ واقع کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہر روز ایسے درجنوں واقعات ہمارے معاشرے میں رونما ہوتے ہیں ۔ایک رپوٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ میں صرف لاہور شہر میں بنت آدم کے ساتھ ظلم وبربریت کے 145کیسزرجسڑہوئے۔گزشتہ چندماہ میں لاہورشہرسے سات بچوں کی بوری بند لاشیں برآمدہوئیں جنہیں درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا تھا۔سنبل پر ہونے والے شرمناک ظلم کے بعدا یک ا ور پانچ سالہ بچی
قصور میں بھی حیوانیت کا شکا رہوچکی ہے۔

سنبل کے ساتھ ہونے والے اس شرمناک واقع کی خبر الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا میں آنے کے بعد چیف جسٹس نے ازخودنوٹس لیتے ہوئے واقعے کی رپوٹ طلب کر لی جبکہ وزیر اعلی پنجاب نے بھی مجرموں کوہر صورت کیفرکردار تک پہنچانے کا مژدہ سنایا،لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چیف جسٹس کے از خود نوٹس یا وزیر اعلٰی کی جانب سے ملزموں کو ہر صورت کیفر کردار تک پہنچانے کا بیان ایسے المناک واقعات کی روک تھام کے لیے کافی ہے؟آخر وہ کون سے
محرکات ہیں جو درندگی کے بڑھتے ہوئے ان واقعات کا سبب ہیں؟

یہاں اس بات کو سمجھنا نہائت ضروری ہے کہ جنسی لذت کا حصول انسانی جبلتوں میں سے ایک جبلت ہے ، انسانی جبلتوں اور عضویاتی حاجات کو منظم انداز سے پورا کرنا نظام کا کام ہے،چونکہ وطن عزیز میں مغربی سرمایہ دارانہ نظام نافذہے جو کہ کسی بھی امر کوسرانجام دینے کے لیے نفع و نقصان کا پیمانہ فراہم کرتا ہے ۔اب جب سرمایہ دارانہ نظام کے زیراثر منفعت کے حصول کی خاطر ہیجان انگیز مناظرسے بھرپور حیا سوزکمرشلز اور فلموں کی نمائش ہو گی،جب حوا کی بیٹی کو سرعام رقص و سرور کی محافل کی زینت بنایا جائے گا،جب تفریح کے نام پر اخلاقیات کا جنازہ نکالا جائے گا، جب اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے عورت کو ایک کھلونا بنا دیا جائے گا،جب چند ٹکو ں کے منافع کی خاطر معاشرے میں فحش مواد آسانی سے دستیا ب ہو گا، جب غیر محرموں کاکھلم کھلاملاپ ہو گا،جب اس نظام کے زیر اثر شخصی آزادی کے نام پر حیاسوز لبا س پہننے کی اجازت ہو گی تو پھر بنت آدم کی عزت کیسے محفوظ رہے گی ؟پھر جنسی لذت کے حصول کی انسانی جبلت کو منظم اندازمیں کیسے پورا کیا جاسکے گا؟درحقیقت درندگی کے ان واقعات کابنیادی محرک وطن عزیز میں نافذ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو کہ یہ اہلیت ہی نہیں رکھتا کہ انسانی جبلتوں اور جسمانی ضروریات کو منظم انداز سے پورا کر سکے،کیونکہ یہ نظام انسانی جبلتوں کو منظم انداز سے پورا کرنے کی بجائے اٌن عوامل کو جائز قراردیتاہے جوعوامل معاشرتی برائیوں اوردیگر مسائل کی جڑہیں۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ اگر محض کڑی نگرانی سے جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہوتا تولندن جہاں پوری دنیا کے دیگر شہروں کے لحاظ سے سب سے زیادہ سیکورٹی کیمرے موجود ہیں وہاں کا کرائم ریٹ صفر ہوتا۔

دنیا میں نظام چلانے کے لیے پائے جانے والے تمام نظریات کا تقابلی جائزہ اور کتب تاریخ اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرتی نظر آتی ہیں کہ خالق کائنات کی عطا کردہ پاکیزہ شریعت ہی وہ واحد نظام ہے جسکے نفاذسے معاشرتی برائیوں کو ختم اور تمام دوسرے مسائل کوحل کیا جا سکتاہے۔ انسانی جبلتوں کو منظم انداز سے پورا کرنے اور معاشرتی برائیوں اور دیگر مسائل کے سدباب کے لیے مجرم کو سخت سزا دینے سے قبل شریعت اسلامیہ ریاست کو اس چیز کا پابند بناتی ہے کہ وہ لوگوں کو ایسا ماحول فراہم کرے جو لوگوں کے لیے تزکیہ نفس کرنے کا باعث بنے اور لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف اور اٌس سے محبت کا جذبہ پیدا ہو۔مثال کہ طور پر شریعت اسلامیہ نے جہاں زانی کی سزا اٌسے ایک سوکوڑے مارنااورشادی شدہ ہونے کی صورت میں سنگسار کرنے کی صورت میں متعین کی ہے وہاں ریاست کو بھی اس چیز کا پابند بنایا ہے کہ وہ لوگوں کو ایسا ماحول فراہم کرے جو اٌنہیں جنسی ہیجان میں مبتلا ہونے سے روکے اور اٌن کے اندر تقوی کو مضبوط کرے اورجنسی لذت کے حصول کی انسانی جبلت کو پورا کرنے کے لیے نکاح کو آسان سے آسان بنایا جائے ، اب اگر ان تمام چیزوں کے باوجود بھی کوئی شخص زنا کا مرتکب ہوتا ہے تو پھر اسے مجمع میں کوڑے مارنے یا سنگسار کرنے کی سخت سزا دی جائیگی تا کہ لوگوں کو اس سے عبرت حاصل ہو۔

تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ منفعت و نقصان کی بنیاد پر جوں جوں جنسی مواد چھاپنے ، عریاں فلمیں بنانے، انہیں دکھلانے اور شخصی آزادی کے نام پر عریاں لباس پہننے اور غیر محرموں کے ساتھ ملاپ کی آزادی بڑھتی گئی ، اٌسی طرح جنسی زیادتی کے کیسوں میں اضافہ ہوتا گیا۔

کسی شے کو تخلیق کرنے والے سے بہتر اٌس شے کہ بارے میں کوئی نہیں جانتا لہذابنی نوع انسان کا خالق اللہ تبارک وتعا لیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ انسان کی جبلتوں اور عوضیاتی حاجات کو کس طر یقے سے منظم کرنا ہے،ویسے بھی جسمانی حاجات اور انسانی جبلتوں کو منظم کرنے کے بارے میں انسان کا فہم تفاوت ،اختلاف اور تضاد سے دو چار رہتا ہے ۔اس طرح انسان اپنے ارد گرد کے ماحول سے بھی متاثر ہوتا ہے لہذا اگر نظام کا بنا نا انسان پر چھوڑ دیا جائے تو اس نظام میں تفاوت ،اختلاف اور تضاد ہوگااور یہ انسان کی بدبختی کاسبب بن جائے گا،چناچہ نظام صرف وصرف اللہ ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے۔جب تک ہم اللہ رب العزت کی پاکیزہ شریعت کو اس پاک دھرتی پرنافذ نہیں کریں گے تب تک ہم یونہی معاشرتی برائیوں اور مسائل کی دلدل میں پھنسے رہیں گے اور نجانے کتنی معصوم پریاں حیوانیت کا شکار ہوتی رہیں گی۔
 

Mohammad Asad Saeed
About the Author: Mohammad Asad Saeed Read More Articles by Mohammad Asad Saeed: 2 Articles with 1615 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.