عید اور عوام

عید کے معنی خوشی و مسرت کے ہیں پورے رمضان مبارک میں روزے رکھنے کے بعد عیدالفطر کا تہوار عالم اسلام سمیت ہمارے ملک میں بھی نہائت عقیدت و احترام اور مذہبی جوش وخروش سے منایا جاتا ہے جس کے لئے ہر امیر و غریب خصوسی اہتمام کرتے ہوئے عید کی تیاریاں کرتے ہیں اس دفعہ عیدالفطر کی آمد پر پہلے جیسا جوش وخروش اور بازاروں میں خریداروں کا رش نظر نہیں آرہا ہے جس کی وجہ ہوشربا مہنگائی ہے ماہ جولائی میں مہنگائی کی شرح میں24فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ موجودہ حکومت حالیہ انتخابات میں لوڈ شیڈنگ، مہنگائی ،بیروزگاری میں کمی کے وعدوں سے برسر اقتدار میں آئی تھی عوام نے انہیں اپنے نجات دھندہ سمجھتے ہوئے ووٹ دئیے لیکن بدقسمتی سے دوماہ میں ہی عوام پچھتارہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے مسائل اتنے گھمبیر ہوچکے ہیں کہ وہ ایک دوماہ میں حل ہونے والے نہیں ہیں لیکن اس دوران کئے گئے فیصلوں کے نتائج بھی اتنے خوشگوار نہیں ہیں جن پر عوام مطمئن ہوجاتی بلکہ وہ تو اسے بھی سابقہ تسلسل ہی سمجھتی ہے اور پہلے سے بھی زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔جی ایس ٹی،پٹرولیم مصنوعات میں اضافے نے مہنگائی کا طوفان برپا کردیا ہے ابھی بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ اضافہ بھی ہونے جارہا ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ متوقع ہے جبکہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو عہدو پیمان کئے ہیں ان کا اثر بھی براہ راست غریب عوام پر ہی پڑنے جارہا ہے۔حکومت اگر ٹیکس نظام میں اصلاحات لاتی اوران امیر لوگوں کوٹیکس نیٹ ورک کے دائرے میں لے آتی جو خوشحال زندگی گزارنے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کر رہے تو زیادہ بہتر ہوتا لیکن انہوں نے بھی روائتی آسان طریقہ ہی استعمال کیا اور فوری طور پر بجٹ میں بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔رمضان المبارک میں پوری صوبائی حکومت سستا رمضان بازاروں میں ڈیوٹی دینے کے باوجود عوام کو معیاری اور سستی اشیا فراہم کرنے میں ناکام رہی جس کے نتیجے میں بازاروں میں خریدار نظر نہیں آرہا بلکہ ان کی قوت خرید جواب دے چکی ہے غریب ،مڈل کلاس اور سفید پوش طبقہ تو مہنگائی کے ہاتھوں بے بس نظر آرہا ہے رہی سہی کسر بارش اور سیلاب نے پوری کردی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ متاثرہوئے ہیں ان سے کوئی پوچھے کہ عید کا مطلب کیا ہے تووہ ہرگز اسے خوشی نہیں کہیں گے۔عید کے لئے نئے کپڑے اور جوتے وہ کہاں سے لیں گے ان سمیت دیگر کو تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ہمارے اعمال اور حکومتی پالیسیوں نے ہمارے تہواروں کو بھی خوشی و مسرت کی بجائے وبال جان میں تبدیل کردیا ہے عید سمیت دیگر اسلامی تہوار وں کی آمدعوام کو فکر اور پریشانی میں مبتلا کردیتی ہے اس کے لئے جو لوازمات پورے کرنے پڑتے ہیں ان کے لئے تو علیحدہ بجٹ چاہیے ہوتا ہے جس سے خود نہ سہی اپنے بچوں کو تو نئے کپڑے اور جوتے لے کردے سکیں ان حالات میں خاصا مشکل ہوگیا ہے اس کے باوجود کہ ہمارے ملک میں خیرات کرنے اور زکوٰۃ دینے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے وہ اپنی بساط کے مطابق غریب غربا میں راشن سے لے کر کپڑوں تک تقسیم کرتے ہیں لیکن بے برکتی اور نحوست اتنی ہے کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی اس صورتحال پر حکومت کواسلامی سکالرز اور علمائے کرام سے مشاورت کرکے اس کا حل نکالنا ہوگا اور صرف باتوں کی حد تک نہیں بلکہ حکومتی امور میں اسلامی شعائر کے مطابق سادگی اور کفائت شعاری کو فروغ دینے کے لیے تمام صلاحیتیں بروئے کارلائے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔
Ch Abdul Razzaq
About the Author: Ch Abdul Razzaq Read More Articles by Ch Abdul Razzaq: 27 Articles with 19580 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.