امام ابن تيمیہ (رح) کی شخصیت اور حقیقت

مولوی عبداللہ محمد سلفي شہید کی یاد داشتیں
مولوی عبداللہ محمد سلفي کی ولادت ۱۹۵۰ میں دیوبند میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی پھر ۱۹۷۰ میں مدینۃ المنور چلے گئے اس کے بعد۱۹۷۷ء میں جہادِ کشمیر میں حصہ لیا اور ۳ جون ۱۹۸۰ م میں ایک کاروائی کے دوران آپ کو بھارتی فوج نے گرفتار کرلیا۔ایک سال کے بعد۳۰ جون ۱۹۸۱ میں مجاہدین نے بڈگام جیل پر حملہ کرکے جن ۲۱قیدیوں کو رہا کروایا تھاان میں سے ایک آپ بھی تھے۔اس کے بعدجہادِ افغانستان میں شرکت کے لئے افغانستان چلے گئے اوروہاںمولانا شمس الحق افغانی مرحوم کے مدرسے میں درس و تدریس نیز جہادی سرگرمیوں میں مشغول ہو گئے۔دسمبر ۱۹۸۸ میں ایک بارودی سرنگ سے آپ کی گاڑی قندھار میں ٹکرائی اور آپ شہید ہوگئے۔آپ کی زندگی میں آپ نے کئی کتابچے شائع کئے لیکن آپ کا زیادہ تر کام عدمِ فرصت کی بناپر شائع نہ ہوسکا۔

اس وقت مولانا کا ایک مضمون قارئین کی خدمت میں پیش ہے جو انہوں نے کشمیر میں اپنی حراست کے دوران لکھا تھا۔اس مضمون کا عربی ترجمہ کئی سالوں تک مصر ،افغانستان اور شام میں شائع ہوتا رہا اورموضوع بحث بنا رہا اور اب برّ صغیر پاک و ہند کے باسیوں کے لئے اس کا اصل متن اردو میں بھی نذرِ قارئین ہے۔

امام ابن تيمیہ (رح) کی شخصیت اور حقیقت
مولوی عبداللہ محمد سلفي
ان پڑھ لوگوں کی غلطیاں معاشرے پر اتنا اثر نہیں کرتیں جتنا اثر پڑھے لکھے لوگوں کی غفلت اورغلطیاں اثر کرتی ہیں۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اپنے ظہور سے ہی دین اسلام جن فتنوں کے ساتھ نبرد ازما ہے ان میں سے ایک بڑا فتنہ قبر پرستی اور مردہ پرستی کاہے۔
مردہ پرستی کے خلاف جن لوگوں نے جہاد کیا ان میں سے ایک بڑا نام امام ابن تیمیہ[رح]کاہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ یہ شخصیت جتنی عالم اسلام میں محبوب ہے اتنی ہی مجہول بھی ۔دشمنوں کی سازشوں کے باعث لوگ ان کے مقام و مرتبے حتی کہ ان کی تاریخ کو بھی اچھی طرح نہیں سمجھ سکے۔ان کے مقام و منزلت کو جان بوجھ کر گھٹایاگیا اور ان کے خلاف فتوے بھی دئیے گئے۔
دارلعلوم دیوبند میں تعلیم کے دوران میں نے اس حقیقت کو کشف کیا کہ تاریخ میں ابن تیمیہ کے نام سے تین افراد مشہور ہیں اور نادانوں نے ان تینوںافراد کی تاریخ کو آپس میں مخلوط کردیاہے۔
بعد ازاں مدینہ یونیورسٹی میں قیام کے دوراناس وقت میری یہ تحقیق ٹھوس صورت اختیار کر گئی جب میں نے اس موضوع پر تھیسز لکھنے کا ارادہ کیااور مجھے قندھار،استنبول،جامعۃ الازہر،بغدا د،شام اور پاکستان جانے کا موقع ملا۔
وہ دن میرے لئے بہت خوشگوار تھا جب ۱۹۸۵میں مجھے مردِ مجاہد اور امام امت حضرت صدام رضی اللہ کی دست بوسی کا شرف حاصل ہوا۔یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب انہوں نے ایران کی رافضی حکومت کے خلاف غوروفکر کرنے کے لئے مسلمان دانشمندوں اور علماء کرام کو بغداد میں ایک کانفرنس میں دعوت دی تھی۔میں ان دنوں مدینہ یونیورسٹی میں تھا اور یونیورسٹی کی طرف سے یہ اعزاز مجھے نصیب ہوا۔
اگست ۱۹۸۵ء میں مجھے اپنی آٹھ دوستوں کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔۲۰ روزہ اس کانفرنس کے دوران مجھے امام امت حضرت صدام رضی اللہ کی سادگی اور انکساری کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔کانفرنس کے تیسرے دن میں نے جھجکتے ہوئے امام امت حضرت صدام رضی اللہ کو سلام کیا اور ان کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔بس یہیں سے وہ میرے دل میں اور میں ان کے دل میں اترتا گیا۔باتوں ہی باتوں میں، میں نے ان سے اپنے تھیسز کا ذکر کیا اور اپنی تحقیقات کو آگے بڑھانے میں مدد چاہی۔
امام امت نےحضرت ابن تيمیہ (رح) کی شخصیت کے بارے میں بہت عقیدت کا اظہار کیا اور مجھے خصوصی طور پر یہ کہا کہ میں جلد از جلد حضرت ابن تیمیہ کے بارے میں اپنی تحقیقا ت کو آگے بڑھاوں تاکہ سعودی عرب کی طرح حضرتابن تیمیہ کی تعلیمات کی روشنی میں فتنہ روافض اور قبر پرستوں کا مقابلہ کیاجائے۔
قارئین سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ ابن تیمیہ کے نام سے کونسے تین افراد مشہور ہیں۔
پہلے ابنِ تیمیہ ایک صحابی رسول ؐ تھے جو مدینے کے یہودیوں میں سے تھے اور ۲ھجری میں اسلام لائے ۔آپ کے بارے میں سنن النسائی کے مؤلف امام ابوعبدالرحمن النسائی رحمه الله (متوفی 303 ھجری) نے اپنی کتاب الھدایت میں فرمایاہے:
کان رجل اصلح و قُتل لشدتہ عملہ
وہ اصحاب کے درمیان اصلح کے نام سے مشہور تھے اور وہ انتہائی باعمل انسان تھے اور انہیں اسی عمل کی شدت کے باعث قتل کیا گیا۔
ان کے قتل کی تفصیلات '' الابانه الکبری '' کے مصنف ، امام حافظ ، شیخ السنه ابونصر الجزیالوائلی(حنفی ) رحمه الله (متوفی 444ھجری﴾نے اپنی کتاب "الثورۃ التوحیدیہ " میں لکھاہے کہ ایک شب یہودیوں نے آنحضرت محمد رسول اللہ ؐ کو اپنے ہاں مذاکرات کی دعوت دی ۔حضورؐ وہاں چلے گئے تو فرشتے نے آپ کو آگاہ کیا کہ یہودی آپ کو قتل کرنا چاہتے ہیں ۔ حضورؐ فوری طور پر واپس پلٹ آئے اور جب حضورؐ نے صحابہ کرام کو یہودیوں کی اس منافقت کی خبر دی تو حضرت ابنِ تیمیہ  یہ سن کر شدتِ غضب سے روپڑے۔
رات کے وقت حضرت ابنِ تیمیہ یہودیوں کی طرف انہیں ہدایت کرنے گئے لیکن وہ پہلے ہی سے سیخ پا تھے سو انہوں نے حضرت ابنِ تیمیہ کو پے در پے وار کرکے شہید کردیا۔
یہ واقعہ احادیث کی کتابوں میں مختلف انداز میں نقل ہواہے لیکن حضرت ابنِ تیمیہ کا نام ذکر نہیں ہوا۔جبکہ قدیم تاریخی کتابوں خصوصا خطّی نسخوں میں اسی طرح رقم ہے جیسا کہ ہم نے لکھاہے۔
اب یہاں پر کچھ قابل توجہ باتیں ہیں:
چونکہ حضرت ابنِ تیمیہ کا نام احادیث کی کتابوں میں نہیں آیا شاید اسی وجہ سے ۵۰۰ھ کے بعد کی کتابوں میں ان کا ذکر بالکل حذف ہوگیاہے سوائے چند ایک کتابوں کے۔ان چند ایک کتابوں میں سے کچھ کے نام مندرجہ زیل ہیں۔
حسن الاعمال :حضرت شاہ اسماعیل شہید
راہِ بہشت : حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری
یہود فی القرآن :جمال الدین افغانی
الصوت الاسلام: حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ
ان کے نام کے حذف ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چونکہ وہ عہدِ نبوی ص میں تھے اور ان کی کوئی تالیف یا تصنیف بھی نہیں ہے چنانچہ بدیہی ہے کہ مرورِ زماں کے ساتھ ان کا نام عام لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوگیاہو۔البتہ علماء کرام کے ہاں ان کانام ہمیشہ زندہ رہااور یہ جو سلفِ صالحین کی پیروی کی بات کی جاتی ہے یہ انہی حضرت امام ابنِ تیمیہ کی وجہ سے ہی کی جاتی ہے۔ہمارے اس دعوے کی تصدیق حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسمعیل شہید کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ "ما از امام ابن تیمیہ شہید پیروی می کنیم " لفظِ شہید کے استعمال سے صاف ظاہر ہے کہ شاہ اسماعیل شہید صحابی رسول ابنِ تیمیہ  کا ذکر کررہے ہیں۔
قارئین جانتے ہی ہونگے کہ شاہ اسمعیل شہید حضرت شاہ ولی اللہ کے چوتھے بیٹے شاہ عبدالغنی کی اولاد تھے۔آپ نے پہلے حسن الاعما ل لکھی اور اسی میں یہ بھی لکھا کہ "برائ شہدا امام و راہِ روشن امام ابن تیمیہ شہید است کہ مثل ابوزر زندگی کرد و مانند حضرت عمر شہید شد" و در صدر اسلام کشتہ شد او اولین نفر بود کہ ۔۔۔"۔
حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری نے راہِ بہشت میں لکھا ہے کہ"نحن نعتقد ان نعمل کما عمل السید الامام ابن تیمیہ شہید و کما قال السید اسماعیل شہید"
ہمارا عقیدہ ہے کہ ہمیں ویسے ہی عمل کرناہے جیسے ہمارے امام ابن تیمیہ شہید نے کیا اور اور جیسے ہمارے سردار اسماعیل شہید نے کہاہے۔
جمال الدین افغانی نے بھی لکھاہے کہ یہود یوں کے ہاتھوں منافقت سے مارے جانے والے پہلے شہید امام ابن تیمیہ ہیں۔
اسی طرح عروۃ الوثقیٰ کے ایک شمارے میں بھی جمال الدین افغانی نے یہی عبارت لکھی ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی وفات سے چار سال پہلے " الصوت الاسلام" لکھی تو اس میں لکھا کہ طلوعِ اسلام کے بعد ہمارے سلفِ صالحین کے درمیان امام ابنِ تیمیہ شہید ایک چمکتے ہوئے سورج کی مانند ہیں اور ہم انشااللہ انہی کی راہ پر گامزن ہیں۔
مذکورہ بالا حوالوں سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ایک ابن تیمیہ وہ ہیں جو کہ صدر اسلام کے شہدا میں سے ہیں اور علماء سلف ان کو اپنا امام و پیشوا گردانتے تھے نیز ان کی کوئی تصنیف یا تالیف نہیں ہے۔
اپ آئیے تاریخ کے دوسرے ابن تیمیہ کے حالات ملاحظہ کرتے ہیں جو اپنے زمانے کے مجدد اور مولف و مصنف اور مفتی دین ہیں۔
اگرچہ امام ابن تیمیہ کومتنازع گرداناجاتا ہے ‘جب کہ سچ یہ ہے کہ ان کاعقیدہ نہایت اعتدال اور حق و سچ پرمبنی ہے۔آپ کا اصلی نام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم حرانی تھا اورآپ ابن تیمیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے مشہور ومعروف حنبلی علماء میں سے ہیں۔
آپ نےمسلمانوں کو تقلید اوراندھے پن سے نجات دلائی لیکن کچھ عقل کے اندھوں نے آپ کی ہی تقلید کرنے کا اعلان کردیا۔بالکل ایسے ہی جیسے حضرت محمد رسول اللہ ص نے لوگوں کو شرک سے نجات دلائی لیکن کچھ نادانوں نے آپ کی قبر کو ہی کعبہ بنالیاہے۔
امام ابن تیمیہ پیری مریدی اور تقلید وا مامت و رہبری جیسے ڈھکوسلوں سے سخت بیزار تھے ۔آپ نے غلامی اور شرک کی ان ساری صورتوں کو غلط قرار دیا ۔آپ وہ پہلے عالمِ دین ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو صرف اور صرف اللہ تعالی کی بندگی کرنے کی نصیحت کی۔چنانچہ کچھ نے تو آپ کو کافر قرار دیا اور کچھ نے آپ کی بات کو سمجھا ہی نہیں اور الٹا آپ کو اپنا امام و رہبر اور پیشوا کہنا شروع کردیا۔
حالانکہ آپ نے کئی مقامات پر صراحتا کہاہے کہ یہ سب جھوٹے امام اور پیشوا اور پیر وغیرہ لعنتی اور جہنمی ہیں۔ سب سے قدیم اور پرانی کتاب جس میں ابن تیمیہ کے حالات کو تفصیل کے ساتھ لکھا گیاہے وہ ابن کثیرکی کتاب البدایہ و النہایہ ہے۔ابنِ کثیر سے بھی یہ غلطی سر زد ہوئی ہے کہ اس نے بھی حضرت ابن تیمیہ کی تعلیمات کے خلاف ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے یعنی غلو سے کام لیاہے۔اسی طرح صلاح الدین صفدی نے اپنی کتاب الوافی بالوفیات میں ، ابن شاکر نے فوات الوفیات میں اور ذہنی نے اپنی کتاب تذکرٰۃ الحفاظ میں اس کفر و شرک کاارتکاب کیاہے جس کے خلاف حضرت ابن تیمیہ  نے ساری عمر جہاد کیا تھا۔
دین اسلام کے مجدد حضرت ابن تیمیہ نے خود بھی امام ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی اسلام کے اندر کسی نئے فرقے کی ایجاد کی کوشش کی ۔وہ لوگ جو حضرت ابنِ تیمیہکو کسی مکتب کا بانی قرار دیتے ہیں یہ سب ان کی اپنی جہالت پر مبنی ہے ۔جیسا کہ بعض لوگ حضرت علی کو خدا کہتے ہیں تو ایسا کہنا خود ان لوگوں کی اپنی جہالت و حماقت ہے۔حضرت ابن تیمیہ کا مقصد اصلاح امت تھا نہ کہ کسی فرقے کی بنیاد ڈالنا۔
اب تک کی بحث سے پتہ چلتاہے کہ ساتویں اور آٹھویں صدی میں پیدا ہونے والے حضرت تیمیہ مصنف و مولف اور مجدد اسلام تھے لیکن آپ نے کسی فرقے کی بنیاد نہیں ڈالی البتہ کچھ احمق اور نادان لوگوں نے جھوٹ بول بول کر اپنے آپ کو ان حضرت سے منسوب کرلیاہے۔
تیسرا ابنِ تیمیہ وہ ہے جو کہ فری میسن تھا اوریہ مجددِ اسلام حضرت ابن تیمیہ کا ہم عصر تھا۔یہ اسی زمانے میںمسلمانوں کو بگاڑنے میں مصروف تھا جب حضرت ابن تیمیہ،ملت اسلامیہ کو سدھارنے کی کوشش کررہے تھے ۔ جس کا تذکرہ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں کیا ہے۔ ابن بطوطہ نے لکھاہے کہ میں شام میں جمعے کے دن اُن کے ہاں حاضر ہوا وہ مسجد جامع کے منبر پر لوگوں سے وعظ ونصیحت فرمارہے تھے من جملہ دیگر باتوں کے انہوں نے کہا اللہ تعالٰی آسمان سے میرے اس نزول (اترنے) کی طرح نزول فرماتا ہے یہ کہہ کر وہ منبر کی سیڑھیوں میں سے ایک سیڑھی نیچے اُترے ایک مالکی فقیہہ جو ابن الزاہر کے نام سے معروف تھے انہوں نے ابن تیمیہ سے اختلاف کیا اور اس بات کا انکار کیا عوام اس فقیہ کے ساتھ ہوگئے اور ابن تیمیہ کی ہاتھوں اور جوتوں سے سخت پٹائی کی یہاں تک کے اُس کا عمامہ گر گیا۔
اس عبارت سے پتہ چلتاہے کہ اس زمانے کے لوگ بھی اس کو پہچانتے تھے اور اس کی جوتوں سے پٹائی کرتے تھے لیکن فری میسن ہونے کی وجہ سے اور یہودیوں کی پشت پناہی کے باعث وہ مسلمانوں کے درمیان اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوچکا تھا۔چنانچہ وہ علما ءیہود سے جھوٹے مناظرے بھی کیاکرتا تھا ۔ان جھوٹے مناظروں میں یہودی جان بوجھ کر ابن تیمیہ سے ہار جاتے تھے اور یون ابن تیمیہ مسلمانوں کے درمیان پہلے سے زیادہ مشہور ہو جاتا تھا۔
اس ابنِ تیمیہ سے یہودیوں نے یہ کام لیا کہ مجدد اسلام ابنِ تیمیہ کی کتابوں میں بہت کچھ فتنہ انگیز چیزیں اس نے شامل کر دیں۔اس کے بارے میں عبداللہ بن اسعد یافعی نے مرآۃ الجنان میں ، تقی الدین سبکی نے شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام اور درۃالمفیدۃ فی الرد علی ابن تیمیہ میں ، ابن حجر مکی نے کتاب جوھر المنظم فی زیارۃ قبر النبی المکرم اور الدرر الکامنہ فی اعیان الماۃ الثامنہ میں ، عزالدین بن جماعہ اور ابو حیان ظاہر اندلسی ، کمال الدین زملکانی نے کتاب الدرۃ المضیئۃفی الرد علی ابن تیمیہ اورحاج خلیفہ نے کشف الظنون میں بہت عجیب و غریب باتیں لکھی ہیں۔
ان کتابوں کے مطالعے سےپتہ چلتاہے کہ یہ لعنتی شخص ، مجددِ اسلام ابن تیمیہ کی کتابیں اپنے ہمراہ لے کر بلادِ اسلامیہ کے دورے کرتا تھا اور یہود یوں کے پیسوں سے مختلف جگہوں پر اس نے مدرسے قائم کئے اور بعد ازاں اس نے حضرت ابن تیمیہ کی کتابوں کی تدریس کے دوران مسلمانوں میں اختلافات ڈالنے کے لئے اپنے نظریات کو مخلوط کر کے بیان کرنا شروع کردیا۔پھر اس نے خود کو ہی مجدد اسلام کہنا شروع کردیا اور اس کے شاگردوں نے اسے شیخ الاسلام اور محدث و مفسّر بنا کر پیش کیا۔اس کا سارا ہم و غم مسلمانوں میں فرقہ واریت ڈال کر انہیں یہودیوں کے مقابلے میں کمزور کرنا تھا۔اس نے ناصبیت کو مجدد اسلام کے نظریات میں شامل کیا اور شفاعت و توسّل کا مطلقا انکار کیا۔جبکہ اصلی مجدد اسلام ابن تیمیہ، حضرت محمد رسول اللہ ص اور ان کی آل کے بھی محب ہیں اور شفاعت و توسّل کے بھی قائل ہیں۔
المختصر یہ کہ آج جتنے اختلافات بھی ہم مسلمانوں میں دیکھ رہے ہیں ان کی بنیاد اسی یہودیوں کے جاسوس اور ایجنٹ ابنِ تیمیہ کی تعلیمات کا نتیجہ ہیں۔اس جاسوس نے مجدد اسلام حضرت ابنِ تیمیہ کی کتابوں کو لے کر ان میں بہت ساری چیزوں کا اضافہ کیا اور بہت ساری چیزوں کو حذف کر کے لاکھوں کی تعداد میں چھپوایا،تقسیم کیا اپنے مدارس میں طالبعلموں کو وہ کتابیں پڑھائیں اور یوں باطل حق کے ساتھ مل گیا۔
ابھی بھی سعودی عرب سمیت دنیاکے مختلف ممالک میں اس کے شاگرد اور پیروکارموجود ہیں جو اصلی مجدد اسلام ابن تیمیہ کی کتابوں کے ساتھ اپنے نظریات ملاکر لوگوں میں پھیلاتے ہیں اور بعض تو بغیر تحقیق کے ہی یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں کہ یہودیوں کے جاسوس نے حضرت ابنِ تیمیہ کی کتابوں میں حذف و اضافہ کیا ہے۔
میرے مخلص اور کھرے مجاہدین اسلام اور مسلمان بھائی بہنو جب احادیث میں اسرائیلیات کا وجود ہے تو حضرت ابنِ تیمیہ کی کتابوں میں کیوں ممکن نہیں۔ہمیں دماغوں کو کھول کر بات کرنی چاہیے اور دل کو کھول کر تحقیق کرنی چاہیے۔
ہم اگر تھوڑی سی بھی توجہ اور دقت کریں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ مجدد اسلام حضرت ابنِ تیمیہ اور یہودیوں کے جاسوس ابنِ تیمیہ کے قلم میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔مجددِ اسلام ابنِ تیمیہ کا قلم علمی اور سلیس ہے جبکہ یہودیوں کے جاسوس ابنِ تیمیہ کا قلم سخت ،غیر علمی اور عامیانہ ہے۔یہ فرق آپ کو خطّی نسخوں کے مطالعے سے آسانی کے ساتھ معلوم ہوجائے گا۔اوّل تو خطّی نسخوں میں بہت کم تحریف ہوئی ہے اور جہاں پر ہوئی ہے وہاں خط کی تبدیلی یا رگڑ وغیرہ کی وجہ سے فرق نمایاں ہے۔
مثال کے طور پر مجددِ اسلام حضرت ابن تیمیہ نے قبور کی زیارات کے بارے میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ مرحومین کو اللہ کی طرح زندہ سمجھنا،انہیں اللہ کی طرح حاضر و ناضر جاننا اور ان سے ایسے ہی مدد مانگنا جیسا کہ اللہ سے مدد مانگی جاتی ہے یہ سب کفر اور شرک ہےاور اس نیت سے قبور پر جانے والا بمنزلہ کافر و مشرک ہے۔
میں نےاسی کتابخانے میں یہی کتاب چھاپ شدہ صورت میں دیکھی تو اس میں باقی عبارت کو حذف کردیا گیا تھا اور صرف یہ لکھا ہوا تھا کہ "مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہقبور پر جانے والا بمنزلہ کافر و مشرک ہے۔"
آپ دونوں عبارتوں کو سامنے رکھ کر دیکھ لیں ،اصلی عبارت سے دنیا کا ہر مسلمان اتفاق کرتاہے جبکہ جاسوس کے ہاتھوں حذف شدہ عبارت کا مقصد دنیا کے ہر مسلمان کو کافر و مشرک قرار دیناہے اور مسلمانوں کے درمیان جنگ کی آگ کو بھڑکاناہے۔
اس طرح کا بہت سارا فرق میں نے منهاج السنة النبویة سمیت دیگر کتابوں


توحید الالوهیة
قاعدة جلیلة فی التوسل و الوسیلة
الاربعین التی رواها شیخ الاسلام بالسند
الاکلیل فی المتشابه والتأویل
التبیان فی نزول القرآن
الرساله الاکملیه
الرساله العرشیة
القاعدة المراکشیة
رسالة الی اهل البحرین فی رؤیة الکفار ربهم
رسالة ایضاح الدلالة فی عموم الرسالة
رسالة فی أمراض القلوب وشفاؤها
میں بھی پایاہے،استادوں اور علماء کرام سے بات کی ہے اورعوام النّاس کو بھی آگاہ کررہاہوں کہ اپنی عاقبت کی فکر کریں اوراندھادھند لوگوں کی باتوں پر نہ چلیں۔
کتابیں چھاپنا کوئی دین کی خدمت نہیں ہے بلکہ سچّی اور حقیقی کتابیں چھاپنا دین کی خدمت ہے۔اس وقت ابنِ تیمیہ نامی یہودی جاسوس کی کتابیں اور سازشیں دین میں تفرقے اور اختلافات کا باعث بن رہی ہیں۔امت کی کمر ٹوٹ رہی ہے لہذا کتابوں کو چھاپنے سے پہلے ان کے اصل نسخوں کی طرف رجوع کریں اور مجددِ اسلام حضرت ابنِ تیمیہ کی اصل کتابیں اور افکار منظرِ عام پر لائیں۔
آپ مجدد اسلام حضرت ابن تیمیہ کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو صاف پتہ چل جائے گا کہ کہاں کہاں پر ملاوٹ کی گئی ہے۔اس وقت مسلمانوں کی اکثریت کو یہودیت کے فنڈز سے ابنِ تیمیہ یہودی جاسوس کے افکار سے آشنا کیا جارہاہے،تحریف شدہ کتابیں دھڑا دھڑ کتابیں چھاپی جارہی ہیں اور مدارس میں پڑھائی جارہی ہیں اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جو اپنے آپ کو مجدد اسلام حضرت ابن تیمیہ کی پیروکار سمجھتی ہے وہ لاعلمی میں یہودی جاسوس کی تعلیمات کو بھی فالو کررہی ہے۔
مجھے صاف دکھائی دے رہاہے کہ اگر فری میسن ابنِ تیمیہ کی سازشوں کو بے نقاب نہ کیاگیااور سچ کوجھوٹ سے الگ نہ کیاگیاتو آگے چل کر مسلمانوں میں سخت اختلافات رونما ہونگے اورمسلمانوں کے درمیان خوارج اور یاجوج ماجوج کی شکل میں ایک ایسا گروہ نکلے گا جو امّت مسلمہ کے تصور اور اتحاد اسلام کو ہی مٹا ڈالے گا۔یہ گروہ چونکہ یہودیوں کے جاسوس ابنِ تیمیہ کی تعلیمات پر چلے گا تو صاف ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ یہودیوں کو ہی پہنچے گا اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو پھر جہادِ افغانستان ، مسئلہ کشمیر اور فلسطین کی آزادی سمیت دنیا بھر میں اسلامی محازوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑے گا۔
خدا ہم سب کو آنکھیں کھول کرفراخدلی کے ساتھ دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
مولوی عبداللہ محمد سلفي ۔۱۱ اگست ۱۹۸۸۔حال مقیم افغانستان
مولوی عبداللہ محمد سلفي
About the Author: مولوی عبداللہ محمد سلفي Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.