ضرورتِ تبدیلی

تبدیلی کے نعروں کی آوازیں جو گزشتہ مھینوں بڑے زوروشور سے سنائ دے رھی تھیں اب وہ تھم چکی ھیں تو کیا تبدیلی آچکی ھے یا اب ھمیں تبدیلی کی ضرورت نھیں رھی۔تبدیلی کیا ھمارے لیے محض نعرہ تھی یا ضرورت۔۔اگر یہ نعرہ تھا تو سمجھ آتا ھے کہ اس نعرے کی میعاد ختم ھو چکی ھو گی لیکن اگر یہ ضرورت تھی تو کس کی ایک حکومت کی یا پھر قوم کی ۔اگر ضرورت تبدیلی حکومت کی تھی تو پھر ھم مبارکباد کے مستحق ھیں کہ جیسے تیسے کر کے تبدیلی آچکی ھے اور اس تبدیلی سے کچھ نہ کچھ اثرات تو ھماری معیشت اور پالیسیوں وغیرہ پر پڑیں گےمگر کیا بحیثیت قوم ھمیں تبدیلی کی ضرورت نھیں یا ھم اس سے مبرا ھیں کیا قوم کے کسی فرد نے اپنی پالیسیوں کو بدلنے کی ضرورت محسوس کی یا ھم ابھی بھی اسی ڈ گر پر چل رھے ھیں یا پھر ھم ایک مھذب شھری بن گئے ھیں۔ کیا ھم نے سگنل توڑنا،،گاڑیوں کو اوور ٹیک کرنا،سڑک پر کوڑا پھینکنا،نو پارکنگ پر گاڑیاں کھڑی کرنا چھوڑدیا ھے،کیا ھم نے رشوت دینا چھو ڑدی ھے۔اگر یہ تبدیلیاں اب تک ھم میں نھیں آسکیں تو کیسے ھم اپنے ملک کو خوشحال اور پر امن دیکھنے کی توقع کر سکتے ھیں۔ جھاں کے لوگ زرا سی بات پر دست و گریباں ھو جائیں اور امید رکھیں کہ نئی حکومت ملک کو پر امن بنا دیگی جھاں کی معیشت کا پھیہ بھت تیزی سے گھومنے لگے گا اور ھمیں ترقی کرنے سے کوئی نھیں روک سکے گا۔۔مگر ھم یہ بھول جاتے ھیں کہ اپنے ملک کی املاک کو جلانے والے اور ھڑتالیں کامیاب کرا کر معیشت کا نقصان کرانے والے ھم ھی ھیں اور اس ملک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بھی ھم سے ھی ھے۔جھاں پولیو ورکرز کو سرعام مار دیا جاتا ھے،ھم چپ رھتے ھیں اور امید صحتمند معاشرے کی کرتے ھیں۔جھاں طا لبات کو صرف تعلیم حاصل کرنے کی بناء پر دھشتگردی کا نشانہ بنایا جاتا ھے اور امید ھم باشعورمعاشرے کی کرتے ھیں۔جھاں چند روپوں کی بچت کے لئے ناقص سلینڈر گاڑیوں میں لگا کر کئی معصوم بچوں کی جانوں کو جوکھم میں ڈال دیا جاتا ھے اور کئی حادثے کا شکار ھو جاتے ھیں۔جھاں کئی معصوموں کی جانیں چند کاغذ کے ٹکڑوں کے عوض لے لی جاتی ھیں اور امید روشن مستقبل کی کی جاتی ھے۔جھاں بانی پاکستان کی آخری رھائش گاہ کو جلا دیا جاتا ھے اور ھم خاموش تماشائی بنے رھتے ھیں۔

ھم ھمیشہ تبدیلی کا لفظ سنتے ھی دوسروں کو تبدیل کرنے چل پڑتے ھیں اور یہ بھول جاتے ھیں کہ دوسروں کو تبدیل کرنے سے پھلے اپنے آپکو تبدیل کرنا ضروری ھے کیونکہ تبدیلی ھمیشہ فرد واحد سے آتی ھے اور وہ فرد واحد ھم بزات خود ھوتے ھیں نہ کہ دوسرے اگر ھم نے “امید سحر“کی خواھش رکھنی ھے تہہ اس امید کو روشن کرنے کا دیا اپنے گھر سے ھی جلانا ھوگا،تبدیلی جبھی ممکن ھے۔
S.Zehra Urooj Gillani
About the Author: S.Zehra Urooj Gillani Read More Articles by S.Zehra Urooj Gillani: 2 Articles with 1403 views Exploring myself.. View More