اصل مسئلہ

ہم اپنی اخلاقی پستیوں کی بھی ابتر حالت میں ہیں جبکہ شخصیت پرستی کا شرک عام ہوچکا ہے۔ زنا کو ـ"نعوذباﷲ" معمولی جانتے ہیں۔ سود خوری اور غلامی سے نکلنا نہیں چاہتے جبکہ دوسری طرف سیاسی امنگیں اپنے عروج پر ہیں ہر مذہبی اور سیاسی شعبدہ بازرہنماء اپنے چنگل سے کسی کو نکلنے نہیں دیتے اور لوگ بھی اپنے آپ کو اس صورتحال سے الگ نہیں کرتے۔ یہ لوگ اخلاقی تعمیر اور افراد کی ا صلاح کی کوئی بات نہیں کرتے ۔ ہر طرف ظاہری نمودونمائش کا چرچا ہے۔ ملاوٹ ، کرپشن، ناجائز منافع خوری، منافقت، مذہبی نفرت اور سب سے بڑھ کر جھوٹ ہمارے اصل مسائل ہیں مگر یہ نام نہاد ہمیں صرف یہ سمجھا رہے ہیں کہ ساری خرابی عالمی سازشوں کی وجہ ہے جبکہ اپنے آپ کو کوئی بھی ٹھیک کرنے کو تیار نہیں۔ان میں سے ہر ایک موضوع تفصیل طلب ہے لیکن مشاہدے کی بنا پرجو سب کی جڑ ہے اسی پر سوچتے اور سمجھتے ہیں۔

ہم اپنے آپ کو جھوٹ کے سہارے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہوہم جھوٹ بولنے سے نہیں چوکتے جبکہ تمام برائیوں کی جڑ اسی کو قرار دیا گیا ہے۔ حدیث پاک میں آیا ہے! آپ ﷺ نے فرمایا!تم جھوٹ سے بچو جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور جب آدمی جھوٹ بولتا رہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش میں رہے تو اسے اﷲ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔(بخاری شریف)

اب ذرا ان مواقع کی طرف بھی نظر کیجیے جب جب ہم ازراہ مذاق بات کرتے ہیں لیکن جھوٹ کے زمرے میں آتی ہے مثلاً کسی مہمان کے آنے پر کہنا کہ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی جبکہ دل میں ناگواری کی کیفیت موجود تھی، بیوی اپنے پیسوں سی خریداری کرے اور کہے کہ ماں نے لے کر دیے ہیں، موبائل پر بات کرنے کو جی نہ چاہ رہا ہو لیکن کہہ دینا کہ آواز نہیں آرہی ، خریدے ہوئے کپڑوں کی قیمت زیادہ بتانا جبکہ آپ نے اسے بیچنا نہیں ہوتا ، کسی سے مانگ کر زیورات پہننا اور کہہ دینا ابھی ابھی خریدے ہیں، یہاں تک کہ حجاج کرام اپنے ہی ملک سے خرید کر یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں مکہ سے خریداری کی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فلاں سیاست دان تو ایسا ہے ویسا ہے لیکن ووٹ اسے ہی دینا کہ ذاتی مفادات لینے ہیں۔اس طرح تو کبھی بھی معاشرہ تبدیل نہیں ہو تا۔پس اس کا بڑا سادہ سا حل ہے اگر اپنا ؤ تو سب کچھ تبدیل ہوسکتا ہے ۔۔ اس کے لیے ایک چھوٹی سی کہانی پر غور کیجیے اور سمجھیے!

ایک کسان کے کھیت کے بالکل بیچوں بیچ ایک پرانا سوکھا ہوا درخت لگا ہوا تھا ۔ جس پر ایک طوطا اور مینا نے اپنے بچوں کے ساتھ رہنے کیلیے گھونسلہ بنا رکھا تھا۔ ایک دن طوطا دن بھر خوراک اکٹھی کر کے واپس آیا تو مینا کو فکر مند پایا ۔ مینا اسے کہنے لگی ! آج کسان کھیت میں آیا تھا اور اپنے ساتھ آئے گاؤں کے لوگوں کو کہہ رہا تھا کہ کل یہ درخت کاٹ دینا ۔ میں پریشان ہوں ہمارے گھرکا کیا بنے گا اور ہم کہاں جائیں گے؟ طوطا بڑی بے فکری سے بولا ! تم فکر نہ کرو یہ درخت نہیں کٹے گا۔ اس بات کو مہینے گزر جاتے ہیں مگر درخت اپنی جگہ قائم رہتا ہے اور مینا یہ بات تک بھول جاتی ہے ۔کافی عرصے بعد پھر وہی واقعہ ہوا اور مینا نے پریشانی کا اظہار اس طرح کیا! آج کسان اپنے بیٹوں سے کہہ رہا تھاکل یہ درخت کاٹ دینا۔۔۔ اس مرتبہ بھی طوطے نے مینا سے کہا تم بے فکر ہو جاؤ یہ درخت نہیں کٹے گا۔ مینا بیچاری مرتی کیا نہ کرتی خاموش ہو گئی یہاں تک کہ اس بات کو بھی عرصہ گزر گیا اور وہ درخت اپنی جگہ موجود رہا۔وقت نے مینا کو بھلا دیا کہ کوئی ایسی بات تک ہوئی تھی ۔ اب کے یہ تیسری بار تھی کہ جب طوطا واپس آیا تو مینا کو پریشانی میں پایا۔ اس پر مینا نے واویلا کیا کہ آج کسان اپنے بیٹوں سے کہہ رہا تھا۔صبح میں یہ درخت کاٹ دوں گا ۔ بہت پرانا اور خستہ حال ہوگیا ہے۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب طوطے نے پریشانی کے عالم میں کہا ! کل یہ درخت کٹ جائے گا۔ میں نئے ٹھکانے کی تلاش میں نکلتا ہوں۔ اگلے دن وہ درخت کٹ چکا تھا۔

یقیناہم سمجھ چکے ہوں گے کہ ایسا کیوں ہوا لہذا ہمیں اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہے تو جو کرنا ہے خود کرنا ہے جب تک ہم اپنا کام دوسروں پے ڈالتے رہیں گے وہ کام کبھی نہیں ہو گا اور زندگی کے ہر شعبے میں سچ اور صرف سچ بولنا ہو گااور دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا بند کرنا ہوگااپنے رویے میں تبدیلی ہی اصل تبدیلی ہے ورنہ بے منزل مسافر کی طرح بھٹکنا ہمارا مقدر رہے گا۔
آپ کی آراء کا شدت سے منتظر۔عاطف عمران
atifimran1
About the Author: atifimran1 Read More Articles by atifimran1: 10 Articles with 15125 views Mr. Atif Imran is highly experienced in professional development of teachers, principals and administrators. He is working as an Academic Consultant a.. View More