تحریک بیداری ایک الہی و تاریخی ضرورت

بیداری ایک ایسی چیز ہے جس کو علما ء کرام نے انسان کے اسلامی ،ایمانی ،انفرادی اور اجتماعی سفر کی بنیاد اور پہلی سیڑھی قرار دیا ہے ۔عربی میں بیداری کو یقظہ اور صحوہ کہتے ہیں جبکہ اردو میں لفظ بیداری جاگنے ، چوکنا ،خبردار اور ہوشیار رہنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔غفلت ،بے توجہی اور بے حسی اس کے متضاد الفاظ میں سے ہیں ۔

رہبر معظم انقلاب نے اسلامی بیداری کو تجدید حیات اسلام و مسلمین قرار دیا ہے ۔اگرچہ شروع سے ہی رہبر انقلاب بہت عظیم بیدار گر تھے لیکن آپ نے بھی آخری چند سالوں میں خصوصی طور پر بیداری کی تحریک شروع کی اور پورے عالم سے عموما اور عالم اسلام سے خصوصا امت مصطفی کے مختلف طبقات مثلا علما ء ،دانشوران ، اساتید ، پروفیسرز، ڈاکٹر ز ،اسٹوڈنٹس ،جوانان ،خواتین او ر فعال لوگوں جدا گانہ طور پر دعوت دے کر عالمی کانفرنسز کا انعقاد کیا اور اس میں باقاعدہ طور پر بیداری کی تاریخ ،عوامل و اسباب ،آفات ومشکلات اور اس کے اہداف و مقاصد کے بارے میں گفتگو فرمائی۔

الہی دین کی تحریک کا آغاز و انجام تو عظیم اور بے مثال ہے لیکن درمیانی عرصےمیں اسلام و مسلمانوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے ۔وفات رسول اکرمﷺ کے بعد سے دین و سیاست کی جدائی کا سلسلہ شروع ہو گیا اگرچہ تمام زمانوں میں حکومت اور اقتدار دین کے نام سے ہی حاصل کیاگیا اور کسی نے نہیں کہا کہ حکومت کا دین سے کیا تعلق ؟بلکہ سب قبول کر لیتے تھے ۔یہ بات اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ عام عوام کے اندر اس قسم کا کوئی انحراف موجود نہیں تھا۔یہ کچھ خواص تھے کہ جو عملی میدان میں اپنے مفادات کی خاطر اس انحراف کا شکار ہوتے رہے ۔بعض علماءکا ان منحرف اور طاغوتی حکومتوں میں شریک ہونا ایک مجبوری او ر ضرورت ہوتی تھی جس کی وجہ امت کا میدان میں نہ ہونا وغیرہ تھی وگرنہ وہ ظالم و فاسد نظاموں میں دخول کواپنے لیے ننگ و عار سمجھتے تھے۔

بہر حال پیغمبر اکرم ﷺکی وفات کے بعد چند صدیوں تک اگرچہ نام نہاد ہی سہی لیکن ایک حد تک مسلمان اپنے تمدن ،ثقافت ،علوم و فنون اور اجتماعیات میں اظہار وجود کرتے تھے لیکن آخری کئی صدیوں سے مسلمانوں کا وہ عروج نہیں رہابلکہ سقوط و زوال کی حالت رہی اور اسلام ناب محمدی اتنی ساری مدت کتابوں اور علما ء کے سینوں کی زینت بنا رہا۔

امام خمینی منشور روحانیت کے عنوان سے ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب دشمنان اسلام نے دین و سیاست کی جدائی کا پروپیگنڈا کیا تو مسلمانوں نے غفلت اور بے توجہی کا مظاہرہ کیا اورحتی علما ء نےبھی اس پر منفی رد عمل دکھانے کے بجائے اس کو اپنا نظریہ اور ایمان بنا لیا حالانکہ اسلام ایک سیاسی و اجتماعی دین ہے ۔جس کی ابتدا مدینہ میں خاتم الرسل کی سیاست وحکومت سے ہوئی او ر انتہا خاتم الآئمہ کی عالمی حکومت پر ہوگی ۔امام علی نقی ؑفرماتے ہیں : اہل بیت اطہار ساسۃ العباد یعنی لوگوں کے سیاستدان اور سیاسی لیڈر و پیشوا ہیں۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کی عبادت بھی سیاست ہے ۔اسی طرح آیت اللہ سید حسن مدرس فرماتےہیں:ہماری سیاست عین دین اور ہمارا دین عین سیاست ہے۔

اسی نکتے کی طرف گزشتہ صدی میں سید جمال الدین افغانی اور علامہ اقبال جیسے دین شناس ، درد مند اور با بصیرت مفکر اور مصلحوں نے توجہ دلائی اورکئی صدیوں بعد اسلامی بیداری کابابرکت سلسلہ شروع کیا۔ عروہ الوثقی جیسے عظیم فکری ،علمی اور انقلابی رسالے کے ذریعے امت مسلمہ کو بیدار کیا اور شہید مطہری کے بقول مسلمانو ں کو سر سید احمد خان جیسے اسوہ اور ماڈل سے بر حذر کیا اور مختلف ممالک میں جا کر تقاریر کیں اور دین و سیاست کے رابطے کو بیان کیا استکبار ،استعمار و استبداد کے خلاف امت کو اکسایا نیز تمام مشکلات اور دردوں کے حل کے لیے اسلام حقیقی کی طرف بلایا۔قومیت و ملیت کے بت سے اجتناب کو کہا۔اسی زمانے کو شہید مطہر ی نے بیدار سازی اور اسلامی رنسانس کا نام دیا۔

سید جمال کی نہضت بیداری سے مصر میں سید قطب ،محمد عبدہ ،کواکبی اور حسن البنا ء جیسے مصلح پیدا ہوئے ۔فلسطین میں عز الدین قسام نے اسرائیل کے خلاف مسلح مقاومت کی بنیاد ڈالی ۔عراق میں شہید باقر الصد ر آپ کی اس نہضت سے بہت متاثر تھے۔ہندوستان میں علامہ اقبال نے بھی سید جمال سے الہام لیتے ہوئے عالم اسلام کو جھنجھوڑا اور ان کو خواب غفلت سے جگایا ۔
اٹھو اے دنیا کےغریبوں کو جگادو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو

ہندی مسلمانوں کو مملکت عزیز خداداد پاکستان کا تصورپیش کیا ۔گویا مملکت پاکستان بھی سید جمال کی تحریک بیداری کے مبارک نتائج میں سے ہے۔آج بھی اس ملک کی بقا اور اس میں الہی نظام کے نفاذ کے لیے بھی سید جمال اور علامہ اقبال جیسے زیرک ، دردآشنا ، بصیرت افروز ،دشمن شناس ،بیدارکرنے والے راہنما کی ضرورت ہے جو پاکستانی قوم کے اندر احساس زیاں پیدا کرے ۔اس کو اس کی متاع مسروقہ کی پہچان کروائے۔سر گردان قوم کے ہاتھ میں حبل اللہ تھمائے۔وہ کہ جو بقول علامہ اقبال قوم کو سلطان و طاغوت پرستی کے فتنہ میں مبتلا کرنے کے بجائے سایہ خدائے ذوالجلال میں لے آئے۔

البتہ مصر و عراق میں اسلامی بیداری نےابھی تک کوئی خاص نتیجہ حاصل نہیں کیا ۔ لیکن ایران میں بیداری نے اپنا عظیم اور الہی ہدف حاصل کر لیا ہے اور امام خمینی کی قیادت و رہبری میں اسلامی انقلاب اور نظام امامت و ولایت کا قیام تینتیس سال سے درخشاں ہے اور دن بدن مستحکم تر ہو رہا ہے۔آج امام خمینی کی تحریک بیداری کو شروع ہوئے نصف صدی گزر چکی ہےاور نہ صرف عالم اسلام بلکہ ہزاروں کلومیٹر دور یورپ ، امریکہ و افریقہ کے مسلم و غیر مسلموں تک بیداری منتقل ہو چکی ہے لیکن امام و انقلاب کے ہمسائے میں موجود انقلابی اور پر جوش ملت نے ابھی اس بیداری پر کوئی اثر نہیں دکھایا۔

سید جمال اور علامہ اقبال نے مسلمانوں کو خبر دار کیا کہ دنیا و آخرت کی سعادت کے لیے صرف اعتقادی کفر و شرک سے بچنا کافی نہیں ہے بلکہ میدان عمل میں بھی خدا کی اطاعت اور اخلاص کا مظاہرہ کیا جائے کیونکہ خدا کو نہ ماننا اعتقادی کفر ہے اور مان کے اس کے فرمان پر عمل نہ کرنا عملی کفر ہے۔غیر خدا کو خدا کے کاموں میں مستقل طور پر شریک قرار دینا عقیدتی شرک ہے لیکن خدا پر ایمان لانے کے بعد نماز نہ پڑھنا یا ریاکاری کے ساتھ پڑھنا یا اس کے بنائے ہو ئے نظام کے علاوہ کسی اور نظام میں زندگی گزارنا یا ولی خدا کے علاوہ کسی اور کو اپنا حاکم و لیڈر ماننا عملی شرک و کفر ہے اور مسلمان و مومن کو کفر و شرک کی ان دونوں اقسام سے دوری کا حکم ہے۔ اسی مطلب کو برصغیر کے عظیم اسلام شناس، توحید شناس نے اس طرح بیان کیا۔
زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیا ہے فقط مسئلہ علم کلام
روشن اس کی ضو سے اگر ظلمت کردار نہ ہو
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام

اسی طرح مسلم رہبروں اور خواص کو مخاطب ہو کر علامہ اقبال فرماتےہیں:
میں نے اے میر سپاہ تیری سپاہ دیکھی
قل ھواللہ کی شمشیر سے خالی ہے نیام

hasan askari
About the Author: hasan askari Read More Articles by hasan askari: 2 Articles with 1470 views عاشق لبیک یا رسول الله.. View More