کاش بیدار آنکھوں سے دِکھتی حقیقی دنیا میری دنیا نہ ہوتی

خود کلامی میں کی گئی چند باتیں دوستوں کی نظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عادّل باگی
''کاش بیدار آنکھوں سے دِکھتی حقیقی دنیا میری دنیا نہ ہوتی ''

آج وہ مجھے خود ملنے آیا تھا۔ آنکھیں زیارت میں یوں محو تھی کہ یقینی و بے یقینی کے تذبذب confusion سے آزاد بس انھیں دیکھتی ہی جا رہی تھی۔ گو کہ دِلِ مضطر کو انکے طویل تغافل پہ کئیں شکوے تھے۔ پر عاشق کی زباں محبوب کے سامنے شکوہ گوئی کی گستاخی کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ہم تو بس آنسوئوں سے آنکھوں کا وضو کئے جا رہے تھے کیونکہ ہمارے مذہب میں نماز بغیر وضو کے نہیں ہوتی۔

آج پہلی بار وہ ہماری حالت دیکھ کے ہمارے ساتھ رویا تھا جی بھر کے، شدت سے، اپنائیت سے۔ان کو روتا دیکھ کے ہمیں تو اپنا رونا بھول گیا۔ گنہگار کے ہاتھ مقد س آنسوئوں کو پونچھنے کی جرآت نہیں رکھتے تھے مگر نہ جانے کیسے پاءوں چھونے کی جسارت کر بیٹھے۔ ہم ان کے پاءوں پکڑ کے انھیں رونے سے روک رہے تھے ۔ ان کے نرم ہاتھوں نے میرے بازءوں کو اپنی گرفت میں لیا اور مجھے قدموں سے اٹھا کے سامنے بٹھآ لیا ۔ بلکہ یوں کہوں کہ مجھ خاک نشین کو عرش بریں تک پہنچا دیا ۔پہلی دفعہ زندگی میں جینے کا احساس ہوا ۔ان کی آنکھوں میں اپنے لئے فکر مندی کی چمک نے میرے بنجر وجود میں روح پھونک دی تھی۔ وہ اپنی زباں سے خود کو میرا، فقط میرا کہہ رہا تھا۔اس نے اپنی زندگی میرے نام کرنے کا عہد کر لیا تھا۔ اس نے مجھے اشرفیت کا عرفان بخش دیا تھا۔زندگی میں پہلی دفعہ مجھے خود پہ رشک آ رہا تھا۔اس نے اپنائیت کے قفس میں قید کر کے مجھے ہر بے چینی سے ہر اضطراب سے آزاد کر دیا تھا۔ نہ جانے یہ کون سا پہر تھا۔زندگی میں آج پہلی دفعہ مجھے اس بات کا احساس ہوا کے قرب کی نعمتوں سے حاصل خوشیوں سے شب و روز گزرنے کا کیوں پتا نہیں چلتا۔میں زمیں پہ ہوتے ہوئے آسماں پہ پہنچ چکا تھا۔جنت کے در میرے لئے کھول دیئے گئے تھے فردوسی ہوائیں میری سانسوں میں رس بن کے اترتی جا رہی تھیں۔

مگر افسوس ، ہائے افسوس کے خیالوں کے گھروندوں سے جب حقیقتوں کی ہوائیں ٹکراتی ہیں تو سدپنوں کو مجبوراََ تنکا تنکا ہونا ہی پڑتا ہے۔۔گہری نیند سے میری آنکھ کھل چکی تھی میں خواب نگری سے حقیقت کی دنیا، بغض و نفرت کی دنیا۔ بے پرواہی و خود غرضی کے بازار میں آچکا تھا۔یہاں کوئی میرا ہم نوا نہیں تھا۔میں اکیلا ہی رو رہا تھا ۔میرے آنسو پوچھنےوالا تو کجھا کوئی مجھے چپ کرنے کو کہنے والا بھی نہیں تھا ۔ میں حقیقت میں یوں ہی تنہا تھا جیسے ازل سے ہوں اور شاید ابد تک رہنا ہے۔ کاش موت کے غالب آنے تک مجھ پہ نیند غالب رہتی ،تسکین کے لمحے ، قرار کے لمحے ، سکوں کے لمحے ہر پل مجھ پہ مہرباں رہتے ۔میرے خوابوں کی جنت کبھی نہ اجڑتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش

''کاش بیدار آنکھوں سے دِکھتی حقیقی دنیا میری دنیا نہ ہوتی ''

Adil Baggi
About the Author: Adil Baggi Read More Articles by Adil Baggi: 6 Articles with 5502 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.