اردو ناول کا ارتقا

اردو ادب ہر دور میں نشیب و فراز سے گذرتا رہا ہے ۔ لیکن ہر دور میں شاعروں اور دیبوں نے اس کے لیے نت نئی راہیں ہموار کی ہیں ۔ شاعروں او ر ادیبوں نے اپنی ان تھک کاوشوں سے اردو ادب کو مختلف اصناف سے آراستہ کیا۔اردو ادب میں ناول کی صنف بھی ان ہی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔ ناول اطالوی زبان کے لفظ Novellaسے نکلا ہے ۔مختلف ناقدین نے ناول کی تعریف مختلف انداز میں کی ہے ۔

رابن سن کر و سو کے غیر فانی مصنف ڈینیل ڈنو نے اس فن کی بنیاد ڈالتے ہوئے دو چیزوں کا خاص طور سے لحاظ کیا ہے ۔ ایک تو یہ کہ قصیدہ گو کو حقیقت نگار ہوگا ہونا چاہئے۔ دوسرایہ کہ اس سے کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر قصہ حقیقت پر مبنی نہ ہو گا تو جھوٹا ہوگا۔ اور اپنی تصنیف کے ذریعے مصنف جھوٹ بولنے کا عادی ہو جائے گا ۔ وہ کہتا ہے کہ:
’’ قصہ بنا کر پیش کر نا بہت ہی بڑا جرم ہے۔ یہ اس طرح کی دروغ پر مبنی ہے ۔ جو دل میں ایک بہت بڑا سراخ کر دیتی ہے جس کے ذریعے جھوٹ آہستہ آہستہ داخل ہو کر ایک عادت کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔‘‘

فیلڈنگ جو انگریزی ناول کے عناصر اربعہ میں سے ہیں اس فن کی تعریف میں یو ں رقم طراز ہیں ۔
’’ ناول نثر میں ایک طربیہ کہانی ہے ۔‘‘

یعنی اس کے نزدیک المیہ کہانی ہو ل کے موضوع سے باہر ہے وہ اس طرح رچرڈسن کے اس نقط نظر کو رد کرتا ہے کہ کہانی کی غرض نیکی اور اخلاق کا سدھارنا ہے ۔ فیلڈنگ اسے ہنسنے اور ہنسانے کا ذریعہ سمجھتا ہے اس لیے وہ اس میں طربیہ کی شرط لگا دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ تعریف بھی نا مکمل ہے ۔ اس کا ایک ہم عصر سمولٹ اس نئے فن کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے ۔

’’ ناول ایک پھیلی ہوئی بڑی تصویر ہے جس میں ایک مقررہ پلاٹ کو واضح کرنے کے لیے زندگی کے کردار مختلف جماعتوں کے ساتھ رکھ کر مختلف پہلوؤں سے دکھائے جاتے ہیں‘‘

یہ تعریف بھی نا کافی ہے اس لیے کہ اس میں سارازور پلاٹ پر ہے یہ کردار کو واضح کرنے کے لیے پلاٹ نہیں بناتے ہیں بلکہ پلاٹ کو واضح کر نے کے لیے کردار۔

چنانچہ انگلستان کی ایک ادیبہ کلارا ایوز اس فن کی یوں تعریف کرتی ہیں۔
’’ ناول اس زمانے کی زندگی او ر معاشرے کی سچی تصویر ہے جس
زمانے میں وہ لکھا جائے۔‘‘

پروفیسر بیکر نے ناول کے لیے چار شرطیں لازم کردیں ۔قصہ ہو ، نثر میں ہو، زندگی کی تصویر ہو اور اس میں رابط ویک رنگی ہو۔ یعنی یہ قصہ صرف نثر میں لکھا نہ گیا ہو بلکہ حقیقت پر مبنی ہواور کسی خاص مقصد یا نقط نظر کو بھی پیش کر تا ہو ۔

در اصل ناول وہ صنف ہے جس میں حقیقی زندگی کی گونا گوں جزیات کوکبھی اسرار کے قالب میں کبھی تاریخ کے قالب میں کبھی رزم کے قالب میں کبھی سیاحت یا پھر نفسیات کے قالب میں ڈھالا جاتا رہا لیکن ان تمام شکلوں میں جو چیزیں مشترک تھیں وہ قصہ، پلاٹ کردار، مکالمہ، مناظر فطرت، زمان ومکاں نظریۂ حیات اور اسلوب بیان کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔

اردو میں ناول کو ایک خاص مقام حاصل ہے ۔یہ صنف ، ادب برائے زند گی کی ترجمانی کرتی ہے ۔ ناول نویس اپنی خواہش کے مطابق کوئی نئی دنیا نہیں بنا تا ، وہ ہماری ہی دنیا سے بحث کر تا ہے ۔ جس میں دکھ ہو سکھ ہو ، جنگ بھی ہو، صلح بھی ہو ا ور پیدائش بھی ، زمیندار بھی ہو اور مزدور بھی ، بادشاہ بھی ہو اورغلام بھی ۔ ناول نگار صرف تخیل میں پرواز نہیں کرتا ہے ۔ اس کے قصے کی بنیاد روز مرہ کی زندگی ہوتی ہے۔بیسویں صدی میں جو ناول تخلیق ہوئے ان ناولوں کو تخلیق کر نے کے پیچھے ناول نگاروں کا کیا رجحان رہا یا کیا نظریات رہے ۔ جدو جہد آزادی کا اردو ناول پہ کیا اثر رہا ، ادب لطیف نے ناول کو کس طرح متاثر کیا ترقی پسند تحریک نے اردو ناول کو کس حد تک متاثر کیا ، حلقہ ارباب ذوق کے تحت لکھے گئے ناول کس قسم کے ہیں ، تقسیم ہند کے لیمے نے اردو ناول کو کس حد تک متاثر کیا ، علامت نگاری اور تجریدیت نے اردو ناول کو کس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور جدیدیت و مابعد جدیدت نے اردو ناول پر کون سے ان مٹ نقوش چھوڑے، ان تمام رجحانات اور نظریات کی روشنی میں ہم اردو کے ناولوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ لیکن ان میں’’ بیسویں صدی کے اردو ناول میں فکری میلاتات‘‘ کے عنوان سے ابھی تک کوئی بھی تحقیقی یا تنقیدی کام نہیں ہوا ہے چنانچہ بیسویں صدی کے تہذیبی، سماجی اور تاریخی پس منظر کے تناظر میں ان ناولوں کا جو کہ بیسویں صدی میں لکھے گئے جائزہ لیا جائے گا جو اس پورے عہد کی تجسیم کاری کے عمدہ نمونے ہیں اور یہ کوشش کی جائے گی کہ ان ناولوں کو وجود میں لانے کے پیچھے ناول نگاروں کی فکر کیا رہی اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔

قصہ اورکہانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ۔ اپنی موجودہ شکل میں گو کہانی مغرب کی دین ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ قصہ یا حکایت کے روپ میں یہ قدیم شاعری میں بھی موجود تھی اور عوام الناس میں مقبول بھی ۔ یہ وہ سچا ئیاں ہیں جن کے ماننے یا نہ ماننے سے ان کی اصلیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

جس طرح بولنا، سننا سمجھنا محسوس کرنابشر کی جبلت میں ہے اس طرح کہانی بھی انسان کی فطرت میں داخل ہے ۔ زمانہ قدیم میں جب انسان جنگل اور پہاڑوں کا باسی تھا اس وقت ان کا نہ کوئی کنبہ تھا نہ قبیلہ اور نہ انہیں تہذیب، معاشرے یا سیاست سے کوئی مطلب تھا ۔ دن گذرتا گیا عہدبہ عہد حضرت انسان ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا ۔ جنگلوں اور پہاڑوں سے نکل کر چند افراد خاندان اور قبیلہ کی شکل میں سماجی طور پر زندگی بسر کر نے لگے۔ اپنی ضروریات کے پیش نظر ایک دوسرے کے قریب ہونے اور ایک دوسرے کے درد و غم اور خوشی میں شریک ہونے لگے ۔ انسانی زندگی کامعیار اونچا ہونے لگا سماج میں تہذیب و تمدن تعلیم و تر بیت کا بھی فروغ ہوا ۔ انہیں دنوں تھکے ماندے یہ انسان اپنے وقت کو آرام و راحت کے ساتھ گذارانے کے لئے موقع بہ موقع ایک ساتھ چند افراد مل بیٹھ کر ما فوق الفطری عناصر پر مبنی بات چیت کر تے تھے جو کہانی کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ جو عشقیہ اور تمٹیلی رنگ لیے ہوئے مافوق الفطری عناصر پر مبنی ہو تی تھی جس کا مقصد آرام ، چین، سیرو تفریح تھا مگر جب زینہ بہ زینہ انسان تہذیب یا فتہ اورتعلم یا فتہ ہو تا گیا تو اس کے سوچنے سمجھنے اور زندگی گذارنے کا معیار بھی بدلتا گیا ایسی صورت میں مافوق الفطری عناصر سے مبرّا خاص تمٹیلی پیرائے میں کہانی اور داستانیں لکھیں جس کا مقصد انسانی زندگی کی اصلاح تھی ان کہانیوں اور داستانو ں میں پند ونصیحت کا پر تو نمایاں ہوتا تھا ۔ مثلاً ملا وجہی کی ’’ سب رس‘‘ اس نوعیت کی چیزہے ۔ یہیں سے انسانی زندگی اورادب میں رومان خاص طور سے جگہ لے لیتی ہے اور داستانی کہانی کا آغاز ہوتا ہے ۔

داستان اور کہانی کا انسانی زندگی سے چولی دامن کا رشتہ ہے جہاں انسان کہانی یا داستان لکھتا بھی ہے اور سنا تا بھی ہے ۔ کہانی یا داستان انسان کا وہ کارنمایاں ہے جس میں انھوں نے اپنے زندگی کو مثالی بناکر تہذیب کی چوٹی پر پہنچا یاہے اس وقت کی داستانوں میں تخیلی تصور مافوق الفطری اور رومانی عناصر پائے جاتے ہیں ۔ انہیں دنوں انسان چھوٹی چھوٹی کہانی کے بجائے فرصت کے پیش نظر بڑی بڑی داستانیں سننے سنانے اور لکھنے بھی لگے ۔

اردو ادب میں با قاعدہ داستانوں کا آغازاٹھارویں صدی کے آخر میں تحسین کی ’’ تو طرزمرصع‘‘ سے ہوتا ہے ۔ انیسویں صدی عیسوی میں تحیں کی ’’ نو طرزمرصع‘‘ باغ و بہار اور انشاء کی ’’ رانی کیتکی‘‘ کی داستانوں کو چھوڑ کر میر امن کی باغ و بہار’’ حیدر بخش حیدری ’’ آرائش محفل‘‘ طوطا کہانی‘‘ خلیل علی خا ں اشک کی ’’ داستان امیر حمزہ‘‘ بہار علی حسینی کی ’’ نثر بے نظیر ‘‘ مظہر علی ولا اور للولال کی ’’ بیتال پچیسی‘‘ کا ظم علی جوان اور للولال کو کی ’’ سنگھاسن بتیسی‘‘ جیسی داستانیں فورٹ ولیم کالج کے تحت تصنیف ہوہئیں اور اس کے بعد محمد بخش مہجوری کی ’’ نورتن‘‘ سرور کی ’’ فسانہ عجائب‘‘ نیم چند کھتری کی ’’ گل صنوبر‘‘ الف لیلیٰ‘‘’’ بوستان خیال‘‘ طلسم ہوش ربا’’ سخن دہلوی کی ’’ سروش سخن‘‘ شیون کی ’’ طلسم حیرت‘‘ اور الف لیلیٰ‘‘ وغیرہ جیسی مختلف چھوٹی بڑی اور درمیانی داستانیں مخطوطہ و مطبوعہ انیسویں صدی کی آخر تک لکھی ہوئی ملتی ہیں ۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ اس وقت کی داستانیں منطق اورانسانی زندگی کے فلسفہ سے مبرا ان کی دل لگی اور دلچسپی کے وسائل اور اصلاح کے ذرائع فرہم کرنے پرمشتمل ہوتی تھیں ان داستانو ں کی ضخامت کا انحصار داستان گو یوں پر تھا۔ لوگوں کی فرصت کو گومدنظر رکھتے ہوئے داستان گو داستان لکھتے تھے۔

صنعتی انقلاب کے بعد بدلتے ہوئے حالات میں ہندوستانی تاریخ نے کروٹ لی انسان نے اپنی زندگی گذارنے کے طریقے بدلے عام لوگوں میں نئی بیداری آئی اور قدیم رسم و رواج سے انحراف کر کے مغربی طرز معاشرت کے مطابق زندگی گذاری جانے لگی۔ نئی ذہنی اور ادبی فضا ء سازگار ہوئی توجدید تقاضوں نے پرانی روایت کو مسمار کر دیا اور نئی سماجی طاقتیں اور نقطہ نگا ہ نمودارہوئے اور اس کے زیر اثرافسانوی ادب میں صداقت پر مبنی اور اصلاح کی غرض سے ناول لکھے جانے لگے۔

جب ہم اردو ناول کے ارتقائی سفر کا جائزہ اور ابتداء کے متعلق غور کر تے ہیں تو سب سے پہلی نظر نذیر احمد کے ناولوں پر پڑتی ہے ۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں بچوں اور عورتوں کی تعلیم کے ذریعہ مسلم سماج کی اصلاح کی طرف توجہ دلا ئی ہے ۔ جنہیں کچھ نقادوں نے جدید ناول کے مطالبات کو پورا نہیں کرنے کی وجہ سے ناول کہنے سے گریز کیا ہے ۔مثلاً ان نقادوں کا کہنا ہے کہ نذیر احمد کے ناولوں کا پلاٹ موضوع اور اس کے مختلف فنی اجزاء ایسے نہیں ہیں جس میں عام انسانی زندگی کا فلسفہ موجود ہو ۔ان کے ناول محض تبلیغی اور پند و نصائع کا رنگ لئے ہوئے ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی لڑکیوں کی اصلاح کے لیے ناول لکھے تھے مگر سچ یہ ہے کہ ان کے ناولوں کے کردار میں عام انسانی زندگی کی ٹھوس حقیقتیں نمایاں ہیں ۔ ان کے ناولوں کے کردار عام انسانی زندگی سے ملتے جلتے نظر آتے ہیں اس طرح انھوں نے اپنے ناول نگاری کے ذریعہ نئے اسلوب اور فن کی ایک نئی روش قائم کی ہے یہ اور بات ہے کہ مغرب کے مفہوم کے مطابق ان کے ناول، ناول کے فن پر کھرے نہیں اترتے مگر یہ حقیقت ہے کہ ناول کی داغ بیل انھوں نے ’’ مرات العروس‘‘ ’’بنات النعش‘‘ ’’ توبتہ النصوح‘‘ ’’ ابن الوقت‘‘ ’’ فسانہ مبتلا‘‘ وغیرہ ناول لکھ کر ڈالی ہے جو ناول کا خشت اول ہے ۔

نذیر احمد نے سب سے پہلے 1869ء میں اپنا ناول ’’ مرات العروس‘‘ لکھا اس کے بعد انھوں نے ناول او ر اصلاح معاشرت میں چو لی دامن کا رشتہ قائم کیا ۔ اس میں ان کی منطقی فکر اور اصلاحی اور تبلیغی مزاج کو خاصہ دخل ہے ۔ دھیرے دھیرے زندگی اور فن کا رشتہ وسیع ہوتا رہا اوراسی درمیان مقصد اور فنی احساس کے ما بین توازن بھی قائم ہو ا جس نے نذیر احمد کے ’’ فسانہ مبتلا‘‘ تک پہنچتے پہنچتے ایسی شکل اختیار کرلی جہاں واعظ اور فنکار یکساں نظر آنے لگے۔

نذیر احمد کے ہم عصر سر شار اردو کے دوسرے ناول نگار ہیں ۔ ان کے ناولوں میں اس عہد کے لکھنؤکے معاشرت کی تصویر کشی کثرت سے ملتی ہے ۔جنہوں نے انسانی زندگی کے پھیلاو اور ان کی گہرائیوں پر روشنی ڈالی اور اردو ناول کو اس ابتدائی دور میں ایک ایسی روایت سے آشنا کرایا جو فنی لوازمات سے پر ہے۔ انہوں نے لکھنوی معاشرت کو اپنا موضوع بنا کر وہاں کے لوگوں کی اجتماعی زندگی کی اس طرح عکاسی کی کہ سب کو اپنی اصلی شکل نظر آنے لگی۔ سرشار نے پوری طرح لکھنؤ کا مشاہدہ کیا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول ’’ فسانہ آزاد‘‘ میں ایک خاص عہد کا لکھنؤ نمایاں ہے ۔

فسانہ آزاد کے ذریعہ موضوع سے پوری واقفیت مشاہدے کی گہرائی زندگی کی وسعت اور گہرائی کا احساس اور ایک مخصوص معاشرے کی تہذیب و تمدن او ر رسم و رواج کا علم ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ سرشار نے داستان کی چھوڑی ہوئی روایت کے راستے پر چل کر ہمیں کئی ایسے کرداروں سے آشنا کرایا ہے جو ایک مخصوص مزاج کے مالک خاص طبعیت کے حامل اور مثالی ہیں۔ مثلاً خوجی کا کردار یہ کردار ناول نگاری کے فن کی روایت کا ایک نا قابل فراموش عنصر ہے ۔ یہ کردار مستقبل کے ناول نگار وں کو فن کی روشنی بخشتا ہے ۔سرشار نے اپنے ناولوں میں لکھنوی زندگی کے مختلف پہلووں کی مصوری کی ہے اور معاشرے کے مزاج کی عکاسی کر تے ہوئے ایسے کردار کا تعارف کرایا ہے جو انسانی زندگی کا ترجمان ہے ۔ یہ سارے کردار وضع قطع کے اعتبار سے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں مگر سرشار کا کمال یہ ہے کہ ان کے ہم قامت کرداروں کی یکسانی کے باوجود ان میں ہر جگہ ایک انفرادی رنگ عیاں ہے ۔ اس طرح ان کے ناولوں کے کردار ن یکسانیت رکھتے ہوئے بھی اپنا ایک خاص رنگ رکھتے ہیں ۔

سرشار نے ناول نگاری کے فن اور اس کی روایت کو ایسی تقویت بخشی جو آج بھی ہمارے ادب میں نمایاں ہے ۔سرشار اپنے ناولوں کے کرداروں اور قاری کے با ہمی رشتے کی نزاکتوں کو پوری طر ح محسوس کرتے ہیں جبکہ نذیر احمد اپنے ناولوں میں قاری کی ذہانت پر یقین نہیں رکھتے ہیں ۔ بہر حال اس طرح سر شار نے صنف ناول نگاری کو حد درجہ فروغ دیا جس کی داغ بیل نذیر احمد نے ڈالی تھی۔ اس اعتبار سے ’’ فسانہ آزاد‘‘ ’’سیر کہسار‘‘ ’’ جام سرشار‘‘ وغیرہ شہرت یافتہ ناول تخلیق کر کے انہوں نے اردو ناول نگاری کے فن کو وسعت دی ۔

اس کے بعد شرر نے اردو میں تاریخی ناول تخلیق کر کے ایک نئی روش کا آغاز کیا اور اپنے ناولوں میں اسلام کے شاندار ماضی کا کثرت سے ذکر کیا اور اس روش کو انھوں نے اپنا نصب العین سمجھا جس طرح نذیر احمد نے اپنے ناولوں کے ذریعہ مسلمانوں کے متوسط طبقے کی معاشرتی اخلاقی، معاشی مذہبی اصلاح اور مستقبل کو سنوازنے کی کوشش کی اس طر ح شرر نے ماضی کی عظمت کو دہرا کر مسلمانوں کو راہ مستقیم پر چلانے کی کوشش کی اور قومی اتحاد بھائی چارگی اورانسان دوستی کا سبق سکھایا تاکہ مسلمانوں کا مستقبل روشن ہو۔ شرر کے دل میں قوم کا درد تھا انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعہ پورے قوم کی اصلاح کی کوشش کی ہے ۔ انھوں نے ناول کو اپنے خیالات اور تصورات یعنی اپنی اصلاحی مقصد کو قوم تک پہونچانے کا ذریعہ بنا یا اور ناول کے فن کو اردو میں بر تنا شروع کیا جس میں شرر کو اولیت حاصل ہے ۔ اس کی مثال ان کا ناول ’’ فردوس بریں‘‘ ہے ۔ ناول کی وہ خوبیاں جو نذیر احمد اور سرشار کے یہاں نہیں ملتی شرر نے ان کی طرف توجہ دی ہے ۔

شرر نے اردو میں ناول نگاری کو ایک مسئلہ فن کی طرح برتا اور اپنے ناولوں میں پر تکلف منظر نگاری کی چاشنی اور چٹخارے اور ایک خاص قسم کی انشا پردازی کو اس طرح جگہ دی کہ یہ بھی فن کے اہم جز ہوگئے ۔ انھوں نے مغربی فن کے مبادیات اور مشرقی مزاج کی شوخی ورنگینی کے حسین امتزج کو فروغ دیا جس کی تقلید ان کے بعد آنے والے ناول نگاروں نے بھی کی ۔

اردو ناول نگاری میں فنی روایت کی بنیاد نذیر احمدسرشار اور شرر نے ڈالی ان لوگوں نے قصہ گوئی کی دنیا میں ایک نیا راستہ نکا لا اور اپنے فنی عمل کے ساتھ اس راستہ کو ہموار کیا جس سے آنے والوں کے لئے انتہائی آسانی ہوگئی۔ ’’ مراۃ العروس‘‘ ’’بنات النعش‘‘ ’’ توبتہ النصوح‘‘ ’’ ابن الوقت‘‘ ’’ فسانہ مبتلا‘‘ ’’ فسانہ آزاد‘‘ اور فردوس بریں جیسی شاہکار تخلیقات اس کی روشن دلیل ہیں جس سے ہر شخص کو ناول نگاری کی روایت اور اس کے آغاز کے متعلق معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔

اس کے بعد ناول نگاری کا ایک ایسا دور آیا جو ابتدائی فنی روایت کی پیروی کا دور کہلاتا ہے جہاں نذیر احمد، سرشار اور شرر کی اولیت کو فوقیت ملی اس دور کے روح رواں راشد الخیری منشی سجاد حسین اور محمد علی طبیب ہیں ۔

راشد الخیری نے نذیر احمد کے فن پر مبنی ناول نگاری کی ہے ان کی ناولوں کا پیش خیمہ نذیر کی طرح مسلم معاشرہ کے مسائل کے دل کا منشور ہے ۔دونوں کے ناولوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ نذیر احمد نے عورت کی اصلاح کے لئے ناول لکھا اور راشد الخیری نے اس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اس کی معاشرتی حیثیت بلند کر نے کی بھی کوشش کی ہے اس طرح راشد الخیری کے ناول نذیر احمد کے مخصوص انداز میں ہیں۔ ان کی ناول نگاری عورت کی مظلومیت کے داستان ہے ۔

راشد الخیری اپنے ناولوں کے ذریہ وہی کام انجام دیتے ہیں جو اکبر الہ آبادی اپنی شاعری کے ذریعہ دیتے ہیں ان کے تمام ناولوں میں گھریلوزندگی محور اور مرکز کی حیثیت رکھتی ہے ۔ انہوں نے تعلقات کے تذکرے سے ہمشہ پر ہیز کیا ۔ جنس و جنسیات ان کے نزدیک ایک عفریت ہے ۔اس کے محض ذکر سے بھی انہیں خوف آتا ہے ان کے ناولوں میں شروع سے آخرتک تصنغ کی چھوٹ ہے ۔ راشد الخیری کی ناول نگاری کاسب سے بڑا نقص یہ ہے کہ وہ تبلیغی انداز اختیار کر لیتے ہیں ۔ انہوں نے ناول نگاری کے میدان میں اپنے قلم کے جو ہر دکھلائے اور اپنے ناولوں کی بدولت مصور غم کہلائے ۔ ان کے ناولوں کا انجام اکثر و بیشتر حالات میں المناک ہوتا ہے ۔ مگران کی جزیات نگاری کھوکھلی جذباتیت کا شکار ہے ۔مجموعی اعتبار سے انہوں نے ناول کے فن کو ترفی دینے میں نمایا ں حصہ نہیں لیا مگر زبان و بیان کے لحاظ سے ان کے ناول زندہ و جاوید رہیں گے۔ منشی سجاد حسین نے سرشار کے فن پر مبنی ناول نگاری کی جیسا کہ ان کے ناول ’’ حاجی بغلول‘‘ اور ’’طرحدار‘‘ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے فسانہ آزاد کی روشنی میں اپنے یہ دونوں ناول تخلیق کئے ہیں ۔ ان کے ناول مذہبی اور سیاسی تعصبات اور ذہنی حد بندیوں سے آزاد ہیں ۔ اس طر ح ناول نگاری کے اس تقلید ی دور میں راشدالخیری اور منشی سجاد حسین نے ایک خاص روش سے متاثر ہو کر اپنا مخصوص رنگ قائم کیا ۔ جس کی وجہ سے انہیں ناول کی تاریخ میں اہم مقام حاصل ہے۔

اس کے بعد محمد علی طبیب نے شرر سے حد درجہ متاثر ہو کر ناول لکھے ہیں ان کے ناولوں میں شرر کے فن اور اثرات نمایاں نظر آتے ہیں جس طرح شرر نے مسلمانوں کے کارہائے نمایاں کو یاد دلا کر عہد حاضر کے زوال کے اسباب پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی اس طرح محمد علی طیب نے مسلمانوں کی اصلاح کے لئے پند و نصائح اور لمبی تقریروں پر مشتمل ناول لکھے جس نے ان کے فن کو نقصان بھی پہنچایا ہے ۔ محمد علی طبیب کے بعد ان دنوں جن لوگوں نے ناول نگاری کے ذریعہ قوم و ملت کی اصلاح کی ہے ان میں سجاد حسین کسمنڈوی آغا شاعر، ریاض خیر آبادی، شاد عظیم آبادی، احمد علی شوق اور قاری سرفراز حسین کے نام قابل ذکر ہیں ۔

مجموعی طور پر ان لوگوں کی ناول نگاری نصف بیسویں صدی ہی محیط ہے ان لوگوں نے اپنے ناولوں میں خاص معاشرے کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکا سی کر کے ناول نگاری کو اوج ثر یاپر پہنچاد یا ہے ۔ ان لوگوں نے مختلف قسم کے ادبی اور شاعر انہ وسیلوں سے کا م لے کر اجتماعی زندگی کے مختلف مسئلوں کے موضوع پر ناول لکھ کر قوم و ملت ہے اصلاح کی خدمت انجام دی ۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ نذیر احمد، سرشار، راشدالخیری، محمد علی طبیب،منشی سجاد حسین، آغا شاعر، ریاض خیر آبادی اور قاری سر فراز حسین کے ناولوں میں زندگی کا تنوع پھیلاو اور گہرائی و گیرائی کا عنصر گا ہے گاہے ملتا ہے ۔ ان کے ناول رسوا کی طرح اخلاقی زوال کی فضا میں گہری معنوی تعبیر و تفہیم کے حامل ہیں ۔ ا س کی وجہ یہ رہی ہے کہ ان لوگوں کے ناولوں میں فنی نزاکتوں کی کمی نہیں تو بہتات بھی نہیں ہے مگر ایک بات ضرور ہے کہ ان لوگوں کی تحریریں فنی شعور کی روح رواں ضرور ہیں ۔ اس کی مثال ہمارے سامنے ’’ امراؤ جان ادا‘‘ ’’ خواب ہستی‘‘ ’’ہیرے کی کنی‘‘ ’’ نقلی تاجدار‘‘ ’’ ناہید‘‘ اور ’’ ارمان ہے جس کی وجہ سے اردو ناول نگاری میں نفسیاتی اور تجزیاتی ناول کی ابتداء اور شاعرانہ تخیل کا فروغ ہوا ۔

آغا شاعر نے اپنے ’’ارمان‘‘ ’’ ہیر ے کی کنی‘‘ اور ’’ نقلی تاجدار‘‘ جیسے اہم ناولوں میں بیسویں صدی کے ناول کے شعور کا گہرا ثبوت دیا ہے ۔یہ ان کے طبع زاد ناول ہیں انہوں نے اپنے ناولوں میں بیسویں صدی کے مسلم گھرانوں کے معاشرت کی بھر پور عکا سی کر کے اس عہد کے رسم و رواج اور روایت کو بروئے کار لائے ۔انہوں نے اپنے ناولوں میں عوام الناس کے نفسیاتی مسائل کو بڑی فنکاری اور چابکدستی سے پیش کر نے کی مساعی جمیلہ کیا ہے ۔ پریم چند اس عہد کے ناول نگاروں میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ سدرشن، محمد مہدی تسکین،قاضی عبد الغفار ، مجنو ں گورکھپوری ، نیاز فتحپوری، کشن پرشاد کول، ل احمد وغیرہ نے بھی اپنے ناولوں میں اس عہد کے مسائل کو حالات اور نزاکت کی روشنی میں پیش کیا ہے ۔عزیز احمد نے ناداری اور شہر میں رہنے والو ں کی جنسی رشتوں کو قلم بند کیا ہے ۔ان کی ناول نگاری کے متعلق تنقیدی گفتگو اگلے باب میں ہوگی۔قاضی عبدالغفار نے ایک ممتاز نثر نگار اور اعلیٰ پائے کے اہل قلم کی حیثیت سے پوری ادبی دنیا سے اوپنالوہا منوایا’’ لیلی کے خطوط‘‘ مجنوں کی ڈائری’’ عجیب‘‘ تین بیسے کی چھوکری‘‘ جیسی داستانوی اور افسانوی کتابوں میں رومانی انداز کی نثر کا لطف تو ملتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ ان کتابوں میں طنز کا تیرو نشتر بھی چلایا گیا ہے ۔ انہوں نے رومانوی انداز کی ہی نثر نہیں لکھی ہے بلکہ ان کا قلم سنجیدہ عنوانات پر بھی پوری روانی کے ساتھ چلتاہے ۔

فسانہ آزادی کی طرح امراو جان ادا کا پس منظربھی لکھنو کا زوال آمادہ معاشرہ ہے انہوں نے اپنے عہد کے لکھنؤ معاشرے کی تصویر کشی کی ہے ۔ مرزا ہادی حسن رسوا علم ریاضی کے ماہر اور انسانی جذبات کے نیّاض تھے ۔ ان کے ناولوں پر ان کے طبعی رجحان کا عکس صاف نظر آتا ہے ۔ ان کے ناولوں میں جنسیات سے لے کر سیاست تک کے سارے رجحانات فنی بصیرت سے لبریز نظر آتے ہیں انہوں نے کا ناول امراو جان ادا لکھ کر انسان کو یہ بتایا کہ انسانی زندگی کے پیچھے تہذیب معاشرت، سیاست،معشیت، اخلاق اور تاریخ کے حقائق پوشیدہ ہوتے ہیں جس کا مطالعہ کر نے سے ہم ماضی سے آشنا ہوتے ہیں اور اس کی روشنی میں ہم اپنے مستقبل کو سنوارتے ہیں اس کے بعد ناول نگاری میں مر زا سعید وغیرہ کا نا م آتا ہے ۔

مذکورہ بالا بنیادوں پر ہی اردو کے مایہ ناز ناول نگار پریم چند نے ناول نگاری کا تاج محل تعمیر کیا اور اس کی آبیاری کرکے ناول نگاری کے کارواں کو آگے بڑھایا ۔ پریم چند نے اس دور میں ناول لکھنا شروع کیا جب کہ ’’ خواب ہستی‘‘ اور ’’ امراو جان ادا‘‘ منظر عام پر آچکا تھا ۔ابتداء میں انہوں نے ہندو معاشرت اور اس کی پیچیدگی پر مبنی اصلاحی ناول لکھے، ان ناولوں کا پس منظرانہوں نے ایسے معاشرے کو بنایا جس کا ان کو خود مشاہدہ تھا۔ اس طرح ان کے تمام ناول حقیقت اور صداقت کے غماز ہیں جہاں ان کے شدید جذبات اور غیر منطقی جانب داری کو خاص دخل ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ابتدا ئی ناولوں کو فنی طور پر کامیاب نہ بنا سکے جس درجہ کے ان کے ناول ’’ بازار حسن‘‘ ’’ گوشہ عافیت‘‘ میدان عمل‘‘ اور ’’ گؤ دان ہیں ۔ پریم چند کے ناول خاص طور سے ’’ گؤدان‘‘ اور ’’ میدان عمل‘‘ کے مطالعہ سے اندازہ ہو تا ہے کہ ناول نگاری کے فن کی جس روایت کو نذیر احمد ، سرشار شرر، رسوا اور مرزا سعید نے قائم کیا تھا اسے پریم چند نے فنی اعتبار سے مذید وسعت اور گہرائی بخشی۔

سرشار عمیق مطالعہ رکھنے کے باوجود نہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا محاصرہ کر سکے اور نہ ہی لازمی ، غیر لازمی اہم اور غیر اہم میں فرق قائم کر سکے ۔ پریم چند کے ناول معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی گوشوں کا اس طرح محاصرہ کر تے ہیں کہ ان کے ناول ان تمام چیزوں کے ساتھ ہی ایک خاص قوم کے مزاج کے مفسر اور مبصر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں قومی زندگی کے خارجی پہلو کے ساتھ ساتھ ان کے داخلی کیفیتوں کی اس طرح عکاسی کی ہے کہ اس قوم کے جسم اور روح دونوں کے فرق عیاں ہو گئے ہیں اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ناول ہندستان کے شہروں دیہاتوں کے نچلے اور متوسط طبقوں کی تہذیبی اور قومی الجھنوں اور کشیدگی کے آئینے ہیں ۔ پریم چند کے ناول اردو ناول کی تاریخ میں زندگی اور فن کی عظمت اور بلندی کے بہترین مظہر ہیں ۔ ان میں سب سے پہلے کے ناول نگاروں نے فن کی جو روایت قائم کی تھی ۔ اسے انہوں نے وسعت ہی نہیں دی بلکہ اپنی فنی بصیرت سے ایک نیا مفہوم دیا۔ پریم چند کے ناولوں میں جہاں مارکن اور ٹالسٹائی کے نقطۂ نظر کو دخل ہے وہیں قدامت پسند ی یا مشرق پسندی بھی غالب ہے ۔

اس طرح پریم چند کے بعد جن لوگوں نے فن اور فلسفہ حیات پر مبنی ناول نگاری کی اور اردو ناول کو فنی اعتبار سے آگے بڑھایا ان میں سجاد ظہیر، عصمت چغتائی، عزیز احمد،کرشن چند اور قرتہ العین حیدر کے نام اہمیت کے حامل ہیں ۔

ترقی پسند تحریک کے ادیبوں نے مارکسزم اور موجودہ سائنس اور سماجی علوم کی روشنی میں اپنا اظہار خیال کیا ۔ ان لوگوں کا مقصد سماجی اصلاح تھا اور اس کام کو ان لوگوں نے ایک جذبہ امید اور پروگرام کے تحت بخوبی انجام دیا ۔ اس کا پرچار ان لوگوں نے اردو ادب میں افسانہ لکھ کر کیا یہی وجہ ہے کہ شروع ہی سے ترقی پسند تحریک کا رویہ زندگی کے بارے میں صداقت پر مبنی تھا ۔سجاد ظہیر، کرشن چندر، عصمت چغتائی عزیز احمد اس زمانہ کے ناول نگار تھے۔ ان بزرگو ں میں سوچنے سمجھنے اور اظہار خیال کا انداز جداگانہ تھا ۔یہ لوگ درمیانی طبقہ کے لوگ تھے قدا مت پرستی رسم رواج اور اخلاقی بندھنوں کی چہار دیواری میں قید تھا جس کا مستقبل تاریک ہی تاریک نظر آرہا تھا جس کا احساس ان لوگوں کو شدت سے تھا کہ یہ طبقہ برباد ہونے جارہا ہے ۔ یہ طبقہ اپنے قدیم رواج کی ڈوری میں جکڑا ہوا شاید ہمیشہ رہ جائے اور اس کا پھر بہت برا ہو جائے آخر کار انہوں نے اس طبقہ کے لوگوں کو تعلیم کی دعوت دی انسانیت اور جدیدقدیم کے موضوع پر نہایت ہی خلوص و محبت کے ساتھ بتلیغ کی ۔ یہ تبلیغ ان لوگوں نے تحریری اور تقریری دونوں طرح سے کی ۔ ان لوگوں نے جدید سائنس کی روشنی میں اچھے مواد اورفن کی کسوٹی پر ناول نگاری کر کے متوسط طبقہ کے لوگوں کو بیدا ر کیا جیسا کہ سجاد ظہیر نئے ناول ’’ لندن کی ایک رات‘‘ میں اپنا دانشورانہ جذبات و احساسات اور داخلی اظہار خیال کی تکنیک سے تخلیقی حسن کو پیرا ہن بخشا یہ ناول سجاد ظہیر کی وہ نثری کاوش ہے جو 1938ء سے اب تک مسلسل شائع ہو تی رہی ہے ناولٹ کے متن اور مواد کی اہمیت کی پیش نظز تنقیدی ایڈیشن بھی سامنے آتے رہے ہیں ۔ یہ ناول اردو میں فنی نقطۂ نظر سے جدید ناول کی خشت اول ہے ۔ لندن کی ایک رات ترقی پسند ادب کا ابتدائی نمونہ ہے ۔یہ ایک ایسا ناول ہے جو 1965ء سے پہلے لکھے جانے کے با وجود آج کے نئے زمانے سے بھی نہ صرف جڑا ہو ا ہے بلکہ عکاس اور آئینہ دار بھی ہے کیونکہ آج بھی مغربی دنیا میں تعلیم حاصل کر نے والے طالب علموں کے مسائل زیادہ بدلے نہیں ہیں ۔ تو عصمت چغتائی تحلیل نفسی کے ذریعہ ثمن کے کردار کو اجاگر کیا اور گاوں گھروں میں استعمال ہونے والی روز مرہ کی بول چال کو اردو ادب میں ادبی مقام بخشا۔ کرشن چند نے خلقت کی ابدی حسن کے گود میں سماج کے مختلف طبقہ میں ہو نے والے ظلم و ستم انسان کی پریشانی اور بے بسی کے پردہ کو فاش کیا تو عزیز احمد نے تعلق دارا نہ مشنری اورمتوسط طبقہ کے سماج میں عام لوگو ں کی تنگد ستی اور دیگربد حال کو اپنا موضوع بنایا۔ ان لوگو ں کی ناول نگاری سماجی مسائل پر مبنی اعلی شاہ کار ہے جس کے ذریعہ عام لوگوں کی زندگی کو پیش کیا گیاہے ۔ خواہ غریبی ہو یا باہمی کشیدگی یاایک دوسرے پر ظلم و ستم کے واردات ۔ ہر مسائل اور مسائل کے حل کو اپنے ناولوں میں قلم بند کیا مگر پریم چند کے ناول ’’ گؤدان‘‘ کی طرح نشاتہ حیات کا ہمہ جہتی رزمیہ نہیں ۔ بہر حال ان لوگوں کا ناول فن اور اسلوب کے لحاظ سے بہت دلکش اور دلچسپ ہے جس کا نذیر احمد یا پریم چند کی ناول نگاری میں سراغ نہیں۔ ان ترقی پسند ادیبوں کے دل میں قوم کا درد تھا جو کچھ دیکھا اس کومحسوس کیا اور ناول کے سانچے میں ڈھال دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کی ناول میں صداقت پر مبنی کردار ملتے ہیں ۔ ان لوگوں کے ناول میں صرف اقربا پروری قدیم عقائد اور زمانے سے چلی آنے والی رسم و رواج کی کشمکش اور پیچیدگی ہی نہیں بلکہ آزادی، انصاف اور انسان دوستی کے نئے ادارے ،ئنی دنیا کی تلاش اور نئے خوابوں کی تعبیر بھی نظر آتی ہے ۔ اعظم راو نعیم، شمسا، سب کسی تعبیر کے خلاف روا ں دواں نظر آرہے ہیں عصمت چغتائی نے اس عہد کے افسانوی ادب کے کرداروں کو یوں پیش کیا ہے ۔

’’ نئی دنیا کا نیا بیٹا ضدی۔ بد مزاج اور اکھڑ ہے وہ موجودہ نظام کو پسند نہیں کرتا ۔ اور اپنے نئے نظام کے لیے بیکل ہے ۔ وہ اسے بدل ڈالنا چاہتا ہے مگر ابھی تو وہ بد نظمی سے متنفرد ہو کر اپنی ہی بوٹیاں چبائے جا رہا ہے خود اپنا ہی جسم اپنی ہی روح کو چیر کر پھینک رہا ہے (مجموعہ ایک بات صفحہ 11)

اس بات سے کسے انحراف ہے کہ انگریزی دور حکومت میں ہندوستانی عوام غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے ۔ بڑے لوگ مزدور طبقے کو استعمال کرنے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کر رہے تھے ۔ اس بد عنوان حکومت کی بد نظمی حارحانہ رویہ قید و بند کے نظارے متزلزل او نیم مردہ حالات ان ترقی پسند ادبیوں کی تحریروں میں ملتے ہیں ۔ مجاز کی نظم ’’ آوارہ‘‘ میں ہیرو کا کردار اسی نوعیت کا ہے ۔ جب ترقی پسند ادیبوں کے علاوہ گاندھی جناح اور دوسرے رہنماؤں کے خون پسینہ کے صدقے ہندوستان آزاد ہو ا تو ہندوستانیوں کے لئے جسمانی اور روحانی دونوں آرام کو سوں دور ہو گئے ۔ مذہب کے نام پر نفرت بغض و کینہ، فسادات قتل عام اور حیوانیت کے خوفناک رویہ کا آغاز ہو ا تو ترقی پسند ادیب خوشگوار آزادی کا یہ نتیجہ دیکھکر خوف سے چیخ پڑے ۔ ایسے موقع سے ’’ کرشن چند‘‘ نے غدار اور رامانند ساگرنے اور انسان مر گیا تخلیق کر کے اپنے دل کا بھراس نکا لا۔ اس کے علاوہ ایسے موقع سے ادیبوں نے بے شمار افسانے اورناول تخلیق کر کے اس کے پس منظر میں اخوت، مروت، انسان دوستی، بھائی چارگی، قومی یکجہتی کی تلقین کی ۔ اس سے قبل کے افسانوں میں فکرکی گہرائی اور تنظیم کا فقدان ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ناول ناول اور افسانہ افسانہ کہلانے کا مستحق نہیں در اصل وہ دور ہی بحران اور خلفشار کا دور تھا ان ادیبوں کا فرض تھا کہ فوری طور پر حالات کو قا بو میں لا کرماحول سازگار بنائیں۔ البتہ ایسے وقت میں ان لوگوں نے جذبات سے کام لیا جس کی وجہ سے ان لوگوں کی تخلیق میں فکر و فن کی کمی نظر آتی ہے ۔

بہر حال پر چم آزادی کے تلے ظلم و ستم مذہب کے نام پر فرقہ وارانہ فساد ات اورمختلف قسم کے واقعات رونما ہوئے۔ اس کی برقی رو نے دل و دماغ کو جھنجھوڑ ڈالا اس کے دو نتائج بر آمد ہوئے اول کچھ لوگ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے دوسرا ہندوستانی سماج میں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہوا ۔ ظلم و زیادتی کی دیوار گرگئی اور عام لوگ خوشگوار زندگی گذارنے لگے۔ اس عہد میں قاضی عبد الستار اور انور عظیم جیسے ناول نگاروں نے جاگیردارانہ نظام کے خلاف ناول لکھا۔ ان کا ناول ’’ شب گذیدہ‘‘ اور ’’ دھواں دھواں سویرا‘‘ اس امر کی عمدہ مثال ہے ۔ اور قرتہ العین حیدر کا ناول ’’ میرے بھی صنم خانے ‘‘سے بھی اس بد عنوان نظام کا شیرازہ بکھرنے کی گونج سنائی دیتی ہے ۔ ساتھ ہی قاضی عبد الستار اور انور عظیم نے اپنے ناول میں تاریخی و طبقاتی شعور کے مطالعہ و مشاہدہ کے ذریعہ اس جار حانہ نظام میں ہونے والے ظلم و ستم اور عام انسان کی محنت کا استحصال کی داستان بہت ہی موثر اور فنی چابک دستی سے قلم بند کیا ہے۔بیسویں صدی کے ناول نگاروں میں خان محبوب طرزی بھی ناول نگار کی حیثیت سے منفرد مقام رکھتے ہیں۔

انہیں دنوں ہندوستانی کاروبار اور تجارت کے ذریعہ معاشی زندگی کو خوشگوار بنانے کی کوشش میں سر گرداں تھے ۔ اس میں کئی طبقہ کے لوگ تھے خاص طور سے مزدور اور ردمیانی طبقہ کی حالت دگر گوں تھی ان کے سامنے مسائل کے انبار لگے ہوئے تھے جن مسائل سے ان کاچولی دامن کا رشتہ تھا اس طرح وہ لوگ مالی بحران کے باعث غربت کے شکار ہو رہے تھے ۔ آزادی کے آفتاب کی خوشگوار شعائیں سرمایہ داروں اسمگلروں، بدعنوان افسروں، ڈھونگی سیاسی رہنماؤں کے شبستانوں کو معمور کر رہی تھی ۔
غریبوں کا استحصال ان کا نصب العین تھا ۔ان کی خواہش تھی کہ یہ نچلا طبقہ ترقی کے راستہ پر کبھی گامزن نہ ہو سکے ۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں تنزلی پر گامزن رہے۔ اس کارنمایاں کو جن ترقی پسند ادیبوں نے انجام دیا اس درد ناک زندگی کو اپنے تخلیق کا موضوع بنایا ان میں ہنس راج رہبر مہندر ناتھ کرشن چند، رضیہ سجاد ظہیر، سہیل عظیم آبادی وغیرہ کے اسم گرامی اہمیت کے حامل ہیں ۔ پریڈ گراونڈ ’’ بندگی‘‘ رہبر کے درد کا رشتہ ’’ سورج‘‘ ریت اور ’’ گناہ‘‘ مہندر ناتھی کی ناول سے سماجی ماحول کی پرتو ایسی جلوہ گر ہوئی ہے جس کا دیگر اردو ناولوں میں موہوم سا اشارہ بھی نہیں ملتا ۔ ان کے ناول میں گاؤں اور قریہ کے مزدورافلاس و بھوک اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے افراد نظر آتے ہیں۔ ان کی زندگی گندے اور غیر کشادہ جگہوں میں بسر ہوتی ہے مگروہ مظلوم امید کی خوشی کے ساتھ خوشگوار طریقہ سے زندگی بسر کرنے کا خواب دیکھتا ہے ۔ وہ اس کو حاصل کر نے کے لیے ہر ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر تا ہے ۔ یہاں میں مہندر ناتھ کے ناول ’’ سورج‘‘’’ریت اور گناہ‘‘ سے عبارت نقل کر رہا ہو ں جو اسی نوعیت کی چیز ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ ملا حظہ ہو۔ ہیروئن انوری میری سے کہتی ہے۔

’’ دھوپ کتنی تیزی سے ہماری طرف آرہی ہے میری جب تک انسان میں زندگی ہے اسے لڑنا چاہئے۔ دیکھو تو یہ سمندا کا شفاف سینہ پاکیزہ ہوا ۔ ناریل کے درخت یہ لہریں یہ سورج، یہ ریت ہمارا تمہارا گناہ یہ کھلی فضا اور یہ راحت بخش ہوا جو پھیپھڑوں میں جاتی ہے ہم کیوں نہ زندہ رہیں اور ایک بہتر زندگی کے لئے لڑیں۔

ان ناولوں میں محنت کش مزدور کے حالات زندگی کو انہی کی نظر سے دیکھا اور قلم بند کیا گیا ہے ۔ یہاں ناول میں ناول نگار نے خود کو ناول کا کردار بناکر پیش کیا ہے جس سے ان کی شخصیت میں چار چاند لگ جا تا ہے ۔ ناول نگار اسی محنت کش دہقان کے دل و دماغ سے سو چتا اور انہیں کے عام بول چال کی زبان میں اظہار خیال کر کے دل کی بھڑاس نکالتا ہے ۔ چنانچہ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پر یم چند کی ناولوں کے اثرات ان بزرگوں کے ناولوں میں سیر و تفریح کرتی نظر آتی ہے ۔ جو اردو کے دیگر ناول نگاروں نے انجام دیا ہے ۔ بحیثیت ناول نگار موصوف کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انھوں نے اپنے ناول’’ صورت الخیال‘‘ میں ایرانیوں ، انگریزوں اور ہندوستانی ،دیہاتی انسانوں کی زبانیں مرقوم و محفوظ کر دیئے ہیں ۔ جو اردو ناول نگاری کی ارتقا میں سنگ میل کا حکم رکھتی ۔

راجندر سنگھ اردود نیا کے علاوہ انگریزی ہندی کے میدان میں تعارف کے محتاج نہیں ۔افسانہ نگاری کے میدان میں جو مقام ان کو حاصل ہے کسی اور کو میسر نہیں ان کی ناولٹ ’’ ایک چادر میلی سی ‘‘ کی شہرہ آفاق ہو نے کی پوشیدہ بات اسی صداقت میں مخفی ہے ۔ بیدی نے اپنے ناول کے کرداروں میں جان ڈالنے کے لئے اپنی ہستی کو انہی مظلوم کسانوں کے درد و کرب میں اپنے آپ کو محو کر دیا ہے ۔ بیدی کی یہ ناولٹ گؤدان کی طرح پنجاب کے دیہی علاقے کی منظر کشی کر تا ہے ۔ جہاں غریب مزدور محنت کر کے روزی روٹی حاصل کر تے ہیں ۔ وہ تہذیبی ماحول کی منظر نگاری کے ساتھ ساتھ کرداروں کی تہداری کوبھی ڈرامائی انداز سے پیش کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ بہر حال یہاں ’’ لہو کے پھول‘‘ حیات اﷲ انصاری کے ناول کا ذکر کر نا غلط نہیں ہوگا۔ موصوف کا ناول ’’ لہو کے پھول‘‘ بیسویں صدی میں ہندوستان کی تحریک آزادی پر مبنی ہے ۔ حیات اﷲ انصاری اجتماعیت سے خفگی کے بعد بھی ترقی پسند نظریہ ادب سے منہ نہ موڑ سکے ۔ انہوں نے ناول میں انسانی زندگی اور تحریک آزادی کا جس پیمانہ پر مطالعہ و مشاہدہ کم کیا وہ ایک خاص سیاسی اور سماجی نقط نگاہ کا ثبوت فراہم کرتی ہے ۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں ہندوستانی عوام اور ان کی آزادی کی کوششوں کو بڑے ہی مفکرانہ اور دانشوارانہ انداز میں رقم کیا ہے ۔ ویسے ان کا یہ ناول بہت ضخیم ہے جس میں مصنف نے بے ضرورت وسعت پیدا کر کے قصہ کو طول دے دیاہے ۔یہ چیزیں ناول کو غیر متوازن بنا دیتی ہے ۔ پھر بھی یہ ناول اشتراکی تحریکوں اور دیہات کے ماحول سے تعلق رکھنے والے اردو کے شہرت یافتہ اور مقبول ناولوں کی فہر ست میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی ناولٹ ’’ گھروندہ‘‘ اور ’’مدار‘‘ ہے جس میں ’’ گھروندہ‘‘ کافی طویل ہے اس کا قصہ یوں ہے کہ ایک بڑے گھر کا لڑکا ایک بیراگن کے شباب پر عاشق ہو جاتا ہے کافی دشواریوں کے بعد لڑکا لڑکی شادی کر لیتے ہیں اس کے بعد دونوں کے درمیان تہذیب و تمدن کا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے ۔ مگر دونوں اپنے اپنے تہذیب و تمدن پر ہی اٹل رہتے ہیں جو روایت ایک دوسرے کے جداعلی سے چلی آرہی تھی ۔ ناولٹ ’’ مدار‘‘ کے ذریعہ حیات اﷲ انصاری مادری زبان کو ترجیح دیتا ہے ۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ مادری زبان کا رشتہ اہم ترین رشتوں اور جذبوں پر فضیلت رکھتا ہے ۔

اس کے بعد پاکستانی ادیبوں نے بہت زور شور سے ناول لکھے ہیں جو اچھوتے موضوع فن تکنیک اور فکری احساس پر مبنی ہے مگر حالات حاضرہ کے مسائل کو جنہوں نے اپنے ناول کے لئے موضوع کا مرکز بنا یا یعنی عام انسانوں کی سماجی زندگی میں آئے دن جو واردات رونما ہوتی ہیں سیاسی، معاشی، اقتصادی مسائل کھڑے ہوئے ہیں ان کو تنقیدی نقط نظر سے صداقت کے پر لگا کر پیش کیا ان ناول نگاروں میں خاص خدیجہ مستورکا ’’ آنگن‘‘ ’’ اداس نسلیں ‘‘ عبداﷲ حسین اور خدا کی بستی جانگلوس شوکت صدیقی کا خاص طور سے مشہور و معروف ہیں پہلے دونوں ناولوں کے ذریعہ آزادی سے قبل کی انسانی زندگی کو مصنف نے بڑی چابک دستی سے پیش کیا ہے ۔ اور دونوں کا اختتا م ملک کی تقسیم پر کیا ہے ۔ دونوں ناولوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آغا زسے اختتام تک ایک پائیدار نقطہ ٔ نگاہ، تاریخی، سماجی گہرائی و گیرائی کا سلیقہ پنہاں نظر آتا ہے ۔ خدیجہ مستور اپنے ناول آنگن کے ذریعہ ایک درمیانی درجہ کے مسلم خاندان کے حالات بڑی منصفانہ انداز میں پیش کیا ہے ۔ وہ اس بات کی وکالت کرتی ہیں کہ گھر میں جو چھوٹے موٹے واقعات نمو پزیر ہوتے ہیں وہ در اصل ملک کی اشتراکی زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل کا مرہون منت ہے ۔ انگریزی حکومت کے خلاف جو لڑائی باہر لڑی جاری تھی اس میں سپاہیوں کی مستقل مزاجی جوانمردی موت اور تباہی کا سچا نظارہ اندرون میں نظر آتا ہے ۔

شوکت صدیقی نے اپنے دونوں ناولوں میں پاکستانی ماحول کی دگر گوں پیچیدہ حالات کو پیش کر نے کی جستجو کی ہے ۔ پاکستان کے نصف جاگیردار نصف متوسط طبقہ اورسماج کے لوگ مذہب کی آڑمیں بر ملا ہونے والی جرم کی حمایت کر تے ہیں اور انساں کی ایک شہر ی ہونے کی حیثیت سے جو بنیادی حقوق ہیں اس کو نیست و نابود کر نے کی جو مہم چلی آرہی ہے شوکت صدیقی نے بڑی ہمت اور بہادوری سے ناولوں کے الجھے ہوئے پلاٹ میں ان کو یکجا کیا ہے ۔ ان کا ناول’’ خدا کی بستی‘‘ میں ’’ سلمان‘‘ سلطانہ نیاز، علی احمد کے کردار اردو ناول کے مستحکم کے کر داروں میں انفرادی مقام رکھتے ہیں۔ جانگلوس میں پاکستان دیہاتی علاقوں میں حیوان صفت زندگی بسر کر تے ہیں اسی صورت حال کو موضوع بنا یا ہے اور یہ بات غور طلب ہے کہ ایک لکھنوی ادیب دیگر زبان دوسرے تہذیب و تمدن رسم و رواج ماحول اور معاشرہ کی رنگارنگی انسانی زندگی اور نفسیات کو دل کش اور موثر طریقے سے پیش کیا ہے ۔لالی اور رحیم داد اس ناول کا مرکزی کردار ہیں جو جیل خانہ سے باہر نکل گئے ہیں اس طرح شوکت صدیقی نے اسی ناول میں اس بات کی دلیل پیش کی ہے کہ اس سماج میں اصل مجرم جو گناہ گار ہیں وہ قید خانہ کے اندر نہیں بلکہ باہر عیش و عشرت کی زندگی بسر کر تے ۔ یہ بہت بڑے سیاستداں ہوتے ہیں اور حکومت میں بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ سید شیرحسین نے اپنے ناول’’ جھوک سیال‘‘ میں ایک گاؤں کے آئے دن ہوئے واردات کو قلم بند کیا ہے مگر جانگلوس اس کے بر عکس ہے یہ ناول پورے پنجابی دیہاتی علاقے کی زندگی پر محیط ہے ۔

ترقی پسندی کے علمبرداروں نے پرانے رسم و رواج جو عام طور پر صداقت پسندی پر مبنی تھے اس سے الگ ناول نگاری کے اصولوں و ضابطے قائم کئے جیسا کہ خواجہ احمد عباس کا ناولٹ’’ سیاہ سورج سفید سائے‘‘ اس میں مصنف نے اشتر اکی جمہوریت پر چلنے والے نو آبادی ملکوں کے خلاف جاگیردارانہ نظام کی جار حانہ ظلم و ستم کا پردہ فاش ہے ۔ خواجہ احمد عباس نے بھی حیات اﷲ انصاری کی طرح ہندوستانی عوام اور ان کی آزادی کی جستجو کوقلم بند کیا ہے ۔ اس کے علاوہ کرشن چندر نے پور کائینات کی جاگیردارانہ نظام کی جارحانہ ظلم و ستم سماجی نا برابری اعلی ادنی کا بھید بھاو لوٹ کھسوٹ خوشحال زندگی گذارنے کو اشارہ کنایہ کے ذریعہ بااثر بناکر پیش کیا ہے ۔ انہوں نے دبے کچلے استحصال زدہ کشمیریوں کے بارے میں بہت کھل کر قلم بند کیا ہے ۔جیسے ’’ گدھے کی سر گذشت‘‘ ’’ الٹا درخت‘‘ اسی نوعیت کی تخلیق ہے جس میں برائے نام عوامی یا جمہوری نظام کے کل شعبہ جمہوریت انصاف قانون اور سماجی رشتوں کے ریا کارانہ و مکارانہ رویہ پر سخت تیر چلایاگیا ہے ۔

کرشن چند نے کم و بیش پچاس ناول لکھے ہیں ۔ ان کے سماجی ناول کے غائر مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں مواد اور تکنیک کی گو ناگونی ہے ۔ ’’ شکست‘‘ کا موضوع محنت کش مزدور کا خون چوسنا اور جاگیرداروں کی رہنمائی میں فرقہ وارانہ فسادات کو فروغ دینا ہے ۔1952ء میں کرشن چند نے جب ’’ کھیت جاگے ‘‘ تخلیق کر کے محنت کش مزدور کی زندگی اور حالات کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا اس میں باغی راگھونے اپنی المناک داستان زندگی میں بیان کی ہے جس کو دوسرے دن سولی پر چڑھا یا جا ئیگا ۔۔۔’’ مٹی کے صنم‘‘ اور ’’ میری یادوں کے چنار‘‘ کی تکنیک آپ بیتی ہے اس میں ناول نگار نے اپنی یادوں کے ذریعہ انگریزی دور حکومت کے ظلم و تشدد کو بیان کیا ہے ۔۔۔۔دل کی وادیاں سو گئیں بھی تکنیک کے اعتبار سے نہایت ہی اچھا اور دلچسپ ہے ۔ ایک مسافر ٹرین کے حادثہ کی وجہ سے چند دن بیابان جنگل میں گذارتا ہے جس کی رسائی سماج کی متعدد حلقوں سے ہے ۔ وہاں وہ اپنی شناخت دے کر اپنا مدعا کا اظہار کرتا ہے ۔ دادرریل کے بچے جو بمبئی کی اوسان خطا کر دینے والی زندگی کے پس منظر میں لکھا گیا ہے ۔ اس میں بھی جاگیردارنہ نظام کی شیطانیت و حیوانیت کا پردہ فاش کیاگیا ہے ۔اس طرح ’’ ایک عورت ہزار دیوانے‘‘ ’’ برف کے پھول ‘‘ جیسے ناول ہیں ۔یہ صداقت پر مبنی ہیں کرشن چند ر کی حقیقت نگاری میں حقیقت کا پر تو کچھ گہرا نہیں یہ اور بات ہے مگر وہ اپنے آپ کو اس کے لئے کوشا ں رکھتے ہیں مگر اس کے بعد بھی وہ اپنے ناولوں میں ہندوستانی سماج کی پناہ گزین انسانوں کی زندگی اس کی مشکلوں پر یشانیوں اور رویوں کا بڑی چابک دستی سے حصار کر تے ہیں جو کسی دوسرے ناول نویس کو میسر نہیں ۔

قرتہ العین حیدر اردو ناول کا ایک مستقل اور علیحدہ باب کہی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے اردو ناول کے فن کو تازگی فکر اور معنویت بخشی ہے ۔ وہ ان ہی کا حصہ ہے انہوں نے اپنا پہلا ناول ’’ میرے بھی صنم خانے‘‘ کے شروع میں اردو نوابوں تعلقد اروں جاگیرداروں کی عیاشی معاشقہ رنگارنگ محفل کی اور آخر میں جنگ آزادی کی تباہی و بربادی افلاس و مصیبت کے المناکی کی عکاس کے ہندوستانی مسلمانوں کے بگڑے ہوئے معاشی کی اصلاح کر انے کی کوشش کی ہے ۔یہ ناول اس دور کے اودھ کا سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیبی، مذہبی تمام پہلو نمایاں کر تا ہے جہاں شرفا، روسا معاشقے سیر و شکاررقص و سرود شراب و شباب میں مگن گھر کے بجائے کلب میں پارٹی اور پکنک منار ہے ہیں۔ ساتھ ہی ادب آرٹ فلسفہ حیات کے ماہر اوربورث روایت، پرولتاریت کا دلدادہ ہے ۔ اس ناول میں ہندوستان کے متعدد تحریکوں کا سراغ و شعور رواں دواں ہے ۔ ناول کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ مصنفہ کو قوم پرست مسلمانوں کے گروہ سے حد درجہ محبت و انسیت ہے ۔ ان کا دوسرا ناول ’’ سفینۂ غم دل‘‘ ان کی اپنی آپ بیتی پر مبنی ہے ۔ جس میں مصنفہ اپنے عزیزو اقارب کے ساتھ نظر آتی ہے ۔اس ناول کی ابتداء مصنفہ کی خاندانی معاشرت کی ناریخ پر اور اختتام تقسیم ہندو پاک پر محیط ہے کہ جب ہندوستان میں انگریزی حکومت کے خلاف تحریکیں شروع ہوئیں تو آئے دن کہیں نہ کہیں دنگا فساد، گورے اور ہندیوں کے درمیان کشیدگی، سیاسی ، معاشی ، مذہبی، اقتصادی تعلیمی بدامنی سے متا ثر ہو کر مصنفہ مع اپنے خاندان کس طرح درد و غم کو سینے سے لگا کر سخت سے سخت مر احل سے گزر کر اپنے بزرگوں کو پاکستان جاتے ہوئے دکھلاتی ہیں ۔

اس طرح مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے دونوں ناول اودھ کے تعلقدار خاندان کی مکمل تاریخ ہے جس میں ان کی معاشرت کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے ۔ جس معاشرت پر مغربی تہذیب کا اثر حد درجہ غالب ہے ۔ ان کے ناول صداقت کی غمازی کر تے ہیں ۔ ساتھ ہی مصنفہ کا سب سے شاہکار ناول ’’ آگ کا دریا ‘‘ ہے جس پر ان کو گیان پیٹھ ایوارڈ ملا ہے ۔ یہ ناول قومی یکجہتی کا ضامن اور اردو ناول کا بیش قیمت سرمایہ ہے ۔ ان کے تمام ناولوں میں تخیل کار فرما ہے اس کے علاوہ ’’ کار جہاں ‘‘ ’’ دراز‘‘ ’’ آخرشب کے ہم سفر‘‘ ’’چاندنی بیگم ،گردش رنگ چمن‘‘ ’’ہاوسنگ سوسائٹی (ناولٹ) جیسے ناول لکھ کر مصنفہ نے اردو ناول نگاری کے کارواں کو آگے بڑھا یا ہے ۔پروفیسر قدوس جاوید کی ترجمانی قرۃالعین حیدر کے ناولوں ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ ’’آگ کا دریا‘‘ کار جہاں دراز ہے‘‘ اور ’’ آخری شب کے ہم سفر‘‘کے مطالعہ سے اول اول یہ بات سمجھ میں آئی کہ کوئی بھی ناول شاہکار کی حیثیت اسی وقت اختیار کرتا ہے جب ناول نگار تخلیقی سطح پر اسے برتنے کا اپنا ایک مخصوص اسلوب تراشتا ہے۔ خواہ وہ اسلوب وہ طریقہ کار، مروجہ اسلوب اور طریقہ کار سے مختلف یا یکسر برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ اس اعتبار سے تخلیقی سطح پر ناول کو برتنے کے لیے دومتوازی خطوط قرار پاتے ہیں۔ ایک فنکرا نہ اور دوسرا دانشورانہ فنکاری کی سطح پر ناول نگار ناول کے مروجہ لوازمات (ہیت تیکنک وغیرہ) کو اپنے طور پر برتتا ہے اور منفرد تخلیقی قوت اور فنکارانہ بصیرت سے کا م لے کر ہییت تکنیک، موضوع اور اسلوب میں نت نئے تجربے کر کے ناول کے فنی امکانات کو وسیع سے وسیع تر کرتا ہے ۔ دوسری جانب ناول نگار دانشوری کی سطح پر اپنے فن کے توسط سے موضوع یا موضوعات سے متعلق کر دار یا واقعہ کے حوالے سے یا تو کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر زندگی اور اس کی مختلف کر وٹوں سے متعلق کہی ہوئی باتوں کے تناظر میں ان سے متعلق حقائق کیفیات اور حیات کی کچھ اس طرح نقاب کشائی کر تا ہے کہ قاری کو یہ فیصلہ کر نے میں دشواری نہیں ہوتی کہ جو حقیقت اس کے سامنے ہے خود اس کی حقیقت کیا ہے ۔فن کی تخلیق میں خصوصاً ناول کی تخلیق میں فنکاری کے ساتھ دانشوری کو بھی وقار و معیار کے ساتھ بر تنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔ فنکارانہ ر چاؤتو کوئی بھی شخص مشق اور مطالعے کے ذریعے پیدا کر سکتا ہے لیکن دانشورانہ رچاؤ کے لئے ایک مخصوص ذہنی ساخت کی ضرورت ہو تی ہے جو شاعری میں صرف غالب اور اقبال کے ہاں نظرآتی ہے لیکن فکشن میں قرۃالعین حیدرہی ہیں جن ہاں فنکاری ہی نہیں دانشوری کی بھی اعلی ترین روایات ملتی ہیں ۔’’ آخر شب کے ہم سفر‘‘ متحدہ ہندوستان کی تہذیبی اور ثقافتی بنیادوں پر اس خطے میں رونما ہو نے والے سیاسی اور ذہنی انقلابات کی دستاویز ہے ۔ جس میں کہانی بنگال کی انتہا پسند اور انقلابی تحریک سے شروع ہوتی ہے ۔ اور’’بھارت چھوڑو‘‘’’ آندولن‘‘ مطالعہ پاکستان اورتقسیم ملک کی منزلوں سے گذرتی ہوئی بنگلہ دیش کے قیام تک پہنچتی ہے ۔ اس دوران ان کی کہانی مختلف موضوعات کی بنا پر ان گنت واقعات کو اپنے بہاؤ میں لے کر آگے بڑھتی ہے یہ واقعات اس خطے کی سیاسی کر وٹوں کو بھی آشکار کر تے ہیں اور نئی اور پرانی تہذیبوں کے تصادم کو بھی ۔ ان میں رومان اور محبت کی دھیمی دھیمی آنچ بھی ہے ۔ اور وحشت اور بر بریت کے گھناونے خنجربھی۔ مثلاً دیپالی سرکار کا اپنے ہی گھر میں نقب لگانا سیاسی مقاصد کے لئے نو اب قمر الزماں چودھری اور اس کے اہل خاندان کا قتل کماری امارائے کی ریحان الدین احمد کے لئے تڑپ اور کسک ۔ یہ اور ان جیسے واقعات ناول کو اس کے فن سے بڑی حد تک باندھے ہوئے رکھتے ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ’’ آخر شب کے ہم سفر‘‘ واقعاتی ناول ہے بلکہ اس ناول میں سب سے زیادہ نمایاں اس کے کردار اور ان کرداروں کے اسرار ہیں ۔ مثلاً دیپالی سرکار ریحان الدین احمد، کماری امارائے۔ چرڈبارلو۔ نواب قمر الزماں چودھری بھوتارنی دیوی، جہاں آرا ، یاسمین، بلمونٹ وغیرہ ہر کردار اپنے اعمال اپنے نصب العین اور مزاج کی بنا پر ایک منفرد کردار قرار پاتا ہے ۔ جوسکڑتا ہے تو خود قرۃ العین حیدر کے فکر و فلسفہ حوصلہ او جدوجہد، انسان دوستی اور حریت پسندی کی علامت بن جاتا ہے اور پھیلتا ہے تو پورے بر صغیر کی سیاست، معیشت، تہذیب اور ثقافت کو سمیٹ لیتا ہے ۔ مثال کے طور پر دیپالی سرکار ایک روایت پسند شریف ہندوخاندان کی فرد ہو نے کے باوجود دہثت پسند تحریک میں شامل ہو جاتی ہے ۔ اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے خود اپنے ہی گھر کو لوٹ کر اپنا ہی اثاثہ تحریک کی نذر کر دیتی ہے ۔قرۃ العین حیدر نے اپنے افسانوں کی طرح اپنے ناولوں میں بھی مروجہ تیکنک کی خلاف ورزی کے باوجود فضا واقعہ کر دار اور موضوع کو ایک ساتھ کچھ ایسے فنی رچاؤ کے ساتھ پیش کیا ہے کہ جہاں پر واقعہ اپنی پوری شدت کے ساتھ سامنے آتا ہے وہاں کردار دبتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔ اور جہاں پر کردار پورے ناول کے وقار کے امین نظر آتے ہیں وہاں واقعہ پس منظر میں نہیں چلے جا تے بلکہ واقعہ اور کردار دونوں ایک دوسرے سے تحریک پا کر اس مخصوص دانشورانہ فضا کو تشکیل دیتے ہیں جس پر قرۃ العین حیدر کا انحصارہے ۔’’ آخر شب کے ہم سفر‘‘ پڑھتے ہوئے قدم قدم پر یہ محسوس ہو تا ہے کہ واقعہ کر دار میں اور کردار واقعہ میں رنگ بھر تے ہوئے چلتے ہیں۔

اس کے بعد جن ناول نویسوں نے اردو ناول نویسی میں شہرت حاصل کی ان میں جو گیندر پال، سجادانور، درجہ اولیٰ کے مالک ہیں ۔ حال ہی کی عمدہ مثال ’’ فراد‘‘ ’’خضرمیانی‘‘ ’’نادید‘‘ اور بیانات جو گندر پال کی ناولیں ہیں جو دیگر بیانیہ ناول سے مختلف علامتی کر دار کے مالک ہیں۔ وہ اپنے ناول میں تین اہم کر دار کے ذریعہ پیش کی ہے جو ذہنی بیداری ہی نہیں مادی سماجی معیار پر وہ تین طاقتیں ہیں جو آپسی طور پر ٹکرا جانے والا ہے ۔ ایک طرف سائنس ٹکنالوجی کی عطا کی ہوئی میکانکی اور بناوٹی تہذیب ہے جو ناول کا کردار دلیپ کی بنجر زمین ہوگئی ہے تو دوسری جانب آرٹ ادب اور دیگر تخلیقی کارنامے جس میں آج بھی انسانی قدراور جذبہ نمایاں نظر آتا ہے۔اس تخلیق میں فنکارانہ بصیرت اس کی شناخت ہے اور اس ناول کی ہیروئن بذات خود زندگی ہیں ’’ نادید‘‘ بھی کچھ ایسی نوعیت کی چیز ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ ظاہری طورپر یہ چند نابینوں کی داستان ہے مگر جب آپ اس ناول میں اتر کر غائر مطالعہ کر تے ہیں تومعلوم ہو گا کچھ نابینا بصیرت والوں سے زیادہ وسعت نظررکھتے ہیں ۔

جوگندر پال کو عوام کی طاقت و دانائی پر بہت بھروسہ ہے وہ عام انسانوں کی دگرگوں حالت دیکھ کر پریشان رہتے ہیں ۔ ناول کی فنی اور جمالیاتی و قار کا سبب زبان و بیان کا خوش نما استعمال ہے ۔ اس ذریعہ سے جوگندرپال اپنے کر داروں کے روحانی تجربات میں قاری اور خود کو بھی شامل کر تے ہیں وہ اپنے ناولوں میں انسانی صورت حال میں معنی کی نئی سمتوں کی جستجو کرتے ہیں ۔

خوشیوں کا باغ اور جنم انوروپ انور سجاد کا ناول ہے وہ اپنے ناولوں میں اختیار کی روایت سے گزیر کر کے ناول کے فن کو شاعری اور مصوری کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے ۔ اس اعتبار سے اردو ناول نویسی میں ان دونوں کو تجرباتی ناول کہہ سکتے ہیں ۔ حالانکہ قصہ یہ ہے کہ انور سجاد کا اسلوب منفرد ہے عہد مقام اور کہانی کی ٹوٹ پھوٹ ان کے افسانوں کی طرح ان کے ناولوں میں بھی عیاں ہے ۔ اس بات کی طرف صراحت شمیم حنفی اور دیگر عہد حاضر کے بڑے بڑے نقادوں نے کی ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انور سجاد کا تعلق ترقی پسند تحریک سے رہا ہے یا نہیں ۔ مجھے اس بحث سے مطلب نہیں مگرایک بات ضرور ہے کہ انور سجاد ایک نرم دل انسان تھے وہ عام لوگو ں سے محبت رکھتے تھے ۔ وہ انسانی فلاح و بہبود ی کے لئے سماجی اور سیاسی دونوں اعتبار سے اپنے آپ کو لگائے رکھتے ہیں ۔ اس بات کی تصدیق مجھے ان کی ناول نگاری سے ہوئی ہے ۔ اس میدا ن پر وہ اپنے ہم عصر وں سے اعلیٰ و بالا ہیں ۔ وہ حالات حاضرہ کے بگڑے ہوئے سیاسی سماجی حالات ظلم و ستم زور زبردستی کئے جانے والی عوامل استحصال شیطانیت اور حیوانیت کے حلاف ببانگ دہل آواز بلند کر تے ہیں ۔ ان کا نثری اسلوب اتنا شاندار او دل کش ہے کہ وہ اپنے اظہار خیال کے غرض و غائت مقاصد فکر نظر وہ کیا چاہتے ہیں اس کو اپنے قارین تک پہنچا سکتے ہیں مگر حیف کہ وہ حد درجہ الجھے ہوئے اور تجرباتی تکنیک قلم بند کر کے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ۔ ان کے ناولوں کا مطالعہ کر کے اس کو سمجھنا عام لوگوں کے بس کا روگ نہیں ہے ۔ ایک گریجویٹ قاری جزوی طور پر سمجھ سکتا ہے مگر وہ بھی مرعوب ہو کر رہ جاتا ہے۔ دراصل انور سجاد جس الجھے ہوئے اور پیچیدہ مسائل کو اپنے ناولوں میں پیش کرنا چاہتے ہیں اسے کمال فن نہیں کہتے ۔ اپنی بات کو کہنے کے لئے الجھے ہوئے تکنیک کا سہارا لے یہ کمال نہیں بلکہ وہ ایسا تکنیک اپنائے کہ عام قاری ان کے مر کزی خیال کو سمجھ سکے ۔ او رتنقید و تبصرہ کر سکے۔

اردو میں بیشتر تاریخی ناول قدیم او ر پرانے رسم و رواج پر مبنی لکھی گئی ہیں جس میں نقطہ نگاہ کو بہت دخل ہے ۔ در اصل ابتدا میں تاریخی ناول کے ذریعہ مذہبی عقائد کی تبلیغ کی جاتی تھی اس کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے اردو ناول میں ہیرو ہیروئین کا تذکرہ نہیں ہونا تھاجس کے نتیجے میں تاریخی ناول کی ترقی نہیں ہوئی ترقی پسند ادیبوں نے اس کے لئے بھی کافی جدو جہدکی ۔ ان بزرگوں کا خیال تھا کہ تاریخی ناول قدیم سماجی تاریخ پر مبنی ہو اور قومی یکجہتی انسانی دوستی اخوت مروت اور بھائی چارگی کا ضامن بھی اس اعتبار سے قرتہ العین حیدر کا ناول ’’ آگ کا دریا‘‘ کو تاریخی ناول کہہ سکتے ہیں ۔ یہاں گذرے ہوئے زمانہ کا تہذیبی میراث اور فکری سرمایہ سے ان کا رشتہ کسی احبائی یا قدمات پسند انہ ذہنی رویہ کا ثبوت فراہم نہیں کرتا ہے بلکہ اس کے برخلاف وہ بیتے دنوں کی روشنی میں موجودہ زمانہ کو پر کھ کر سازگار اور خوشگوار بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اجتماعی طور پر ان کو اپنے ناول کا موضوع تاریخ بنانے کا مقصد جاگیردارانہ او رنا اہل طبقہ کے ظلم وستم کے خلاف صدائے احتجاج کرنے اور انسان دوستی کو دعوت دینے کا ہے ۔ ان نمام چیزوں کی تلاش انہوں نے متعدد تحریکوں اور فلسفوں کی روشنی میں اپنے مطالعہ و مشاہدہ کی بنیاد پر کی ہیں ۔ یہی چیز ان کی ناول کو شہرت بخشتی ہے ۔ قاضی عبد الستار اور عزیز احمد نے بھی اپنی تاریخی ناولوں میں زندگی کے وسیع تہذیبی اور انسانی رشتوں کو پیش کیا ہے ۔ قاضی عبدالستار نے اپنے ناول ’’ داراشکوہ‘‘ میں ہند وپاک کی تاریخ کے ایک خاص چورا ہے پر رک کر ہے مخالف طاقتوں کی صداقت پسند انہ مصوری کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ عہد ہ و حکومت حاصل کرنے کے لئے جو جنگ لڑی گئی ایسے موقع سے ترقی پسند ادیب ان دشمن انسانیت گروہ کی طاقت کو ختم کر نے کے لئے معر کہ آراتھے ۔انہوں نے اپنے ناولوں میں نقسیم ہند سے پیدا شدہ پیچیدہ ، اقتصادی، سیاسی ، سماجی، معاشی، جغرافیائی اور ثقافتی مسائل کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ۔

فی زمانہ’’ جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں‘‘۔ عزیز احمد کا ایک اہم ناول ہے ۔ اس میں امیر تیمور کی سوانح حیات کو ایک کامیاب حکمراں کی جگہ ایک عام انسان کی طرح پیش کیاگیا ہے ۔ اور یہ ثابت کر نے کی گئی کوشش کی ہے کہ ایک انسان جو بچپن سے جوانی تک کا سفر طے کر کے ضعیفی کو پہنچ جا تا ہے اس وقت وہ انسان نرم دل سنجیدہ اور معلم اخلاقی بن جاتا ہے ۔ ساتھ ہی وہ اپنے بچپن اور جوانی کا تصور کر تے ہیں جس سے وہ ہمیشہ کے لئے محروم ہو چکے ہیں اس کے ساتھ ہی ناول نگارنے ان عوامی تہذیب و تمدن اور طاقتوں کی نشان دہی کی ہے جو قدیم ایشیا کی تاریخ کو نئی راہ دکھا رہی ہیں ۔

آزادی کے بعد ہند و پاک میں معاشی سیاسی ادبی تعلیمی اور دیگر شعبوں میں تبدیلی رونما ہوئی خاص طور سے ادب کو اس سے کافی نقصان ہوا ظلم و ستم فسادات کے شکار لوگ ہجرت کے مصیبت و مسائل سے درچار تھے یہ بہت نازک دور تھا ۔ یا یوں کہا جائے کہ دستور زباں بندی تھی ۔ بہر حال اس ہیجانی صورت حال نے عرصہ دراز تک ادیبوں کو ذہنی تعطل کا شکار بنائے رکھا۔ یعنی تحریری شکل میں اپنے ذہنی اظہار خیال سے محروم رہا۔ آخر کار ایک مدت کے بعد ناول لکھا گیا جو ایک فلسفیانہ اور فکری عمل تھا ۔ جو انسانی زندگی کے پائیدار حقائق کی مفہوم و تعید کے لئے گہری سماجی بصیرت اور تجزیاتی قوت کا مطالعہ کرتا ہے ۔ ناول نگار اسی وقت اچھا ناول نگار ہو سکتا ہے ۔ جب وہ سماج میں رہنے والے انسان کے حالات و مسائل کا بغور مطالعہ کریں گے اس کا جائزہ لیں گے اس کے لئے مصنف کو اپنا قیمتی وقت عرصہ درازتک لگانا پڑے گا ۔ بہر حال میں آزادی کے بعد ناول نگاری سے متعلق بات کرنے کے حق میں ہو ں جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے کہ اس زمانہ میں عام لوگوں کے علاوہ ادیبوں کے ساتھ کیا دقت اور دشواریاں پیش آئیں کہ خاص طور سے ترقی پسند ادیب ایک موج خوں سے گذر گیا بعد ازاں حالات سازگار ہوئے تو تخلیقی تحریک میں خوب ناول لکھے گئے انہیں دنوں ترقی پسند ادیبوں نے ہی ناولٹ کو خاص طور سے فروغ دیا ۔ جیسا کہ مشہور ہے کہ مصروفیت کے ساتھ انسان کے پاس وقت کا فقدان ہو جاتا ہے ۔ یہی حال اس زمانہ میں بھی ہوا ۔ لوگ زیادہ سے زیادہ اپنے کاروبار اور ملازمت میں مصروف رہنے لگے ۔ ناول میں قصہ کردار اور سماج کے بڑے اور پیچیدہ مسائل کی بحث ہوتی ہے ۔ اس کے بر عکس ناولٹ میں موضوع، مواد او ر فضا موجود ہوتی ہے ۔ اس چند نتیجہ خیز حقائق کو چند کرداروں کے توسط سے پلاٹ کو سنوارا جا سکتا ہے ۔ ماحول اور فضا بنانے کے لئے جزیات اور تفصیلات کی کسی قدر کم ضرورت ہوتی ہے ۔ البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ناولٹ افسانہ کے پھیلاؤ اور ناول کے اختصار کی درمیانی صورت ہے۔ اس میں عمل اور وحدت کا تاثر لازمی نہیں بلکہ قصہ کی وحدت اور گہرائی لازمی ہے تاکہ بنیادی باتیں جو کچھ مصنف کہنا چاہتا ہے وہ کہنے میں کامیاب ہو جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کے مقابلے میں ناولٹ کی تخلیق کے لئے تخلیقی اور تعمیر ی لیاقت کی ضرورت ہوتی ہے یہی خاص بات ہے کہ اس عہد میں ناولٹ کو اہم شہرت ملی اس مقصد کے تحت چند افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیوں کو طول دینا شروع کیا ۔ مثلاً ’’ ایک چادر میلی سی ‘‘ بیدی ’’ دل کی دنیا‘‘ عصمت ’’چڑھتا سورج‘‘ یا خالی ہاتھ ابولافضل صدیقی ’’ ایک معمولی لڑکی‘‘ بلونت سنگھ ’’ جگنو اور ستارے ‘‘جیلانی بانو ’’ بے جڑ کے پودے ‘‘ سہیل عظیم ٓبادی ’’ ہاروسنگ سوسائٹی‘‘ قرۃ العین حیدر ’’ بیانات‘‘ جو گندر پال موصوف اپنے تخلیقی سفر کی اس منزل پر ہیں جہاں وہ منزل کو گرد ماننے اور غبار کو منزل بنتے ہوئے دیکھنے کا دعوای کر سکتے ہیں ۔ ایک لمبی مسافت اور ایک منفرد تخلیقی وجود جس کی تشریح کر نا یا جس کے بارے میں کچھ کہنا یا لکھنا آسان بات نہیں رہی۔تجربہ مشاہدہ ،سانحہ، حادثہ، گردوپیش کا فاصلہ ، مکاں لا مکاں مچلتا ہوا ٹھہراو اور محترک سکون، خیال اوربے خیالی اور ایسا ہی بہت کچھ اپنے کو بیک وقت آشکارا کرتا ہے تو جوگندر پال کے ناول کا ہیولیٰ قاری کے آنکھو ں کے سامنے ابھر تا ہے مرئی اور غیر مرئی وجود اور عدم وجود ہو نے یا نہ ہو نے کی حالت کا تصور کر نا اور اسے صفحہ قرطاس پر ناول کی شکل میں اتارناہی جوگندر پال کا کارنامہ ہے ۔ کبھی اس نے فقیری اور پیری کو زندگی کا منتہائے مقصود مان لیا ہو گا اور یہ بھی جان لیا ہو گا کہ یہ درد، پستی ، قلندری اور پھکڑ پن کی زندگی کی رمزیت کی آخری حدوں کو چھوڑ کر ہی میسر آتا ہے بس یہ کہیں مستعار نہیں ملتا ۔ اور اس عرفان کو جوگندر پال نے اپنی تخلیق کی اساس بنایا۔جوگندر پال بلا شبہ ایک منفرد ومزاج اور صاف اسلوب ناول نگار ہیں اور اردو ناول کے آسمان پر ایک تا بناک اور درخشندہ ستارہ بھی ۔ جوگندرپال کو پڑھتے وقت قاری محسوس کر تا ہے کہ وہ ناول نگار کے ساتھ چلتا ہو ا اس کو سنتا ہو ا زندگی کی ایمائیت، رمزیت، اشاریت کو سمجھتا جا رہا ہے ۔ وہ زندگی کی خوبصورتی اور بدصورتی دونوں کو اپنے سامنے عیاں کر تے ہوئے دیکھتا جا رہا ہے اور ایک ایسے شعور اور تحت الشعور کے کرشمے کا عرفان بھی حاصل کر رہا ہے جو اس کے اپنے اندر ہو تے ہوئے بھی اس پر منکشف نہیں تھا ۔جوگندر پال ناول لکھتا ہے، ناول بنتا ہے ، داستاں بیان کر تا ہے اور ایک ایسی سحر انگیز فضا پیدا کر تا ہے جس میں صورت حال اور کردار ایک دوسرے میں تحلیل ہو کر ایک رمزیت زدہ کیفیت پیدا کر دیتے ہیں جوگند ر پال کے ناولوں میں زندہ لوگ مردوں میں بدل جاتے ہیں ۔ اور مردے لوگ زندہ ہو اٹھتے ہیں انسان حیوان میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور حیوان انسان کا شعور اور لہجہ اختیار کر لیتے ہیں اور ناول کی کائنات ایک وجدان کے زیر اثر بڑا انوکھا رقص کر نے لگتی ہے ۔ محویت جوگندرپال کے ناولوں کی جان ہے اور مسلسل سفران کی روح ۔

ان کے علاوہ قاضی عبد الستار نے بھی جو چند ناولٹ تحریر کہتے ہیں انہیں پڑھ کر معلوم ہوتا کہ اس دور کے ناولٹ فنی نقطۂ نگاہ سے ناول سے حد درجہ قریب دلکش اور دلچسپ ہی ۔ ان کے کردار اور پلاٹ کی تعمیر اور کرداروں کی پیشکش ڈرامائی ہے ۔ اس کے علاوہ حالات حاضرہ میں عام انسان سماجی زندگی میں جس کشمکش کے مراحل سے گذز رہے ہیں اس کی عکا سی اس عہد کے ناول کے بجائے ناولٹ میں زیادہ ہوتی ہے ۔ قدیم نواب ، شرفا ، سرمایہ دار طبقہ کا زوال صنفی انقلاب سے پید شدہ نتائج یعنی نئی بیداری عشق و محبت کے نئے تصور ۔ جدید و قدیم خاندان یا رواج کا جھگڑا اونچ نیچ اور بڑے چھوٹوں کے ما بین محبت کا فقدان انسانی جذبات اور فرماں برداریوں کی خرید و فروخت اوراس نوعیت کی اور بھی دیگر حقائق کی بے تعصب تصویریں اس عہد کے اردو ناولٹ میں نمایاں نظر آتے ہیں ۔ یہ بات قابل ستائش ہے مگر دوسری طرف ایسے سنجیدہ اور اہم ناول تخلیق ہوئے ہیں جس میں موجودہ دور کے سماجی مسائل کی کشمکش عیاں نظر آرتی ہیں ۔مثلاً ’’ معصومہ‘‘ عصمت چعتائی ’’ سمن‘‘ رضیہ سجاد ظہیر ’’ اپنی اپنی صلیب‘‘ صالحہ عابد حسین اور ایوان غزل ۔ جیلانی بانو محتاج تعارف نہیں ۔ جیلانی بانو خاتون ناول نگارہیں اس میدان میں ان کی اپنی ایک شناخت ہے جس کی وجہ سے وہ جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے ناول میں حیدر آبادی کی سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کی کہانی تیکھے و تند احساس اور گہرے سماجی شعور کی روشنی میں قلم بند کیا ہے ۔ وہ اس نظام میں ہونے والے ظلم وستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر تی ہیں ۔ساتھ ہی موصوفہ محنت کش دہقانوں کے باغی ذہن اور انقلابی طاقتوں کی وکالت کر تی ہیں جس کی گرج کڑک ، شور ، ہنگامہ ، آزادی کے بعد سنائی دیتی ہے ۔ اور درمیانہ طبقہ کی عورتوں کے بچپن، دوشیزگی، شباب کا دلچسپ افسانہ اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے ۔ مگر ان کا کردار ’’ ایوان غزل‘‘ کی کائنات سے باہر کم دکھائی دیتا ہے اور جو باہر ہو جاتے ہیں وہ قیصر کی طرح لوٹتے نہیں ہیں کہ اپنے انقلابی لڑائی کی داستان سناسکیں ناول میں کرداروں کی زیادتی کی وجہ سے کہانی پیچیدہ بھی ہوگئی ہے ۔ اس کے بعد موصوفہ اپنے مطالع و مشاہدہ کو شش جہتی حکمت عملی ، وسعت نظر ، غیر معمولی فہم و ادراک، تجربہ ، احساس وغیرہ کی بنیاد پر اردو ناول کو چاند اور غزل جیسے دو محبوب اور لازوال کر دار خلوص و بے لوث محبت کے ساتھ فراہم کردی ہیں ۔

اس طرح اردو ناول کے پس منظر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ مجموعی طور پر یہ ترقی پسند نظریہ ادب اور زندگی سے قریب ہے ۔ ہمیشہ سے یہ روایت چلی آرہی ہے رہر دور میں بد لتی ہوئی زندگی کے رشتوں اور ہمت پر غور و فکر اور اس کی معنویت کی کھوج کا ولولہ اور جذبہ انسانی جبلت میں پہناں رہا ہے ۔اس وقت پریم چند تاکا ہی طریقہ مستحکم طور پر رائج رہا ہے جو انسانی زندگی کو خوشگوار بنانے کے ساتھ ترقی کے راستہ پر گامزن کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اچھا ناول نگار اپنی حقیقی تجربات کے پیش نظر صداقت پر مبنی ناول نگاری کر تا ہے اور تاریخ کی صداقتوں کو سماج میں رہنے والے انسانی رشتوں سے جوڑ کر پیش کرتا ہے ۔سماجی زندگی میں جو جو مسائل رونما ہو تے ہیں اس میدان میں داخلی تجربہ ڈرامائی پیشکش اور علامتی اظہار و بیان کے جوتجربے قراتہ العین حیدر نے کیئے ہیں۔ وہ اظہر من الشمش ہیں اور ان کی یہی خصوصیت ان کو خاتون ناول نگاروں کا امام بنا دیتی ہے ۔ اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں ترقی پسند ناول ہمارے سماجی مسائل پر مبنی ہے یا نہیں اور اس کے ذریعہ اس کا حل ممکن ہے یا نہیں اس کے بارے میں آپ کا ذہن مبذول کر نا چاہوں گا کہ بیسویں صدی کے چوتھے دہائی کے بعد اردو ناول کا موضوع شہری سماج ہوگیا ہے ۔جب کہ ہندوستان میں اسی فیصد لوگ دیہات میں بستے ہیں ۔ وہ مزدور کسان، محنت کش اور معصوم ہیں ۔ ان لوگوں کو بڑے بڑے مسائل حادثات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وہ ایسے ایسے مراحل سے گذرتے ہیں جس کا ذکر آتے ہی کلیجہ تھام لینا پڑتا ہے ایسے لوگوں اور ان کو ناول کا موضوع بنانے سے محروم رکھا ہے ۔بہر حال جب ہم اردو ناول کے ارتقاء کے متعلق بات کریں گے تو معلوم ہو گاکدفی زمانہ اردو ناول کا موضوع اعلی شہری سماج کا حلقہ بن گیا ہے اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اردو ناول نگاری میں ایسے ناول نگاروں کا فقدان ہے جو دیہات کے سماج سے واسطہ رکھتے ہوں ۔ ویسے حالات حاضرہ میں معدود چند لوگوں نے دہقان اور اس کے احوال، دیہات اور دیہاتی ماحول پر مبنی ناول تخلیق کی ہے ۔ مگر ان حضرات نے دیہات کے محنت کش طبقے کی زندگی کو ایک چشم دہقان سے نہیں بلکہ جاگیردار یا درمیانی طبقہ کی نظر سے دیکھا ہے ۔ اس لئے ان کی انسان دوستی محنت کش دہقان سے ان کی سچی محبت اور احساس قرابت کی جگہ ان کی حالت پر کر م یا درد مندی کے جذبات کی چغلخوری یا مخبری کرتی ہے ۔ ان حضرات کے ناولوں میں غریب اور محنت کش انسانوں کی مظلومی کی تصویریں تو نظرآتی ہیں ۔ مگر ظلم و ستم کے خلاف ان کی نفرت ان کا جذبہ بغاوت ان کی روح کا کر ب و درد کا سراغ نہیں ملتا۔ بیسویں صدی میں بانو قدسیہ ، خدیجہ مستور، ممتاز مفتی ، بلونت سنگھ، ایم اسلم اور ابن سعیدویسے بڑے اورچھوٹے ناول نگاروں کا ایک قافلہ پیہم رواں دواں ہے ۔ان ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں تقسیم ہندسے پیدا ہو نے والے پیچیدہ سیاسی ، اقتصادی، سماجی ، آپسی اختلاف نفاق معاشی بدحالی سماجی نا برابری ،بے مروتی ، نا انصافی ، جبر وظلم او ر جاگیر دارانہ ظلم و استحصال اور جغرافیائی اور ثقافتی و ادبی مسائل پر مبنی ناول تخلیق کیئے ۔تقسیم ہند کے بعد کے بڑے ناول نگاروں نے اس عہد کے حالات کو بڑی فنکاری کے ساتھ قلم بند کیا ہے جہاں وہ لوگ اقدار کے زوال و انہدام کے نو حہ گری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔جتندر بلّو ، ہرچرن چاولہ ، انور خان وغیر ہ نے انسانی تضاداد ، شدید ردعمل ہجرتوں کا سلسلہ اور ان سے متعلقہ معاملات و حالات اور مسائل کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے ۔ اسی عہد میں بلونت سنگھ، کے ناول شہری عامیانہ پن کے زد کا شکار رہی ہیں ۔جمیلہ ہاشمی، ، مستنصر حسین تارڑکے ناولوں میں دیہات اور شہر کی دوئی اور باہمی ترسیل کا بحران ہے ۔ سید محمد اشرف کے ناول میں ثقافتی اداروں کے زوال و انتشار اور انسانی غم و الم افسر دگی اور حر ما ں نصیبی رقص کرتی ہیں ۔ جیلانی بانو کے ناولوں میں متعدد قسم کے مر دو عورت کے کردار ملتے ہیں اور دبی زبان میں جنسی معاملات اور عاشقانہ واردات کا تفصیل و تشریح دکھائی دیتے ہیں ۔ ساجدہ زیدی کھلے انداز میں غیر روایتی جنسی رشتوں کی پیش کش کر تی ہیں ۔ ریوتی سرن شرما کے ناول کی عورت جہاں رشتہ ازدواج کی حدود کے اندر رہنے کے باوجود اپنی انفرادی شناخت کا حق مانگتی ہے ۔اس کے علاوہ بیسویں صدی کو الوداع کہہ کر اکیسویں صدی کو خیر مقدم کرنے والے ناول نگاروں میں نئے اور پرانے چراغوں کا متحرک اور فعال قافلہ ہے جو پیہم ہر گام اپنے منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہے جس میں مظہر الزماں، کوثر مظہری، فہمیدہ ریاض اقبال مجید، انور سجاد ، عمراو طارق، احمد داود، آغا سہیل، فخر زمان ، طارق محمود، خالد سہیل، شام بارک پوری، محسن علی ، یعقوب یاور، پروفیسر محمد حسن،، الیاس احمد گدی ، غضنفر،گیان سنگھ شاطر، احمد صغیر ، وبھوتی نرائن ، شام سندر آنند وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔

جس میں مصنف الیاس احمد گدی نے صوبہ بہار کے شہر ’’ جھریا‘‘ کے ایک چھوٹے سے علاقے کو اپنی نگاہ میں رکھا ہے ۔ ناول میں ’’فائرایریا‘‘ کو بلیغ اشاریہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ اس میں صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ صنعتی نظام نے استحصال کی جو شکلیں اختیار کیں ہیں اس کی روداد پیش کی گئی ہے ۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ جس طرح الیاس احمد گد ی کا ناول ہم عصر صنعتی ترقی کے در پردہ اس مکر وہ استحصالی نظام کا مر قع ہے جو طبقاتی معاشرے کا لازمی وصف ہے اور جو اس بات کی بھی غماری کر تا ہے کہ جاگیردار نہ عہد اور انگریزوں کی غلامی سے نجات کا دعویٰ اور صنعتی ترقی کی چمک دمک اس طبقے کے لیے بے سودو بے معنی ہیں ۔ ’’فائرایریا‘‘ کا موضوع ایک مسلسل نا انصافی اور ایک مسلسل استحصال ہے جسے مصنف نے بچپن سے جوانی تک اپنے آس پاس مسلسل دیکھا تھا ۔ وہ جانتے تھے کہ کول فیلڈ کی اپنی ایک الگ دنیا ہو تی ہے ، استحصال کا کرب مزدوروں کے ذہن پراثر انداز ہو تا ہے لیکن وہ گھٹ گھٹ کر زندگی کا زہر پینے پر مجبور ہو تے ہیں ۔حق کی آواز بلند ہو تی ہے لیکن وہ اتنی بے رحمی سے دبادی جاتی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ بھوک ، مجبوری ، لاچاری، بے بسی، غریبی، اور ظلم کا ننگاناچ روز مرہ کی زندگی کا ایک حصہ بن جاتا ہے ۔ الیاس احمد گدی نے اپنے ناول میں اس ماحول کی تصویر پیش کر تے ہوئے جس عمیق تجر بے اور مشاہدے کو بر وئے کا رلاتے ہیں اس کو دیکھ کر محسوس ہو تا ہے کہ اس ناول کو لکھنے کا حق صرف اور صرف انہیں ہی حاصل تھا ۔’’فائر ایریا‘‘ کا محور جس صنعتی و سرمایہ دار انہ نظام پر مبنی ہے وہاں کے مزدور سیکٹر کے ٹریڈ یونین کی سیاست کی مختلف شکلیں ، اس کے مختلف رخ، جس مہارت کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں وہ قابل تعریف ہے الیاس احمد گدی نے ناول کے فن کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیاتھا ، وہ اس فن کی بوطیقا کو بہت اچھی طرح سمجھ چکے تھے اس خوبی سے کہ فائر ایریا لکھتے ہوئے وہ اس فن کے کسی حصے پر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کر تے ۔ پلاٹ سے کر دار نگاری تک اور نظر یاتی شعور سے اسلوب بیان تک ہر مرحلہ انہوں نے بے حد فنکاری کے ساتھ طے کیا ہے اور فنی جمالیات کی قدروں سے کہیں بھی رو گردانی نہیں کی ہے ایک سچے فنکار کی طرح ان کا خمیران کے اردگرد کی حقیقتوں سے تشکیل پاتا تھا اس لئے ان کے یہاں خقیقت پسندی نظریاتی ہے اور ان کے الفاظ طبقاتی احساس و شعور سے لبریز ہو نے کے باوجود پڑھنے والے پر معروضی تا ثر چھوڑ تے ہیں ۔’’فائر ایریا‘‘ کے بعض واقعات مثلاً مجمدار کے قتل کی پلاننگ اور مجمدارکی موت کے بعد ایک جاہل اور گنوار عورت کا جلوس کے ساتھ ساتھ قاتلوں کو پھانسی دینے کا نعرہ لگا نے وغیرہ کو بعض حصرات فلمی انداز کا عیب قرار دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ محترم وہاب اشرفی جیسے ناقد نے بھی اسے میلو ڈرامائی کیفیت سے تعبیر کیا ہے ۔ اس سے انکارنہیں کیا جا سکتا کہ واقعی فائر ایریا کے کچھ واقعات خاص کر قتل و خون اور جلسہ و جلوس کے منا ظر انتہائی میلو ڈرامائی اور ایکدم فلمی انداز لئے ہو ئے ہیں لیکن اسے تخیل کی دین سمجھ کر فلمی اور غیر اصلی سمجھ لینا صحیح نہیں کیوں کہ کول فیلڈ میں رہنے والے جانتے ہیں کہ وہ ایسی جگہ ہے جہاں ایسے واقعات دن رات پیش آتے رہتے ہیں۔ عورتو ں کا جھنڈا لے کر جلوس میں شامل ہونا ایک عام بات ہے ۔ جبر اور استحصال سے قطع نظر بالکل آمنے سامنے صف آرا ہو نے کی کیفیت وہاں موجود ہے دوسرے یہ کہ ہماری زندگی پر آج میڈیا کا بے پناہ اثر بالکل واضح ہو گیا ہے اس لئے تخلیقی ادب کو میلو ڈر امائی کیفیتوں سے نزدیک رکھنے کو عیب کے بجائے خوبی میں شمار کر ناچاہئے ۔ ایسے چند گنے چنے لوگوں میں الیاس صاحب کو آسانی سے رکھا جا سکتا ہے ۔ ایسا اس لیے بھی کہ الیاس کہانی کہنے کے فن سے واقف ہیں اور انہیں ماجرا سازی کا ہنر آتا ہے ۔ کچھ بر س پہلے ہندی کے مشہور کھتاکا رسخبور کا ایک ناول شائع ہوا تھا ۔ ساودھان ! نیچے آگ ہے ، ۔۔۔یہ ناول فائر ایریا یعنی کو لفیلڈ میں کام کر نے والے ان مزدوروں کی زندگی پر مبنی تھا جو اندر دہک رہی آگ کی بھٹی میں اپنے حال اور مستقبل کو فراموش کر بیٹھتے ہیں ۔تب خیال آیا تھا یہ ناول غیاث صاحب نے کیوں نہیں لکھا ؟ یا اس موضوع پر الیاس صاحب نے قلم کیوں نہیں اٹھایا جب کہ ان کا تعلق اسی فائر ایریا سے ہے ۔جہاں اکثر مزدوروں کی زند گی کا سودا ہوتا رہتا ہے ۔اس لحاظ سے میں الیاس احمد گدی کو مبارک باد پیش کر تا ہوں کہ اس بہانے انہوں نے کولیری کی اس دنیا میں جھانکنے کی کوشش کی ہے ، جہاں گھٹن ہے ، گھپ اندھیرا ہے ، کھولتے ہوئے گرم لاوے ہیں ۔۔۔۔ اندر آگ ہے اور اس آگ میں گندن کی طرح پیتا ہوا مزدور ہے۔ الیاس نے اس ناول میں کہیں شاعری نہیں کی ہے ۔ ماحول دیسا ہی پیش کیا ہے جیسا کولیری کا ہو نا چائیے کرداروں کے مکالمے ویسے ہی رہنے دیے ہیں جیسا کہ وہ بولتے ہیں ۔ علاقائی زبان کے علاوہ بہار کی دوسری بول ٹھولی پر بھی الیاس کی گرفت مضبوط ہے ۔ صاف ظاہر ہو تاہے کہ فائر ایریا کی تخلیق وہ شخص کر رہا ہے جو بہار کے جغرافیائی حدود ، زبان ، ماحول اور کلچر سے بخوبی واقف ہے۔ اس واقفیت نے فائر ایریا کو ایک عمدہ اور کامیاب ناول بنا دیا ہے یہ مکمل طور پر ریسرچ کا موضوع تھا ایسے ناول کی تخلیق ہو ا میں ممکن نہیں تھی۔

اردو میں آج بچوں کا ادب لکھنے والا کوئی نہیں ۔ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے ۔بڑے ادیب بچوں کے لیے لکھنا کسرشان سمجھتے ہیں ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے لیے لکھنا انتہائی ذمہ داری کا اور مشکل کام ہے ۔ کہانی انکل کی کہانی بچوں کے گرد گھومتی ہے ایک کہانی انکل ہیں جو کہانیاں سناتے ہیں اور ڈھیر سارے بچے ہیں جو کہانی انکل کو ہر وقت گھیرے رہتے ہیں ۔ غضنفر کا اپنا ایک منفرد اسلوب ۔ اور یہ نیا ڈکشن یا اسلوب اس ناول میں بھی نظر آتا ہے یعنی ایسا انوکھا ڈکشن ،جس سے بچے اور بڑے دونوں ہی لطف اندوز ہو سکیں اور کہنا چاہیے غضنفر اپنے اس ڈکشن کی دریافت میں کامیاب ہیں ۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ کہانی انکل ناول ہے نہیں ، ناول بنا یا گیا ہے ۔ اور اس کے لیے بس تھوڑی سی مغزماری کی گئی ہے ۔ یعنی کہانی والے انکل اوربچوں کا سہار لیا گیاہے ۔ اس کی زیادہ تر کہانیاں پہلے ہی رسائل و جرائد میں چھپ چکی ہیں ہاں حیرت والی کہانی کا ایک حصہ وکٹر ہیو گو کے مشہو ر ناول Less miserable کی یاد دلاتا ہے خاص کریہ حصہ ۔ اندھا دیکھ رہا تھا ، آنکھ والا ٹھوکر کھا رہا تھا لنگڑادور رہا تھا Less Miserable کا پادری جب اندھوں کی نگری میں پہنچتا ہے تو اس کے ساتھ کم وبیش یہی واقعہ پیش آتا ہے ۔

ادب ، ادب ہو تا ہے ۔ ادب میں کشف و کرامت اور معجزے جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ مگر جب کبھی گیان سنگھ شاطر جیسی حیرت زدہ کر دینے والی کوئی کتاب سامنے آتی ہے تو اس اکیسویں صدی میں بھی معجزے کا قائل ہونا پڑتا ہے ۔یہ ایک سوانحی ناول ہے اور اسے قلم بند کر نے والا فن کار وہ ہے جس نے اپنی شخصیت کی پر تیں کھولنے کے لیے اس زبان کا انتخاب کیا ، جس زبان سے وہ خود بھی انجان تھا لیکن وہ محسوس کر تا تھا کہ جذبات واحساسات کے اظہار کے لئے اردوسے بہتر کوئی دوسرا وسیلہ نہیں ۔ حقیقت شناسی کی جس سڑاند ھ سے وہ اپنی ذات کے موتی لٹانا چاہتا تھا اس کیلئے صحیح معنوں میں اردو زبان کی Flexibility کی ضرورت تھی ۔ اس زبان کی رعنائی، دلکشی، شرینی، روانی، لطافت اس آپ بیتی کو بھر پور صحت اور زندگی بخش سکتا تھا ۔گیان سنگھ شاطر ایک تو سب سے بڑی خوبی مجھے یہ نظر آتی ہے ، آنکھیں کھولتے ہی یہ اپنی ذات کے تعاقب میں نکل پڑا۔ اور ایسا لکھا کہ آپ کبھی بھی واقعہ کی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ۔ ایک فن پارہ کی اس سے زیادہ کامیابی اور کیا ہوگی؟۔یہ کتاب صرف آپ بیتی تک محدود نہیں ہے شاطر نے اس میں ایک پورا جہان آباد کر رکھا ہے جانا پہچانا بھی اور ان دیکھا سابھی ایک ماں ہے ۔شفقتوں والی ماں ۔۔۔ بیٹے پر اپنی دعاؤں کا سایہ کر نے والی ماں ۔۔۔ اپنے شوہر کے سائے سے ڈر جانے والی ماں ۔۔۔ اندر ہی اندر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر نے والی ماں ، روایتی زنجیروں میں جکڑی ڈری ڈری سی خوفزدہ سی ماں ۔۔۔ ایک تا یا بھی ہیں جو عورت کی عظمت کے قائل ہیں انتہائی فیاض ، بردبار، ایک ایساانسان جو کسی کا بھی آئیڈیل ہو سکتا ہے ۔ اور ایک بھائیا جی جو انسانوں سے حیوانوں جیسا اور حیوانوں سے درندوں جیسا سلوک کر تے تھے ۔۔۔تایا جہاں عورت کو تخلیق کا سر چشمہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ عورت ہی سرشٹی ہے ، وہیں بھائیا جی کی رائے بالکل مختلف ہے وہ کہتے تھے ۔۔۔’’ عورت اور کتیا کی نفسیات ایک سی ہے ۔۔اسے روٹی کپڑا نہ دو اس چڈے سے لپٹے رہو اور تھن چوستے رہو ۔ یہی اس کی زندگی ہے اور یہی آسودگی۔‘‘ یہ دو غیر معمولی کر دار ایسے ہیں ، جواردو ادب کی تاریخ میں اضافہ تو ہیں ہی شاطر کا مقام متعین کر نے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ عجیب و غریب کر دار تایاجی جہاں ایک آئیڈیل کے طور پر دل و دماغ کے گوشہ میں اپنی جگہ محفوظ کرتے ہیں ،وہیں بھائیاجی کی عورتوں کے بارے میں سوچ، بھائیاجی کی گفتگو ، ان کا لب ولہجہ۔۔۔ اگر منٹو کے بار ے میں کہا جائے کہ اس نے صرف ٹوبہ ٹیک سنگھ دیا ہو تا تب بھی اردو ادب ان کا احسان مند ہو تا ۔۔۔یہی بات ان کرداروں کے حوالے سے کہی جا سکتی ہے ایسے ناقابل فرامووش کردار سے گیان سنگھ شاطر اردو زبان کا دامن وسیع کر گئے ہیں ۔ ایک طرف جہاں یہ انوکھے کر دارہیں اور شاطر کا بچپن ہے اس کا نسائی حس ہے ، اس کی جوانی ہے ، جوانی کی تر نگیں ہیں ، سرمستیاں ہیں اور مجبوریاں ہیں ، وہیں سرزمین پنجاب میں اگی ہوئی وہ حیرانیاں ہیں، جنہیں دیکھنے کی تاب رکھنے والی آنکھیں ہونی چاہئیں اور جسے اپنی مخصوص انداز بیان میں ، شاطر نے انوکھا پنجاب بنادیا ہے ۔بید ی نے اپنے کہانیوں میں جس پنجاب کا چھلکا بھر ا تھا، بلونت سنگھ نے جس کی گودے میں پنجابی مردوں کی آن ، بان اورشان دیکھنے کی جرأت کی تھی ، شاطر نے اس پورے پنجاب کو تہہ درتہہ اس طرح کھول دیا ہے کہ آنکھیں ششدررہ جاتی ہیں۔

وبھوتی نارائن رائے کا نام اردو حلقے میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔اگر چہ وہ پولیس کے اعلی افسر ہیں ۔لیکن بطور ہندی ادیب ان کی شناخت بڑی مستحکم اور معتبر ہے’’شہر میں کرفیو‘‘ اس کی تازہ ترین پیشکش ہے ۔اس سے وبھوتی نرائن رائے کی ایک نہایت اہم تحقیقی کتاب’’فرقہ وارانہ فسادات اور ہندوستانی پولیس‘‘ منظر عام پر آچکی ہے ، جسے اردو حلقوں میں عیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی ۔ ’’ شہر میں کرفیو‘‘کی اشاعت سب سے پہلے 1987ء میں ہندی زبان میں ہوئی تھی۔ اس کے بعدہندوستان کی اہم زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہوئے ۔ انگریزی میں بھی اس کا ایڈیشن منظر عام پر آیا ۔اردو میں کئی اخبارات ورسائل نے اس ناول کے بعض حصے قسطوں میں میں شائع کیئے لیکن اب اردو میں اس کی اشاعت بھی ہوگئی ہے ۔انہوں نے خود نوشت کے طور پر جن حقائق سے پردہ اٹھایا ہے ، انھیں پڑھ کر بخوبی انداز ہ ہو تا ہے کہ مصنف بنیادی طور پر ایک انسان دوست شخصیت ہیں اسی لیے انھوں نے خودفرقہ وارانہ فسادات کے دوران اپنے محکمے کے تعصبات ، پیشہ ورانہ خامیوں اور جبر کو اجاگر کر نے میں کسی پس وپیش سے کا م نہیں لیا ۔ وبھوتی نارائن رائے نے اس ناول کی تخلیق کا پس منظر یوں بیان کیا ہے ۔

’’شہر میں کرفیو ایک مختصر ناول ہے مگر اس کو ضبط تحریر میں لاتے وقت مجھے بڑی پرشانیوں سے گزر نا پرا۔ اس کے بہت سے کر دار اور واقعات الہ آباد شہر کے ایک چھوٹے سے مضافاتی محلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔1980ء کے فسادات کے دوران میں ان لوگوں اور ان کے محلے سے وقف ہوا تھا ان کا دکھ اتنا شدید تھا کہ اس کو لفظوں میں بیان کر نا میرے لیے ممکن نہیں تھا ۔پھر بھی مجھے باربار یہ محسوس ہو ا کہ اس کے اظہار کے لیے مناسب الفاظ میرے ذہن سے پھسلتے جا رہے ہیں ۔ میں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا تھا ، اس کو لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہو ں ۔بلا شبہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زبان افکار کا ناقص متبادل ہے ۔ اگر یہ کتاب ایک بھی قاری کو سعید ہ اور دیوی لال کا دکھ محسوس کرنے کا اہل بنتی ہے یا کسی ایسی دنیا کا خواب دیکھنے کی تحریک دیتی ہے جس میں کوئی فساد بر پانہ ہو تا ہو یا اس کے ذریعہ فساد بر پا کر نے والے عناصر کے لیے شدید نفرت پیدا ہوتی ہے توسمجھوں گا کہ میری کوشش رائیگاں نہیں گئی‘‘۔

اس شہرہ آفاق ناول میں سماج کے ایک ایسے طبقے کے درداور کرب کو زبان دی گئی ہے ، جسے تعصب اور تنگ نظری نے ہمیشہ دبائے رکھا ۔یہ ناول کرفیو کے دوران سماج کے کمزور اور بے بس لوگوں کی لاچاری اور مجبوری کا ایسا دلدوز منظر پیش کر تا ہے ، جسے پڑھ کر رونگنے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اس ناول میں فساد بھڑکا نے اور اس کا سیاسی استحصال کر نے والے عناصر کو پوری جرأت اور بے باکی کے ساتھ بے نقاب کیا گیاہے ۔فساد کے دوران امن قائم کر نے کے نام پر پولیس فورس ، مظلومین کے ساتھ جبر واستبداد اور تعصب کا جو سلوک روا رکھتی ہے اسے خوداسی محکمے کے ایک اعلی افسر نے فکشن کی زبان میں بڑی چابک دستی اور روانی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اس لیے ناول کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے ۔ وبھوتی نارائن رائے نے ہندوستانی پولیس کی کار کر دگی اور ہندو مسلم فسادات میں پولیس کے رول سے اپنے عملی اور براہ راست واقفیت کے باعث اس ناول کو ایک واضح دستاویزی بنیاد بھی عطا کی ہے ۔ ان کا مشاہدہ بہت دوٹوک، کھرااور پھیلا ہو ا ہے ۔ ہندو مسلم فسادات جیسے آتش فشاں اور پیچیدہ موضوع پر ’’شہر میں کر فیو‘‘ کی قسم کا ناول لکھنا آسان نہیں ہے ۔ وبھوتی نارائن رائے نے اس ناول میں فکشن نگار کے ساتھ ساتھ ایک مشاہد ایک سماجی مبصر کے رول بھی ادا کے ہیں اور اپنے ہر رول میں وہ کامیاب ہو ئے ہیں ۔ ان کی اس تخلیق کا خطاب صرف ادب کے قاری نہیں ہیں انھوں نے ہمارے زمانے کی معاشرت، سیاست اور سماجی اجتماعی زندگی کی قیادت کر نے والے ان تمام لوگوں سے مکالمہ کیا ہے جن کے ہو نے سے یہ زندگی داغداردکھائی دیتی ہے چنانچہ یہ چھوٹی سی کہانی ایک آئینہ بھی ہے ۔ جس کی اپنی سطح تو بہت شفاف ہے ،لیکن اس سطح سے جھانکتے ہوئے عکس کو یکھ کر دل ڈوبنے لگتا ہے ۔

شام سندر آنند (قلمی نام آنند لہر) ان کی اب تک’’انحراف‘‘ اور تین ناول ’’سرحد کے اس پار‘‘ ’’سرحدوں کے بیچ‘‘ اور ’’مجھ سے کہا ہوتا ‘‘ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ۔ زیر تبصرہ ان کا چوتھا ناول ہے اس کی تخلیقی فضا سر زمین کشمیر پر 1947ء سے 1996ء تک رونما ہو نے والی درد بھری داستان سے تیار کی گئی ہے ۔ آنند لہر کے دوسرے ناولوں سے بھی کشمیر کے متعلق ان کے درمنددل کی غمازی ہو تی ہے اس ناول میں قبائلیوں اور پٹھانوں کے ذریعے وادی کشمیر کی مجروح ہوتی ہوئی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ یہاں پوجا اور نماز دونوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے اور ہندو مسلم دونوں ایک دوسرے کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔اس ناول کا سب سے اہم واقعہ مندر سے شنکھ کا چوری ہوجانا ہے جس سے مندر کا پجاری بدری غیر معمولی طور پر متاثر ہو تا ہے اور بالا ٓخر وہ ایک ٹرنینگ کیمپ میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ اس کا دوسرا اہم حصہ وہ ہے جہاں سلیمان کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی بر قرار رکھنے کی پاداش میں قتل کر دیا جا تا ہے نیز ظلم کے خلاف اجتجاج کر نے والی اس کی بیوی ساجدہ کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اس کے بعد اس کی بیٹی نجمہ کی عزت بھی محفوظ نہیں رہتی ۔اس ناول کو فنی اعتبار سے پرکھنے کی بجائے ناول نگار کے اس ذہنی رویے کو دیکھنے کی ضرورت ہے جس کی بنا پر یہ ناول وجود میں آیا فنکار نے اس ناول کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ فکر و عمل سے اس دنیا کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اس کا جذبہ یقینا قابل قدر ہے ۔ چنانچہ موضوعی اعتبار سے یہ ناول اپنے اندر بڑی کشش رکھتا ہے ۔

پچھلے کچھ دنوں سے جدید ذہن کے کئی ناول نگاروں نے اپنی اپنی دلچسپی کے تحت منتخب موضوعات پر ناول نویسی کر کے اردو ناول کے دائرہ کو وسیع سے وسیع تر کرنے کی سعی کی ہے جن میں عبد الصمد، حسین الحق ، مشرف عالم ذوقی، پیغام آفاقی، علی امام نقوی ، کشمیری لال ذاکر، ثموئل احمد ، شبرّ امام ، تنویر جہاں، علی امام نقوی، اور محمد علیم وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔علی امام نقوی بہت اچھی نثر لکھتے ہیں۔ حالانہ کہ ان کے کچھ ناولوں کو پڑھ کر یہ تاثر فوری طور پر نہیں ابھر تا ۔ کیونکہ ان کی اکثر ناولوں میں مقامی بولی کا عنصر نمایاں ہو تا ہے ۔ ناول کے نثر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے مکالموں میں مقامی رنگ بے روک ٹوک آسکے۔ وہ بمبئی کے باہر کے عام متوسط طبقے اور نچلے طبقے کی زندگی اور معاشرت کی بھی بڑی عمدہ عکاسی کر تے ہیں رسم ورواج اور مختلف طبقوں کی اصطلا حات کا حال پڑھ کر اندازہ ہو تا ہے کہ انہیں زندگی اور زندگی کے مظاہر سے کتنی دل چسپی ہے ۔عبدالصمد کا ناول مہاتما منظر عام پر آیا تو اس اعتبار سے ناول اور ناول نگار نے ضرور چو نکا دیا ان کی تحریروں میں صرف مواد بلکہ پیش کش کی سطح پر بھی شگفتگی کا احساس ہوتا ہے ۔ ناول میں نہ عشق کی پھیلی ہو ئی داستان ہے اور نہ ہی تاریخی ناولوں جیسی چمکتی ہوئی تلوار یں ہر صفحے سے نمودار ہوتی ہیں بلکہ یہاں آج کی زندگی کے ایسے احول کو بیان کر نے کی کوشش کی گئی ہے جس میں چاہے متوسط طبقہ ہو ، اعلی طبقہ ہو یا کسی اور طبقے کے انسانی نسل کی بیداری کی داستان ہو ۔ اس عہدکو اس نظام سے گزرنا ہی ہو گا جواس ناول میں بہت فطری انداز میں پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یعنی آج کے موجودہ تعلیمی نظام کی گرتی ہوئی صورت حال کے لئے انہوں نے جن کرداروں کو سوالوں کے حصار میں قید کیا ہے ان میں سیاست داں ۔ والدین۔ طلباء۔ اساتذہ۔ قابل ذکر ہیں ۔ اس میں ایک کردار ہے جوفرسٹ کلاس میں ایم اے کر نے کے بعد پر وفیسر پرساد سے اپنے مستقبل کے بارے میں باتیں کر تا ہے دوراستے اس کے پیش نظر ہیں ۔ ایک سول سروس میں جانا اور دوسرا کالج کا ٹیچر ہو نا ۔شاید راکیش کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ بات ہی تھی کہ سول سروس میں وہ زیادہ کامیاب ہو سکتا ہے ۔ اس لئے پروفیسر کے سامنے وہ اپنی بات یوں رکھتا ہے کہ پروفیسر پرساد کا تعلق جس نسل سے ہے اور راکیش جس نئی پود سے تعلق رکھتا ہے دونوں کی فکری جدوجہد میں بہت تبدیلیاں ہو چکی ہیں ۔ ناول نگار جس سسٹم کی بات راکیش کے حوالے سے کرنا چاہتا ہے ناول کا مرکزی خیال بھی وہی ہے ۔ ایسے میں جب یہ حادثہ رونما ہو جاتا ہے کہ لیکچر رکے عہدے کے لئے شعبہ سیاسیات میں سب سے اچھی درخواست ہو نے کے باوجود راکیش کو اس عہدے کے لیے نہیں چنا جاتا ہے ۔ عبدالصمد نے اسی موقع پر ایک اسی نسل کے آئیڈیل کر دار پروفیسر پرساد کو موت سے ہم کنار کیا ۔پروفیسر بھی اس کے لیے صحیح معنوں میں ایک موہوم سی امید تھے ۔ جب راکیش کی فیلوشپ بھی ختم ہوئی تو آمدنی کا یہ ذریعہ بھی ختم ہو ا ۔ اب کردار میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ناول نگار نے بہت فطری انداز میں اس کے جدو جہد کوٹھیک اسی انداز میں بیان کیا ہے جس سے موجودہ عہد کے ایسے اشخاص روز گزرتے ہیں ۔ کردار کو پینٹ کر تے وقت عبدالصمد نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ وہ بتدریج فطری طور پر بدلے یہاں کچھ بھی تھوپنے یا خواہ مخواہ کی آئیڈیا لوجی کی بات نہیں کی گئی ہے ۔ ناول میں وہ مقام بھی آتا ہے جب راکیش کو یہ احساس ہو نے لگا کہ وہ اسی سمندر کی مچھلی ہے ۔ جہاں سے اسے نکال کر پھینکا گیا تھا ۔ ایک طرف پروفیسر پرساد کا آئیڈیل کردار مرچکاتھا تو دوسری طرف ڈاکٹر سنہا جیسے لوگ بھی تھے۔ اگر کوئی ایسا کردار ابھر کرسامنے نہ آئے تو شاید سوچ اور بھی بے ترتیب ہو کر کوئی تخریبی رخ اختیار کر لے ۔ راکیش کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ وہ اپنی صلاحیتوں کے باوجود اپنی ڈگری کے بل بوتے پرصحیح مقام حاصل نہیں کرسکا۔ڈاکٹر سنہا نے راکیش کی صلاحیتوں اور اس کی ناکامیوں کو مقصد دیا ۔ جینے کا مقصد۔لیکن یہاں سے کردار زوال کی منزل کی طرف بڑھنے لگتا ہے جہاں سے اس کا کسی طرح لوٹنا مشکل تھا ۔ عبدالصمد نے ناول کے اس موڑ پر آکر لاشعوری طور پر ایک ایسا اعلان بھی کر دیا ہے جس کا اندازہ قاری کو اس وقت ہو تا ہے جب وہ اپنے شعورکی رو میں بہتے ہوئے اچانک راکیش کے آئیڈیل کر دار کو پیچھے چھوڑ کر ایک نئے راکیش کے ساتھ بہت آگے نکل چکا ہو تا ہے ۔ ناول کئی اعتبار سے دعوت فکر دیتا ہے اور بہت بے باک رویئے کے ساتھ قاری کے سامنے آتاہے ۔

کشمیری لا ل ذاکر کے 70-80ناول اور افسانوں کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ فکشن کا کوئی بھی نقاد اور مورخ ذاکر صاحب کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں مشہور ہیں ۔ کشمیری لال ذاکر کا ناول ’’ اگنی پریکشا‘‘ ہماری ان بکھرتی ہوئی تہذیبی اقدار کی نشان وہی کر تا ہے جہاں مشتر کہ خاندان اب سمٹ کر نیوکلیر کنبوں میں تبدیل ہو تے جار ہے ہیں۔اور اب ان کنبوں میں خاندان کے بوڑھے افراد کے لیے جنھیں آج کی اصلاح میں ہم سینئر سٹیزن کہتے ہیں ، کوئی گنجائش نہیں سوائے اس کے کہ وہ مغربی ممالک کی طرح اولڈ ہوم آباد کریں۔ ہمارے ہندوستان کی سات آٹھ سو سال کی مشتر کہ تہذیب کے نمائندہ ہیں ان کا شماراردو کے ممتاز فکشن رائٹرز میں ہوتا ہے ۔ ان کا نیا ناول ’’ اگنی پریکشا‘‘ عمر رسیدہ لوگوں کے مسائل پر ہے اس ناول کو پڑھ کر اندازہ ہو تا ہے کہ انھوں نے عمر رسیدہ لوگوں کے مسائل کو بہت اچھی طرح سمجھا اور بڑی خوبی سے اپنے ناول میں پیش کیا ہے ۔ ہزاروں سال سے ہندوستان میں مشتر کہ خاندان کی روایات ہیں ۔ اس طرح کے خاندان میں خوبیاں بہت زیادہ ہیں اور خرابیاں بہت کم ۔ ایسے خاندانوں میں بزرگوں کو تنہائی کے کرب سے گزر نا نہیں پڑتا ہے پھر ان کے صلاح و مشورے خاندان کے نوجوانوں اور بچوں کے لیے بہت بڑی نعمت ثابت ہوتے ہیں ۔ کچھ عرصے سے ہندوستان میں نیوکلیر فیملی پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے ۔جب لڑکوں کی شادی ہو جاتی ہے تو وہ اپنی بیوی کو لے کر الگ گھر میں چلے جاتے ہیں ۔ اس طرح کے خاندان میں خوبیاں کم ہیں اور خرابیاں بہت زیادہ ۔ جب اولاد ماں باپ کو تنہا چھوڑ کر الگ گھر وں میں چلے جاتے ہیں تو ماں باپ کے ذہنی کر ب کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے بھٹکنے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں ۔کشمیری لال ذاکر صاحب نے ان تمام مسائل کی طرف بڑی خوبی سے توجہ دلائی ہے ۔ میں مشترکہ خاندان کے سلسلے میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں مشتر کہ خاندان کے ساتھ ساتھ سماج، روایات اور کلچر کی بہت زیادہ اہمیت رہی ہے ۔ آج وہ قدریں شکست رویخت کی زد میں ہیں۔ اس وقت مغربی دنیا کا سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ وہاں انسانی رشتے ٹوٹ رہے ہیں ۔ نوجوان اپنے والدین کا بالکل خیال نہیں کرتے جب ماں باپ ریٹائر ہو جاتے ہیں انھیں اولڈایج ہوم میں بھیج دیتے ہیں اور سال میں ایک دو دفعہ ان سے ملاقات کے لیے آتے ہیں ۔ شبر امام نے کئی برس قبل اپنے سماجی اصلاح کے نقطۂ نگاہ سے تاریخی اور اصلاحی ناولوں کا سلسلہ شروع کیا ۔ حب الوطنی کسانوں اور مزدوروں کا استحصال ، غریبی امیری کی آویزش ، راست بازی ، اولوالعزمی، بلند اخلاقی اورانسانیت نوازی موصوف کے ناولوں کے موضوعات ہیں ، ان کے ناولوں میں مشتر کہ کلچر، ہند و مسلم اتحاد اور قومی یک جہتی کی کامیاب ، جھلکیاں ملتی ہے ۔ مشہور ناول نگاربیمنگ دے کا قول ہے کہ اصل تخلیق کا ر زندہ اور دیکھے بھالے افراد کو ہی اپنے ناول کے کردار کے طورپر چنتا ہے بیمنگ دے کو خیالی کردار کے وجود سے انحراف ہے ۔ شبر امام کے ناولوں کے کردار بھی اکثر ایسے ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو ہمارے شنا سا ہیں وہ کہیں سے ایک قصہ شروع کر دیتے ہیں اور اپنی حکمت عملی سے فنکارانہ رنگ میں پر و دیتے ہیں۔ موصوف کا تعلق دیہی ماحول سے ہے اور وہ ’’ فائر ایریا‘‘ کے مصنف الیاس احمد گدی کی طرح دہقانوں کی حالت زار کو بیان کر نے کا ہنر جانتے ہیں شبر امام کا ایک ناول ’شاہین‘ 1994ء میں شائع ہو چکا ہے ’’ جب گاؤں جاگے‘‘ ان کا دوسراشاہکار ناول ہے ۔ مجموعی طور پر یہ ناول دیہی زندگی کے پیچ و خم ، شکست و فتح، تخریب و تعمیر، تضاد و تصادم، آویزش و آمیزش ، انقلابات و حادثات، ظلم و جور ، آہ دفغاں، کساد بازاری، دہشت گردی، جاگیرداری، رسم و رواج سے منور ومعمور ہے ۔ ساتھ ہی ناول میں مصنف نے دیہاتوں کی نئی بیداری ، اصلاح اور حقیقی ترقی کے لیے توازن کے ساتھ جستجو کر نے کی بات کہی ہے ۔ تاکہ یہ ملک ہر عہد میں ہر محاذ پر ترقی و تعمیر ، امن وامان کی تاویل و تشریح کے لیے عالم گیر پیمانے پر خو د کو پیش کر سکے اور باعث فخر بن سکے ۔مصنف نے جس عظیم مقصد کے تحت یہ ناول لکھا ہے ، اس مقصد میں وہ پوری طرح کا میاب ہیں۔ اس ناول کے ذریعہ انہوں نے تقسیم و طن اور اس کے نتیجے کے طور پرپیدا ہو نے والی المناک صورت حال کو قلم بند کر کے اردو فکشن کے خزانے میں قابل تحسین اضافہ کیا ہے ۔ بحیثیت مجموعی یہ ایک دلچسپ سیکولر اقدار پر مبنی معاشرتی ناول ہے ۔شموئل احمدبھی کئی ناول کے مصنف ہیں ۔ ناول نگاری کی دنیا میں موصوف لوہا منوا چکے ہیں ان کا ناول ’’ مہاماری‘‘ کے مطالعہ سے اندازہ ہو تا ہے کہ ریاست بہار میں ہو رہی سیاسی بد عنوانی سیاسی معاشی مفاد پرستی اور ذفتری امور کے چولی دامن کا رشتہ ، چور بازاروں میں نو کر شاہوں اور سیاسی آقاؤں کی برابر کی شرکت اور گورکھ دھندوں کے احتجاج میں شموئل کا تخلیقی ذہن رقص کناں ہے کہانی کی ترتیب و تنظیم صوبہ بہار کے سیاسی منظر نامے کے پس منظر میں کی گئی ہے ۔ اس لیے بیان کر دہ تمام و اقعات و معاملات کا اطلاق بہ ظاہر تو صوبہ بہار کی سیاسی سرگرمیوں پر ہو تا نظر آتا ہے ۔ لیکن جس قسم کی سیاسی داؤ پیچ کی رنگ آمیزی اس ناول کے کینوس پر کی گئی ہے اس سے پورے ملک کا سیاسی نقشہ ابھر کر سامنے آجاتا ہے ۔ یہ تخلیقی طریقہ کا رشموئل احمد کے عمومیت پسندانہ ذہتی رجحان کی جانب اشارہ کر تا ہے ۔ ناول کے ابتد ائی مکالموں سے ناول نگارکے فکری موقف کی وضاحت تو ہو تی ہی ہے ساتھ ہی ساتھ سیاست کے مفاد پر ستانہ رویئے اور انحطاط پذیر سماجی قدروں پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔زندگی اور سماج کے ہر ان زخموں پر نشتر زنی کر تی ہے جو نا سور بن چکے ہیں ۔ منوواد، برہمن واد اور جاتی پرتھا کے حوالے سے بھی جو گفتگو ناول نگارنے کی ہے اس میں بھی فکر و نظرکا یہی رویہ کا رفرما نظر آتا ہے ۔ یعنی بعض سیاسی اور سماجی تحفظات کے پیش نظر ان کی گمراہ کن تعبیر و تفسیر پیش کر نے کی مذموم کو ششیں ، ان نام نہاد دانشوروں کی دانشوری پر ایک سوالہ نشان لگاتی نظر آرہی ہیں ۔ ’’ ندی ‘‘ شموئل احمد کا ناولٹ ہے یہ عورت اور مرد کے درمیان جذباتی، نفسیاتی اور بلاآخر روحانی آویزش کی کہانی ہے یہ کہانی ایک ایسے ماحول کی عکاسی کر تی ہے جس میں ارمان اور بے حسی کے تصادم سے پیدا ہو نے والی پریشان و پشیمان صورت حال افسانوی شکل اختیار کر تی ہے ۔کہانی میں ایک لڑکی اور ایک مرد ہے۔ مرد لڑکی کو حاصل کر نا چاہتا ہے وہ ایک بے محابا جست لگا کر لڑکی کو سڑک پر بھاگتی کا ر کے نیچے آجا نے سے بچاتا ہے ۔ لڑکی اس والہانہ جست کو مر دانگی اور اعلی ظرفی کا ثبوت مان کر اس سے شادی کرلیتی ہے ۔وہ مردایک خاص ضابطہ حیات کا غلام نکلتا ہے اس کیلیے اس ضابطے کا حرف بہ حرف پا بندر ہنا ہی زندگی کا نصب العین ہے ۔ اس کے جذبات بھی ایک خاص وقت کے پابند ہیں ۔ اس وقت کے گزر تے ہی وہ بے حس ہو کر رہ جاتا ہے ، اور وقت پر جاگنا، وقت پر سونا، وقت پر کھانا، حتی کہ وقت پر بوٹ پالش کر نا ہی اس کی زندگی کا مدعابن جاتا ہے۔ وقت کے خاص حصے میں ہی وہ اپنے اصول کے مطابق لڑکی کی طرف راغب ہوتا ہے اور اسے بھی دیگر اشیا کی طرح بڑے میکانکی انداز میں برتتا ہے لڑکی کے جذبات اس کے ارمان، اس کی جنسی خواہشات کی بیداری اور اس کی قدرتی مناظر اور جنسی حس کے درمیان ہم رشتگی سے لطف اندوز ہو نے کی تمناہے لیکن مرد کو اس کی رتی بھر پروا نہیں۔ وہ ایک خاص ترتیب کا نوکر ہے اور اگر لڑکی اس ترتیب میں فٹ بیٹھتی ہے تبھی اس کے ساتھ اس کا سروکار ہے ورنہ نہیں۔ مرد کے جذبات کا پتھر یلا پن اور بے حسی لڑکی کے وفور جذبات سے ٹکراتا چلا جاتا ہے اور بالأخر ان کی رفاقت ختم ہو جاتی ہے جسمانی اور جنسی تلذذ کی کمیابی خود کشی کر نے پر مجبو ر ہو جانے کا المیہ شموئل احمد کا کمال ہے موضوع کے چناؤ میں نہیں بلکہ موضوع کے ساتھ زبان ، بیان ، اسلوب، تکنیک، احساس، نفسیات اور مردانگی اور نسائیت کی سطح پر انصاف کر نے میں ہے ۔ اس ناولٹ کا سب سے بڑا وصف کہانی کا ایک زندہ اور ٹھوس پیکر میں ڈھلتے چلے جانا ہے قصے میں کوئی جھول نہیں ہے اور وہ بالأخر عورت کے روحانی کر ب کا استفادہ بن کر قاری کو پریشان کرنے میں کامیاب ہو کر قلم کا ر کے لیے داد وصول کر کے چھوڑتا ہے ۔ یہ ناولٹ قاری کے احساس کے تاروں کو مرتعش کر نے میں کامیاب ہے اور اس کے تجسس کو تازیانہ لگا تا چلا جاتا ہے ۔

افسانوی ادب میں مشرف عالم ذوقی اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں۔ وہ اپنی تخلیقات کو عام زندگی کی حقیقتوں ، نفسیاتی کیفیتوں اور پرانی قدروں سے نئی قدروں کے تصام کے موقعوں سے سجاتے ہیں ۔ ان کے نئے ناول ذبح میں بھی ان کی تحریروں کی یہ خوبیاں اور خصوصیات موجود ہیں۔ذوقی نے اس چھوٹے سے ناول کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے ، یہ ہیں دوپہر، شام، کچھ اپنی کچھ فلک کی (تاریخ)، صبح اور گردش ماہ وسال’’دوپہر‘‘ میں مسلمانوں کی حالت زار کا خاکہ پیش کیا ہے ۔ جن کرداروں کا تعارف کرایا گیا ہے ۔وہ حقیقی زندگی میں بالخصوص قصبات اور ہند و مسلم بستیوں کی زندگی میں چلتے پھر تے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ان کرداروں میں جو گفتگو ہوتی ہے اس سے عام مسلمانوں کی فکری اور معاشرتی پسماندگی پرروشنی پڑتی ہے ۔’’شام‘‘ میں مسلم سماج کی کشمکش اپنی پوری ہیبت کے ساتھ سامنے آتی ہے ۔’’کچھ اپنی کچھ فلک کی ‘‘ میں قائم زمین داروں سے پہلے اور بعد کے حالات کا بیان کیا گیا ہے۔ ’’صبح‘‘ میں مسلم سماج کی حسر توں کی عکاسی کی گئی ہے اور ’’گردش ماہ وسال‘‘ میں عزم اور ارادے کے استحکام کی جھلک صاف نظر آتی ہے ، مگر یہ عزم منفی ہے ، اگر کچھ مثبت ہے تو صرف وہ کشمکش ہے جو معاشرے میں پائی جاتی ہے ۔ یہی وہ کشمکش ہے جو غلامی، استحصال اور افلاس کی کو کھ سے جنمی ہے اور ’’ ہم تیار نہیں ہیں اس طرح بار بار ذبح ہو نے کے لیے۔‘‘ کا اعلان کرواتی ہے ۔جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ موصوف متعدد ناول تخلیق کر چکے ہیں’’پوکے مان کی دنیا‘‘مشرف عالم ذوقی کا تازہ ترین ناول ہے ۔اس ناول پر تسنیم فاطمہ ماہنامہ آج کل شمارہ 4نومبر 2005ء کے صفحہ 44پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں پچھلے چند برسوں میں جتنے بھی ناول میرے مطالعہ میں آئے ہیں مشرف عالم ذوقی کا ناول’’ پو کے مان کی دنیا‘‘ ان سب میں انو کھا لگتا ہے ۔ جیسی تیز ی ذوقی کے مزاج اور فن میں ہے ، ویسی ہی ان کی زبان اور بیان میں بھی ہے ۔ عام بول چال کی زبان کو انہوں نے بڑے سلیقہ اور ہنر سے استعمال کیا ہے ۔ موضوع کے اعتبار سے یہ مکمل ناول ہے ۔ مصنف نے آج کی تہذیب پر گہر ا طنز کیا ہے ۔ آج کے بچے تہذیب سے بے نیاز ہیں ذوقی نے اپنے مزاج کے مطابق ناول میں حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ اس ناول میں درد بھی ہے اور درد کا احساس بھی ۔ انسانی وجود اس دن سے عمل میں آیا ہے جب کہ اس کو بولنا بھی نہیں آتا تھا ، اس وقت بھی دو چیزیں اس کے ساتھ تھیں۔ایک بھوک اور دوسرا ایک دوسرے کو جاننے کا تجس۔۔۔ اور اپنے جذبات کی ترسیل کی خواہش ۔ خواہ زمانے نے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لی ہو ، کتنے ہی انسانی مدارج کیوں نہ بن گئے ہوں، مگر ترسیل جذبات کی خواہش نہیں بدلی ۔ اس لیے احساس انسان کے ماحول میں گھٹن محسوس کر تا ہے ۔مصنف نے یہی بات ناول کے ہیرو کے حوالے سے کہی ہے ۔ ناول کا مر کزی کردار سنیل کمار رائے جوکہ ایک جج ہے ۔ وہ اپنے پیشے کا لبادہ اوڑھ کر جینا نہیں چاہتا ۔ گھرکے ہر فرد نے یہ بھلادیا ہے کہ وہ بھی ہمار ی طرح ہی ایک انسان ہے ۔ وہ بھی ایک عام انسان کی طرح سوچتا ہے ۔ اس ناول میں مصنف نے ایک تہذیب کا زوال اور دوسری تہذیب کا عروج بہت خوبصورت انداز میں پرویا ہے ۔ اسنیہہ اس ناول کی ایک اہم کردار ہے ۔ اسنیہہ ماضی کا دامن چھوڑتی گئی اور نئی روایتوں کو اپناتی گئی ، مگر سنیل کمار رائے نے کبھی بھی اپنے ماضی سے نظر یں نہیں چرائیں۔ مشرف عالم ذوقی نے زندگی کے ہر پہلو کو دیکھتے ہیں اور محسوس کر تے ہیں کہ غم سارے رشوں میں گردش کر تا ہے ۔دنیا کی ر ساری خوشی اور سارے غم سب اسی رشتہ کی وجہ سے ہیں ،مگر جب یہ رشتہ اپنے معنی بدلتا ہے ان لمحات کو مصنف نے گہری سوجھ بوجھ کے ساتھ پیش کیا ہے ۔

مصنف کی یہ تخلیق ہمارے آج کے معاشرے کے لیے بھی ایک چیلنج کا درجہ رکھتی ہے ۔اس میں زندگی کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے ۔ کبھی کبھی بچوں کے بے بنیاد سوالوں کے جواب اور بے مقصد باتوں میں بھی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے ۔ناول میں غضب کا سسپنس ہے ۔سنیل کمار اخلاقیات کے گڑ ھے میں پھنسے ہوئے ہیں جب کہ نکھل نے وقت کے درمیان کوئی حد فاصل نہیں کھینچی ہے ۔ اس لیے وہ ہر لمحے کو جیتا ہے اور نئے زمانے کی تہذیب کو پوری طرح اپنا چکا ہے ، مگر سنیل کمار رائے کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی روایتوں کا ، تہذیبوں کا خون ہو تے ہوئے دیکھے۔ آج کی مشکل ترین زندگی اور بے باک تہذیب کا منظر اس ناول میں بے لاگ پیش کیا گیا ہے ۔ کہانی پہلے صفحہ سے ہی آپ کواپنی گر فت میں لے لیتی ہے ۔ 12سال کا ایک بچہ جس نے اپنی ہم عمر لڑکی کا بلا تکار کیا ہے ۔ فرد سے سماج، معاشرہ ، سماجیات اور پھر ننگی سیاست کی گھتیاں ایک کے بعد ایک کھلتی چلی جاتی ہیں۔ دراصل یہ ہماری بدلی ہوئی ایشائی تہذیب کا دردناک منظر ہے ، جہاں مغربی طرز پر چلتے ہوئے ہم اپنی تہذیبی وراثت کو فراموش کر چکے ہیں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس تمام جنگ کے پس منظر میں ایک چھوٹا سا بچہ ہے دراصل کہانی کا اختتام ناول کا سب سے خوبصورت حصہ ہے ۔ ناول کا اس سے خوبصورت اور چونکا نے والا اختتام ممکن ہی نہیں تھا اور دلچسپ بات یہ کہ سارا Trial، سارا مقدمہ ایک خواب میں چلتا ہے اور یہ ’ٹرائل‘ اس وقت کے انتظامیہ کی بے بسی کا مذاق اڑانے کے لیے کافی ہے ۔ایک طرف بھیانک Reality ہے ، تو دوسری طرف Fantasy۔ بچہ ایک ،بھیانک Realityسے گزر چکا ہے ۔ دوسری طرف وہ پو کے مان سے کھیلتا ہے ۔ یہ الجھاؤ ذہن کو کئی سوال دیتا ہے ۔ ان سوال و جواب کی کشمکش کا انجام بھیانک ہے ۔ بکھرتے ہوئے رشتے ، ٹوٹتے ہوئے انسان اپنی ہی لاشوں کو کندھو ں پر ڈھوتے نظر آتے ہیں ۔ ناول کی مجموعی فضاء، مطالعہ کے دوران ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتی ہے ، جو ہمار ے رہنے جینے کے باوجود ہماری دیکھی ہوئی نہیں تھی ۔

اس طرح اردو کے مشہور و معروف دانشور وادیب آل احمد سرور آج کل شمار ہ 7فرور ی 1990ء کے صفحہ 45پر پیغام آفاقی کے ناول ’’مکان‘‘ پر تبصرہ کر تے ہوئے ان الفاظ میں رقم طراز ہیں ۔
’’ ناول مکان مجھے کئی وجوہ سے پسند آیا ۔ یہ عام ناولوں سے مختلف ہے ۔مصنف نے جو موضوع لیا ہے وہ آج کل کے آشوب کا مظہر ہے ، مگر اس کو برتنے میں مصنف نے بلندی اور گہرائی دونوں کو چھولیا ہے۔ اس ناول میں جو نفسیاتی اور فلسفیانہ گہرائی ہے ، وہ اس ناول کو عام ناولوں سے ممتاز کرتی ہے کہانی تو سیدھی سادی ہے ، مگر اس کے ارتقا میں نیرا ، کمار ، اشوک، الوک، انکل، سونیا کے یہاں جو اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔، وہی اس ناول کی جان ہیں۔کہیں کہیں کر داروں کی سوچوں میں تکرار محسوس ہو تی ہے ۔ شاید یہ عمل ناگزیر ہو۔ موجودہ زندگی کی پیجیدگی ، تضادات، اخلاقی قدروں کا زوال، بڑھتی ہوئی کرپشن اور اس کے اثر سے نمام اعلی قدروں کا زوال۔ یہ باتیں بہت کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ بڑی چیز، ان سب کے باوجود ، مصنف کا زندگی کے ثبات اور انسان کی روح پر اعتماد ہے ۔ جو پورے ناول کو ایک مجاہدہ (Crusade) بنا دیتا ہے ۔ جس میں مکان کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد انسانیت کی بقا کی ایک سعی بن جاتی ہے ۔کچھ کرداروں یعنی الوک کابک جا نا اور اشوک کے یہاں آخری تبدیلی۔ ان کے لیے قاری کو پہلے سے تیارنہیں کیا گیا ۔ کم سے کم میرا تا ثر یہی ہے ۔ یہ تبدیلی اچانک ہو ئی ہے ۔۔ناول نگار کی حیثیت سے تنویر جہاں کا نام محتاج تعارف نہیں ۔انھوں نے انسانی زندگی کی فلاح وبہبودی اور معاشرتی اصلاح پر مبنی کئی ناول لکھے ہیں ۔ساتھ ہی انھوں نے چند مغربی ناول نگار کے ناول انگریزی سے اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے ۔ ’’عوام کا نمائندہ‘‘مصنف چہنوا اچبییے تنویر جہاں کا اسی ضمن کا ناول ہے اس ناول میں ہمیں اپنی کہانی نظر آتی ہے ۔اقتدا ر حاصل کر نے کے لیے سیاسی جو ڑ توڑ اور اقتدار حاصل کر نے کے بعد ذاتی مفادات کا حصول۔ ان مقاصد کے راستے میں آنے والی رکاوٹ کو دور کر نے گھٹیا سے گھٹیا حربے کا استعمال کر کے اپنے آپ کوبہت زیادہ ملوث کر لیا ہے اور اب پیش آنے والے واقعات کو ناول کے مر کزی کردار نے اپنے ملک کی تاریخ بنا دیا ہے یہی اس ناول کی خوبی ہے ۔ عام طور پر سیاسی ناول ایک قسم کی دستاویزی فلم بن جاتی ہے اس کے لیے کہا جاتا ہے کہ سیاسی ناول لکھنا بہت مشکل کام ہے لیکن اچے بے اس تنے ہوئے رسے پر سے نہایت آسانی کے ساتھ گزر گیا ہے۔عوامی لیڈر نانگا کے ساتھ اس کا تعلق نانگا کی ہو نے والی دوسری بیوی کے ساتھ اس کا ربط و ضبط اپنے والد کے ساتھ اس کا رویہ اپنی دوست نرس کے ساتھ رات گزارنے کی کوشش اور نانگا کی طرف سے نرس کو اپنا نے کی سازش اور پھر نوجوان سیاسی لیڈر میکس کی سیاسی شکست،یہ سب واقعات نہایت خوبی کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ۔اس ناول میں اچے بے اپنے ملک یا کسی افریقی یا ایشیائی ملک کے سیاستدان کے چہرے پر سے ہی نقاب نہیں اٹھا تا بلکہ ان ملکو ں کے عام آدمی کی ذہنیت کا بھانڈہ بھی پھوڑتا ہے اگر سیاستدان بے ایمانی ، بد دیانتی اور فریب دہی کر تے ہیں تو عام آدمی بھی اپنی سادہ لوحی یا خود غرضی کی بنا پر انہیں امداد وتعاون فراہم کر تا ہے ۔ اس سلسلے میں ناول کا مرکزی کر دار اوڈیلی کی زبان سے اچے بے کہتا ہے ۔’’ اگر ہم کہتے ہیں کہ نانگا جیسے انسان جو غربت اور بے قدری سے اٹھ کر اعلی مقام تک پہو نچتا ہے ، تھوری ترکیب اور کوشش کے بعد اس بات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ سب کچھ تج دے تو اسے انسانی سرشت سے لاعلمی ہی کہی جائے گی جو آدمی بارش میں بھیگتا اندر آیا ہے اور اس نے اپنے آپ کوخشک کیا ہے اس شخص کے مقابلے میں جو اندر بیٹھا ہے دو بارہ بارش میں جانے پر راضی نہیں ہوگا ۔ اور ہم میں سے کوئی بھی ایک زمانہ سے اندر نہیں بیٹھا کہ وہ کہہ سکے ’’ جہنم میں جائے سب کچھ۔‘‘اس فلسفہ سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن جس مقصد کی طرف اس میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ اسے (چندشخصیات کو ) جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا ۔ ناول میں فتح آخر کا ر بدمعاشی اور بددیانتی کی ہو تی ہے اور غیبت پسند اور آورش وادی میکس سیاست کی قربان گاہ پر اپنی جان نچھاور کر تاہے لیکن جنگ یہاں ختم نہیں ہو تی جاری رہتی ہے اور آخر میں اور ذبلی کہتا ہے ۔’’ ایسے نظام حکومت میں ایک انسان اس وقت اچھی موت مرتا ہے جب اس کی زندگی کسی دوسرے شخص کو اتنا متاثر کر دے کہ وہ لالچ کے بغیر اس کے قاتل کے سینے میں گولیاں پیوست کر دے‘‘ اچے بے 1930ء میں نائیجر یا کے قبیلے ایبو میں پیدا ہو ا ۔ نائیجریا کے عیسائی قبیلے پڑھے لکھے اور خوش حال تھے ۔ اس نے نائیجریا کی یونی ور سٹی میں تعلیم حاصل کی ۔پھر ایک طباعتی ادارے کا ڈائرکٹر بن گیا۔ 1961ء میں سے 1966ء تک ریڈیوکاڈائرکٹر رہا ۔ ناولوں کی شہرت کے بعد امریکہ کی میساچوسٹس یونی ور سٹی میں استاد بن گیا ۔ وہاں سے امریکی ریاست کنکٹی کٹ یونیورسٹی میں چلا گیا جہاں وہ 1976ء تک رہا وہا ں سے واپس نائیجریا آیا اور این سوکا یونی ور سٹی میں ادب کا پروفیسر ہو گیا۔ آجکل وہ نائیجریا اور این سوکا ویونی ور سٹیوں میں پڑھا تا ہے ۔ بیس سال تک اس نے کوئی ناول نہیں لکھا تھا ۔1987ء میں اس کا نیا ناول Anthills of Savanahشائع ہو ا ہے ۔ دنیا بھر کے نقادوں نے اس ناول کو بہت پسند کیا ہے ۔ اب ایک دوباتیں تر جمے کے بارے میں بھی ہو جائیں تنویر جہاں نے اس ناول کا ترجمہ کیا ہے ۔ ان کی یہ پہلی کوشش ہے اس اعتبار سے وہ واقعی کا میاب ہیں ۔ افریقی ادیبوں کا ترجمہ کر تے ہوئے ایک مشکل ضرور پیش آتی ہے۔ یہ لوگ بگڑی یا بگاڑی ہو ئی انگریزی (Pidgin English) لکھتے ہیں خاص طور سے مکالموں میں اس کا بہت استعمال کر تے ہیں اصولی طور پر تو اس کا ترجمہ کیا ہی نہیں جا سکتا لیکن تنویر جہاں نے اس کا ترجمہ کر دیا ہے ۔ بری ہمت ہے ان کی البتہ گیتوں کا وہ تر جمہ نہیں کر سکیں جو افریقی معاشرے کو سمجھنے کے لئے ضروری تھے ۔بہر حال ترجمہ مجموعی طور پر اچھا ہے ۔

محمد علیم کے ناول ’’ میرے نالوں کی گمشدہ آواز‘‘ میں جو گاوں ہمیں ملتا ہے ،وہ جیتا ،جاگتا ، کھاتا، پتیاد کھوں سے لبریز اور خوشیوں سے معمولی آشنا ئی والا گاؤں ہے ۔ اس میں دوستی دشمنی کے ساتھ عیاشی ، چوری، ڈکیتیاں، اسمگلنگ اور ذراذراسی بات پر جا ن سے ماردینے کی و ھمکیاں ہی نہیں ملتیں بلکہ جا ن سے مار بھی دیا جاتا ہے اوریہ منظر نامہ محض ناول میں بسنے والے گاؤں کا ہی نہیں آج ہندوستان کے بیشتر قصبوں اور شہروں کے ساتھ گاؤں کا بھی مسئلہ ہے ۔ ناول کے گاؤں سے گزر تے ہوئے کبھی راہی معصوم رضا کے ’’ آدھا گاؤں‘‘ کی تعزیہ داری اور سوز خوانی کان میں پڑتی ہے کبھی عبدل بسم اﷲ کی ۔ ’’ جھینی ، جھینی ،بینی چدریا‘‘ کا سایہ ذہن پر منڈلانے لگتا ہے ۔ ناول کی خوبی یہ ہے کہ اس میں زندگی کر نے والے افراد کی ایک ایک حرکت ، ایک ایک دھڑکن پر ناول نگار کی نظر اور پکڑ ہے ۔ ناول نگار نے اپنی بھر پور تخلیقی صلاحتیوں اور زور دار مشاہدہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سب کو جیتے جاگتے سچے آدمیوں میں تبدیل کردیا ہے ، ناول نگار جس گلی سے (خواہ وہ ناول میں استعمال کیاگیا گاؤں ہو یانیپال کی سرحد) گزر اہے پڑھنے والے کو ساتھ ساتھ لئے پھر اہے جس سے قاری خود کو اس ماحول کا حصہ محسوس کر نے لگتا ہے ۔ یہی نہیں مختلف کرداروں ،جیسے سکھر یا کا مفلوج ہونا ۔ شبانہ کا اپنی عیا شیوں کے لئے معصوم رخسانہ کا استعمال کر نا جمیل کی خام ذہنی ، آمنہ بیگم کی آنکھوں کی دھندلاہٹ شریفن کی فطرت اکرم الدین کی سادگی اور ڈاکٹر نجم الدین کی گروہ بندیاں یہ سب بھوگی ہو ئی سی لگتی ہیں ۔ ناول کے بعد کا حصہ زیادہ محنت اور دلچسپی سے لکھا گیا ہے اور اسی حصے میں واقعات بھی اتنی جلدی جلدی اور اس کثرت سے نمودار ہو تے ہیں کہ قاری پوری طرح ناول کی گرفت میں چلا جا تا ہے ۔ تحریر کی روانی اور سلاست میں اگر کوئی چیز رکاوٹ بنتی ہے تو وہ علاقائی بولی کا اثر ہے -

مجموعی اعتبار سے اردو نال کا ارتقا ئی سفر تشفی بخش کہا جاسکتاہے کہ اس نے ہمیشہ بدلتے ہوئے زمانے اور حیات انسانی کی تصویر کشی کی سعی کی ہے ۔

Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 120979 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More