اپنی قسمت آپ بہتر بنائیے۔

عبث ہے شکو ہِ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں؟
ایک دفعہ ایک مرید نے اپنے پیر سے پوچھا: سرکار ، یہ قسمت اور تقدیر کیا ہوتی ہے؟ پیر نے جواب دیا کہ قسمت کے معنی ہیں "حصہ"۔ اللہ تعالٰی نے مختلف قسم کی مخلوقات بنائی ہیں اور مختلف قسم کے انسان بنائے ہیں۔ اور ہر ایک کا ایک حصہ مقرر کیا ہے۔ یعنی ہر شخص الگ الگ کتنی عمر پائے گا، کتنا رزق کھائے گا، کتنی عزت یا ذلت پائے گا،کتنی امیری غریبی، کتنی خوشی غم یا پریشانی پائے گا، کتنا دکھ سکھ پائے گا، اور کتنا نفع نقصان اٹھائے گا؟ وہ کسی امیر کے گھر پیدا ہو گا یا غریب کے گھر؟ وہ جسمانی لحاظ سے تندرست ہو گا یا معذور و اپاہج۔ اس کا گھرانہ پڑھا لکھا اور باشعور ہوگا یا ان پڑھ اور جاہل۔ اسے اچھی تربیت اور صحبت ملے گی یا بری۔یہ سب چیزیں اس کیلئے مقرر کر دی گئی ہیں اور یہی اس کا حصہ یا قسمت ہے۔اور یہ چیزیں مقررہ مقدار سے نہ کم ملیں گی نہ زیادہ۔ نہ وقت سے پہلے ملیں گی نہ بعد میں۔ پیر صاحب نےمزید کہا کہ جو چیز جس مقصد کیلئے پیدا کی گئی ہےاس نے وہی کام کرنا ہے، دوسرا نہیں۔ یہی اس کی قسمت ہے۔ پس ہر شخص جو کام کرتا ہے وہ اس کے ذمیہ کام ہوتے ہیں۔ مثلاَ نیکی، بدی، گناہ،ثواب، بھلائی برائی سب قدرت کی طرف سے ہوتی ہے اور انسان صرف ان کا کرنے والا مہرہ ہوتا ہے، صرف کٹھ پتلی ہوتا ہے۔ مرید نے کہا کہ پھر تو ہمیں کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ جو کچھ ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا اور جو نہیں ہونا وہ نہیں ہو گا۔ اور پھر تو ہمارا حساب بھی نہیں ہو گا؟ پیر صاحب نے کہا تو کیا ہم کوشش نہ کریں حالانکہ ہمیں برائی سے بچنے اور نیکی بھلائی کی کوشش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مرید نے کہا کہ اگر پھر بھی مقصد حاصل نہ ہو تو پھر کیا کریں؟کئی لوگ ساری ساری عمر محنت کرتے کرتے تھک جاتے ہیں لیکن انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔پیر صاحب نے کہا کہ اللہ تعالٰی کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کا صلہ ضرور دیتا ہے۔ اگر صلا یہاں نہیں ملا تو آگے ملے گا۔ نبی پاکمحمد صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میں جس کو یہاں نہیں دیتا اس کو وہاں دوں گا اور جس کو یہاں دیا ہے اس کو وہاں نہیں دوں گا۔آخر انسان مر کر کہیں تو جاتا ہے؟ عین حقیقت ہے کہ موت کے بعد انسان کو کسی اور جہاں میں بھیج دیا جائےگا جسے آخرت کہتے ہیں، جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے۔ اور وہاں اپنے اچھے برے اعمال کا بدلا پائےگا۔

پیر صاحب نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قسمت نہیں بدلی جا سکتی۔ البتہ تقدیر کسی حد تک بدلی جا سکتی ہے۔ کیونکہ تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک تقدیر مبرم جو اٹل ہوتی ہے اور بدلی نہیں جا سکتی۔ اور دوسرے قسم تقدیر معلق ہے جو بدلی جا سکتی ہے۔ یعنی اگر انسان اچھے ماحول میں پیدا ہو، جسمانی اور ذہنی طور پر صحیح ہو ، اسے اچھی تعلیم و تربیت اور اچھی صحبت میسر آئے اور وہ اپنے راہبر، استاد،پیر و مرشد کی ہدایات پر عمل کرے اور کوشش اور بھرپور محنت کرے تو کسی حد تک اپنے حالات کو بدل سکتا ہے۔کیونکہ جب مزدور جب محنت کر کے تھک کر چور ہو جاتا ہے اور اسے پسینہ آجاتا ہے اور اسے مزدوری دینا فرض ہو جاتا ہے۔ لیکن حالات اور ماحول آہستہ آہستہ بدلتے ہیں، یکدم نہیں۔ چاہے انسان کی عمر ہی گزر جائے۔ یعنی دوسری تیسری پشت میں جا کر ٹھیک ہوتے ہیں۔ خدا تقدیر بدل بھی سکتا ہے۔

پیر صاحب نے مثال دی کہ اگر کسی کے ہاں معذور بچہ پیدا ہو اور وہ اسے بھیک مانگنے میں لگا دے تو وہ اس بچے کی شخصیت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ دوسری طرف، اگر وہ اسے اچھی تعلیم و تربیت دلائے اور اسے کوئی ہنر سکھلا دے جو وہ آسانی سے کر سکے تو وہ بچہ مفید شہری بن سکتا ہے۔ سو اُس بچے کی اچھی یا بری قسمت کا انحصار کافی حد تک اس بات پر ہے کہ اس کی تربیت کیسے کی جاتی ہے۔مختصراَ انسان اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کر کے اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔

پیر صاحب نے مزید کہا کہ یہی حال قوموں کا ہے۔اگر کسی قوم کو کوئی اچھا لیڈر مل جائے تو وہ ترقی کر کے خوشحال ہو جائے گی او ر اگر کوئی نااہل حکمران مل جائے تو وہ ذلت و پستی کا شکار ہو جائیں گے۔ اور غربت، جہالت، بیماری، غلامی اور ذہنی انتشار کا شکار ہو جائیں گے۔ پیر صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ قوم کے مذہبی راہنماوَں اور سیاست دانوں کا فرض ہے کہ وہ قوم کی غلطیوں کی صحیح نشان دہی کریں۔ ان کی صحیح تربیت کریں اور حالات و واقعات اور زمانے کے مطابق ان کی صحیح راہنمائی کریں۔ لیکن جب تک انسان کے اندر سے جذبہ نہ اٹھے، باہر کی ہدایت کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

پیر صاحب نے مزید سمجھایا کہ جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے اسی دن سے اللہ تعالٰی نے انسانوں کی ہدایت کیلئے اپنے نبی،رسول،امام،ولی،گرو اور اوتار اور علم کتابیں بھیجی ہیں۔نبیوں رسولوں، اماموں، ولیوں، گرووں اور اوتاروں نے انسانوں کو خدا کی پہچان کرائی، خدا سے محبت کرنے کا درس دیا، اور انسانوں کو خدا کی عبادت کرنے کی نصیحت کی۔ لوگوں کو دینِ اسلام سکھایا اور بتلایا کہ اللہ تعالٰی چاہتا ہے کہ انسان اپنی مرضی چھوڑ کر اس کی ہدایت پر عمل کرے اور جنت کا صلا پائے کیونکہ انسان جمادات اور نباتات کی طرح بے بس نہیں ہے۔
تقدیر کے پابند جمادات و نباتات
مومن ہے فقط احکامِ الٰہی کا پابند

مرید نے کہا کہ وہ تقدیر ہی کیا جو بدل جائے:
تقدیر کے چاک کو ممکن نہیں کرنا رفو
سوزن تدبیر، گو ساری عمر سیتی رہے
پیر نے کہا کہ نکمے، تجھے تقدیر کا کیا پتہ کہ تیری قسمت میں کیا لکھا ہوا ہے؟ تقدیر کا بہانہ بنا کر جو عمل کر نا چھوڑ دے وہ کتنا بے وقوف ہے۔دیکھو، موجودہ حاصل صلاحیتوں سے جتنا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا لو گے یہی تمہاری قسمت اور تقدیر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فطرت،قسمت اور تقدیر نہیں بدلتی لیکن علم و تحقیق، کوشش و محنت سے کسی حد تک تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔
علامہ اقبال رح نے خوب فرمایا ہے:
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہو ا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
دیکھو زندگی جہاد یعنی جدوجہد کا نام ہے۔ بیٹھ کر کھانے اور عیش و عشرت کا نام نہیں:
غافل منشیں، نہ وقتِ بازی ست
وقتِ ہنر است و کار سازی ست
اے نکمے، اپنے اندر عشق اور جنوں پیدا کر کہ جنون کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا:
ایسا جنوں بھی دیکھا ہے میں نے جس نے سیے ہیں تقدیر کے چاک

اللہ تعالٰی فرماتا ہے لیس للا نسان الا ما سعٰی، یعنی انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش اور محنت کرتا ہے۔اللہ تعالٰی کی بات پکی ہوتی ہے، اس کا حکم اٹل ہوتا ہے اور صلا اور عروج و زوال دینے میں اس کی عادت نہیں بدلتی۔ وہ ہر ایک کو اتنا دیتا ہے اور وہاں تک پہنچاتا ہے جتنی وہ کوشش کرتا ہے۔ لیکن اگر وہ کسی کو بغیر محنت کے دے دیتا ہے تو یہ اس کی عطا ہے، جس کو چاہے دے اور جس کو چاہے نہ دے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی زبر دست اور غالب ہے ، اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں اور وہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔
ناداں، ادب و فلسفہ کوئی چیز نہیں
اسبابِ ہنر کیلئے لازم ہے تگ و دو
ع یہی ہے تیرے لیے اب اصلاحِ کار کی راہ۔ سمجھے۔
Talib Hussain Bhatti
About the Author: Talib Hussain Bhatti Read More Articles by Talib Hussain Bhatti: 33 Articles with 48338 views Talib Hussain Bhatti is a muslim scholar and writer based at Mailsi (Vehari), Punjab, Pakistan. For more details, please visit the facebook page:
htt
.. View More